مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 29

‏”‏جب مَیں کمزور ہوتا ہوں تب مَیں طاقت‌ور ہوتا ہوں“‏

‏”‏جب مَیں کمزور ہوتا ہوں تب مَیں طاقت‌ور ہوتا ہوں“‏

‏”‏مَیں مسیح کی خاطر بڑی خوشی سے کمزوری،‏ بےعزتی،‏ غربت،‏ اذیت اور مشکلات برداشت کروں گا۔‏“‏‏—‏2-‏کُر 12:‏10‏۔‏

گیت نمبر 38‏:‏ وہ آپ کو طاقت بخشے گا

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ پولُس رسول کیا تسلیم کرنے سے نہیں ہچکچائے؟‏

پولُس رسول یہ کہنے سے بالکل نہیں ہچکچائے کہ کبھی کبھار اُنہیں بڑی شدت سے یہ احساس ہوتا تھا کہ وہ کتنے کمزور ہیں۔‏ اُنہوں نے یہ تسلیم کِیا کہ وہ ”‏باہر سے ختم ہوتے جا رہے ہیں“‏ یعنی اُنہیں صحیح کام کرنے کے لیے خود سے لڑنا پڑتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ یہوواہ نے بھی ہمیشہ پولُس کو اُن کی دُعاؤں کا ویسا جواب نہیں دیا جیسا وہ چاہتے تھے۔‏ (‏2-‏کُر 4:‏16؛‏ 12:‏7-‏9؛‏ روم 7:‏21-‏23‏)‏ پولُس یہ بھی مانتے تھے کہ اُن کے مخالف اُنہیں کچھ بھی نہیں سمجھتے اور بہت کمزور خیال کرتے ہیں۔‏ * لیکن اُنہوں نے دوسروں کی غلط باتوں،‏ یہاں تک کہ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے بھی یہ نہیں سوچا کہ وہ کسی کام کے نہیں ہیں۔‏—‏2-‏کُر 10:‏10-‏12،‏ 17،‏ 18‏۔‏

2.‏ دوسرا کُرنتھیوں 12:‏9،‏ 10 کے مطابق پولُس کون سا اہم سبق سیکھ گئے؟‏

2 اپنی کمزوریوں کا سامنا کرتے وقت پولُس ایک بہت اہم سبق سیکھ گئے۔‏ سبق یہ تھا کہ ایک شخص اُس وقت بھی طاقت‌ور ہو سکتا ہے جب وہ خود کو کمزور محسوس کرتا ہے۔‏ ‏(‏2-‏کُرنتھیوں 12:‏9،‏ 10 کو پڑھیں۔‏)‏ یہوواہ خدا نے پولُس سے کہا کہ ”‏آپ کی کمزوری میں میری طاقت زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہے۔‏“‏ اِس بات کا یہ مطلب تھا کہ یہوواہ نے پولُس کو وہ طاقت دی جو اُن کے پاس نہیں تھی۔‏ اُس نے ایسا کیسے کِیا؟‏ یہ جاننے سے پہلے آئیں،‏ دیکھیں کہ ہمیں اُس وقت پریشان کیوں نہیں ہونا چاہیے جب ہمارے مخالف ہماری بےعزتی کرتے ہیں۔‏

