مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 31

کیا آپ ’‏اُس شہر کا اِنتظار کر رہے ہیں جس کی بنیادیں پائیدار ہیں‘‏؟‏

کیا آپ ’‏اُس شہر کا اِنتظار کر رہے ہیں جس کی بنیادیں پائیدار ہیں‘‏؟‏

‏”‏وہ اُس شہر کا اِنتظار کر رہے تھے جس کی بنیادیں پائیدار ہیں اور جس کا نقشہ‌ساز اور معمار خدا ہے۔‏“‏‏—‏عبر 11:‏10‏۔‏

گیت نمبر 22‏:‏ بادشاہت جلد آئے!‏

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ خدا کے بہت سے بندوں نے کون سی قربانیاں دی ہیں اور کیوں؟‏

آج خدا کے لاکھوں بندے طرح طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں۔‏ مثال کے طور پر بہت سے بہن بھائیوں نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کِیا ہے؛‏ کچھ شادی‌شُدہ جوڑوں نے فی‌الحال بچے پیدا نہ کرنے کا اِرادہ کِیا ہے اور کئی خاندانوں نے اپنی زندگی کو سادہ بنایا ہے۔‏ اِن سب نے ایسا فیصلہ کیوں کِیا ہے؟‏ کیونکہ وہ یہوواہ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنا چاہتے ہیں۔‏ وہ خوش اور مطمئن ہیں اور اُنہیں پورا بھروسا ہے کہ یہوواہ اُنہیں وہ سب کچھ دے گا جس کی اُنہیں واقعی ضرورت ہے۔‏ کیا اُنہیں کبھی اِس وجہ سے مایوسی ہوگی؟‏ بالکل نہیں۔‏ ہم یہ بات اِتنے یقین سے کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏ کیونکہ ماضی میں یہوواہ نے اپنے بندوں کی ہر ضرورت پوری کی تھی۔‏ مثال کے طور پر اُس نے ابراہام کو برکت دی جو ’‏اُن سب لوگوں کے باپ ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔‏‘‏—‏روم 4:‏11‏۔‏

2.‏ ‏(‏الف)‏ عبرانیوں 11:‏8-‏10،‏ 16 کے مطابق ابراہام نے شہر اُور کو خوشی خوشی کیوں چھوڑ دیا؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

2 ابراہام شہر اُور میں بڑی آرام‌دہ زندگی گزار رہے تھے لیکن اُنہوں نے خوشی خوشی اِسے چھوڑ دیا۔‏ کیوں؟‏ کیونکہ ”‏وہ اُس شہر کا اِنتظار کر رہے تھے جس کی بنیادیں پائیدار ہیں۔‏“‏ ‏(‏عبرانیوں 11:‏8-‏10،‏ 16 کو پڑھیں۔‏)‏ یہ کون سا ”‏شہر“‏ہے؟‏ جب ابراہام اِس شہر کے بننے کا اِنتظار کر رہے تھے تو اُنہیں کن مسئلوں کا سامنا کرنا پڑا؟‏ اور ہم ابراہام اور ہمارے زمانے کے اُن بہن بھائیوں کی طرح کیسے بن سکتے ہیں جنہوں نے ابراہام کی مثال پر عمل کِیا؟‏

وہ کون سا شہر ہے ”‏جس کی بنیادیں پائیدار ہیں“‏؟‏

3.‏ ابراہام کس شہر کا اِنتظار کر رہے تھے؟‏

3 ابراہام جس شہر کا اِنتظار کر رہے تھے،‏ وہ خدا کی بادشاہت ہے۔‏ اِس بادشاہت کے حکمران یسوع مسیح اور 1 لاکھ 44 ہزار مسح‌شُدہ مسیحی ہیں۔‏ پولُس رسول نے اِس بادشاہت کو ”‏زندہ خدا کا شہر یعنی آسمانی یروشلیم“‏ کہا۔‏ (‏عبر 12:‏22؛‏ مکا 5:‏8-‏10؛‏ 14:‏1‏)‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو اِسی بادشاہت کے لیے دُعا کرنا سکھایا تھا اور اُن سے کہا تھا کہ وہ اِس کے آنے کی درخواست کریں تاکہ خدا کی مرضی زمین پر پوری ہو،‏ بالکل ویسے ہی جیسے یہ آسمان پر پوری ہو رہی ہے۔‏—‏متی 6:‏10‏۔‏

