مطالعے کا مضمون نمبر 48
”تُم پاک ہو“
”اپنے سارے چالچلن کو پاک کریں۔“—1-پطر 1:15۔
گیت نمبر 34: مَیں راستی کی راہ پر چلوں گا
مضمون پر ایک نظر *
1. پطرس رسول نے اپنے ہمایمانوں کو کیا ہدایت دی اور ہمیں اِس ہدایت پر عمل کرنا ناممکن کیوں لگ سکتا ہے؟
چاہے ہم آسمان پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہوں یا زمین پر، ہمیں پطرس رسول کی اُس ہدایت پر غور کرنے سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے جو اُنہوں نے پہلی صدی عیسوی کے مسحشُدہ مسیحیوں کو دی۔ اُنہوں نے کہا: ”اُس پاک خدا کی طرح بنیں جس نے آپ کو بلایا ہے اور اپنے سارے چالچلن کو پاک کریں کیونکہ لکھا ہے کہ ”پاک ہو کیونکہ مَیں بھی پاک ہوں۔““ (1-پطر 1:15، 16) اِن الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ ہم یہوواہ کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں جو پاکیزگی کی سب سے بہترین مثال ہے۔ ہم نہ صرف اپنے چالچلن کو پاک کر سکتے ہیں بلکہ ہمیں ایسا کرنا بھی چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں ایسا کرنا ناممکن لگے کیونکہ عیبدار ہونے کی وجہ سے ہم سے اکثر غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ پطرس رسول نے بھی کئی غلطیاں کیں۔ لیکن اُن کی مثال سے پتہ چلتا ہے کہ ہم پاک بن سکتے ہیں۔
2. اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
2 اِس مضمون میں ہم اِن سوالوں پر غور کریں گے: پاک ہونے کا کیا مطلب ہے؟ بائبل میں یہوواہ کے پاک ہونے کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟ ہم اپنے سارے چالچلن کو پاک کیسے کر سکتے ہیں؟ اور پاک ہونے اور یہوواہ کے ساتھ ہمارے رشتے میں کیا تعلق ہے؟
پاک ہونے کا کیا مطلب ہے؟
3. بہت سے لوگ کس طرح کے شخص کو پاک سمجھتے ہیں لیکن ہمیں پاکیزگی کا صحیح مطلب کہاں سے پتہ چل سکتا ہے؟
3 بہت سے لوگ اُس شخص کو پاک سمجھتے ہیں جو ہمیشہ سنجیدہ رہتا ہے، مذہبی لباس پہن کر رکھتا ہے اور کبھی نہیں مسکراتا۔ لیکن پاک ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے۔ ہم یہ اِس لیے کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہوواہ جو کہ بہت پاک ہے، اُس کے بارے میں بائبل میں بتایا گیا ہے کہ وہ ”خوشدل خدا“ ہے۔ (1-تیم 1:11) جو لوگ اُس کی عبادت کرتے ہیں، وہ بھی ”مبارک“ ہیں یعنی وہ خوش رہتے ہیں۔ (زبور 144:15) یسوع مسیح نے تو اُن لوگوں کو ملامت کی جو دوسروں سے فرق نظر آنے کے لیے خاص لباس پہنتے تھے اور دوسروں کے سامنے نیکی کا دِکھاوا کرتے تھے۔ (متی 6:1؛ مر 12:38) ہم نے بائبل سے پاکیزگی کے حوالے سے جو کچھ سیکھا ہے، اُس سے ہم یہ جانتے ہیں کہ پاک ہونے کا اصل میں کیا مطلب ہے۔ ہمیں اِس بات پر پکا یقین ہے کہ ہمارا پاک اور محبت کرنے والا خدا ہمیں کبھی بھی کوئی ایسا حکم نہیں دے گا جس پر عمل کرنا ہمارے بس میں نہ ہو۔ اِس لیے جب یہوواہ ہم سے کہتا ہے کہ ”پاک ہو“ تو اِس بات میں کوئی شک نہیں رہتا کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ لیکن ظاہری بات ہے کہ اپنے سارے چالچلن کو پاک کرنے سے پہلے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکیزگی ہے کیا۔