‏’‏خوشی سے بےعزتی برداشت کریں‘‏

3.‏ ہم خوشی سے بےعزتی برداشت کیسے کر سکتے ہیں؟‏

3 ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ ہماری بےعزتی ہو۔‏ لیکن جب ہمارے دُشمن ہماری بےعزتی کرتے ہیں اور ہم اُن کی باتوں کو دل پر لے لیتے ہیں تو ہم بےحوصلہ ہو سکتے ہیں۔‏ (‏امثا 24:‏10‏)‏ تو پھر ہمیں اِس بےعزتی کو کیسا خیال کرنا چاہیے؟‏ پولُس کی طرح ہمیں بھی ’‏خوشی سے اِسے برداشت‘‏ کرنا چاہیے۔‏ (‏2-‏کُر 12:‏10‏)‏ کیوں؟‏ کیونکہ یہ بےعزتی اور مخالفت اِس بات کا نشان ہے کہ ہم یسوع مسیح کے سچے شاگرد ہیں۔‏ (‏1-‏پطر 4:‏14‏)‏ یسوع مسیح نے بتایا تھا کہ اُن کے پیروکاروں کو اذیت دی جائے گی۔‏ (‏یوح 15:‏18-‏20‏)‏ یہ بات پہلی صدی عیسوی میں واقعی سچ ثابت ہوئی۔‏ اُس زمانے میں جو لوگ یونانی ثقافت سے متاثر تھے،‏ وہ مسیحیوں کو بہت کم عقل اور کمزور خیال کرتے تھے۔‏ اور یہودیوں کی نظر میں پطرس رسول اور یوحنا رسول کی طرح باقی مسیحی بھی ”‏کم پڑھے لکھے اور معمولی آدمی“‏ تھے۔‏ (‏اعما 4:‏13‏)‏ اِن مسیحیوں کو اِس لیے کمزور سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ سیاسی معاملوں میں کسی کا ساتھ نہیں دیتے تھے اور اِس لیے حکومت میں اُن کا کوئی اثرورسوخ نہیں تھا۔‏ اِس کے علاوہ وہ فوج میں بھی بھرتی نہیں ہوتے تھے اِس لیے لوگوں کو لگتا تھا کہ وہ اپنا دِفاع نہیں کر سکتے۔‏ یہ لوگ مسیحیوں کو معاشرے کا حصہ نہیں مانتے تھے۔‏

4.‏ یسوع کے اِبتدائی شاگردوں نے اُس وقت کیا کِیا جب اُن کے مخالفوں نے اُن کے بارے میں غلط باتیں کیں؟‏

4 کیا یسوع مسیح کے اِبتدائی شاگرد اپنے مخالفوں کی غلط باتوں کی وجہ سے ہمت ہار بیٹھے؟‏ بالکل نہیں۔‏ یہ بات پطرس اور یوحنا رسول کی مثال سے ظاہر ہوتی ہے۔‏ اُنہیں اِس بات پر بالکل شرمندگی نہیں تھی کہ اُنہیں یسوع کی پیروی کرنے اور اُن کی تعلیمات پھیلانے کی وجہ سے اذیت دی جا رہی ہے بلکہ اُن کے نزدیک تو یہ بڑے فخر کی بات تھی۔‏ (‏اعما 4:‏18-‏21؛‏ 5:‏27-‏29،‏ 40-‏42‏)‏ اِن خاکسار شاگردوں کی مدد سے اِنسانوں کو جتنا فائدہ ہوا،‏ اُتنا اُن کے مخالفوں کے کسی کام سے نہیں ہوا۔‏ مثال کے طور پر اِن میں سے بعض شاگردوں نے خدا کے اِلہام سے جو یونانی صحیفے لکھے،‏ اُن سے نہ صرف اُس زمانے کے لوگوں کو بلکہ آج بھی لاکھوں لوگوں کو مدد اور اُمید مل رہی ہے۔‏ اور جس بادشاہت کی اُنہوں نے جگہ جگہ مُنادی کی،‏ وہ نہ صرف اب آسمان پر قائم ہو چُکی ہے بلکہ بہت جلد زمین پر سب اِنسانوں پر حکومت بھی کرے گی۔‏ (‏متی 24:‏14‏)‏ لیکن قدیم زمانے کی طاقت‌ور رومی حکومت کا کیا ہوا جو مسیحیوں کو اذیت دینے پر تلی تھی؟‏ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور تاریخ کے صفحوں میں گم ہو گئی۔‏ اِس کے علاوہ آج یسوع کے وفادار شاگرد آسمان پر بادشاہ ہیں جبکہ اُن کے مخالف مٹی میں مل گئے۔‏ اگر اِن مخالفوں کو مستقبل میں زندہ بھی کِیا گیا تو یہ اُس بادشاہت کے تحت ہوں گے جس کی اُن مسیحیوں نے مُنادی کی جن سے وہ نفرت کرتے تھے۔‏—‏مکا 5:‏10‏۔‏

