مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 47

کیا آپ اپنی اِصلاح کرتے رہیں گے؟‏

کیا آپ اپنی اِصلاح کرتے رہیں گے؟‏

‏’‏آخر میں بھائیو،‏ آئندہ بھی اپنی اِصلاح کریں۔‏‘‏‏—‏2-‏کُر 13:‏11‏۔‏

گیت نمبر 54‏:‏ ‏”‏راہ یہی ہے“‏

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ متی 7:‏13،‏ 14 کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتائیں کہ ہم کس لحاظ سے ایک سفر پر رواں دواں ہیں۔‏

ہم سب ایک سفر پر رواں دواں ہیں اور ہماری منزل نئی دُنیا ہے جس پر ہمارا شفیق آسمانی باپ یہوواہ حکمرانی کرے گا۔‏ ہم ہر دن اُس راہ پر چلنے کی پوری کوشش کرتے ہیں جو زندگی کی طرف لے جاتی ہے۔‏لیکن جیسا کہ یسوع نے کہا،‏ یہ راہ بہت تنگ ہے اور کبھی کبھار اِس پر چلنا بہت مشکل ہو سکتا ہے۔‏ ‏(‏متی 7:‏13،‏ 14 کو پڑھیں۔‏)‏ عیب‌دار ہونے کی وجہ سے ہم آسانی سے اِس راہ سے بھٹک سکتے ہیں۔‏—‏گل 6:‏1‏۔‏

2.‏ اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟‏ (‏بکس ”‏ خاکساری کی خوبی ہمیں اِصلاح کو قبول کرنے کے قابل بناتی ہے‏“‏ کو بھی دیکھیں۔‏)‏

2 اگر ہم زندگی کی طرف لے جانے والے تنگ راستے پر چلتے رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ،‏ اپنے رویے اور طورطریقوں کو بدلنے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔‏ پولُس رسول نے کُرنتھس میں رہنے والے مسیحیوں کو نصیحت کی کہ وہ ”‏اپنی اِصلاح“‏ کرتے رہیں۔‏ (‏2-‏کُر 13:‏11‏)‏ یہ نصیحت آج ہم پر بھی لاگو ہوتی ہے۔‏ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ خدا کا کلام ہمیں خود کو بدلنے کے قابل کیسے بنا سکتا ہے اور روحانی لحاظ سے پُختہ بہن بھائی زندگی کی راہ پر چلتے رہنے میں ہماری مدد کیسے کر سکتے ہیں۔‏ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ کبھی کبھار ہمیں یہوواہ کی تنظیم کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں پر عمل کرنا مشکل کیوں لگ سکتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ ہم اِس بات پر بھی غور کریں گے کہ خاکساری کی خوبی کی مدد سے ہم اپنی خوشی کھوئے بغیر اپنی سوچ،‏ اپنے رویے اور طورطریقوں کو کیسے بدل سکتے ہیں۔‏

خدا کے کلام سے اپنی اِصلاح کریں

3.‏ خدا کا کلام ہمیں کس قابل بنا سکتا ہے؟‏

3 اپنے خیالات اور جذبات کا جائزہ لینا آسان نہیں ہوتا۔‏ کیوں؟‏ کیونکہ ہمارا دل حیلے باز ہے جس کی وجہ سے ہمارے لیے یہ جاننا مشکل ہو سکتا ہے کہ یہ ہمیں کس راہ پر لے جائے گا۔‏ (‏یرم 17:‏9‏)‏ ہم بڑی آسانی سے اِس کے فریب میں آ سکتے ہیں۔‏ (‏یعقو 1:‏22‏)‏ لہٰذا ہمیں خدا کے کلام کی مدد سے اپنا جائزہ لینا چاہیے جو ہمارے دل کے خیالوں اور اِرادوں کو جانچتا ہے۔‏ (‏عبر 4:‏12،‏ 13‏)‏ یہ ایک لحاظ سے ایکسرے مشین کی طرح ہے۔‏ جس طرح ایکسرے مشین کے ذریعے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک اِنسان کے جسم کے اندر کیا چل رہا ہے اُسی طرح بائبل کی مدد سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہم اندر سے کیسے اِنسان ہیں۔‏ لیکن اگر ہم خدا کے کلام میں پائی جانے والی مشورت یا خدا کے بندوں کی طرف سے ملنے والی نصیحت سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خاکسار ہونے کی ضرورت ہے۔‏