4. پاک ہونے کا کیا مطلب ہے؟
4 پاک ہونے کا کیا مطلب ہے؟ بائبل میں جب لفظ ”پاک“ اور ”مُقدس“ اِستعمال ہوتا ہے تو عام طور پر اِس کا اِشارہ نیک چال چلن اور مذہبی پاکیزگی کی طرف ہوتا ہے۔ اِن الفاظ میں یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ ایک شخص یہوواہ کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو ہم یہوواہ کی نظر میں اُسی وقت پاک ہوتے ہیں جب ہمارا چالچلن پاک ہوتا ہے، جب ہم اُس کی اُسی طرح عبادت کرتے ہیں جیسی اُسے پسند ہے اور جب اُس کے ساتھ ہماری مضبوط دوستی ہوتی ہے۔ ہم تو اِس خیال سے ہی دنگ رہ جاتے ہیں کہ یہوواہ جو کہ ہر لحاظ سے پاک ہے، ہم عیبدار اِنسانوں سے دوستی کرنا چاہتا ہے! اور جب ہم اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ بائبل میں یہوواہ کے پاک ہونے کے بارے میں کیا کچھ بتایا گیا ہے تو ہم اَور بھی حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔
’قدوس قدوس قدوس یہوواہ ہے‘
5. ہم یہوواہ کے فرشتوں سے اُس کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
5 یہوواہ خدا ہر لحاظ سے پاک ہے۔ یہ بات ہمیں سرافیم فرشتوں کے الفاظ سے پتہ چلتی ہے جو یہوواہ کے تخت کے قریب رہتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ نے کہا: ”قدوس قدوس قدوس ربُالافواج [یہوواہ] ہے۔“ (یسع 6:3) بےشک اپنے پاک خدا کے ساتھ اِتنا قریبی رشتہ رکھنے کے لیے یہ فرشتے خود بھی بہت پاک ہوں گے۔ دراصل یہوواہ کے ایک فرشتے کی موجودگی ہی زمین پر کسی جگہ کو پاک بنا دیتی تھی۔ اور ایسا ہی اُس وقت ہوا جب موسیٰ نے جلتی ہوئی جھاڑی کو دیکھا۔—خر 3:2-5؛ یشو 5:15۔
6-7. (الف) خروج 15:1، 11 کے مطابق موسیٰ نے اِس بات پر زور کیسے دیا کہ یہوواہ پاک خدا ہے؟ (ب) کس چیز سے بنیاِسرائیل کو یہ یاد دِلایا جاتا تھا کہ یہوواہ پاک خدا ہے؟ (سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔)
6 جب موسیٰ کی رہنمائی میں بنیاِسرائیل نے بحرِقلزم (بحیرۂاحمر) پار کِیا تو موسیٰ نے اِس بات پر زور دیا کہ اُن کا خدا یہوواہ پاک ہے۔ (خروج 15:1، 11 کو پڑھیں۔) جھوٹے دیوتاؤں کی پوجا کرنے والے مصریوں کو تو پاکیزگی چُھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ اور یہی بات کنعانیوں کے بارے میں بھی سچ تھی کیونکہ وہ بھی جھوٹے دیوتاؤں کو پوجتے تھے۔ اُن کی عبادت میں تو بچوں کی قربانی چڑھانا اور بےہودہ جنسی کام کرنا بھی شامل تھا۔ (احبا 18:3، 4، 21-24؛ اِست 18:9، 10) یہوواہ اِن جھوٹے دیوتاؤں کی طرح بالکل بھی نہیں۔ وہ کبھی بھی اپنے بندوں سے کوئی ایسا کام کرنے کو نہیں کہتا جس سے وہ ناپاک ہو جائیں۔ وہ تو پاکیزگی کا سرچشمہ ہے! یہوواہ خدا چاہتا تھا کہ بنیاِسرائیل یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں۔ اِس لیے اُس نے کاہنِاعظم کے عمامہ پر لگے سونے کے پتر پر یہ بات لکھوائی: ”[یہوواہ] کے لئے مُقدس۔“—خر 28:36-38۔
