مطالعے کا مضمون نمبر 49
دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے حوالے سے احبار کی کتاب سے سبق
”اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت کرنا۔“—احبا 19:18۔
گیت نمبر 109: دل کی گہرائی سے محبت کریں
مضمون پر ایک نظر *
1-2. (الف) ہم نے پچھلے مضمون میں کن باتوں پر غور کِیا تھا؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
پچھلے مضمون میں ہم نے احبار 19 باب سے کچھ اہم باتیں سیکھی تھیں۔ مثال کے طور پر اِس باب کی 3 آیت میں یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے ماں باپ کی عزت کریں۔ ہم نے دیکھا تھا کہ ہم اپنے ماں باپ کی ضرورتیں پوری کرنے، اُن کا حوصلہ بڑھانے اور یہوواہ کے قریب رہنے میں اُن کی مدد کرنے سے اِس حکم پر عمل کر سکتے ہیں۔ اِسی آیت میں خدا نے بنیاِسرائیل کو یاد دِلایا کہ وہ سبت کو مناتے رہیں۔ ہم نے سیکھا تھا کہ آج سبت منانا ہم پر فرض تو نہیں ہے لیکن ہمیں روزانہ یہوواہ کی عبادت کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے ہم ظاہر کریں گے کہ ہم احبار 19:2 اور 1-پطرس 1:15 میں لکھی ہدایت کے مطابق پاک بننے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
2 اِس مضمون میں ہم احبار 19 باب سے کچھ اَور آیتوں پر غور کریں گے۔ اِس باب میں معذوروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے، کاروباری معاملوں میں دیانتداری سے کام لینے اور دوسروں سے محبت کرنے کے بارے میں اصول دیے گئے ہیں۔ آئیں، دیکھیں کہ ہم اِن اصولوں پر کیسے عمل کر سکتے ہیں تاکہ ہم اپنے پاک خدا یہوواہ کی طرح پاک بن سکیں۔
معذوروں کے ساتھ اچھا سلوک
3-4. احبار 19:14 کے مطابق بنیاِسرائیل کو بہرے اور نابینا لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا تھا؟
3 احبار 19:14 کو پڑھیں۔ یہوواہ اپنے بندوں سے یہ توقع کرتا تھا کہ وہ معذوروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ مثال کے طور پر اُس نے بنیاِسرائیل کو حکم دیا کہ وہ کسی بہرے شخص کو نہ ہی بُرا بھلا کہیں اور نہ ہی اُسے ڈرائیں دھمکائیں۔ ذرا سوچیں کہ کسی بہرے شخص کے ساتھ ایسا سلوک کرنا کتنی بُری بات ہوتی! وہ سُن نہیں سکتا تھا کہ اُس کے بارے میں کیا کہا جا رہا ہے اِس لیے وہ اپنے دِفاع میں کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔
4 آیت 14 میں خدا نے اپنے بندوں کو یہ حکم بھی دیا: ’تُو اندھے کے آگے ٹھوکر کھلانے کی چیز کو نہ دھرنا۔‘ ایک کتاب میں معذوروں کے بارے میں لکھا ہے: ”پُرانے زمانے میں مشرقِوسطیٰ میں لوگ معذوروں کے ساتھ اکثر نااِنصافی کرتے تھے اور اُن پر ظلم کرتے تھے۔“ شاید کچھ بےحس لوگ نابینا لوگوں کو زخمی کرنے یا ہنسی مذاق کے لیے اُن کے راستے میں کوئی چیز رکھ دیتے تھے تاکہ اُنہیں ٹھوکر لگے۔ یہ کتنے افسوس کی بات تھی! آیت 14 میں یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو جو حکم دیا، اُس سے وہ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے کہ اُنہیں معذوروں کے ساتھ ہمدردی کرنی ہے۔
5. ہم معذوروں کے ساتھ ہمدردی سے کیسے پیش آ سکتے ہیں؟