4.‏ پیدایش 17:‏1،‏ 2،‏ 6 کے مطابق ابراہام اُس شہر یا بادشاہت کے بارے میں کتنا جانتے تھے جس کا وعدہ خدا نے کِیا تھا؟‏

4 کیا ابراہام خدا کی بادشاہت کے اِنتظام کے حوالے سے ساری باتیں جانتے تھے؟‏ نہیں۔‏ کئی صدیوں تک بادشاہت کے حوالے سے یہ معلومات ایک ”‏مُقدس راز“‏ رہیں۔‏ (‏اِفس 1:‏8-‏10؛‏ کُل 1:‏26،‏ 27‏)‏ لیکن ابراہام یہ ضرور جانتے تھے کہ اُن کی اولاد میں سے کچھ بادشاہ بنیں گے کیونکہ یہوواہ خدا نے خود اُن سے اِس بات کا وعدہ کِیا تھا۔‏ ‏(‏پیدایش 17:‏1،‏ 2،‏ 6 کو پڑھیں۔‏)‏ ابراہام کو خدا کے وعدوں پر اِتنا پکا ایمان تھا جیسے وہ اپنی آنکھوں سے اُس مسح‌شُدہ شخص کو دیکھ سکتے ہوں جس نے خدا کی بادشاہت کا بادشاہ بننا تھا۔‏ اِسی وجہ سے یسوع مسیح نے اپنے زمانے کے یہودیوں سے کہا:‏ ”‏آپ کے باپ ابراہام بہت خوش تھے کیونکہ وہ میرا دن دیکھنے کی اُمید رکھتے تھے اور اُنہوں نے اِسے دیکھا اور خوش ہوئے۔‏“‏ (‏یوح 8:‏56‏)‏ بِلاشُبہ ابراہام یہ جانتے تھے کہ اُن کی اولاد اُس بادشاہت کا حصہ ہوگی جسے خدا قائم کرے گا اور اُنہوں نے خوشی سے اِنتظار کِیا کہ یہوواہ اپنا یہ وعدہ پورا کرے۔‏

ابراہام نے یہوواہ کے وعدوں پر مضبوط ایمان کیسے ظاہر کِیا؟‏ (‏پیراگراف نمبر 5 کو دیکھیں۔‏)‏

5.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ ابراہام اُس شہر کا اِنتظار کر رہے تھے جسے خدا نے بنانا تھا؟‏

5 ابراہام نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ اُس شہر یا بادشاہت کے منتظر ہیں جسے خدا نے بنانا تھا؟‏ سب سے پہلے تو وہ زمین پر قائم کسی بھی حکومت کے شہری نہیں بنے۔‏ اُنہوں نے مسافروں کی طرح زندگی گزاری اور کبھی بھی کسی ایک جگہ کو اپنا مستقل ٹھکانا نہیں بنایا۔‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے نہ تو کسی اِنسانی بادشاہ کی حمایت کی اور نہ ہی اپنی بادشاہت قائم کرنے کی کوشش کی۔‏ اِس کی بجائے وہ یہوواہ کے حکم مانتے رہے اور اُس کے وعدوں کے پورا ہونے کا اِنتظار کرتے رہے۔‏ اِس سے ظاہر ہوا کہ ابراہام یہوواہ پر کتنا مضبوط ایمان رکھتے تھے۔‏ لیکن ایسا کرتے وقت اُنہیں کچھ مشکلیں بھی جھیلنی پڑیں۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ اُنہوں نے اِن مشکلوں کا سامنا کیسے کِیا اور ہم اُن کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏

ابراہام نے کن مشکلات کا سامنا کِیا؟‏

6.‏ اُور کیسا شہر تھا؟‏

6 ابراہام نے جس شہر کو چھوڑ دیا،‏ وہ کافی محفوظ تھا اور وہاں بہت سی سہولتیں موجود تھیں۔‏ وہاں کے لوگ بھی بہت پڑھے لکھے اور امیر تھے۔‏ اِس شہر کو محفوظ رکھنے کے لیے اِس کے چاروں طرف اُونچی اور مضبوط دیواریں بنائی گئی تھیں اور اِس کے تین طرف گہری نہریں کھودی گئی تھیں۔‏ جہاں تک اِس شہر کے لوگوں کا سوال تھا تو وہ مضمون‌نویسی اور ریاضی میں بہت ماہر تھے۔‏ لگتا ہے کہ یہ ایک کاروباری شہر بھی تھا کیونکہ اِس کے کھنڈرات کی کھدائی کے وقت تحقیق‌دانوں کو ایسی بہت سی دستاویزیں ملیں جو کاروبار میں اِستعمال ہوتی تھیں۔‏ شہر اُور میں لوگوں کے گھر بہت اچھے تھے۔‏ یہ اینٹوں سے بنے ہوتے تھے اور دیواروں پر پلستر اور سفید چُونا کِیا جاتا تھا۔‏ کچھ گھروں میں تو 13 یا 14 کمرے ہوتے تھے۔‏یہ کمرے ایک صحن کے گِرد بنائے جاتے تھے اور اِس صحن کا فرش پتھر کا بنا ہوتا تھا۔‏

7.‏ ابراہام کو اِس بھروسے کی ضرورت کیوں تھی کہ یہوواہ خدا اُن کی اور اُن کے گھر والوں کی حفاظت کرے گا؟‏

7 ابراہام کو اِس بھروسے کی بہت ضرورت تھی کہ یہوواہ خدا اُن کی اور اُن کے گھر والوں کی حفاظت کرے گا۔‏ کیوں؟‏ کیونکہ وہ اور سارہ شہر اُور میں ایک محفوظ اور آرام‌دہ زندگی چھوڑ آئے تھے اور اب ملک کنعان کے کُھلے میدانوں میں خیمے لگا کر رہنے لگے تھے۔‏ اب اُن کے اِردگِرد مضبوط دیواریں یا گہری نہریں نہیں تھیں جو اُنہیں اور اُن کے گھر والوں کو محفوظ رکھتیں۔‏ اِس کی بجائے اب کوئی بھی دُشمن اُن پر آسانی سے حملہ کر سکتا تھا۔‏

8.‏ ایک بار ابراہام کو کس مشکل کا سامنا کرنا پڑا؟‏

8 ابراہام نے وہی کِیا جو یہوواہ نے اُن سے کہا تھا۔‏ لیکن پھر اُن پر ایک ایسا وقت آیا جب اُن کے پاس اِتنا کھانا نہیں تھا کہ اُن کے سب گھر والے پیٹ بھر کر کھا سکتے۔‏ جس ملک میں یہوواہ نے اُنہیں جانے کو کہا تھا،‏ اب وہاں قحط پڑ گیا تھا۔‏ یہ قحط اِتنا شدید تھا کہ ابراہام کو کچھ عرصے کے لیے اپنے گھر والوں کو مصر لے جانا پڑا۔‏ جب وہ مصر میں تھے تو اُس ملک کے حاکم یعنی فرعون نے ابراہام کی بیوی سارہ کو اپنے محل میں رکھ لیا۔‏ ذرا سوچیں کہ ابراہام اُس وقت تک کتنے پریشان رہے ہوں گے جب تک یہوواہ نے کارروائی نہیں کی اور فرعون نے ابراہام کی بیوی کو واپس نہیں کر دیا۔‏—‏پید 12:‏10-‏19‏۔‏

