مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 32

اپنے خدا کے ساتھ خاکساری سے چلیں

اپنے خدا کے ساتھ خاکساری سے چلیں

‏’‏اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چلیں۔‏‘‏‏—‏میک 6:‏8‏۔‏

گیت نمبر 31‏:‏ خدا کے ساتھ ساتھ چلیں ہم

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ داؤد نے یہوواہ کی فروتنی کے بارے میں کیا بتایا؟‏

کیا ہم واقعی یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہوواہ فروتن ہے؟‏ بالکل۔‏ داؤد نے یہوواہ کے بارے میں لکھا:‏ ”‏تیری نرمی نے مجھے بزرگ بنایا ہے۔‏“‏ (‏2-‏سمو 22:‏36؛‏ زبور 18:‏35‏)‏ اِن آیتوں میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”‏نرمی“‏ کِیا گیا ہے،‏ وہ ”‏فروتنی“‏ کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔‏ جب داؤد نے یہ الفاظ لکھے تو شاید وہ اُس وقت کو یاد کر رہے تھے جب سموئیل نبی اِسرائیل کے اگلے بادشاہ کو مسح کرنے کے لیے اُن کے والد کے گھر آئے تھے۔‏ حالانکہ داؤد آٹھ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے لیکن پھر بھی خدا نے اُنہیں ساؤل کی جگہ بادشاہ بننے کے لیے چُنا۔‏—‏1-‏سمو 16:‏1،‏ 10-‏13‏۔‏

2.‏ اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟‏

2 داؤد یقیناً اُس زبورنویس جیسے احساسات رکھتے تھے جس نے یہوواہ کے بارے میں کہا:‏”‏[‏وہ]‏ فروتنی سے آسمان‌وزمین پر نظر کرتا ہے؟‏ وہ مسکین کو خاک سے اور محتاج کو مزبلہ پر سے اُٹھا لیتا ہے تاکہ اُسے اُمرا کے ساتھ .‏ .‏ .‏ بٹھائے۔‏“‏ (‏زبور 113:‏6-‏8‏)‏ اِس مضمون میں پہلے تو ہم کچھ ایسے واقعات پر غور کریں گے جن میں یہوواہ نے فروتنی ظاہر کی اور دیکھیں گے کہ اِن میں ہمارے لیے کون سے اہم سبق پائے جاتے ہیں۔‏ پھر ہم غور کریں گے کہ ہم خاکساری کے حوالے سے بادشاہ ساؤل،‏ دانی‌ایل نبی اور یسوع مسیح سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏

ہم یہوواہ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

3.‏ یہوواہ خدا ہمارے ساتھ کیسے پیش آتا ہے اور اِس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏

3 یہوواہ خدا جس طرح سے اپنے عیب‌دار بندوں کے ساتھ پیش آتا ہے،‏ اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کتنا فروتن ہے۔‏ وہ نہ صرف ہماری عبادت کو قبول کرتا ہے بلکہ ہمیں اپنا دوست بھی خیال کرتا ہے۔‏ (‏زبور 25:‏14‏)‏ یہوواہ نے اپنے پیارے بیٹے کو قربان کرنے سے ہمارے آگے دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور یوں ہمارے لیے یہ ممکن بنایا کہ ہم اُس کے دوست بن سکیں۔‏ یہوواہ واقعی بڑا رحم‌دل اور ہمدرد ہے!‏

4.‏ یہوواہ نے ہمیں کون سی نعمت دی ہے اور کیوں؟‏

4 یہوواہ کی فروتنی کی ایک اَور مثال پر بھی غور کریں۔‏ اُس نے ہمیں بنایا ہے۔‏ اگر وہ چاہتا تو وہ ہمیں اِس طرح سے بنا سکتا تھا کہ ہم خود فیصلے نہ کریں۔‏ لیکن اُس نے ایسا نہیں کِیا۔‏ اُس نے ہم میں بھی وہی خوبیاں ڈالیں جو اُس میں ہیں او ر ہمیں خود فیصلہ کرنے کی آزادی دی۔‏ حالانکہ یہوواہ کے آگے ہم بہت چھوٹے اور کمزور ہیں لیکن ہم جو بھی فیصلے کرتے ہیں،‏ وہ اِنہیں بہت اہم خیال کرتا ہے۔‏ وہ ہم ادنیٰ اِنسانوں سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اِس وجہ سے اُس کی خدمت کریں کیونکہ ہم اُس سے محبت کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اُس کے حکم ماننے میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔‏ (‏اِست 10:‏12؛‏ یسع 48:‏17،‏ 18‏)‏ ہم یہوواہ کی اِس فروتنی کے لیے اُس کے بےحد شکرگزار ہیں۔‏