4.‏ یہ کیسے ظاہر ہوا کہ بادشاہ ساؤل ایک مغرور شخص بن گئے تھے؟‏

4 بادشاہ ساؤل کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ہم خاکساری سے کام نہیں لیتے تو اِس کا کیا انجام ہوتا ہے۔‏ ساؤل اِس قدر مغرور ہو گئے کہ وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں تھے کہ اُنہیں اپنی سوچ اور اپنے طورطریقوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔‏ (‏زبور 36:‏1،‏ 2؛‏ حبق 2:‏4‏)‏ یہ بات اُس وقت صاف دِکھائی دی جب ساؤل عمالیقیوں سے جنگ لڑ کر آئے۔‏ یہوواہ نے ساؤل کو ہدایات دی تھیں کہ اُنہیں عمالیقیوں کو شکست دینے کے بعد کیا کرنا ہے۔‏ لیکن ساؤل نے اِن ہدایتوں کو نظرانداز کر دیا۔‏ اور جب سموئیل نبی نے ساؤل کو اُن کی غلطی کا احساس دِلانے کی کوشش کی تو ساؤل اپنی غلطی ماننے کی بجائے صفائیاں دینے لگے اور یہ تاثر دیا کہ اُنہوں نے جو کِیا،‏ وہ اِتنا سنگین نہیں تھا۔‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے اپنی غلطی دوسروں کے سر ڈالنے کی کوشش کی۔‏ (‏1-‏سمو 15:‏13-‏24‏)‏ اِس سے پہلے بھی ساؤل نے اِسی طرح کا رویہ ظاہر کِیا تھا۔‏ (‏1-‏سمو 13:‏10-‏14‏)‏ افسوس کی بات ہے کہ اُنہوں نے اپنی سوچ کو درست کرنے کی بجائے اپنے دل میں غرور کو گھر کرنے دیا۔‏ اِس لیے یہوواہ نے اُنہیں ملامت کی اور رد کر دیا۔‏

5.‏ ہم ساؤل سے کیا عبرت حاصل کر سکتے ہیں؟‏

5 ساؤل سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ہم خود سے ایسے سوال پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏جب مَیں خدا کے کلام میں کوئی ایسی نصیحت پڑھتا ہوں جو مجھ پر لاگو ہوتی ہے تو کیا مَیں اُس پر عمل نہ کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہوں؟‏ کیا مَیں یہ سوچتا ہوں کہ میری غلطی اِتنی سنگین نہیں ہے؟‏ کیا مَیں اپنی غلطی کو دوسروں کے سر ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں؟‏“‏ اگر ہم اِن میں سے کسی بھی سوال کا جواب ہاں میں دیتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ اور رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔‏ ورنہ ہمارے دل میں غرور بس سکتا ہے جس کی وجہ سے یہوواہ ہمیں اپنے دوستوں کے طور پر رد کر دے گا۔‏—‏یعقو 4:‏6‏۔‏

6.‏ بتائیں کہ بادشاہ ساؤل اور بادشاہ داؤد میں کیا فرق تھا۔‏

6 غور کریں کہ بادشاہ داؤد،‏ بادشاہ ساؤل سے کتنے فرق تھے۔‏ داؤد ”‏[‏یہوواہ]‏ کی شریعت“‏ سے بےحد محبت کرتے تھے۔‏ (‏زبور 1:‏1-‏3‏)‏ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ خاکسار لوگوں کو بچاتا ہے جبکہ مغروروں کی مخالفت کرتا ہے۔‏ (‏2-‏سمو 22:‏28‏)‏ اِس لیے وہ یہوواہ کی شریعت کے ذریعے اپنی سوچ کو بدلتے رہے۔‏ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏مَیں [‏یہوواہ]‏ کی حمد کروں گا جس نے مجھے نصیحت دی ہے بلکہ میرا دل رات کو میری تربیت کرتا ہے۔‏“‏—‏زبور 16:‏7‏۔‏