7 جو بھی پتر پر لکھے اِس پیغام کو دیکھتا تھا، اُس پر یہ واضح ہو جاتا تھا کہ یہوواہ نہایت پاک خدا ہے۔ لیکن کیا وہ اِسرائیلی بھی اِس اہم بات کو جانتا تھا جو کاہنِاعظم کے قریب نہیں جا سکتا تھا اور اِس وجہ سے پتر پر لکھے پیغام کو نہیں دیکھ سکتا تھا؟ جی بالکل۔ ہر اِسرائیلی یہ پیغام اُس وقت سنتا تھا جب مردوں، عورتوں اور بچوں کے سامنے شریعت پڑھی جاتی تھی۔ (اِست 31:9-12) اگر آپ بھی اُس وقت اُن کے ساتھ ہوتے تو آپ اِن باتوں کو سنتے: ”مَیں [یہوواہ] تمہارا خدا ہوں۔ اور تُم میرے لئے پاک بنے رہنا کیونکہ مَیں جو [یہوواہ] ہوں پاک ہوں۔“—احبا 11:44، 45؛ 20:7، 26۔
8. ہم احبار 19:2 اور 1-پطرس 1:14-16 سے کیا سیکھتے ہیں؟
8 آئیں، اب احبار 19:2 میں لکھی بات پر غور کرتے ہیں جو سب اِسرائیلیوں کو پڑھ کر سنائی گئی۔ یہوواہ نے موسیٰ سے کہا: ”بنیاِؔسرائیل کی ساری جماعت سے کہہ کہ تُم پاک ہو کیونکہ مَیں جو [یہوواہ] تمہارا خدا ہوں پاک ہوں۔“ پطرس غالباً اِسی آیت کا حوالہ دے رہے تھے جب اُنہوں نے مسیحیوں کی یہ حوصلہافزائی کی کہ وہ ’پاک ہوں۔‘ (1-پطرس 1: کو پڑھیں۔) یہ سچ ہے کہ آج ہم موسیٰ کی شریعت کے تحت نہیں ہیں۔ لیکن پطرس نے جو بات لکھی، اُس سے 14-16احبار 19:2 میں لکھی یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہوواہ پاک ہے اور جو لوگ اُس سے محبت کرتے ہیں، اُنہیں بھی پاک بننے کی کوشش کرنی چاہیے پھر چاہے وہ آسمان پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہوں یا زمین پر۔—1-پطر 1:4؛ 2-پطر 3:13۔
”اپنے سارے چالچلن کو پاک کریں“
9. احبار 19 باب پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟
9 ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم اپنے پاک خدا کو خوش کریں۔ اِس لیے ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہم پاک کیسے بن سکتے ہیں۔ یہوواہ اپنے کلام کے ذریعے ہمیں ایسی ہدایتیں دیتا ہے جن سے ہم پاک بن سکتے ہیں۔ اِس حوالے سے احبار کی کتاب میں 19 باب ہمارے بڑے کام آ سکتا ہے۔ ایک عبرانی عالم مارکس کالش نے لکھا: ”اِس باب کو نہ صرف احبار کی کتاب کا بلکہ بائبل کی پہلی پانچ کتابوں کا سب سے اہم حصہ کہا جا سکتا ہے۔“ آئیں، اب اِس باب کی کچھ آیتوں پر غور کرتے ہیں جن سے ہم روزمرہ زندگی کے حوالے سے کچھ اہم باتیں سیکھ سکتے ہیں۔ اِن باتوں پر غور کرتے وقت یاد رکھیں کہ اِس باب کی شروعات اِن الفاظ سے ہوتی ہے: ”تُم پاک ہو۔“
10-11. احبار 19:3 میں پاک ہونے کے حوالے سے کیا بات بتائی گئی ہے اور اِس ہدایت پر عمل کرنا ضروری کیوں ہے؟
10 بنیاِسرائیل کو یہ حکم دینے کے بعد کہ اُنہیں پاک ہونا چاہیے، یہوواہ نے اُن سے یہ بھی کہا: ”تُم میں سے ہر ایک اپنے ماں باپ کی عزت کرے۔ . . . مَیں [یہوواہ] تمہارا خدا ہوں۔“—احبا 19:2، 3، اُردو جیو ورشن۔