5.‏ یوحنا 15:‏19 کے مطابق یہوواہ کے بندوں کو کیوں کم‌تر خیال کِیا جاتا ہے؟‏

5 آج بھی کچھ لوگ یہوواہ کے بندوں کو کم‌تر خیال کرتے ہیں اور یہ سوچ کر اُن کا مذاق اُڑاتے ہیں کہ وہ بےوقوف اور کمزور ہیں۔‏ اِس کی کیا وجہ ہے؟‏ کیونکہ ہم اپنے اِردگِرد کے لوگوں جیسی سوچ نہیں اپناتے اور اُن جیسے کام نہیں کرتے۔‏ ہم خاکسار،‏ نرم‌مزاج اور فرمانبردار رہتے ہیں جبکہ یہ دُنیا ایسے لوگوں کو پسند کرتی ہے جو مغرور،‏ ضدی یا باغی ہوتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم سیاسی معاملوں میں نہیں اُلجھتے اور نہ ہی کسی ملک کی فوج میں بھرتی ہوتے ہیں۔‏ چونکہ ہم اِس دُنیا کے طورطریقوں کے مطابق نہیں چلتے اِس لیے لوگ ہمیں حقیر سمجھتے ہیں۔‏‏—‏یوحنا 15:‏19 کو پڑھیں؛‏ روم 12:‏2‏۔‏

6.‏ آج یہوواہ اپنے بندوں سے کون سے بڑے بڑے کام کروا رہا ہے؟‏

6 دُنیا کے لوگوں کی نظر میں بھلے ہی ہم کمزور ہوں لیکن یہوواہ ہم سے بڑے بڑے کام کروا رہا ہے۔‏ وہ جتنے بڑے پیمانے پر آج اپنے بندوں سے مُنادی کا کام کروا رہا ہے اُتنا پہلے کبھی نہیں ہوا۔‏ آج اُس کے بندے جو رسالے شائع کر رہے ہیں،‏ وہ پوری دُنیا میں سب سے زیادہ تقسیم اور سب سے زیادہ زبانوں میں شائع ہونے والے رسالے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ وہ بائبل کے ذریعے لاکھوں لوگوں کی مدد بھی کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔‏ اِن سب کامیابیوں کا سہرا یہوواہ کے سر جاتا ہے۔‏ وہ اپنے بندوں کے ذریعے شان‌دار کام انجام دے رہا ہے جو بظاہر کمزور نظر آتے ہیں۔‏ لیکن کیا وہ ہمیں اِنفرادی طور پر بھی اِستعمال کرتا ہے؟‏ اور کیا وہ ہم میں سے ہر ایک کو طاقت دے سکتا ہے؟‏ اگر ایسا ہے تو ہمیں اُس کی مدد کو حاصل کرنے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں پولُس رسول کی مثال پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہم اُن سے کون سی تین خاص باتیں سیکھ سکتے ہیں۔‏

اپنی طاقت پر بھروسا نہ کریں

7.‏ ہم پولُس سے کون سی اہم بات سیکھتے ہیں؟‏

7 ہم پولُس رسول کی مثال سے ایک اہم سبق سیکھتے ہیں۔‏ وہ سبق یہ ہے کہ یہوواہ کی خدمت کرتے وقت ہمیں اپنی طاقت اور صلاحیت پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔‏ اِنسانی نظر سے دیکھا جائے تو پولُس کے پاس غرور کرنے اور خود پر بھروسا کرنے کی کئی وجوہات تھیں۔‏ مثال کے طور پر وہ شہر ترسسُ میں پلے بڑھے تھے جو ایک رومی صوبے کا دارالحکومت تھا۔‏ یہ شہر بہت امیر تھا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کافی مشہور تھا۔‏ پولُس رسول بہت پڑھے لکھے تھے اور اُنہوں نے اپنے زمانے کے بہت ہی مُعزز یہودی رہنما سے تعلیم پائی تھی جس کا نام گملی‌ایل تھا۔‏ (‏اعما 5:‏34؛‏ 22:‏3‏)‏ ایک وقت تھا جب پولُس کا یہودی معاشرے میں بہت اثرورسوخ تھا اور لوگ اُنہیں بہت اہم خیال کرتے تھے۔‏ پولُس نے بتایا:‏ ”‏مَیں اپنے بہت سے ہم‌عمروں کے مقابلے میں زیادہ جوش سے یہودی مذہب کی پیروی کرتا تھا۔‏“‏ (‏گل 1:‏13،‏ 14؛‏ اعما 26:‏4‏)‏ اِن سب باتوں کے باوجود پولُس نے اپنی طاقت پر بھروسا نہیں کِیا۔‏