خدا کا کلام

جب ہم سیدھی راہ سے بھٹکنے کے خطرے میں ہوتے ہیں تو خدا کا کلام ہمیں خبردار کرتا ہے۔‏ اگر ہم خاکسار ہیں تو ہم خدا کے کلام کے ذریعے اپنی غلط سوچ کو درست کریں گے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 7 کو دیکھیں۔‏)‏

7.‏ اگر ہم خاکسار ہیں تو ہم کیا کریں گے؟‏

7 اگر ہم خاکسار ہیں تو ہم اپنی غلط سوچ کو خدا کے کلام کے ذریعے بدل لیں گے تاکہ ہم کوئی غلط قدم نہ اُٹھائیں۔‏ خدا کا کلام ایک آواز کی طرح ہے جو ہم سے کہتی ہے:‏ ”‏راہ یہی ہے اِس پر چل۔‏“‏ یہ ہمیں اُس وقت صحیح سمت جانے کی آگاہی دیتی ہے جب ہم سیدھی راہ سے بھٹکنے کے خطرے میں ہوتے ہیں۔‏ (‏یسع 30:‏21‏)‏ یہوواہ کی بات سننے سے ہمیں بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔‏ (‏یسع 48:‏17‏)‏ مثال کے طور پر ہم اُس شرمندگی سے بچ جاتے ہیں جو دوسروں کے اِصلاح کرنے پر ہمیں محسوس ہو سکتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ ہم یہوواہ کے اَور قریب ہو جاتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ایک باپ کی طرح ہماری فکر رکھتا ہے۔‏—‏عبر 12:‏7‏۔‏

8.‏ یعقوب 1:‏22-‏25 کے مطابق خدا کا کلام کس لحاظ سے شیشے کی طرح ہے؟‏

8 خدا کا کلام ہمارے لیے ایک شیشے کا کام کر سکتا ہے۔‏ ‏(‏یعقوب 1:‏22-‏25 کو پڑھیں۔‏)‏ غالباً ہم میں سے زیادہ‌تر ہر روز گھر سے نکلنے سے پہلے خود کو شیشے میں دیکھتے ہیں۔‏ یوں اگر ہمیں اپنے حُلیے کو تھوڑا بہت ٹھیک کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو ہم دوسروں کے دیکھنے سے پہلے ہی ایسا کر لیتے ہیں۔‏ اِسی طرح اگر ہم خدا کے کلام کو ہر روز پڑھیں گے تو ہم ایسی باتیں دیکھ پائیں گے جن میں ہمیں اپنی سوچ اور رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔‏ بہت سے بہن بھائی ہر صبح گھر سے نکلنے سے پہلے روزانہ کی آیت کو پڑھتے ہیں۔‏ یوں وہ دن کے دوران اُس پر سوچ بچار کر سکتے اور ایسے موقعے ڈھونڈ سکتے ہیں جب وہ اِن باتوں پر عمل کر سکیں۔‏ روزانہ کی آیت پڑھنے کے علاوہ ہمیں ہر روز خدا کے کلام کو پڑھنے اور اِس پر سوچ بچار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔‏ شاید ہمیں لگے کہ یہ اِتنی بڑی بات نہیں۔‏ لیکن یہ زندگی کی طرف لے جانے والے تنگ راستے پر چلتے رہنے کے لیے بہت لازمی ہے۔‏

بہن بھائیوں کی طرف سے ملنے والی اِصلاح کو قبول کریں

پُختہ مسیحی

جب ایک پُختہ مسیحی ہماری اِصلاح کرتا ہے تو کیا ہم اِس بات کے لیے اُس کے شکرگزار ہوتے ہیں کہ اُس نے ہمت جٹا کر ہم سے بات کی؟‏ (‏پیراگراف نمبر 9 کو دیکھیں۔‏)‏