11 اِس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ کی اِس ہدایت پر عمل کرنا بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے ماں باپ کی عزت کریں۔ یاد کریں کہ یسوع نے اُس شخص سے کیا کہا جس نے اُن سے پوچھا کہ ”مجھے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے لیے کون سی اچھائیاں کرنی چاہئیں؟“ یسوع نے اُسے جو باتیں بتائیں، اُن میں سے ایک یہ تھی کہ اُسے اپنے ماں باپ کی عزت کرنے کی ضرورت ہے۔ (متی 19:16-19) یسوع مسیح نے تو فریسیوں اور شریعت کے عالموں کو ملامت کی جو اپنے ماں باپ کی دیکھبھال کرنے سے بھاگتے تھے۔ یوں وہ ”خدا کے کلام کو بےاثر“ کر دیتے تھے۔ (متی 15:3-6) ”خدا کے کلام“ میں دس حکموں میں سے پانچواں حکم اور احبار 19:3 میں لکھی بات بھی شامل ہے۔ (خر 20:12) جیسا کہ ہم نے پہلے کہا، یہ یاد رکھیں کہ احبار 19:3 میں ماں باپ کی عزت کرنے کی جو ہدایت دی گئی ہے، وہ اِس بات کے ٹھیک بعد آتی ہے: ”تُم پاک ہو کیونکہ مَیں جو [یہوواہ] تمہارا خدا ہوں پاک ہوں۔“
12. ہم احبار 19:3 میں لکھے حکم پر کیسے عمل کر سکتے ہیں اور ہمیں خود سے کون سا سوال پوچھنا چاہیے؟
احبار 19:3 میں لکھے حکم پر عمل کر رہے ہوں گے۔
12 جب ہم یہوواہ کے اِس حکم کے بارے میں سوچتے ہیں کہ ہمیں اپنے ماں باپ کی عزت کرنی چاہیے تو ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے: ”کیا مَیں اپنے ماں باپ کی عزت کرتا ہوں؟“ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ پہلے اپنے امی ابو کے لیے کچھ زیادہ نہیں کر پائے تو آپ ابھی اِس سلسلے میں بہتری لا سکتے ہیں۔ جو وقت گزر گیا، آپ اُسے تو واپس نہیں لا سکتے۔ لیکن آپ یہ عزم کر سکتے ہیں کہ اب آپ اُن کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں، وہ کریں گے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ اُن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت کیسے گزار سکتے ہیں۔ یا شاید آپ اُن کی اَور زیادہ مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ اپنے لیے ضرورت کی چیزیں لے سکیں۔ آپ اُن کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ یہوواہ کے قریب رہیں اور اُس کی خدمت کرتے رہیں۔ یا آپ اُن کا اَور زیادہ حوصلہ بڑھا سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ13. (الف) احبار 19:3 میں یہوواہ نے اَور کس بات کا حکم دیا ہے؟ (ب) لُوقا 4:16-18 میں یسوع مسیح نے ہمارے لیے جو مثال قائم کی، ہم اُس پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
13 احبار 19:3 سے ہم پاک بننے کے حوالے سے ایک اَور بات سیکھتے ہیں۔ اِس میں سبت کو منانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مسیحی موسیٰ کی شریعت کے تحت نہیں ہیں۔ اِس لیے ہمیں سبت منانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن بنیاِسرائیل جس طرح سے سبت مناتے تھے اور اِس سے اُنہیں جو فائدے ہوتے تھے، اُس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ سبت ایک ایسا وقت ہوتا تھا جب بنیاِسرائیل کو اپنے روزمرہ کاموں سے آرام کرنے اور اپنی پوری توجہ یہوواہ کی عبادت پر رکھنے کا موقع ملتا تھا۔ * اِسی لیے یسوع مسیح سبت کے دن اپنے شہر کی عبادتگاہ میں جاتے تھے اور خدا کے کلام کو پڑھتے تھے۔ (خر 31:12-15؛ لُوقا 4:16-18 کو پڑھیں۔) لہٰذا جب ہم احبار 19:3 میں یہوواہ کے اِس حکم کو پڑھتے ہیں کہ ”تُم میرے سبتوں کو ماننا“ تو ہم یہ سیکھتے ہیں کہ ہمیں اپنی پوری توجہ یہوواہ کی عبادت پر رکھنے کے لیے اپنے روزمرہ کاموں سے وقت نکالنا چاہیے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو یہوواہ کے اِس حکم پر عمل کرنے کے لیے اپنے معمول میں کچھ ردوبدل کرنے کی ضرورت ہے؟ اگر آپ باقاعدگی سے یہوواہ کی عبادت سے تعلق رکھنے والے کاموں کے لیے وقت نکالیں گے تو آپ کی یہوواہ کے ساتھ دوستی اَور مضبوط ہو جائے گی جو کہ پاک بننے کے لیے بہت ضروری ہے۔
یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط کریں
14. احبار 19 باب میں کس اہم سچائی کا بار بار ذکر کِیا گیا ہے؟
14 احبار 19 باب میں بار بار ایک ایسی اہم سچائی کا ذکر کِیا گیا ہے جس سے ہمیں پاک رہنے میں مدد مل سکتی ہے۔ 4 آیت کے آخر میں یہ الفاظ لکھے ہیں: ”مَیں [یہوواہ] تمہارا خدا ہوں۔“ یہ الفاظ یا اِسی طرح کا خیال اِس باب میں 16 بار ملتا ہے۔ اِس سے ہمیں یہوواہ کا دیا ہوا یہ پہلا حکم یاد آتا ہے: ”[یہوواہ] تیرا خدا . . . مَیں ہوں۔ میرے حضور تُو غیرمعبودوں کو نہ ماننا۔“ (خر 20:2، 3) جو مسیحی پاک بننا چاہتا ہے، اُسے کسی بھی چیز یا شخص کو یہوواہ اور اپنی دوستی کے بیچ نہیں آنے دینا چاہیے۔ چونکہ ہم یہوواہ کے نام سے کہلائے جاتے ہیں اِس لیے ہمیں کبھی بھی کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے اُس کے پاک نام کی بدنامی ہو۔—احبا 19:12؛ یسع 57:15۔
15. احبار 19 باب میں جانوروں کی قربانی کے حوالے سے جو کچھ بتایا گیا ہے، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
15 بنیاِسرائیل یہوواہ کے دیے ہوئے حکموں پر عمل کرنے سے یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ یہوواہ کو اپنا خدا مانتے ہیں۔ احبار 18:4 میں یہوواہ نے بنی اِسرائیل سے کہا: ”تُم میرے حکموں پر عمل کرنا اور میرے آئین کو مان کر اِن پر چلنا۔ مَیں [یہوواہ] تمہارا خدا ہوں۔“ احبار 19 باب میں کچھ ایسے ”آئین“ لکھے ہیں جن پر بنیاِسرائیل کو چلنا تھا۔ مثال کے طور پر 5-8، 21 اور 22 میں جانوروں کی قربانی کے حوالے سے آئین دیے گئے ہیں۔ بنیاِسرائیل کو یہ قربانیاں اِس طرح سے پیش کرنی تھیں جس سے یہوواہ کی ’پاک چیز نجس [یعنی ناپاک]‘ نہ ہو۔اِن آیتوں سے ہم سیکھتے ہیں کہ ہمیں یہوواہ کو خوش کرنا چاہیے اور اُس کے حضور حمدوستائش کی قربانیاں پیش کرنی چاہئیں جیسا کہ عبرانیوں 13:15 میں ہماری حوصلہافزائی کی گئی ہے۔
16. احبار 19 باب میں لکھے کس اصول سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ کی عبادت کرنے والوں اور نہ کرنے والوں میں فرق ہونا چاہیے؟
