مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 48

اپنی نظریں مستقبل کی طرف رکھیں

اپنی نظریں مستقبل کی طرف رکھیں

‏”‏تیری آنکھیں سامنے ہی نظر کریں اور تیری پلکیں سیدھی رہیں۔‏“‏‏—‏امثا 4:‏25‏۔‏

گیت نمبر 77‏:‏ تاریکی میں روشنی

مضمون پر ایک نظر *

1-‏2.‏ ہم امثال 4:‏25 میں درج نصیحت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ کچھ مثالیں دیں۔‏

ذرا اِن فرضی صورتحال پر غور کریں۔‏ ایک عمررسیدہ بہن ماضی میں گزرے اچھے لمحوں کو یاد کرتی ہے۔‏ حالانکہ اب اُسے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن وہ اپنی پوری طاقت لگا کر یہوواہ کی جتنی خدمت کر سکتی ہے،‏ کر رہی ہے۔‏ (‏1-‏کُر 15:‏58‏)‏ وہ ہر دن خود کو اپنے پیاروں کے ساتھ نئی دُنیا میں تصور کرتی ہے جس کا خدا نے وعدہ کِیا ہے۔‏ ایک اَور بہن اُس وقت کو یاد کرتی ہے جب کسی ہم‌ایمان نے اُس کا دل دُکھایا تھا لیکن اُس نے اپنے دل سے ناراضگی کو نکال دیا۔‏ (‏کُل 3:‏13‏)‏ ایک بھائی اچھی طرح جانتا ہے کہ ماضی میں اُس نے کیا غلطیاں کی تھیں۔‏ لیکن وہ اپنی پوری توجہ اِس بات پر رکھتا ہے کہ اب سے وہ یہوواہ کا وفادار رہے گا۔‏—‏زبور 51:‏10‏۔‏

2 حالانکہ اِن تینوں مسیحیوں کو فرق فرق صورتحال کا سامنا ہے لیکن اِن میں کون سی بات ملتی جلتی ہے؟‏ تینوں کو اپنا ماضی یاد ہے لیکن وہ اِس میں جی نہیں رہے۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے اپنی نظریں سامنے یعنی مستقبل پر رکھی ہوئی ہیں۔‏‏—‏امثال 4:‏25 کو پڑھیں۔‏

3.‏ اپنی نظریں مستقبل پر رکھنا اِتنا ضروری کیوں ہے؟‏

3 اپنی نظریں مستقبل پر رکھنا اِتنا ضروری کیوں ہے؟‏ جس طرح بار بار پیچھے مُڑ کر دیکھنے والا شخص سیدھا نہیں چل سکتا اُسی طرح اگر ہم اپنے ماضی کو بار بار مُڑ کر دیکھتے ہیں تو ہم یہوواہ کی خدمت میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔‏—‏لُو 9:‏62‏۔‏

4.‏ اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟‏

4 اِس مضمون میں ہم تین باتوں پر غور کریں گے جو ماضی میں جینے کا باعث بن سکتی ہیں۔‏ * یہ تین باتیں (‏1‏)‏ خوش‌گوار یادیں،‏ (‏2‏)‏ دل میں ناراضگی اور (‏3‏)‏ شرمندگی کا احساس ہیں۔‏ اِن باتوں پر غور کرتے وقت ہم دیکھیں گے کہ بائبل کے اصول ہماری مدد کیسے کر سکتے ہیں کہ’‏ہم اُن باتوں کو بھول جائیں جنہیں ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور اُن باتوں کی طرف بڑھیں جو ہمارے سامنے ہیں۔‏‘‏—‏فل 3:‏13‏۔‏

خوش‌گوار یادیں

کن باتوں کی وجہ سے اپنی نظریں سامنے رکھنا مشکل ہو سکتا ہے؟‏ (‏پیراگراف نمبر 5،‏ 9،‏ 13 کو دیکھیں۔‏)‏ *