9.‏ ایک بھائی یا بہن کو کس صورت میں آپ کی اِصلاح کرنی پڑ سکتی ہے؟‏

9 کیا آپ کبھی کسی ایسی راہ پر چل نکلے جس سے یہوواہ کے ساتھ آپ کی دوستی داؤ پر لگ گئی؟‏ (‏زبور 73:‏2،‏ 3‏)‏ اگر کسی بہن یا بھائی نے ہمت جٹا کر آپ کی اِصلاح کی تو کیا آپ نے اُس کی بات سنی اور اُس کے مشورے پر عمل کِیا؟‏ اگر آپ نے ایسا کِیا تھا تو آپ نے بالکل صحیح کِیا۔‏ یقیناً آپ اُس پُختہ مسیحی کے بہت شکرگزار رہے ہوں گے جس نے آپ کو خطرے سے بچا لیا۔‏—‏امثا 1:‏5‏۔‏

10.‏ اگر کوئی بہن یا بھائی آپ کی اِصلاح کرتا ہے تو آپ کا ردِعمل کیا ہونا چاہیے؟‏

10 خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ ”‏جو زخم دوست کے ہاتھ سے لگیں پُروفا ہیں۔‏“‏ (‏امثا 27:‏6‏)‏ یہ بات کس لحاظ سے سچ ہے؟‏ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ فرض کریں کہ آپ ایک سڑک پار کرنے کا اِنتظار کر رہے ہیں جس پر گاڑیوں کا کافی رش ہے۔‏ لیکن اِس دوران آپ اپنے موبائل پر کوئی میسج پڑھنے لگتے ہیں۔‏ آپ بِنا دیکھے سڑک پار کرنے کے لیے قدم اُٹھاتے ہی ہیں کہ آپ کا دوست آپ کا بازو پکڑ کر آپ کو اپنی طرف فٹ‌پاتھ پر کھینچ لیتا ہے۔‏ وہ اِتنی مضبوطی سے آپ کا بازو پکڑتا ہے کہ آپ کو نشان پڑ جاتے ہیں۔‏ لیکن اُس کے ایسا کرنے سے آپ گاڑی کے نیچے آنے سے بچ جاتے ہیں۔‏ حالانکہ اُس کے زور سے کھینچنے کی وجہ سے آپ کو بعد میں کئی دنوں تک بازو میں درد رہتا ہے لیکن کیا آپ اِس وجہ سے اُس سے ناراض ہو جائیں گے؟‏ بالکل نہیں بلکہ آپ تو اُس کے شکرگزار ہوں گے کہ اُس نے آپ کو خطرے سے بچا لیا۔‏ اِسی طرح جب کوئی بہن یا بھائی آپ کو اِس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ آپ کا کوئی کام یا بات خدا کے معیاروں کے مطابق نہیں ہے تو شاید شروع میں آپ کو اُس کی بات سے تکلیف پہنچے۔‏ لیکن اِس وجہ سے اُس سے خفا نہ ہوں کیونکہ ایسا کرنا سراسر بےوقوفی ہوگی۔‏ (‏واعظ 7:‏9‏)‏ اِس کی بجائے اُس بہن یا بھائی کے شکرگزار ہوں کہ اُس نے ہمت باندھ کر آپ سے بات کی۔‏

11.‏ بعض لوگ کس وجہ سے اپنے دوستوں کی طرف سے ملنے والی اِصلاح کو رد کر دیتے ہیں؟‏

11 بعض لوگ کس وجہ سے اپنے دوستوں کی طرف سے ملنے والی اِصلاح کو رد کر دیتے ہیں؟‏ غرور کی وجہ سے۔‏ مغرور لوگ ”‏سچائی پر دھیان“‏ دینے کی بجائے ایسی باتوں کو سننا پسند کرتے ہیں ”‏جو اُن کے کانوں کو بھلی“‏لگتی ہیں۔‏ (‏2-‏تیم 4:‏3،‏ 4‏)‏ وہ خود کو دوسروں سے زیادہ دانش‌مند یا اہم سمجھتے ہیں اِس لیے اُنہیں لگتا ہے کہ اُنہیں کسی کی نصیحت یا مشورے کی ضرورت نہیں۔‏ لیکن پولُس رسول نے کہا تھا:‏ ”‏اگر کوئی شخص اپنے آپ کو اہم سمجھتا ہے حالانکہ وہ اہم نہیں ہے تو وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔‏“‏ (‏گل 6:‏3‏)‏ بادشاہ سلیمان نے بھی اِس حوالے سے کہا:‏ ”‏مسکین اور دانش‌مند لڑکا اُس بوڑھے بےوقوف بادشاہ سے جس نے نصیحت سننا ترک کر دیا بہتر ہے۔‏“‏—‏واعظ 4:‏13‏۔‏