9.‏ ابراہام کو اپنے گھر میں کن مسئلوں کا سامنا کرنا پڑا؟‏

9 ابراہام کے گھر میں بھی کافی سنگین مسئلے تھے۔‏ اُن کی بیوی سارہ جسے وہ بہت پیار کرتے تھے،‏ بانجھ تھیں۔‏ اِس وجہ سے وہ دونوں کئی سال تک بڑے دُکھی اور مایوس رہے۔‏ آخرکار سارہ نے ابراہام کو اپنی نوکرانی ہاجرہ دی تاکہ وہ اُن کے اور ابراہام کے لیے اولاد پیدا کر سکے۔‏ لیکن جب ہاجرہ حاملہ ہو گئیں تو وہ سارہ کو حقیر سمجھنے لگیں۔‏ صورتحال اِتنی بگڑ گئی کہ سارہ کو ہاجرہ کو گھر سے نکالنا پڑا۔‏—‏پید 16:‏1-‏6‏۔‏

10.‏ اِسمٰعیل اور اِضحاق کے حوالے سے یہوواہ نے ابراہام کو جو کچھ کرنے کو کہا،‏ اُس سے ابراہام کے بھروسے کا اِمتحان کیسے ہوا؟‏

10 ایک لمبے اِنتظار کے بعد آخرکار سارہ حاملہ ہو گئیں۔‏ اُنہوں نے ایک بیٹے کو جنم دیا اور ابراہام نے اُس کا نام اِضحاق رکھا۔‏ ابراہام کو اپنے دونوں بیٹوں،‏ اِسمٰعیل اور اِضحاق سے بہت پیار تھا۔‏ لیکن چونکہ اِسمٰعیل،‏ اِضحاق کے ساتھ بُرا سلوک کر رہے تھے اِس لیے یہوواہ کے کہنے پر ابراہام نے اِسمٰعیل اور ہاجرہ کو گھر سے نکال دیا۔‏ (‏پید 21:‏9-‏14‏)‏ بعد میں یہوواہ نے ابراہام سے کہا کہ وہ اِضحاق کو اُس کے حضور قربانی کے طور پر پیش کریں۔‏ (‏پید 22:‏1،‏ 2؛‏ عبر 11:‏17-‏19‏)‏ دونوں ہی معاملوں میں ابراہام کو اِس بات پر بھروسا رکھنا تھا کہ یہوواہ اپنے اُن وعدوں کو پورا کرے گا جو اُس نے اُن کے بیٹوں کے حوالے سے کیے تھے۔‏