پولُس،‏ یسوع کی پیروی کرنے کے مقابلے میں اُن چیزوں کو”‏کوڑا کرکٹ“‏ سمجھتے تھے جنہیں دُنیا اہم خیال کرتی ہے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 8 کو دیکھیں۔‏)‏ *

8.‏ ‏(‏الف)‏ فِلپّیوں 3:‏8 کے مطابق پولُس نے اُن چیزوں کو کیسا خیال کِیا جنہیں وہ چھوڑ چُکے تھے؟‏ (‏ب)‏ پولُس نے’‏خوشی سے کمزوریوں‘‏ کو برداشت کیوں کِیا؟‏

8 پولُس نے خوشی سے اُن چیزوں کو چھوڑ دیا جن کی وجہ سے دُنیا میں اُن کے پاس بڑی عزت اور مرتبہ تھا۔‏ اُنہوں نے تو اِن چیزوں کو ”‏کوڑا کرکٹ“‏ سمجھا۔‏ ‏(‏فِلپّیوں 3:‏8 کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن پولُس کو مسیح کا پیروکار بننے کی بھاری قیمت چُکانی پڑی۔‏ اُنہیں اپنی ہی قوم یعنی یہودیوں کی نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔‏ (‏اعما 23:‏12-‏14‏)‏ اور اُن کے اپنے ہی ملک کے لوگوں یعنی رومیوں نے اُنہیں مارا پیٹا اور قید میں ڈالا۔‏ (‏اعما 16:‏19-‏24،‏ 37‏)‏ دوسروں کی طرف سے پولُس کو جو تکلیفیں ملیں سو ملیں،‏ اُنہیں یہ احساس بھی کافی تکلیف پہنچاتا تھا کہ عیب‌دار ہونے کی وجہ سے اُنہیں صحیح کام کرنا مشکل لگتا ہے۔‏ (‏روم 7:‏21-‏25‏)‏ لیکن پولُس نے اپنی خامیوں اور اپنے مخالفوں کی وجہ سے خود کو ٹوٹنے نہیں دیا۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے’‏خوشی سے کمزوریوں‘‏ کو برداشت کِیا۔‏ وہ ایسا کیوں کر پائے؟‏ کیونکہ جب بھی وہ کمزور ہوتے تھے،‏ وہ اُس طاقت کو محسوس کرتے تھے جو خدا اُنہیں دیتا تھا۔‏—‏2-‏کُر 4:‏7؛‏ 12:‏10‏۔‏

9.‏ اگر ہمارے پاس وہ چیزیں نہیں ہیں جو دُنیا کی نظر میں بڑی اہم ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

9 اگر ہم یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے اُس سے طاقت پانا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہماری اچھی صحت،‏ اعلیٰ تعلیم یا ہماری حیثیت سے یہ اندازہ لگایا جائے گا کہ ہم کتنے کام کے ہیں۔‏ یہ وہ چیزیں نہیں جن کی بِنا پر یہوواہ ہمیں اِستعمال کرتا ہے۔‏سچ تو یہ ہے کہ اُس کے زیادہ‌تر بندے ’‏اِنسانی لحاظ سے دانش‌مند نہیں،‏ طاقت‌ور نہیں اور نواب نہیں۔‏‘‏ لیکن یہوواہ نے ”‏دُنیا کی بےوقوف چیزوں“‏ کو اپنی خدمت کرنے کے لیے چُنا ہے۔‏ (‏1-‏کُر 1:‏26،‏ 27‏)‏ لہٰذا اگر آپ کی صحت اچھی نہیں،‏ آپ اِتنے پڑھے لکھے نہیں یا اِتنے مال‌دار نہیں تو یہ نہ سوچیں کہ آپ خدا کی خدمت کرنے کے لائق نہیں ہیں۔‏ اِس کی بجائے یہ سوچیں کہ اِن چیزوں کے نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو یہوواہ کی طاقت کو اَور زیادہ محسوس کرنے کا موقع ملے گا۔‏ مثال کے طور پر اگر آپ کو ایسے لوگوں سے بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے جو ہمارے عقیدوں پر اِعتراض کرتے ہیں تو یہوواہ سے دُعا کریں کہ وہ آپ کو دلیری سے اپنے عقیدوں کا دِفاع کرنے کی طاقت دے۔‏ (‏اِفس 6:‏19،‏ 20‏)‏ اور اگر آپ کو صحت کے سنگین مسئلوں کا سامنا ہے تو یہوواہ سے اِلتجا کریں کہ وہ آپ کو اُس کی خدمت میں مصروف رہنے کی طاقت دے۔‏ جب جب آپ یہوواہ کی مدد کو محسوس کریں گے،‏ آپ کا ایمان مضبوط ہوگا اور آپ اَور زیادہ طاقت پائیں گے۔‏