12.‏ ہم گلتیوں 2:‏11-‏14 میں درج پطرس رسول کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

12 ذرا پطرس رسول کی مثال پر غور کریں جن کی پولُس رسول نے سب لوگوں کے سامنے اِصلاح کی۔‏ ‏(‏گلتیوں 2:‏11-‏14 کو پڑھیں۔‏)‏ پولُس نے جس وقت اور جس طرح سے پطرس کی اِصلاح کی،‏ اُس کی وجہ سے پطرس اُن سے خفا ہو سکتے تھے۔‏ لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کِیا۔‏ اُنہوں نے اِصلاح کو قبول کِیا اور اپنے دل میں پولُس کے لیے ناراضگی کو پلنے نہیں دیا۔‏ بعد میں تو اُنہوں نے اپنے ایک خط میں پولُس کا ذکر”‏عزیز بھائی“‏ کے طور پر کِیا۔‏—‏2-‏پطر 3:‏15‏۔‏

13.‏ کسی کی اِصلاح کرتے وقت ہمیں کن باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے؟‏

13 اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو اپنے دوست کی اِصلاح کرنے کی ضرورت ہے تو آپ کو کن باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے؟‏ اُس سے بات کرنے سے پہلے خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مَیں ’‏حد سے زیادہ نیک‘‏ تو نہیں بن رہا؟‏“‏ (‏واعظ 7:‏16‏)‏ جو شخص خود کو بہت نیک سمجھتا ہے،‏ وہ دوسروں کو یہوواہ کے معیاروں کی بجائے اپنے معیاروں کے مطابق پرکھتا ہے اور غالباً رحم ظاہر نہیں کر رہا ہوتا۔‏ اگر اپنا جائزہ لینے کے بعد آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو پھر بھی اپنے دوست سے بات کرنی چاہیے تو اُسے کُھل کر بتائیں کہ مسئلہ کیا ہے اور اُس سے ایسے سوال پوچھیں جس سے اُسے یہ سمجھنے میں مدد ملے کہ اُس نے جو کِیا،‏ وہ غلط کیوں ہے۔‏ اُس کی اِصلاح کرتے وقت اِس بات کا خیال رکھیں کہ آپ جو کچھ بھی کہیں،‏ وہ بائبل پر مبنی ہو۔‏ یاد رکھیں کہ آپ کا دوست یہوواہ کے حضور جواب‌دہ ہے نہ کہ آپ کے حضور۔‏ (‏روم 14:‏10‏)‏ جب آپ کسی کی اِصلاح کرتے ہیں تو خدا کے کلام میں پائی جانے والی دانش‌مندی پر بھروسا کریں اور یسوع کی طرح رحم ظاہر کریں۔‏ (‏امثا 3:‏5؛‏ متی 12:‏20‏)‏ یہ کیوں ضروری ہے؟‏ کیونکہ یہوواہ ہمارے ساتھ اُسی طرح پیش آئے گا جس طرح ہم دوسروں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔‏—‏یعقو 2:‏13‏۔‏

خدا کی تنظیم کی ہدایتوں پر عمل کریں

خدا کی تنظیم

خدا کی تنظیم ہمیں پاک کلام پر مبنی ویڈیوز،‏ کتابیں اور رسالے فراہم کرتی ہے اور ہمارے لیے اِجلاسوں کا بندوبست کرتی ہے۔‏ اِن کے ذریعے ہم بائبل میں پائی جانے والی ہدایتوں پر عمل کرنے کے قابل بنتے ہیں۔‏ کبھی کبھار گورننگ باڈی مُنادی کے کام کے حوالے سے کچھ ردوبدل کرتی ہے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 14 کو دیکھیں۔‏)‏