5.‏ واعظ 7:‏10 کے مطابق ہمیں کس بات سے خبردار رہنا چاہیے؟‏

5 واعظ 7:‏10 کو فٹ‌نوٹ سے پڑھیں۔‏ * غور کریں کہ آیت میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ”‏پُرانے دن اچھے کیوں تھے؟‏“‏ اچھی یادیں تو یہوواہ کی طرف سے ایک نعمت ہیں۔‏ دراصل آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ”‏پُرانے دن اِن دنوں سے بہتر کیوں تھے؟‏“‏ دوسرے لفظوں میں کہیں تو اگر ہم اپنے ماضی کا موازنہ اپنے حال سے کرتے ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اب پہلے جیسا کچھ بھی نہیں رہا تو یہ سوچ ہمارے لیے بوجھ بن سکتی ہے۔‏ جیسا کہ آیت میں آگے بتایا گیا ہے کہ ایسی باتوں کو ذہن میں آنے دینا ”‏عقل‌مندی نہیں ہے۔‏“‏

مصر چھوڑنے کے بعد بنی‌اِسرائیل پیچھے مُڑ کر دیکھنے لگے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 6 کو دیکھیں۔‏)‏

6.‏ ایک مثال دے کر بتائیں کہ یہ سوچتے رہنا عقل‌مندی کی بات کیوں نہیں کہ ماضی میں ہماری زندگی زیادہ اچھی تھی۔‏

6 یہ سوچتے رہنا عقل‌مندی کی بات کیوں نہیں کہ ماضی میں ہماری زندگی زیادہ خوش‌گوار تھی؟‏ ماضی کو یاد کرتے وقت شاید ہم صرف اچھی باتوں کے بارے میں ہی سوچیں اور یہ بھول جائیں کہ اُس وقت بھی ہمیں کچھ تلخیوں کا سامنا تھا۔‏ ذرا بنی‌اِسرائیل کی مثال پر غور کریں۔‏ مصر سے نکلنے کے بعد وہ جلد ہی اُن مصیبتوں کو بھول گئے جن کا اُنہیں وہاں سامنا تھا۔‏ اُن کا دھیان بس اِس بات پر تھا کہ وہاں رہتے وقت وہ کتنی مزے مزے کی چیزیں کھایا کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ہم کو وہ مچھلی یاد آتی ہے جو ہم مصرؔ میں مُفت کھاتے تھے اور ہائے وہ کھیرے اور وہ خربوزے اور وہ گندنے اور پیاز اور لہسن۔‏“‏ (‏گن 11:‏5‏)‏ لیکن کیا اُنہیں واقعی وہاں مُفت میں چیزیں کھانے کو مل رہی تھیں؟‏ نہیں۔‏ اِسرائیلیوں کو اِس کی بھاری قیمت چُکانی پڑ رہی تھی۔‏ وہ غلام تھے اور مصری اُن پر سخت ظلم ڈھاتے تھے۔‏ (‏خر 1:‏13،‏ 14؛‏ 3:‏6-‏9‏)‏ لیکن وہ اپنی مشکلوں کو بھول گئے اور اُن چیزوں کو یاد کر کے آہیں بھرنے لگے جو اُن کے پاس ہوا کرتی تھیں۔‏ اِسی وجہ سے اُن کا دھیان اُن کاموں سے ہٹ گیا جو یہوواہ نے اُن کے لیے کیے تھے۔‏ یہوواہ اُن کے رویے سے بالکل خوش نہیں تھا۔‏—‏گن 11:‏10‏۔‏