قدیم زمانے کے خدا کے بندوں سے سیکھیں

10.‏ ہمیں عبرانیوں 11:‏32-‏34 میں درج خدا کے بندوں اور اِن کے علاوہ دیگر بندوں کی مثالوں پر غور کیوں کرنا چاہیے؟‏

10 پولُس رسول بڑے شوق اور لگن سے پاک صحیفوں کا مطالعہ کرتے تھے۔‏ ایسا کرنے سے اُنہوں نے بہت سی حقیقتیں جانیں۔‏ لیکن اُنہوں نے اِن صحیفوں میں درج خدا کے وفادار بندوں کی مثالوں سے بھی بہت کچھ سیکھا۔‏ جب پولُس نے عبرانیوں کے نام خط لکھا تو اُنہوں نے مسیحیوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ قدیم زمانے کے خدا کے بندوں کی شان‌دار مثالوں پر سوچ بچار کریں۔‏ ‏(‏عبرانیوں 11:‏32-‏34 کو پڑھیں۔‏)‏ آئیں،‏ اِن میں سے خدا کے ایک بندے کی مثال پر غور کرتے ہیں۔‏ یہ بادشاہ داؤد تھے۔‏ اُنہیں نہ صرف اپنے دُشمنوں بلکہ ایسے لوگوں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا جو کبھی اُن کے دوست ہوا کرتے تھے۔‏ داؤد کی مثال پر غور کرتے وقت دیکھیں کہ پولُس رسول کو اُن کی زندگی پر سوچ بچار کرنے سے طاقت اور ہمت کیسے ملی اور اِس سلسلے میں ہم پولُس سے کیا سیکھتے ہیں۔‏

داؤد،‏ جولیت کا مقابلہ کرنے سے نہیں ڈرے حالانکہ وہ نوجوان تھے اور جولیت کے مقابلے میں کافی کمزور تھے۔‏ داؤد نے یہوواہ پر بھروسا کِیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ اُنہیں جولیت کو شکست دینے کی طاقت دے گا اور واقعی ایسا ہی ہوا۔‏ (‏پیراگراف نمبر 11 کو دیکھیں۔‏)‏

11.‏ جولیت کے مقابلے میں داؤد کمزور کیوں لگ رہے تھے؟‏ (‏سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

11 جب داؤد کا سامنا لمبے چوڑے اور طاقت‌ور جولیت سے ہوا تو اُس کے مقابلے میں وہ بہت کمزور لگ رہے تھے۔‏ جب جولیت نے اُنہیں دیکھا تو اُس نے اُنہیں ”‏ناچیز جانا۔‏“‏ اُسے اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا کیونکہ وہ بہت لمبا تڑنگا تھا،‏ اُس کے پاس جنگی ہتھیار تھے اور اُس نے جنگیں لڑنے کی تربیت بھی حاصل کی ہوئی تھی۔‏ جولیت نے سوچا کہ داؤد تو محض ایک نوجوان لڑکا ہے جس کے پاس جنگ لڑنے کا کوئی تجربہ نہیں اور نہ ہی کوئی ہتھیار ہے۔‏ لیکن یہ اُس کی بھول تھی۔‏ اصل میں داؤد بہت مضبوط تھے۔‏ اُن کے ساتھ یہوواہ کی طاقت تھی جس پر اُنہیں پورا بھروسا تھا۔‏ اور اِسی طاقت کے بل‌بوتے پر اُنہوں نے اپنے دُشمن کو شکست دے دی۔‏—‏1-‏سمو 17:‏41-‏45،‏ 50‏۔‏