14.‏ خدا کی تنظیم زندگی کی راہ پر چلنے میں ہماری رہنمائی کیسے کرتی ہے؟‏

14 یہوواہ زندگی کی راہ پر ہماری رہنمائی کرنے کے لیے اپنی تنظیم کے زمینی حصے کو اِستعمال کرتا ہے۔‏ اُس کی تنظیم ہمیں پاک کلام پر مبنی ویڈیوز،‏ کتابیں اور رسالے فراہم کرتی ہے اور ہمارے لیے اِجلاسوں کا بندوبست کرتی ہے۔‏ اِن فراہمیوں کے ذریعے ہم بائبل میں پائی جانے والی ہدایتوں پر عمل کرنے کے قابل بنتے ہیں۔‏ جب گورننگ باڈی کے بھائی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ مُنادی کے کام کو اچھی طرح سے انجام دینے کے لیے کون سا طریقہ اپنایا جانا چاہیے تو وہ پاک روح پر بھروسا کرتے ہیں۔‏ لیکن اِس کے بعد بھی وہ اپنے فیصلوں پر باقاعدگی سے نظرثانی کرتے ہیں۔‏ کیوں؟‏ ’‏کیونکہ دُنیا کا منظر بدلتا رہتا ہے‘‏ اور اِس حساب سے خدا کی تنظیم کو اپنے کام کرنے کے طریقوں کو ڈھالنا پڑتا ہے۔‏—‏1-‏کُر 7:‏31‏۔‏

15.‏ کچھ مبشروں کو کس تبدیلی کو قبول کرنا مشکل لگا؟‏

15 بِلاشُبہ جب خدا کی تنظیم ہمیں بائبل کی تعلیم کے حوالے سے کوئی نئی وضاحت پیش کرتی ہے یا اخلاقی معیاروں کے سلسلے میں کوئی ہدایت دیتی ہے تو ہم اُسے خوشی خوشی قبول کرتے ہیں۔‏ لیکن اُس صورت میں ہمارا ردِعمل کیا ہوتا ہے جب تنظیم کوئی ایسا فیصلہ کرتی ہے جس کا اثر ہماری زندگی کے کسی اَور حلقے پر پڑتا ہے؟‏ مثال کے طور پر حالیہ سالوں میں ہماری عبادت‌گاہوں کی تعمیر اور مرمت کے خرچے میں کافی اِضافہ ہوا ہے۔‏ لہٰذا گورننگ باڈی نے ہدایت دی کہ ہر عبادت‌گاہ کا بھرپور اِستعمال کِیا جائے۔‏ اِسی وجہ سے بعض کلیسیاؤں کو ایک ساتھ ملا دیا گیا اور کچھ عبادت‌گاہوں کو بیچ دیا گیا۔‏اِس سے جو پیسہ بچا ہے،‏ اُسے ایسے علاقوں میں عبادت‌گاہیں بنانے کے لیے اِستعمال کِیا گیا ہے جہاں اُن کی اشد ضرورت ہے۔‏ اگر آپ ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں ہماری کچھ عبادت‌گاہوں کو بیچ دیا جاتا ہے اور کلیسیاؤں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے تو شاید آپ کو اِس نئی صورتحال کے مطابق خود کو ڈھالنا تھوڑا مشکل لگے۔‏ بعض مبشروں کو اب اِجلاس پر حاضر ہونے کے لیے پہلے کی نسبت زیادہ سفر کرنا پڑتا ہے۔‏ کچھ بہن بھائیوں نے کسی عبادت‌گاہ کی تعمیر یا اِس کی مرمت کے کام میں کافی محنت کی تھی۔‏شاید وہ سوچیں کہ ”‏اِس عبادت‌گاہ کو کیوں بیچ دیا گیا؟‏“‏ شاید اُنہیں لگے کہ اُن کا وقت اور اُن کی محنت فضول گئی ہے۔‏ لیکن اِس کے باوجود یہ بہن بھائی اِس تبدیلی میں تنظیم کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہے ہیں اور اُن کا یہ جذبہ واقعی قابلِ‌تعریف ہے۔‏

16.‏ کُلسّیوں 3:‏23،‏ 24 میں درج نصیحت پر عمل کرنے سے ہم اپنی خوشی برقرار رکھنے کے قابل کیسے ہوں گے؟‏