11.‏ ابراہام کو صبر سے یہوواہ کے وعدوں کے پورا ہونے کا اِنتظار کیوں کرنا پڑا؟‏

11 اِس سارے عرصے کے دوران ابراہام کو صبر سے یہوواہ کے وعدوں کے پورا ہونے کا اِنتظار کرنا پڑا۔‏ جب اُنہوں نے اپنے گھر والوں کے ساتھ شہر اُور چھوڑا تھا تو اُس وقت اُن کی عمر غالباً 70 سال سے زیادہ تھی۔‏ (‏پید 11:‏31–‏12:‏4‏)‏ اور اُنہوں نے تقریباً 100 سال تک کنعان میں ایک جگہ سے دوسری جگہ خیمے لگا کر زندگی گزاری۔‏ جب ابراہام فوت ہوئے تو وہ 175 سال کے تھے۔‏ (‏پید 25:‏7‏)‏ اُنہوں نے اپنے جیتے جی یہوواہ کے اِس وعدے کو پورا ہوتے نہیں دیکھا کہ جس زمین پر وہ چل پھر رہے ہیں،‏ وہ اُن کی اولاد کی ہوگی۔‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں شہر یا بادشاہت کو بھی قائم ہوتے نہیں دیکھا۔‏ لیکن پھر بھی بائبل میں اُن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ’‏اچھی عمر درازی میں بوڑھے اور زندگی سے سیر ہو کر‘‏ فوت ہوئے۔‏ (‏پید 25:‏8‏،‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ حالانکہ ابراہام کی زندگی میں بہت سی مشکلیں آئیں لیکن اُنہوں نے یہوواہ پر اپنے ایمان کو مضبوط رکھا اور وہ خوشی سے اُس کے وعدوں کے پورا ہونے کا اِنتظار کرتے رہے۔‏ وہ ثابت‌قدم کیوں رہ پائے؟‏ کیونکہ یہوواہ نے قدم قدم پر اُن کی حفاظت کی اور وہ ہمیشہ اُن کے ساتھ ایک دوست کی طرح پیش آیا۔‏—‏پید 15:‏1؛‏ یسع 41:‏8؛‏ یعقو 2:‏22،‏ 23‏۔‏

ابراہام اور سارہ کی طرح خدا کے دیگر بندے ایمان اور صبر کیسے ظاہر کر رہے ہیں؟‏ (‏پیراگراف نمبر 12 کو دیکھیں۔‏)‏ *

12.‏ ‏(‏الف)‏ ہم کس بات کا اِنتظار کر رہے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اب ہم کن کی مثالوں پر غور کریں گے؟‏

12 ابراہام کی طرح ہم بھی اُس شہر کا اِنتظار کر رہے ہیں جس کی بنیادیں پائیدار ہیں۔‏ البتہ اُن کی طرح ہم اِس کے بننے کا اِنتظار نہیں کر رہے۔‏ خدا کی بادشاہت 1914ء میں قائم ہو گئی تھی اور تب سے پورے آسمان پر حکمرانی کر رہی ہے۔‏ (‏مکا 12:‏7-‏10‏)‏ لیکن ہم اُس وقت کے منتظر ہیں جب یہ بادشاہت پوری زمین پر بھی حکمرانی کرے گی۔‏ مگر جب تک وہ وقت نہیں آتا،‏ ہمیں ایسی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن کا سامنا ابراہام اور سارہ کو ہوا تھا۔‏ کیا جدید زمانے میں خدا کے بندوں نے ابراہام کی مثال پر عمل کِیا ہے؟‏ جی بالکل۔‏ اِس کی کچھ مثالیں ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ میں شائع ہونے والی آپ‌بیتیاں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے بہت سے بہن بھائیوں نے ابراہام اور سارہ کی طرح مضبوط ایمان ظاہر کِیا اور صبر سے کام لیا۔‏ آئیں،‏ کچھ بہن بھائیوں کی آپ‌بیتی پر غور کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہم اُن سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏

ابراہام جیسے کچھ لوگ

بھائی بِل والڈن قربانیاں دینے کو تیار تھے اور اُنہیں یہوواہ کی طرف سے بہت سی برکتیں ملیں۔‏