7.‏ کس بات نے ایک بہن کی مدد کی کہ وہ ماضی کی حسین یادوں میں کھوئی نہ رہے؟‏

7 ہم ماضی کی حسین یادوں میں کھوئے رہنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ اِس سلسلے میں ذرا ایک بہن کی مثال پر غور کریں جس نے 1945ء میں بروکلن بیت‌ایل میں خدمت کرنی شروع کی۔‏ کچھ سال بعد اُس کی شادی بیت‌ایل میں کام کرنے والے ایک بھائی سے ہو گئی اور وہاں اُن دونوں نے کافی سالوں تک مل کر یہوواہ کی خدمت کی۔‏ لیکن 1976ء میں اُس کا شوہر بیمار ہو گیا۔‏ بہن نے بتایا کہ جب اُس کے شوہر کو احساس ہوا کہ اُس کی موت قریب ہے تو اُس نے اُسے کچھ اچھے مشورے دیے جو بیوہ ہونے کے بعد بہن کے کام آئے۔‏ اُس کے شوہر نے اُس سے کہا:‏ ”‏ہماری شادی‌شُدہ زندگی بڑی خوش‌گوار رہی۔‏ یہ ایک ایسی برکت ہے جو ہر ایک کو نہیں ملتی۔‏“‏ البتہ اُس نے یہ بھی کہا:‏ ”‏یادیں تو ہوں گی لیکن گزرے ہوئے کل کی یادوں میں مت جینا۔‏ اپنے دل کو غم سے مت بھرنا۔‏ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدائی کا درد کم ہو جائے گا۔‏ گزرے ہوئے عرصے میں ہم نے بہت ساری خوشیاں اور برکتیں حاصل کی ہیں۔‏ ‏.‏ .‏ .‏ ایسی یادیں یہوواہ کی طرف سے ہمارے لیے ایک تحفہ ہوتی ہیں۔‏“‏ یہ نصیحت کتنی فائدہ‌مند ہے!‏

8.‏ چونکہ ہماری بہن ماضی میں نہیں جیتی رہی اِس لیے اُسے کیا فائدہ ہوا؟‏

8 بہن نے اپنے شوہر کے مشوروں پر عمل کِیا۔‏ وہ اپنی موت تک وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتی رہی۔‏ وہ 92 سال کی عمر میں فوت ہوئی۔‏ اپنی موت سے کچھ سال پہلے اُس نے کہا:‏ ”‏جب مَیں اُن 63 سالوں پر غور کرتی ہوں جو مَیں نے کُل‌وقتی طور پر خدا کی خدمت میں گزارے تو مَیں پورے یقین سے یہ کہہ سکتی ہوں کہ مَیں نے ایک مطمئن اور خوشیوں بھری زندگی گزاری ہے۔‏“‏ کیوں؟‏ اُس نے کہا:‏ ”‏جس بات نے میری زندگی کو واقعی خوش‌گوار بنایا،‏ وہ یہ ہے کہ مَیں ایک عالم‌گیر برادری کا حصہ ہوں اور مجھے یہ اُمید حاصل ہے کہ ایک دن مَیں فردوس میں اپنے پیارے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر ہمیشہ تک اپنے عظیم خالق یہوواہ کی خدمت کروں گی۔‏“‏ * اِس بہن نے اپنی نظریں مستقبل پر رکھنے کے حوالے سے ہمارے لیے کتنی اچھی مثال قائم کی!‏

دل میں ناراضگی

9.‏ احبار 19:‏18 کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتائیں کہ اپنے دل سے کسی شخص کے لیے ناراضگی نکالنا خاص طور پر کس صورت میں مشکل ہو سکتا ہے۔‏

9 احبار 19:‏18 کو پڑھیں۔‏ اگر ہمارا کوئی ہم‌ایمان،‏ قریبی دوست یا رشتےدار ہمارا دل دُکھاتا ہے تو اکثر ہمیں اُسے معاف کرنا اور اپنے دل سے اُس کے لیے ناراضگی نکالنا مشکل لگتا ہے۔‏ ذرا ایک بہن کے تجربے پر غور کریں جس پر اُس کی ہم‌ایمان نے پیسے چُرانے کا اِلزام لگایا۔‏ بعد مَیں اُس بہن نے آ کر معافی مانگی۔‏ لیکن جس بہن پر اُس نے غلط اِلزام لگایا تھا،‏ اُس نے اِس بات کو اپنے دل میں بٹھا لیا۔‏ کیا آپ کے ساتھ بھی کبھی ایسا ہوا ہے؟‏ شاید آپ ایسی صورتحال سے تو نہ گزرے ہوں لیکن کیا آپ کو کبھی ایسا لگا کہ آپ اپنے دل سے اُس شخص کے لیے ناراضگی کبھی نہیں نکال پائیں گے جس نے آپ کا دل دُکھایا ہے؟‏