یسوع مسیح آسمان پر ہیں۔‏ اُن کے ساتھ اُن کے کچھ ساتھی حکمران کھڑے ہیں۔‏ وہ سب مل کر بےشمار فرشتوں کو دیکھ رہے ہیں۔‏ کچھ فرشتے اپنی ذمےداری کو پورا کرنے کے لیے زمین کی طرف جا رہے ہیں۔‏ یہوواہ خدا نے اُن سب کو اِختیار سونپا ہے جو تصویر میں نظر آ رہے ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 5 کو دیکھیں۔‏)‏

5.‏ یہوواہ ہمیں خاکسار بننا کیسے سکھاتا ہے؟‏ (‏سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

5 یہوواہ جس طرح سے ہمارے ساتھ پیش آتا ہے،‏ اُس سے وہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم خاکساری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ پوری کائنات میں یہوواہ سے زیادہ دانش‌مند کوئی نہیں۔‏ لیکن پھر بھی وہ دوسروں کی رائے کو خوشی سے قبول کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر یہوواہ نے اپنے بیٹے کو موقع دیا کہ وہ تمام چیزوں کو بنانے میں اُس کی مدد کرے۔‏ (‏امثا 8:‏27-‏30؛‏ کُل 1:‏15،‏ 16‏)‏ حالانکہ یہوواہ خدا لامحدود قدرت کا مالک ہے لیکن وہ دوسروں کو بھی ذمےداریاں سونپتا ہے۔‏ مثال کے طور پر اُس نے یسوع مسیح کو بادشاہ مقرر کِیا ہے اور وہ 1 لاکھ 44 ہزار اشخاص کو بھی مسیح کے ساتھ حکمرانی کرنے کے لیے کسی حد تک اِختیار دے گا۔‏ (‏لُو 12:‏32‏)‏ بِلاشُبہ یہوواہ نے یسوع کو بادشاہ اور کاہنِ‌اعظم کے طور پر خدمت کرنے کے لیے تربیت دی ہے۔‏ (‏عبر 5:‏8،‏ 9‏)‏ اور جو لوگ یسوع کے ساتھ حکمرانی کریں گے،‏ یہوواہ اُنہیں بھی اِس کام کی تربیت دے رہا ہے۔‏ لیکن وہ اُنہیں یہ ذمےداری سونپنے کے بعد اپنی نہیں چلائے گا بلکہ اُنہیں اپنے طریقے سے کام کرنے دے گا۔‏ اُسے اُن پر بھروسا ہے کہ وہ اُس کی مرضی کو ضرور پورا کریں گے۔‏—‏مکا 5:‏10‏۔‏

دوسروں کی تربیت کرنے اور اُنہیں ذمےداریاں سونپنے سے ہم یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 6،‏ 7 کو دیکھیں۔‏)‏ *

6،‏ 7.‏ ہم دوسروں کو ذمےداریاں سونپنے کے حوالے سے اپنے آسمانی باپ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

6 ہمارے آسمانی باپ کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔‏ لیکن وہ پھر بھی دوسروں کو ذمےداریاں سونپتا ہے۔‏ ذرا سوچیں کہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ہمارے لیے تو ایسا کرنا اَور بھی زیادہ ضروری ہے۔‏ مثال کے طور پر اگر آپ گھر کے سربراہ یا کلیسیا میں ایک بزرگ ہیں تو یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کو بھی کچھ ذمےداریاں سونپیں۔‏ اور ایسا کرنے کے بعد اُن کے ہر کام کو اپنی مرضی یا اپنے طریقے سے کرانے کی کوشش نہ کریں۔‏ اگر آپ یہوواہ کی طرح بنیں گے تو نہ صرف ایک کام پورا ہو پائے گا بلکہ آپ دوسروں کو بھی تربیت دے پائیں گے اور اُن کا اِعتماد بڑھا سکیں گے۔‏ (‏یسع 41:‏10‏)‏ وہ لوگ یہوواہ سے اَور کیا سیکھ سکتے ہیں جن کے پاس کسی حد تک اِختیار ہے؟‏