13.‏ آپ نے بھائی بِل والڈن کے تجربے سے کیا سیکھا ہے؟‏

13 قربانیاں دینے کے لیے تیار رہیں۔‏ اگر ہم خدا کے شہر یعنی اُس کی بادشاہت کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دینا چاہتے ہیں تو ہمیں ابراہام کی طرح بننا پڑے گا جنہوں نے یہوواہ کو خوش کرنے کے لیے قربانیاں دیں۔‏ (‏متی 6:‏33؛‏ مر 10:‏28-‏30‏)‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں بھائی بِل والڈن کی مثال پر غور کریں۔‏ 1942ء میں جب بھائی بِل نے یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کورس کرنا شروع کِیا تو اُس وقت اُنہیں امریکہ کی ایک یونیورسٹی سے تعمیراتی انجینئر کی ڈگری ملنے والی تھی۔‏ بھائی بِل کے ایک پروفیسر نے اُن کے لیے ایک نوکری ڈھونڈ رکھی تھی تاکہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اِسے کر سکیں لیکن بھائی بِل نے اِنکار کر دیا۔‏ اُنہوں نے بتایا کہ اُنہوں نے اچھی تنخواہ والی نوکری کرنے کی بجائے خدا کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کا فیصلہ کِیا ہے۔‏ اِس کے کچھ ہی عرصے بعد بھائی بِل کو حکومت کی طرف سے فوج میں بھرتی ہونے کا حکم ملا مگر اُنہوں نے بڑے احترام سے اِنکار کر دیا۔‏ اِس کی وجہ سے اُنہیں 10 ہزار امریکی ڈالر جُرمانہ بھرنا پڑا اور 5 سال کی قید ہو گئی۔‏ لیکن تین سال بعد بھائی بِل رِہا ہو گئے۔‏ بعد میں اُنہیں گلئیڈ سکول سے تربیت حاصل کرنے کی دعوت ملی اور افریقہ میں مشنری کے طور پر خدمت کرنے کو کہا گیا۔‏ بِل نے ایوا نامی بہن سے شادی کر لی اور وہ دونوں مل کر افریقہ میں خدمت کرنے لگے جس کے لیے اُنہیں کچھ قربانیاں دینی پڑیں۔‏ کئی سال وہاں خدمت کرنے کے بعد اُنہیں واپس امریکہ آنا پڑا کیونکہ بھائی بِل کی امی کو دیکھ‌بھال کی ضرورت تھی۔‏ اپنی آپ‌بیتی کا خلاصہ کرتے ہوئے بھائی بِل نے کہا:‏ ”‏جب مَیں سوچتا ہوں کہ یہوواہ نے مجھے 70 سال سے زیادہ عرصے تک اپنی خدمت کرنے کا اعزاز بخشا ہے تو میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ جاتے ہیں۔‏ مَیں اکثر دُعا میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے میری مدد کی تاکہ مَیں اپنی زندگی کو اُس کی خدمت میں لگا سکوں۔‏“‏ کیا آپ کُل‌وقتی طور پر خدا کی خدمت کرنے میں اپنی زندگی وقف کر سکتے ہیں؟‏

بہن ایلینا اور بھائی ارِسٹاٹولس نے محسوس کِیا کہ یہوواہ نے اُنہیں طاقت دی۔‏

14،‏ 15.‏ آپ نے بھائی ارِسٹاٹولس اور اُن کی بیوی کے تجربے سے کیا سیکھا ہے؟‏

14 یہ نہ سوچیں کہ آپ کی زندگی میں کوئی مشکل نہیں آئے گی۔‏ ابراہام کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ جو لوگ اپنی زندگی یہوواہ کی خدمت کرنے میں وقف کر دیتے ہیں،‏ اُنہیں بھی مسئلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ (‏یعقو 1:‏2؛‏ 1-‏پطر 5:‏9‏)‏ غور کریں کہ یہ بات بھائی ارِسٹاٹولس * کے معاملے میں سچ کیسے ثابت ہوئی۔‏ اُنہوں نے 1946ء میں ملک یونان میں بپتسمہ لیا۔‏ 1952ء میں اُن کی منگنی ایلینا نامی بہن سے ہوئی جو خدا کی خدمت کے حوالے سے اُنہی جیسے منصوبے رکھتی تھیں۔‏ لیکن پھر بہن ایلینا بیمار ہو گئیں اور پتہ چلا کہ اُن کے دماغ میں رسولی (‏برین ٹیومر)‏ہے۔‏ ڈاکٹروں نے آپریشن کر کے یہ رسولی نکال دی لیکن اُن کی شادی کے کچھ ہی سال بعد اُن کے دماغ میں پھر سے رسولی بن گئی۔‏ ڈاکٹروں نے پھر سے اُن کا آپریشن کِیا مگر اِس بار بہن ایلینا کا آدھا جسم مفلوج ہو گیا اور اُن کی بولنے کی صلاحیت بُری طرح متاثر ہوئی۔‏ لیکن اِس کے باوجود وہ جوش سے یہوواہ کی خدمت کرتی رہیں حالانکہ اُس وقت حکومت بہن بھائیوں پر بہت اذیت ڈھا رہی تھی۔‏