10.‏ کون سی بات اپنے دل سے ناراضگی کو نکالنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏

10 کون سی بات اپنے دل سے ناراضگی کو نکالنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏ ہم یہ یاد رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا سب کچھ دیکھتا ہے۔‏ جب کوئی ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے اور ہمارے ساتھ نااِنصافی سے پیش آتا ہے تو وہ دیکھ رہا ہوتا ہے۔‏ (‏عبر 4:‏13‏)‏ وہ ہمارے درد کو محسوس کرتا ہے۔‏ (‏یسع 63:‏9‏)‏ اُس نے ہم سے وعدہ کِیا ہے کہ آخرکار وہ ہر اُس درد کو دُور کر دے گا جو نااِنصافی کی وجہ سے ہمیں محسوس ہوتا ہے۔‏—‏مکا 21:‏3،‏ 4‏۔‏

11.‏ دل سے ناراضگی کو نکال دینے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

11 ہمیں اِس بات کو بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم اپنے دل سے ناراضگی کو نکال دیتے ہیں تو اِس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔‏ اِسی بات کا احساس ہماری اُس بہن کو ہوا جس پر غلط اِلزام لگایا گیا تھا۔‏ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس بہن نے اپنے دل سے اپنی ہم‌ایمان بہن کے لیے ناراضگی نکال دی۔‏ وہ یہ سمجھ گئی کہ جب ہم دوسروں کو معاف کرتے ہیں تو یہوواہ بھی ہمیں معاف کرتا ہے۔‏ (‏متی 6:‏14‏)‏ جب بہن نے اپنی ہم‌ایمان کی غلطی کو معاف کِیا تو ایسا نہیں تھا کہ وہ اُس کی غلطی کو جائز قرار دے رہی تھی یا اُس کی سنگینی کو کم کر رہی تھی بلکہ وہ بس اپنے دل سے اُس کے لیے ناراضگی کو نکال رہی تھی۔‏ ایسا کرنے سے ہماری بہن اَور زیادہ خوش رہنے لگی اور اپنی توجہ خدا کی خدمت پر دینے کے قابل ہوئی۔‏

شرمندگی کا احساس

12.‏ ہم 1-‏یوحنا 3:‏19،‏ 20 میں لکھی بات سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

12 پہلا یوحنا 3:‏19،‏ 20 کو پڑھیں۔‏ اپنی غلطیوں پر شرمندگی محسوس کرنا کوئی انوکھی بات نہیں۔‏ (‏روم 3:‏23‏)‏ مثال کے طور پر کچھ لوگ اُن غلطیوں پر شرمندہ ہوتے ہیں جو اُنہوں نے سچائی سیکھنے سے پہلے کی تھیں۔‏ دیگر اُن غلطیوں پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں جو اُنہوں نے بپتسمہ لینے کے بعد کیں۔‏ بِلاشُبہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم صحیح کام کریں لیکن ”‏ہم سب بار بار غلطی کرتے ہیں۔‏“‏ (‏یعقو 3:‏2؛‏ روم 7:‏21-‏23‏)‏ سچ ہے کہ شرمندگی کسی بھی شخص کے لیے ایک ناگوار احساس ہے لیکن اِس سے ہمیں کچھ فائدہ بھی ہوتا ہے۔‏ وہ کیسے؟‏ اِس سے ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانے اور اپنی غلطیوں کو دوبارہ نہ دُہرانے کی ترغیب ملتی ہے۔‏—‏عبر 12:‏12،‏ 13‏۔‏