12.‏ داؤد کو اپنی زندگی میں اَور کس مشکل کا سامنا ہوا؟‏

12 داؤد کو اپنی زندگی میں ایک اَور مشکل کا بھی سامنا ہوا جس کی وجہ سے وہ خود کو کمزور سمجھ سکتے تھے۔‏ اُنہوں نے بڑی وفاداری سے ساؤل کی خدمت کی جنہیں یہوواہ نے اِسرائیل کا بادشاہ مقرر کِیا تھا۔‏ شروع شروع میں بادشاہ ساؤل،‏ داؤد کی بہت عزت کرتے تھے۔‏ لیکن بعد میں غرور کی وجہ سے وہ داؤد سے حسد کرنے لگے۔‏ وہ داؤد کے ساتھ بڑی بُری طرح سے پیش آئے،‏ یہاں تک کہ اُنہوں نے اُن کی جان لینے کی بھی کوشش کی۔‏—‏1-‏سمو 18:‏6-‏9،‏ 29؛‏ 19:‏9-‏11‏۔‏

13.‏ داؤد نے ساؤل کی بدسلوکیوں پر کیسا ردِعمل دِکھایا؟‏

13 حالانکہ بادشاہ ساؤل نے داؤد کے ساتھ بہت بُرا سلوک کِیا لیکن داؤد پھر بھی خدا کے اِس مقررکردہ بادشاہ کے لیے احترام ظاہر کرتے رہے۔‏ (‏1-‏سمو 24:‏6‏)‏ ساؤل نے داؤد کے ساتھ جو کچھ کِیا،‏ اِس کے لیے داؤد نے یہوواہ کو قصوروار نہیں ٹھہرایا۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے یہوواہ پر بھروسا کِیا کہ وہ اُنہیں مشکلات میں ثابت‌قدم رہنے کی طاقت دے گا۔‏—‏زبور 18:‏1،‏ تمہید‏۔‏

14.‏ داؤد کی طرح پولُس رسول کو بھی کس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا؟‏

14 پولُس رسول کو بھی ویسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جیسی صورتحال کا سامنا داؤد نے کِیا۔‏ پولُس کے دُشمن اُن سے کہیں زیادہ طاقت‌ور تھے۔‏ اُن کے زمانے کے بڑے اور بااِختیار رہنما اُن سے سخت نفرت کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے اکثر پولُس کو پٹوایا اور قید میں ڈلوایا۔‏ داؤد کی طرح پولُس کو بھی ایسے لوگوں کے بُرے سلوک کا سامنا کرنا پڑا جنہیں دوستوں کی طرح اُن کا ساتھ دینا چاہیے تھا۔‏ اُنہیں تو کلیسیا میں بھی کچھ مسیحیوں کی طرف سے مخالفت برداشت کرنی پڑی۔‏ (‏2-‏کُر 12:‏11؛‏ فل 3:‏18‏)‏ لیکن کوئی بھی پولُس کو ہرا نہیں پایا۔‏ وہ کیسے؟‏ پولُس مخالفت کے باوجود مُنادی کرتے رہے۔‏ وہ اُس وقت بھی اپنے بہن بھائیوں کے وفادار رہے جب اُنہوں نے اُنہیں مایوس کِیا۔‏ اور سب سے بڑھ کر وہ مرتے دم تک یہوواہ کے وفادار رہے۔‏(‏2-‏تیم 4:‏8‏)‏ پولُس اِن مشکلات کا مقابلہ اِس لیے نہیں کر پائے کہ وہ بڑے طاقت‌ور تھے یا اُن میں بڑی صلاحیتیں تھیں۔‏ وہ ایسا اِس لیے کر پائے کیونکہ اُن کا بھروسا یہوواہ پر تھا۔‏

اُن لوگوں کو احترام اور نرمی سے جواب دینے کی کوشش کریں جو آپ کے عقیدوں پر اِعتراض اُٹھاتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 15 کو دیکھیں۔‏)‏ *