15 بھائی ارِسٹاٹولس نے تقریباً 30 سال تک اپنی بیوی کی دیکھ‌بھال کی۔‏ اِس دوران وہ ایک بزرگ کے طور پر خدمت کرتے رہے،‏ اُنہوں نے اِجتماع کی کمیٹی کے رُکن کے طور پر کام کِیا اور اسمبلی ہال کی تعمیر میں بھی حصہ لیا۔‏ 1987ء میں مُنادی کے دوران بہن ایلینا کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا جس میں وہ زخمی ہو گئیں۔‏ وہ تقریباً تین سال تک کوما میں رہیں اور اِس کے بعد فوت ہو گئیں۔‏ بھائی ارِسٹاٹولس نے بتایا کہ اُن کی زندگی میں جو کچھ ہوا،‏ اُس کا اُن پر کیا اثر پڑا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏کئی سالوں کے دوران مجھے بہت سی مشکلوں سے گزرنا پڑا اور اِن میں سے کچھ تو ایسی تھیں جن کے بارے میں مَیں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔‏ اِس لیے مجھے ثابت‌قدمی اور ہمت کی ضرورت تھی۔‏ لیکن یہوواہ نے ہمیشہ مجھے مشکلوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت دی۔‏“‏ (‏زبور 94:‏18،‏ 19‏)‏ یہوواہ اپنے اُن بندوں سے بڑی محبت کرتا ہے جو مشکلوں میں بھی جی جان سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔‏

بہن آڈری ہائیڈ نے اپنا دھیان مستقبل پر رکھا اور اِس وجہ سے وہ مثبت سوچ رکھ پائیں۔‏

16.‏ بھائی نار نے اپنی بیوی کو کیا مشورہ دیا؟‏

16 اپنا دھیان مستقبل پر رکھیں۔‏ ابراہام نے اپنا دھیان اُن برکتوں پر رکھا جو خدا نے مستقبل میں اُنہیں دینی تھیں۔‏ ایسا کرنے سے وہ مشکلات کو برداشت کرنے کے قابل ہوئے۔‏ ذرا بہن آڈری ہائیڈ کی مثال پر بھی غور کریں جنہوں نے اپنا پورا دھیان اُس شان‌دار مستقبل پر رکھا جس کا وعدہ خدا نے کِیا ہے۔‏ بہن آڈری کے پہلے شوہر ناتھن نار کینسر کی وجہ سے فوت ہو گئے اور اُن کے دوسرے شوہر گلین ہائیڈ کو بھولنے کی بیماری ہو گئی۔‏ * اُنہوں نے بتایا کہ اُنہیں بھائی ناتھن کی اُس بات سے بڑا حوصلہ ملا جو اُنہوں نے اپنی موت سے کچھ ہفتے پہلے کہی تھی۔‏ بہن آڈری نے کہا:‏ ”‏ناتھن نے مجھے یہ بات یاد دِلائی:‏ ”‏چاہے ہم آسمان پر جی اُٹھنے کی اُمید رکھتے ہوں یا زمین پر،‏ زندہ ہونے کے بعد ہمیں دوبارہ کبھی تکلیف برداشت نہیں کرنی پڑے گی۔‏“‏ پھر ناتھن نے اِس بات پر زور دیا:‏ ”‏نظر آگے کی طرف رکھو کیونکہ وہاں تمہارا اِنعام ہے۔‏“‏ .‏ .‏ .‏ اُنہوں نے مجھ سے یہ بھی کہا:‏ ”‏اپنی زندگی دوسروں کے لیے صرف کرنا۔‏ اِس سے تمہیں خوشی حاصل ہوگی۔‏“‏“‏ یہ کتنا اچھا مشورہ ہے کہ ہم دوسروں کی مدد کرنے میں مصروف رہیں اور ”‏اپنی اُمید کی وجہ سے خوش ہوں۔‏“‏—‏روم 12:‏12‏۔‏