16 پاک بننے کے لیے ہمیں اُن لوگوں سے فرق نظر آنا چاہیے جو یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے۔ ایسا کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی کبھار ہمارے ساتھ سکول میں پڑھنے والے بچے، ہمارے ساتھ کام کرنے والے لوگ، ہمارے غیرایمان رشتےدار یا دوسرے لوگ ہم پر ایسے کام کرنے کا دباؤ ڈالیں جن سے ہم اُس طرح سے یہوواہ کی عبادت نہ کر پائیں جس طرح سے وہ چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا چیز ہماری مدد کر سکتی ہے تاکہ ہم صحیح فیصلہ کریں؟ اِس سلسلے میں ذرا احبار 19:19 میں لکھے اِس اصول پر غور کریں: ”ایسا کپڑا نہ پہننا جو دو مختلف قسم کے دھاگوں کا بُنا ہوا ہو۔“ (اُردو جیو ورشن) ایسا کرنے سے بنیاِسرائیل اپنے اِردگِرد کی قوموں سے فرق نظر آتے تھے۔ چونکہ ہم شریعت کے تحت نہیں ہیں اِس لیے ہماری نظر میں دو طرح کے میٹریل سے بنے کپڑے پہننا غلط نہیں ہے جیسے کہ کاٹن، ریشم یا اُون سے بنے کپڑے۔ لیکن ہم ایسے لوگوں کی طرح نہیں بنتے جن کے عقیدے اور طورطریقے بائبل کی تعلیم کے خلاف ہیں پھر چاہے یہ لوگ ہمارے سکول میں پڑھتے ہوں، ہمارے ساتھ کام کرتے ہوں یا ہمارے رشتےدار ہوں۔ بےشک ہمیں اپنے رشتےداروں سے محبت ہوتی ہے اور ہم اپنے پڑوسی یعنی دوسرے لوگوں کے لیے محبت ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن جب زندگی کے اہم معاملوں میں فیصلہ لینے کی بات آتی ہے تو یہوواہ کے بندوں کے طور پر ہمیں خود کو دُنیا کے لوگوں سے الگ رکھنے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ یاد رکھیں کہ خود کو یہوواہ کے لیے مخصوص کر لینا، پاک ہونے کا حصہ ہے۔—2-کُر 6:14-16؛ 1-پطر 4:3، 4۔
17-18. ہم احبار 19:23-25 سے کون سا اہم سبق سیکھتے ہیں؟
17 اِصطلاح ”مَیں [یہوواہ] تمہارا خدا ہوں“ سے بنیاِسرائیل یہ یاد رکھ سکتے تھے کہ اُنہیں یہوواہ کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ ایسا کرنے کا ایک طریقہ احبار 19:23-25 میں بتایا گیا ہے۔ (اِن آیتوں کو پڑھیں۔) غور کریں کہ بنیاِسرائیل کو اِن الفاظ کی اہمیت اُس وقت کیسے پتہ چلی جب وہ ملک کنعان میں داخل ہو گئے۔ یہوواہ نے اُنہیں حکم دیا کہ وہ پہلے تین سال تک اپنے لگائے درختوں کا پھل نہ کھائیں۔ چوتھے سال وہ اپنے درختوں کے پھل کو یہوواہ کی عبادتگاہ میں دیں اور پھر پانچویں سال اِسے خود کھائیں۔ اِس حکم سے بنیاِسرائیل یہ سمجھ پائے کہ اُنہیں اپنی ضرورتوں سے زیادہ یہوواہ کی عبادت کو اہمیت دینی چاہیے۔ اُنہیں اِس بات پر بھروسا رکھنا تھا کہ یہوواہ اُن کی دیکھبھال کرے گا اور اُن کے کھانے پینے کا پورا خیال رکھے گا۔ یہوواہ نے اُن کی حوصلہافزائی کی کہ وہ دل کھول کر اُس کی عبادتگاہ میں نذرانے دیں۔