7 بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ خدا اِس بات میں بڑی دلچسپی رکھتا ہے کہ اُس کے وفادار فرشتے ایک معاملے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔‏ (‏1-‏سلا 22:‏19-‏22‏)‏ والدین!‏ آپ اِس حوالے سے یہوواہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ جب بھی ضروری ہو،‏ اپنے بچوں سے پوچھیں کہ اُن کے خیال میں فلاں کام کو کیسے کِیا جا سکتا ہے۔‏ اور اگر اُن کی رائے مناسب ہو تو اُس پر عمل کریں۔‏

8.‏ یہوواہ خدا ابراہام اور سارہ کے ساتھ صبر سے کیسے پیش آیا؟‏

8 یہوواہ کی فروتنی اِس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ وہ صبر سے کام لیتا ہے۔‏ مثال کے طور پر جب اُس کے بندے بڑے احترام سے اُس کے کسی فیصلے پر سوال اُٹھاتے ہیں تو وہ صبر سے اُن کی بات سنتا ہے۔‏ ایک بار جب یہوواہ نے ابراہام کو بتایا کہ وہ سدوم اور عمورہ کو تباہ کرنے والا ہے تو ابراہام نے یہوواہ کے اِس فیصلے پر سوال کیے۔‏ اُس وقت یہوواہ نے بڑے دھیان سے اُن کی بات سنی۔‏ (‏پید 18:‏22-‏33‏)‏ اور یاد کریں کہ وہ ابراہام کی بیوی سارہ کے ساتھ کیسے پیش آیا۔‏ جب سارہ خدا کے اِس وعدے پر ہنسیں کہ وہ بڑھاپے میں حاملہ ہوں گی تو وہ نہ تو اُن پر غصہ ہوا اور نہ ہی اُنہیں ڈانٹا۔‏—‏پید 18:‏10-‏14‏۔‏

9.‏ بزرگ اور والدین یہوواہ خدا سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

9 بزرگو اور والدین!‏ آپ یہوواہ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ آپ اُس وقت کیا کریں گے جب کوئی آپ کے فیصلوں پر سوال اُٹھاتا ہے؟‏ کیا آپ فوراً اُن کی اِصلاح کریں گے؟‏ یا کیا آپ یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اُنہوں نے یہ سوال کیوں اُٹھایا ہے؟‏ جب بزرگ اور والدین یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہیں تو اُن کے گھر والوں اور کلیسیا کے بہن بھائیوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔‏ ابھی تک ہم نے دیکھا کہ ہم خاکساری ظاہر کرنے کے حوالے سے یہوواہ سے کیا سیکھتے ہیں۔‏ آئیں،‏ اب خاکساری کے سلسلے میں بائبل میں درج کچھ لوگوں کی مثالوں پر غور کریں۔‏

ہم دوسروں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

10.‏ یہوواہ دوسرے لوگوں کی مثالوں کے ذریعے ہمیں کیسے سکھاتا ہے؟‏

10 ہمارے عظیم ”‏مُعلم“‏ یہوواہ نے اپنے کلام میں ایسی مثالیں درج کروائی ہیں جن سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ (‏یسع 30:‏20،‏ 21‏)‏ مثال کے طور پر جب ہم پاک کلام میں ایسے لوگوں کی زندگی پر غور کرتے ہیں جنہوں نے خدا جیسی خوبیاں ظاہر کیں جیسے کہ خاکساری کی خوبی تو ہمیں بہت فائدہ ہوتا ہے۔‏ ہم اُن لوگوں کی مثال سے بھی بہت سے سبق سیکھ سکتے ہیں جنہوں نے اِن شان‌دار خوبیوں کو ظاہر نہیں کِیا۔‏—‏زبور 37:‏37؛‏ 1-‏کُر 10:‏11‏۔‏