13.‏ ہمیں شرمندگی کے احساس کو خود پر حاوی کیوں نہیں ہونے دینا چاہیے؟‏

13 لیکن کبھی کبھار ہم چاہ کر بھی شرمندگی کے احساس سے نہیں نکل پاتے حالانکہ ہم نے توبہ کر لی ہوتی ہے اور یہوواہ نے ہمیں معاف بھی کر دیا ہوتا ہے۔‏ یہ احساس ہمارے لیے نقصان‌دہ ہو سکتا ہے۔‏ (‏زبور 31:‏10؛‏ 38:‏3،‏ 4‏)‏ کیوں؟‏ ذرا ایک بہن کی مثال پر غور کریں جو اپنی ماضی کی غلطیوں پر ہر وقت شرمندگی محسوس کرتی تھی۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مجھے لگتا تھا کہ میرے بچنے کی کوئی اُمید نہیں اِس لیے مَیں جتنا بھی دل لگا کر یہوواہ کی خدمت کر لوں،‏ کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‏“‏ ہم میں سے بہت سے بہن بھائی اِس بہن جیسے احساسات رکھتے ہیں۔‏ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ہم شرمندگی کے احساس کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں۔‏ ذرا سوچیں کہ شیطان یہ دیکھ کر کتنا خوش ہوتا ہوگا کہ ہم ہمت ہار بیٹھے ہیں جبکہ یہوواہ نے ہمیں کب کا معاف کر دیا ہے۔‏—‏2-‏کُرنتھیوں 2:‏5-‏7،‏ 11 پر غور کریں۔‏

14.‏ کس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ نے ہمیں معاف کر دیا ہے؟‏

14 شاید آپ پھر بھی یہ سوچیں:‏ ”‏پتہ نہیں کہ یہوواہ نے مجھے معاف کر دیا ہے یا نہیں؟‏“‏ آپ کا یہ سوال پوچھنا بذاتِ‌خود اِس بات کا اِشارہ ہے کہ یہوواہ نے آپ کو معاف کر دیا ہے۔‏ فروری 1954ء کے ‏”‏دی واچ‌ٹاور“‏ میں بتایا گیا تھا:‏ ”‏شاید ہم بار بار ایک غلطی کریں۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی کسی ایسی عادت پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں جو خدا کی خدمت کرنے سے پہلے ہم میں ہوا کرتی تھی۔‏ اگر ایسا ہے تو بےحوصلہ نہ ہوں۔‏ یہ نہ سوچ لیں کہ آپ کا گُناہ ناقابلِ‌معافی ہے۔‏ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ آپ ایسا سوچیں۔‏ اگر آپ اپنے گُناہ کی وجہ سے مایوس ہیں تو دراصل یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ایک اچھے شخص ہیں اور یہوواہ آپ کو معاف کر سکتا ہے۔‏ خاکساری سے یہوواہ سے اپنی غلطی کی معافی مانگیں تاکہ آپ دوبارہ سے صاف ضمیر حاصل کر سکیں۔‏ اُس سے درخواست کریں کہ وہ آپ کی مدد کرے تاکہ آپ اپنی غلطیوں کو پھر نہ دُہرائیں۔‏ چاہے آپ بار بار ایک غلطی کیوں نہ کریں،‏ یہوواہ سے مدد مانگنے میں ہمت نہ ہاریں،‏ بالکل اُسی طرح جس طرح مشکل وقت میں ایک بچہ اپنے باپ سے مدد مانگنے جاتا ہے۔‏ یہوواہ اپنی عظیم رحمت کی بِنا پر آپ کی مدد ضرور کرے گا۔‏“‏

15-‏16.‏ بعض بہن بھائیوں کو اُس وقت کیسا لگا جب وہ یہ سمجھ گئے کہ یہوواہ اُن کی غلطیوں کے باوجود اُن سے پیار کرتا ہے؟‏

15 یہوواہ کے بہت سے بندوں کو اِس بات سے تسلی ملی ہے کہ یہوواہ اُن کی غلطیوں کے باوجود اُن سے پیار کرنا نہیں چھوڑتا۔‏ مثال کے طور پر کچھ سال پہلے ایک بھائی نے ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ میں ایک مضمون پڑھا جس نے اُس کے دل پر گہرا اثر کِیا۔‏ اِس مضمون میں ایک بہن کا تجربہ تھا جسے اپنی ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے یہ لگتا تھا کہ وہ یہوواہ کی محبت کے لائق نہیں ہے۔‏ یہ احساس بپتسمہ لینے کے کئی سالوں بعد بھی اُسے ستاتا رہا۔‏ لیکن پھر جب اُس نے یسوع کے فدیے پر گہرائی سے سوچا تو وہ یہوواہ کی محبت پر یقین کرنے لگی۔‏