15.‏ ہمارا مقصد کیا ہونا چاہیے اور ہم اِس میں کامیاب کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

15 کیا آپ کو کبھی اپنے ہم‌جماعتوں،‏ ساتھ کام کرنے والوں یا غیرایمان رشتےداروں کی طرف سے بےعزتی یا مخالفت سہنی پڑی؟‏ کیا کبھی کلیسیا میں کسی بہن یا بھائی نے آپ کے ساتھ بُرا سلوک کِیا؟‏ اگر ایسا ہے تو داؤد اور پولُس کو یاد رکھیں۔‏ آپ ”‏اچھائی سے بُرائی پر غالب“‏ آ سکتے ہیں۔‏ (‏روم 12:‏21‏)‏ داؤد تو جولیت کو مارنے سے بُرائی پر غالب آئے تھے لیکن آج ہم ایسا نہیں کرتے۔‏ ہم اپنے مخالفوں کو پاک کلام سے یہوواہ کے بارے میں سکھانے سے بُرائی پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ لیکن ایسا تبھی ممکن ہوگا جب ہم لوگوں کو اُن کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے خدا کے کلام پر بھروسا کریں گے،‏ اُن لوگوں کے ساتھ عزت اور مہربانی سے پیش آئیں گے جو ہمارے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں اور سب کے ساتھ،‏ یہاں تک کہ اپنے دُشمنوں کے ساتھ بھی اچھائی کریں گے۔‏—‏متی 5:‏44؛‏ 1-‏پطر 3:‏15-‏17‏۔‏

دوسروں کی مدد کو قبول کریں

16،‏ 17.‏ پولُس کون سا سبق کبھی نہیں بھولے؟‏

16 مسیح کا شاگرد بننے سے پہلے پولُس رسول یسوع کے پیروکاروں کو اذیت دیتے تھے اور اُن کی بےعزتی کرتے تھے۔‏ (‏اعما 7:‏58؛‏ 1-‏تیم 1:‏13‏)‏ پولُس جو کہ اُس وقت ساؤل کے نام سے جانے جاتے تھے،‏ کلیسیاؤں کو ڈراتے دھمکاتے تھے۔‏ اُن پر ایسا کرنے کا اِتنا جنون سوار تھا کہ یسوع مسیح کو خود اُنہیں روکنا پڑا۔‏ یسوع نے آسمان سے پولُس سے بات کی اور اُنہیں نابینا کر دیا۔‏ اپنی دیکھنے کی صلاحیت واپس پانے کے لیے پولُس کو اُنہی لوگوں سے مدد حاصل کرنی پڑی جنہیں پہلے وہ اذیت دیا کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے خاکساری سے حننیاہ نامی شاگرد کی مدد کو قبول کِیا جنہوں نے پولُس کی آنکھیں ٹھیک کر دیں۔‏—‏اعما 9:‏3-‏9،‏ 17،‏ 18‏۔‏

17 حالانکہ بعد میں پولُس مسیحی کلیسیا کے ایک نمایاں فرد بن گئے لیکن وہ اُس سبق کو کبھی نہیں بھولے جو یسوع مسیح نے اُنہیں دمشق کے راستے پر سکھایا تھا۔‏ پولُس ساری زندگی خاکسار رہے اور اُنہوں نے خوشی سے اپنے بہن بھائیوں کی طرف سے ملنے والی مدد کو قبول کِیا۔‏ وہ یہ تسلیم کرتے تھے کہ اِن بہن بھائیوں کی وجہ سے ’‏اُنہیں بڑی تسلی ملی ہے۔‏‘‏—‏کُل 4:‏10،‏ 11‏۔‏