11.‏ ہم ساؤل کی مثال سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

11 ذرا غور کریں کہ بادشاہ ساؤل کے ساتھ کیا ہوا۔‏ جب وہ جوان تھے تو وہ بہت خاکسار تھے۔‏ اُس وقت وہ یہ تسلیم کرتے تھے کہ وہ ہر کام نہیں کر سکتے،‏ یہاں تک کہ وہ زیادہ ذمےداریاں لینے سے بھی ہچکچاتے تھے۔‏ (‏1-‏سمو 9:‏21؛‏ 10:‏20-‏22‏)‏ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ساؤل مغرور ہو گئے۔‏ اُن کا یہ غرور بادشاہ بننے کے تھوڑے ہی عرصے بعد نظر آنے لگا۔‏ مثال کے طور پر ایک مرتبہ جب سموئیل نبی کے آنے میں دیر ہو گئی تو ساؤل نے بےصبری کا مظاہرہ کِیا۔‏ اُنہوں نے خاکساری سے اِس بات پر بھروسا نہیں کیا کہ یہوواہ اپنے بندوں کی حفاظت کرے گا۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے خدا کے حضور سوختنی قربانی چڑھا دی جسے چڑھانے کا اِختیار اُن کے پاس نہیں تھا۔‏ اِس وجہ سے اُنہوں نے یہوواہ کی خوشنودی کھو دی اور اُس نے اُنہیں بادشاہ کے طور پر رد کر دیا۔‏ (‏1-‏سمو 13:‏8-‏14‏)‏ یہ بڑی سمجھ‌داری کی بات ہو گی کہ ہم اِس مثال سے سبق سیکھیں اور غرور میں آ کر کوئی بھی ایسا کام نہ کریں جسے کرنے کا اِختیار ہمارے پاس نہیں ہے۔‏

12.‏ دانی‌ایل نے خاکساری کیسے ظاہر کی؟‏

12 ساؤل کے برعکس دانی‌ایل نبی نے بہت اچھی مثال قائم کی۔‏ وہ ساری زندگی خاکسار رہے اور اُنہوں نے رہنمائی کے لیے ہمیشہ یہوواہ پر آس لگائی۔‏ مثال کے طور پر جب دانی‌ایل نے یہوواہ کی مدد سے نبوکدنضر کے خواب کی صحیح وضاحت کی تو اُنہوں نے تعریف کا سہرا اپنے سر نہیں باندھا۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے بڑی خاکساری سے یہوواہ کی بڑائی کی اور اُسے عزت دی۔‏ (‏دان 2:‏26-‏28‏)‏ ہم اِس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ یہ کہ اگر بہن بھائیوں کو ہماری تقریریں سننے میں مزہ آتا ہے یا ہمیں مُنادی میں اچھے تجربے حاصل ہوتے ہیں تو ہمیں یہوواہ کی بڑائی کرنا نہیں بھولنا چاہیے۔‏ ہمیں خاکساری سے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم یہ سب کچھ اُس کی مدد کے بغیر نہیں کر سکتے۔‏ (‏فل 4:‏13‏)‏ اگر ہم ایسی سوچ اپنائیں گے تو ہم یسوع مسیح کی مثال پر بھی عمل کر رہے ہوں گے۔‏ وہ کیسے؟‏

13.‏ یسوع مسیح نے یوحنا 5:‏19،‏ 30 میں جو بات کہی،‏ اُس سے ہم خاکساری کے حوالے سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

13 حالانکہ یسوع مسیح بےعیب تھے لیکن اُنہوں نے ہر معاملے میں یہوواہ پر بھروسا کِیا۔‏ ‏(‏یوحنا 5:‏19،‏ 30 کو پڑھیں۔‏)‏ اُنہوں نے کبھی بھی اپنے آسمانی باپ کے اِختیار پر قبضہ جمانے کی کوشش نہیں کی۔‏ فِلپّیوں 2:‏6 میں بتایا گیا ہے کہ یسوع مسیح کے دل میں ”‏کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ خدا کے اِختیار کو چھین کر اُس کے برابر بنیں۔‏“‏ ایک تابع‌دار بیٹے کے طور پر یسوع مسیح نے اپنے باپ کے اِختیار کے لیے احترام ظاہر کِیا اور اپنے اِختیار کی حد کو سمجھا۔‏

یسوع مسیح اپنے اِختیار کی حد کو سمجھتے تھے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 14 کو دیکھیں۔‏)‏

14.‏ جب یسوع مسیح سے ایک ایسے کام کی درخواست کی گئی جسے کرنا اُن کے اِختیار میں نہیں تھا تو اُنہوں نے کیا کِیا؟‏