16 بہن کے تجربے کو پڑھ کر بھائی کی مدد کیسے ہوئی؟‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏جب مَیں نوجوان تھا تو مَیں اکثر فحش تصویریں دیکھا کرتا تھا اور مجھے اپنی اِس عادت سے لڑنا بہت مشکل لگتا تھا۔‏ حال ہی میں مَیں نے پھر سے ایسا کِیا۔‏ مَیں نے بزرگوں سے مدد مانگی ہے اور اب مَیں اِس مسئلے پر قابو پا رہا ہوں۔‏ حالانکہ بزرگوں نے مجھے اِس بات کا یقین دِلایا ہے کہ یہوواہ مجھ سے پیار کرتا ہے اور مجھے معاف کرنے کو تیار ہے لیکن پھر بھی کبھی کبھار مَیں خود کو بہت ناکارہ خیال کرتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ یہوواہ مجھ جیسے شخص سے پیار نہیں کر سکتا۔‏ [‏اِس بہن]‏ کے تجربے کو پڑھ کر مجھے بہت حوصلہ ملا۔‏ اب مَیں سمجھ گیا ہوں کہ اگر مَیں یہ سوچوں گا کہ یہوواہ مجھے معاف کر ہی نہیں سکتا تو ایک طرح سے مَیں یہ کہہ رہا ہوں گا کہ اُس کے بیٹے کی قربانی میرے گُناہوں کا کفارہ دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔‏ مَیں نے اُس بہن کے مضمون کو کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا ہے تاکہ مَیں اُس وقت اِسے پڑھ سکوں اور اِس پر سوچ بچار کر سکوں جب میرے دل میں یہ خیال آئے کہ مَیں بالکل ناکارہ ہوں۔‏“‏

17.‏ پولُس نے خود کو شرمندگی کے بوجھ تلے کیوں نہیں دبنے دیا؟‏

17 اِن بہن بھائیوں کے جذبات کو پڑھ کر ہمارے ذہن میں پولُس رسول آتے ہیں۔‏ مسیحی بننے سے پہلے پولُس نے بھی کچھ سنگین گُناہ کیے تھے۔‏ اُنہیں اچھی طرح یاد تھا کہ اُنہوں نے کیا کچھ کِیا ہے لیکن وہ اپنے ماضی کو دل سے لگا کر نہیں بیٹھ گئے۔‏ (‏1-‏تیم 1:‏12-‏15‏)‏ وہ یسوع کے فدیے کو ایک ذاتی تحفہ خیال کرتے تھے اور اُنہیں پورا یقین تھا کہ اِس کی بدولت اُن کے گُناہ معاف ہو سکتے ہیں۔‏ (‏گل 2:‏20‏)‏ لہٰذا پولُس نے خود کو شرمندگی کے بوجھ تلے نہیں دبنے دیا اور اپنی توجہ دل‌وجان سے یہوواہ کی خدمت کرنے پر رکھی۔‏

اپنی نظریں مستقبل پر رکھیں

اپنا دھیان زندگی کی راہ پر آگے بڑھنے کی طرف رکھیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 18-‏19 کو دیکھیں۔‏)‏ *

18.‏ اِس مضمون میں ہم نے کیا سیکھا ہے؟‏

18 اِس مضمون میں ہم نے کیا سیکھا ہے؟‏ یہ کہ (‏1‏)‏ خوش‌گوار یادیں یہوواہ طرف سے تحفہ ہیں۔‏ چاہے ماضی میں ہماری زندگی کتنی ہی حسین تھی،‏ ہمارا مستقبل اِس سے بھی کہیں بہتر ہوگا۔‏ (‏2‏)‏ کبھی کبھار دوسرے ہمارا دل دُکھائیں گے لیکن اگر ہم اُنہیں معاف کریں گے تو ہم زندگی میں آگے بڑھ پائیں گے اور (‏3‏)‏ اگر ہم شرمندگی کے بوجھ تلے دبے رہیں گے تو یہوواہ کی خدمت میں ہماری خوشی ماند پڑ جائے گی۔‏ لہٰذا پولُس رسول کی طرح ہمیں بھی اِس بات پر یقین رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہوواہ نے ہمیں معاف کر دیا ہے۔‏