احبار 19:23-25 میں دیے حکم سے ہمیں یسوع مسیح کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں جو اُنہوں نے اپنے پہاڑی وعظ میں کہے۔ یسوع نے کہا: ”یہ فکر نہ کریں کہ آپ . . . کیا کھائیں پئیں گے۔“ پھر اُنہوں نے کہا: ”آپ کا آسمانی باپ جانتا ہے کہ آپ کو اِن چیزوں کی ضرورت ہے۔“ اگر یہوواہ پرندوں کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے تو کیا وہ ہماری ضرورتوں کو پورا نہیں کرے گا؟ (متی 6:25، 26، 32) ہمیں پورا یقین ہے کہ یہوواہ ہمارا خیال رکھے گا۔ اِس لیے ہم دوسروں کے علم میں لائے بغیر ضرورتمند بہن بھائیوں کی مدد کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہم خوشی سے کلیسیا کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے عطیات بھی دیتے ہیں۔ جب ہم اِن طریقوں سے فراخدلی ظاہر کرتے ہیں تو یہوواہ اِسے دیکھتا ہے اور وہ ہمیں اِس کا اجر بھی دے گا۔ (متی 6:2-4) جب ہم دل کھول کر دیتے ہیں تو ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم احبار 19:23-25 میں پائے جانے والے سبق کو سمجھ گئے ہیں۔
1819. ہم نے احبار 19 باب کی جن آیتوں پر غور کِیا ہے، اُن سے آپ نے کیا سیکھا ہے؟
19 ہم نے احبار 19 باب کی صرف کچھ آیتوں پر غور کِیا ہے جن سے ہم یہ دیکھ پائے ہیں کہ ہم اپنے پاک خدا کی طرح کیسے بن سکتے ہیں۔ جب ہم یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہیں تو ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ”اپنے سارے چالچلن کو پاک“ کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ (1-پطر 1:15) بہت سے لوگ جو یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے، وہ ہمارے اچھے چالچلن کے گواہ ہیں۔ اِن میں سے کچھ تو یہوواہ کی بڑائی بھی کرنے لگے۔ (1-پطر 2:12) ہم احبار 19 باب سے اَور بھی بہت سی اہم باتیں سیکھ سکتے ہیں۔ اگلے مضمون میں ہم اِسی باب کی کچھ اَور آیتوں پر غور کریں گے اور یہ دیکھیں گے کہ ہم اَور کن طریقوں سے پاک بن سکتے ہیں جس کی پطرس نے بھی حوصلہافزائی کی۔
گیت نمبر 80: آزما کر دیکھو کہ یہوواہ کتنا مہربان ہے
^ پیراگراف 5 ہم یہوواہ سے بہت پیار کرتے ہیں اور اُسے خوش کرنا چاہتے ہیں۔ یہوواہ خدا پاک ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اُس کی عبادت کرنے والے لوگ بھی پاک ہوں۔ لیکن کیا عیبدار اِنسانوں کے لیے پاک ہونا ممکن ہے؟ جی ہاں۔ یہ جاننے کے لیے کہ ہم اپنے سارے چالچلن کو پاک کیسے کر سکتے ہیں، ہم پطرس رسول کی اُس ہدایت پر غور کریں گے جو اُنہوں نے اپنے ہمایمانوں کو دی۔ اِس کے علاوہ ہم یہوواہ کے اُس حکم پر بھی غور کریں گے جو اُس نے بنیاِسرائیل کو دیا۔
^ پیراگراف 13 سبت کے موضوع کے بارے میں مزید پڑھنے کے لیے اور یہ جاننے کے لیے کہ اِس بندوبست سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں، ”مینارِنگہبانی،“ دسمبر 2019ء میں مضمون ”کام اور آرام کا ”ایک وقت ہے““ کو دیکھیں۔
^ پیراگراف 57 تصویر کی وضاحت: ایک آدمی اپنے ماں باپ کے ساتھ وقت گزار رہا ہے، وہ اپنی بیوی اور بیٹی کو اُن سے ملوانے لایا ہے اور وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ باقاعدگی سے باتچیت کرتا ہے۔
^ پیراگراف 59 تصویر کی وضاحت: ایک اِسرائیلی کسان اُن درختوں پر لگے پھلوں کو دیکھ رہا ہے جو اُس نے اُگائے ہیں۔