14 ذرا اُس واقعے پر غور کریں جب یعقوب اور یوحنا اپنی ماں کے ساتھ یسوع مسیح کے پاس آئے اور اُن سے ایک ایسے کام کی درخواست کی جسے کرنا یسوع کے اِختیار میں نہیں تھا۔‏ یسوع نے بِلا جھجک اُن سے کہا کہ یہ فیصلہ کرنے کا حق صرف اُن کے باپ کے پاس ہے کہ کون اُن کی بادشاہت میں اُن کی دائیں اور بائیں طرف بیٹھے گا۔‏ (‏متی 20:‏20-‏23‏)‏ یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ وہ اپنے اِختیار کی حد کو سمجھتے تھے۔‏ وہ بہت خاکسار تھے۔‏ اُنہوں نے کبھی بھی وہ کام کرنے کی کوشش نہیں کی جس کا اِختیار یہوواہ نے اُنہیں نہیں دیا تھا۔‏ (‏یوح 12:‏49‏)‏ ہم یسوع مسیح کی شان‌دار مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

ہم یسوع مسیح کی طرح خاکسار کیسے بن سکتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف نمبر 15،‏ 16 کو دیکھیں۔‏)‏ *

15،‏ 16.‏ ہم 1-‏کُرنتھیوں 4:‏6 میں درج نصیحت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

15 جب ہم 1-‏کُرنتھیوں 4:‏6 میں لکھی نصیحت پر عمل کرتے ہیں تو ہم یسوع مسیح کی طرح خاکساری ظاہر کرتے ہیں۔‏ اِس آیت میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏لکھی ہوئی باتوں سے آگے نہ بڑھیں۔‏“‏ لہٰذا جب کوئی شخص ہم سے مشورہ مانگتا ہے تو ہم کبھی بھی اپنی سوچ کو بڑھاوا نہیں دیں گے اور نہ ہی اُس پر اپنے نظریات تھوپنے کی کوشش کریں گے۔‏ اِس کی بجائے ہم اُس کی توجہ اُن مشوروں اور ہدایات پر دِلائیں گے جو بائبل اور اِس پر مبنی کتابوں اور رسالوں میں درج ہیں۔‏ یوں ہم ظاہر کریں گے کہ ہم سب باتوں کے بارے میں نہیں جانتے اور خاکساری سے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ صرف اور صرف یہوواہ کے ’‏فیصلے راست‘‏ہیں۔‏—‏مکا 15:‏3،‏ 4‏۔‏

16 بِلاشُبہ ہم اِس وجہ سے خاکساری ظاہر کرتے ہیں کیونکہ ہم یہوواہ کی بڑائی کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس خاکساری ظاہر کرنے کی اَور بھی بہت سے وجوہات ہیں۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ خاکسار رہنے سے ہمیں خوشی کیسے ملتی ہے اور ہم دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کے قابل کیسے ہوتے ہیں۔‏

خاکسار ہونے کے فائدے

17.‏ جو لوگ خاکساری ظاہر کرتے ہیں،‏ وہ زیادہ خوش کیوں رہتے ہیں؟‏

17 جب ہم خاکساری ظاہر کرتے ہیں تو ہم زیادہ خوش رہتے ہیں۔‏ وہ کیسے؟‏ کیونکہ جب ہم اِس بات کو سمجھتے ہیں کہ کچھ کاموں کو کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے تو ہم خوشی سے دوسروں کی مدد کو قبول کرتے ہیں اور اِس کے لیے اُن کے شکرگزار ہوتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ذرا اُس واقعے کو یاد کریں جب یسوع مسیح نے دس کوڑھیوں کو شفا دی تھی۔‏ اِن میں سے صرف ایک کوڑھی یسوع کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اُن کے پاس آیا۔‏ کیوں؟‏ کیونکہ وہ اِس بات کو سمجھتا تھا کہ اگر یسوع اُسے شفا نہ دیتے تو وہ خود اپنی ہول‌ناک بیماری سے چھٹکارا نہیں پا سکتا تھا۔‏ وہ آدمی خاکسار تھا اِس لیے اُس نے یسوع کی مدد کے لیے اُن کا شکریہ ادا کِیا اور خدا کی بڑائی کی۔‏—‏لُو 17:‏11-‏19‏۔‏

18.‏ خاکساری کی خوبی ہمیں دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کے قابل کیسے بناتی ہے؟‏ (‏رومیوں 12:‏10‏)‏