17.‏ ‏(‏الف)‏ ہمیں اپنا دھیان مستقبل پر کیوں رکھنا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ مستقبل میں ملنے والی برکتوں سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں میکاہ 7:‏7 میں درج بات پر عمل کیوں کرنا چاہیے؟‏

17 آج ہمارے پاس اِس بات کی پہلے سے کہیں زیادہ وجوہات ہیں کہ ہم اپنا دھیان مستقبل پر رکھیں۔‏ دُنیا میں ہونے والے واقعات سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ہم آخری زمانے کے بالکل آخر میں رہ رہے ہیں۔‏ جلد ہی ہمارا اِنتظار ختم ہو جائے گا اور وہ شہر جس کی بنیادیں پائیدار ہیں یعنی خدا کی بادشاہت پوری زمین پر حکمرانی کرے گی۔‏ اُس وقت ہمیں جو برکتیں ملیں گی،‏ اُن میں سے ایک یہ ہوگی کہ ہم اپنے اُن عزیزوں سے دوبارہ ملیں گے جو فوت ہو گئے ہیں۔‏ اُس وقت یہوواہ ابراہام کو اُن کے ایمان اور صبر کا یہ اجر دے گا کہ وہ اُنہیں اور اُن کے گھر والوں کو زمین پر زندہ کرے گا۔‏ کیا آپ اُن کا اِستقبال کرنے کے لیے وہاں موجود ہوں گے؟‏ جی ہاں!‏ لیکن تبھی اگر آپ ابراہام کی طرح خدا کی بادشاہت کی خاطر خوشی سے قربانیاں دیں گے،‏ مشکلات کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہیں گے اور صبر سے خدا کے وعدوں کے پورا ہونے کا اِنتظار کریں گے۔‏‏—‏میکاہ 7:‏7 کو پڑھیں۔‏

گیت نمبر 74‏:‏ بادشاہت کا گیت

^ پیراگراف 5 ہم خدا کے وعدوں کے پورا ہونے کا اِنتظار کر رہے ہیں لیکن اِنتظار کی اِس گھڑی میں ہمارے صبر کا اِمتحان ہو سکتا ہے،‏ یہاں تک کہ ہمارا ایمان بھی کمزور پڑ سکتا ہے۔‏ اِس مضمون میں ہم ابراہام کی زندگی سے کچھ ایسے سبق سیکھیں گے جن سے ہمارا یہ عزم مضبوط ہوگا کہ ہم صبر سے یہوواہ کے وعدوں کے پورا ہونے کا اِنتظار کرتے رہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم جدید زمانے کے خدا کے کچھ بندوں کی شان‌دار مثال پر بھی غور کریں گے۔‏

^ پیراگراف 14 بھائی ارِسٹاٹولس اپوسٹولیڈس کی آپ‌بیتی 1 فروری 2002ء کے ‏”‏مینارِنگہبانی،‏“‏ میں صفحہ 24-‏28 پر شائع ہوئی ہے۔‏

^ پیراگراف 55 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک عمررسیدہ جوڑا مشکلات کے باوجود وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کر رہا ہے۔‏ اُس جوڑے نے اپنے ایمان کو مضبوط رکھنے کے لیے اپنا دھیان یہوواہ کے اُن وعدوں پر رکھا ہوا ہے جنہیں وہ مستقبل میں پورا کرے گا۔‏