18.‏ کبھی کبھار شاید ہم اپنے بہن بھائیوں سے مدد لینے سے کیوں ہچکچائیں؟‏

18 ہم پولُس کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ شروع شروع میں جب ہم نے سچائی کو قبول کِیا تھا تو ہم بڑے شوق سے دوسروں سے مدد لیا کرتے تھے کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ ہم روحانی لحاظ سے بچے ہیں اور ہمیں ابھی بھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔‏ (‏1-‏کُر 3:‏1،‏ 2‏)‏ لیکن کیا ہم اب بھی دوسروں کی مدد کو قبول کرتے ہیں؟‏ اگر ہم کافی عرصے سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں اور اب ہمیں ایسا کرتے ہوئے بہت تجربہ حاصل ہو گیا ہے تو شاید ہم دوسروں سے مدد لینے کی ضرورت محسوس نہ کریں،‏ خاص طور پر اُس وقت جب مدد کرنے والا شخص اُتنے عرصے سے یہوواہ کی خدمت نہیں کر رہا جتنے عرصے سے ہم کر رہے ہیں۔‏ مگر یہوواہ اکثر ہمیں طاقت دینے کے لیے ہمارے بہن بھائیوں کو اِستعمال کرتا ہے۔‏ (‏روم 1:‏11،‏ 12‏)‏ اگر ہم اُس سے طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اِس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔‏

19.‏ پولُس کئی شان‌دار کام کیوں انجام دے پائے؟‏

19 مسیحی بننے کے بعد پولُس نے کئی شان‌دار کام انجام دیے۔‏ وہ ایسا کیوں کر پائے؟‏ کیونکہ اُنہوں نے یہ سیکھ لیا کہ ایک شخص خدا کی خدمت میں تبھی کامیاب ہو سکتا ہے اگر وہ خاکسار ہے اور یہوواہ پر بھروسا کرتا ہے۔‏ اُسے کامیابی اُس کی اچھی صحت،‏ اعلیٰ تعلیم،‏ مال‌ودولت،‏ یا حیثیت کی وجہ سے نہیں ملتی۔‏ آئیں،‏ ہم سب پولُس کی طرح (‏1)‏ یہوواہ پر بھروسا رکھیں،‏ (‏2)‏ خدا کے اُن بندوں سے سیکھیں جن کا پاک کلام میں ذکر ہوا ہے اور (‏3)‏ اپنے ہم‌ایمانوں کی طرف سے ملنے والی مدد کو قبول کریں۔‏ پھر چاہے ہم خود کو کتنا ہی کمزور کیوں نہ سمجھیں،‏ یہوواہ ہمیں طاقت‌ور بنا دے گا۔‏

گیت نمبر 71‏:‏ ہم یاہ کے سپاہی ہیں!‏

^ پیراگراف 5 اِس مضمون میں ہم پولُس رسول کی مثال پر غور کریں گے۔‏ ہم دیکھیں گے کہ اگر ہم خاکسار ہوں گے تو یہوواہ ہمیں ثابت قدمی سے بےعزتی کا سامنا کرنے اور اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی طاقت دے گا۔‏

^ پیراگراف 1 اِصطلاح کی وضاحت:‏ ہمیں مختلف وجوہات کی بِنا پر یہ محسوس ہو سکتا ہے کہ ہم کمزور ہیں۔‏ مثال کے طور پر شاید ہم میں خامیاں ہیں،‏ ہم غریب ہیں،‏ بیمار ہیں یا پھر اِتنے پڑھے لکھے نہیں ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہمارے دُشمن بھی ہمارے بارے میں غلط باتیں کرنے اور ہمیں اذیت پہنچانے سے یہ احساس دِلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم اُن سے کمزور ہیں۔‏

^ پیراگراف 57 تصویر کی وضاحت‏:‏ جب پولُس نے مسیح کے بارے میں مُنادی کرنی شروع کی تو اُنہوں نے وہ چیزیں ٹھکرا دیں جو ایک فریسی کے طور پر پہلے اُن کے پاس تھیں۔‏ شاید اِن میں ایسے طومار شامل تھے جن سے اُنہوں نے دُنیاوی تعلیم حاصل کی تھی اور ایسے تعویذ بھی جو چھوٹی ڈبیوں کی شکل میں ہوتے تھے جن میں توریت کی آیتیں لکھ کر رکھی جاتی تھیں۔‏

^ پیراگراف 61 تصویر کی وضاحت‏:‏: کام کی جگہ پر کچھ لوگ اپنے ساتھی کی سالگرہ منا رہے ہیں اور وہ ایک بھائی پر بھی دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اُن کے ساتھ شریک ہو۔‏