18 خاکسار لوگوں کی دوسروں سے اچھی بنتی ہے اور عام طور پر اُن کے دوست بھی زیادہ ہوتے ہیں۔‏ کیوں؟‏ کیونکہ وہ دل سے دوسروں کی خوبیوں کو تسلیم کرتے ہیں اور اُن پر بھروسا کرتے ہیں۔‏ جب دوسرے اپنی ذمےداریوں کو اچھی طرح نبھاتے ہیں تو خاکسار لوگوں کو اِس سے خوشی ملتی ہے اور وہ اُن کی تعریف کرنے اور اُن کے لیے عزت ظاہر کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔‏‏—‏رومیوں 12:‏10 کو پڑھیں۔‏

19.‏ غرور سے بچنے کی کچھ وجوہات کیا ہیں؟‏

19 خاکسار لوگوں کے برعکس مغرور لوگوں کو دوسروں کی تعریف کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔‏ وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے صرف اُن کی تعریف کریں۔‏ وہ دوسروں سے اپنا مقابلہ کرتے ہیں اور خود کو اُن سے بہتر ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔‏ وہ دوسروں کو تربیت دینے یا اُنہیں ذمےداریاں سونپنے کی بجائے یہ سوچتے ہیں:‏ ”‏اِس کام کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔‏“‏ ایک مغرور شخص دوسروں سے زیادہ اہم بننا چاہتا ہے اور اگر کوئی کسی کام کو اُس سے زیادہ اچھی طرح کرتا ہے تو وہ اُس سے جلتا ہے۔‏ (‏گل 5:‏26‏)‏ ایسے لوگوں کی دوسروں کے ساتھ دوستی زیادہ دیر تک نہیں چلتی۔‏ اگر ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم میں ذرا سا بھی غرور ہے تو ہمیں یہوواہ سے اِلتجا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں ”‏اپنی سوچ کا رُخ“‏ موڑنے کے قابل بنائے تاکہ غرور ہماری شخصیت کا حصہ نہ بنے۔‏—‏روم 12:‏2‏۔‏

20.‏ ہمیں خاکسار کیوں بننا چاہیے؟‏

20 ہم یہوواہ کے بےحد شکرگزار ہیں کہ اُس نے فروتنی ظاہر کرنے کے حوالے سے اِتنی شان‌دار مثال قائم کی ہے!‏ جس طرح سے وہ اپنے بندوں کے ساتھ پیش آتا ہے،‏ اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کتنا فروتن ہے۔‏ ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم بھی اُس کی طرح فروتن بنیں۔‏ ہم بائبل میں درج ایسے بندوں کی مثال پر بھی عمل کرنا چاہتے ہیں جو خاکساری سے خدا کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔‏ آئیں،‏ ہم ہمیشہ یہوواہ کی بڑائی اور عزت کرتے رہیں جس کا وہ حق‌دار ہے۔‏ (‏مکا 4:‏11‏)‏ پھر ہم بھی اپنے آسمانی باپ کے ساتھ چلنے کے لائق ہوں گے جو خاکسار لوگوں سے محبت کرتا ہے۔‏

گیت نمبر 123‏:‏ تابع‌دار ہوں

^ پیراگراف 5 ایک خاکسار شخص رحم‌دل اور ہمدرد ہوتا ہے۔‏ لہٰذا یہوواہ کے بارے میں یہ کہنا بالکل موزوں ہے کہ وہ فروتن ہے۔‏ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم خاکساری ظاہر کرنے کے سلسلے میں یہوواہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم اِس بات پر بھی غور کریں گے کہ بادشاہ ساؤل،‏ دانی‌ایل نبی اور یسوع مسیح نے خاکساری کی خوبی کیسے ظاہر کی اور ہم اُن سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 58 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک بزرگ وقت نکال کر ایک جوان بھائی کی تربیت کر رہا ہے۔‏ وہ اُسے سکھا رہا ہے کہ وہ کلیسیا کے مُنادی کے علاقے کا ریکارڈ رکھنے کی ذمےداری کیسے نبھا سکتا ہے۔‏ بعد مَیں وہ بزرگ اُس بھائی کے ہر کام کو اپنی مرضی سے کرانے کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ اُسے اپنے طریقے سے کام کرنے دے رہا ہے۔‏

^ پیراگراف 62 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک بہن ایک بزرگ سے پوچھ رہی ہے کہ کیا وہ ایک ایسی شادی میں جا سکتی ہے جو چرچ میں ہوگی۔‏ وہ بزرگ اپنی طرف سے کوئی مشورہ دینے کی بجائے اُس کی توجہ بائبل میں درج کچھ اصولوں پر دِلا رہا ہے۔‏