16 اگر ہم اِس بات کو یاد رکھتے ہیں کہ یہوواہ اپنی تنظیم کی رہنمائی کر رہا ہے اور ہم جو بھی کرتے ہیں،‏ وہ یہوواہ کے لیے ہے تو ہماری خوشی کبھی ماند نہیں پڑے گی۔‏ ‏(‏کُلسّیوں 3:‏23،‏ 24 کو پڑھیں۔‏)‏ بادشاہ داؤد نے اُس وقت ہمارے لیے بڑی اچھی مثال قائم کی جب اُنہوں نے ہیکل کی تعمیر کے لیے مال کا عطیہ دیا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں کون اور میرے لوگوں کی حقیقت کیا کہ ہم اِس طرح سے خوشی‌خوشی نذرانہ دینے کے قابل ہوں؟‏ کیونکہ سب چیزیں تیری طرف سے ملتی ہیں اور تیری ہی چیزوں میں سے ہم نے تجھے دیا ہے۔‏“‏ (‏1-‏توا 29:‏14‏)‏ جب ہم عطیات دیتے ہیں تو ہم یہوواہ کو وہی دے رہے ہوتے ہیں جو اُس نے ہمیں دیا ہے۔‏ لیکن پھر بھی جب ہم اپنا وقت،‏ اپنی توانائی اور مال‌واسباب یہوواہ کے کام کے لیے صرف کرتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتا ہے اور اِس کی قدر کرتا ہے۔‏—‏2-‏کُر 9:‏7‏۔‏

تنگ راستے پر چلتے رہیں

17.‏ آپ کو اُس وقت دل چھوٹا کیوں نہیں کرنا چاہیے اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو خود میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے؟‏

17 اگر ہم زندگی کی طرف لے جانے والے تنگ راستے پر چلتے رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں یسوع کے نقشِ‌قدم پر چلنا ہوگا۔‏ (‏1-‏پطر 2:‏21‏)‏ اُس وقت دل چھوٹا نہ کریں جب آپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی سوچ،‏ اپنے رویے یا طورطریقوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔‏ یہ تو بلکہ اچھی بات ہے کہ آپ ایسا محسوس کرتے ہیں کیونکہ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ یہوواہ کی ہدایت پر چلنا چاہتے ہیں۔‏ یاد رکھیں کہ یہوواہ جانتا ہے کہ ہم عیب‌دار ہیں اِس لیے وہ ہم سے اِس بات کی توقع نہیں کرتا کہ ہم مکمل طور پر یسوع کی مثال پر عمل کریں۔‏

18.‏ ہمیں اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟‏

18 آئیں،‏ ہم سب اپنا دھیان شان‌دار مستقبل پر رکھیں اور اپنی سوچ،‏ اپنے رویے اور طورطریقوں میں تبدیلی لانے کو تیار رہیں۔‏ (‏امثا 4:‏25؛‏ لُو 9:‏62‏)‏ خاکساری سے کام لیں،‏ اپنی خوشی کو برقرار رکھیں اور اپنی اِصلاح کرتے رہیں۔‏ (‏2-‏کُر 13:‏11‏)‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو ”‏خدا جو محبت اور اِطمینان کا بانی ہے،‏ [‏ہمارے]‏ ساتھ رہے گا۔‏“‏ پھر ہم نہ صرف اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے بلکہ ہمیں ابھی سفر کے دوران بھی مزہ آئے گا۔‏

گیت نمبر 34‏:‏ مَیں راستی کی راہ پر چلوں گا

^ پیراگراف 5 شاید ہم میں سے بعض کو اپنی سوچ،‏ اپنے رویے اور طورطریقوں کو بدلنا مشکل لگے۔‏ اِس مضمون میں بتایا جائے گا کہ ہم سب کو اپنی اِصلاح کرنے کی ضرورت کیوں ہے اور ایسا کرتے وقت ہم اپنی خوشی کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 77 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک جوان بھائی ایک اَور بھائی کو بتا رہا ہے کہ بُرا فیصلہ کرنے کی وجہ سے اُسے نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔‏ دائیں طرف بیٹھا بھائی اُس کی بات کو دھیان سے سُن رہا ہے اور سوچ رہا ہے کہ آیا اُسے اُس کی اِصلاح کرنی چاہیے یا نہیں۔‏