19.‏ ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ نئی دُنیا میں ماضی کی تلخ یادیں ہمیں تکلیف نہیں پہنچائیں گی؟‏

19 ہمارے پاس ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید ہے۔‏ جب ہم نئی دُنیا میں جائیں گے تو ماضی کی تلخ یادیں ہمیں تکلیف نہیں پہنچائیں گی۔‏ اُس وقت ”‏پہلی چیزوں کا پھر ذکر نہ ہوگا اور وہ خیال میں نہ آئیں گی۔‏“‏ (‏یسع 65:‏17‏)‏ ہم میں سے بعض بہن بھائی کافی سالوں سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں اور اب بوڑھے ہو چُکے ہیں۔‏ ذرا سوچیں،‏ نئی دُنیا میں آپ دوبارہ جوان ہو جائیں گے!‏ (‏ایو 33:‏25‏)‏ لہٰذا آئیں،‏ یہ عزم کریں کہ ہم ماضی میں نہیں جئیں گے۔‏ اِس کی بجائے ہم نئی دُنیا پر اپنا دھیان رکھیں گے اور وہاں جانے کے لیے ہم سے جو بن پڑے گا،‏ وہ کریں گے۔‏

گیت نمبر 142‏:‏ ہماری شان‌دار اُمید

^ پیراگراف 5 کبھی کبھار اپنے ماضی کو یاد کرنا اچھا ہو سکتا ہے۔‏ لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ ہمارا ماضی ہمارے سر پر اِس قدر سوار ہو جائے کہ ہماری توجہ یہوواہ کی خدمت سے ہٹ جائے یا ہم اُن برکتوں پر دھیان ہی نہ دے پائیں جنہیں یہوواہ نے ہمیں مستقبل میں دینے کا وعدہ کِیا ہے۔‏ اِس مضمون میں ہم غور کریں گے کہ کون سی تین باتیں ماضی میں جینے کا باعث بن سکتی ہیں۔‏ اِس حوالے سے ہم بائبل کے کچھ اصولوں پر اور جدید زمانے کے خدا کی بندوں کے مثالوں پر غور کریں گے جن کی مدد سے ہم اپنے ماضی سے لپٹے رہنے سے گریز کر سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 4 اِصطلاح کی وضاحت:‏ اِس مضمون میں اِصطلاح ‏”‏ماضی میں جینے“‏ کا مطلب گزری باتوں کے بارے میں سوچتے رہنا،‏ اِن کے بارے میں بار بار بات کرنا اور یہ سوچنا ہے کہ پہلے کی زندگی آج سے بہتر تھی۔‏

^ پیراگراف 5 واعظ 7:‏10 ‏(‏نیو اُردو بائبل ورشن)‏:‏ ‏”‏تُو یہ نہ کہہ کہ پُرانے دن اِن دنوں سے بہتر کیوں تھے؟‏ کیونکہ ایسے سوالات پوچھنا عقل‌مندی نہیں ہے۔‏“‏

^ پیراگراف 58 تصویر کی وضاحت‏:‏ ماضی کی خوش‌گوار یادیں،‏ دل میں ناراضگی اور شرمندگی کا احساس ہمارے لیے بوجھ بن سکتے ہیں اور اِنہیں گھسیٹتے ہوئے زندگی کی راہ پر آگے بڑھنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏

^ پیراگراف 65 تصویر کی وضاحت‏:‏ جب ہم اِن بوجھوں کو ہاتھ سے جانے دیتے ہیں تو ہمیں سکون اور خوشی ملتی ہے اور ہماری طاقت بحال ہو جاتی ہے۔‏ یوں ہم اپنی نظریں سامنے کی طرف رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