5 یسوع مسیح معذوروں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئے۔ یاد کریں کہ اُنہوں نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کے لیے یہ پیغام بھجوایا: ”اندھوں کو دیکھنے کی صلاحیت مل رہی ہے، لنگڑے چل پھر رہے ہیں، کوڑھی ٹھیک ہو رہے ہیں، بہرے سُن رہے ہیں [اور] مُردے زندہ کیے جا رہے ہیں۔“ یسوع مسیح کے معجزوں کی وجہ سے لوگ ”خدا کی بڑائی کرنے لگے۔“ (لُو 7:20-22؛ 18:43) یسوع کی طرح ہمیں بھی معذوروں کے ساتھ ہمدردی کرنی چاہیے۔ ہمیں اُن کے ساتھ شفقت اور صبر سے پیش آنا چاہیے اور اُن کی صورتحال کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ یہوواہ نے ہمیں معذوروں کو شفا دینے کی طاقت نہیں دی جیسے اُس نے یسوع مسیح کو دی تھی۔ لیکن اُس نے ہمیں اعزاز بخشا ہے کہ ہم اِن لوگوں کے ساتھ ساتھ اُن لوگوں کو بھی خوشخبری سنائیں جو آنکھیں ہوتے ہوئے بھی خدا کے قریب جانے کے لیے قدم نہیں اُٹھاتے۔ ہم سب لوگوں کو یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ خدا کی بادشاہت میں سب کی صحت اچھی ہوگی اور وہ خدا کے قریب ہوں گے۔ (لُو 4:18) بہت سے لوگ اِس خوشخبری کی وجہ سے خدا کی بڑائی کرنے لگے ہیں۔
کاروباری معاملوں میں دیانتداری
6. احبار 19 باب کی مدد سے ہم دس حکموں کو اچھی طرح کیسے سمجھ پاتے ہیں؟
6 احبار 19 باب کی کچھ آیتوں میں دس حکموں کی تھوڑی وضاحت کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر آٹھویں حکم میں بس اِتنا لکھا تھا: ”تُو چوری نہ کرنا۔“ (خر 20:15) شاید کوئی شخص سوچے کہ اگر وہ دوسرے شخص کی اِجازت کے بغیر اُس کی چیز نہیں لیتا تو وہ اِس حکم پر عمل کر رہا ہے۔ لیکن چوری کرنے میں اَور بھی بہت سی باتیں شامل ہیں۔
7. ایک تاجر کیا کرنے سے آٹھواں حکم توڑ رہا ہوتا ہے؟
احبار 19:35، 36 میں یہوواہ نے کہا: ”تُم اِنصاف اور پیمایش اور وزن اور پیمانہ میں ناراستی نہ کرنا۔ ٹھیک ترازو۔ ٹھیک باٹ۔ پورا ایفہ اور پورا ہین رکھنا۔“ تو اگر ایک تاجر اپنے گاہکوں کو ٹھگنے کے لیے غلط ترازو اِستعمال کرتا ہے تو وہ ایک لحاظ سے چوری کر رہا ہوتا ہے۔ احبار 19 باب کی کچھ اَور آیتوں سے یہ بات اَور بھی واضح ہو جاتی ہے۔
7 شاید ایک تاجر کو اِس بات پر بڑا مان ہو کہ اُس نے کبھی بھی کسی کی اِجازت کے بغیر اُس کی چیز نہیں لی۔ لیکن کیا وہ کاروبار کرتے وقت ہمیشہ دیانتدار رہتا ہے؟8. احبار 19:11-13 میں دی گئی تفصیل سے یہودی اُس اصول پر کیسے عمل کر سکتے تھے جس کی بنیاد پر آٹھواں حکم دیا گیا تھا اور اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
8 احبار 19:11-13 کو پڑھیں۔غور کریں کہ احبار 19:11 کے شروع میں لکھا ہے: ”تُم چوری نہ کرنا۔“ 13 آیت سے پتہ چلتا ہے کہ چوری اور کاروباری معاملوں میں بددیانتی کرنا ایک ہی بات ہے۔ اِس آیت میں لکھا ہے: ’تُو اپنے پڑوسی کو نہ لُوٹنا۔‘ آٹھویں حکم میں بس یہ بتایا گیا تھا کہ چوری کرنا غلط ہے۔ لیکن احبار کی کتاب میں دی گئی تفصیل سے یہودی یہ سمجھ سکتے تھے کہ وہ اُس اصول پر کیسے عمل کر سکتے ہیں جس کی بنیاد پر یہ قانون دیا گیا تھا۔ اور اصول یہ تھا کہ اُنہیں ہر معاملے میں دیانتدار رہنا چاہیے۔ بددیانتی اور چوری کے بارے میں یہوواہ کے نظریے پر غور کرنے سے ہمیں بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں: ”جب مَیں احبار 19:11-13 پر غور کرتا ہوں تو کیا مجھے لگتا ہے کہ مجھے اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر جب کاروباری معاملوں کی بات آتی ہے؟“
9. احبار 19:13 میں لکھے حکم سے مزدوروں کو کیا فائدہ ہوا؟
9 جو مسیحی کاروبار کرتا ہے، اُسے ایک اَور معاملے میں بھی دیانتدار رہنا چاہیے۔ احبار 19:13 میں لکھا ہے: ”مزدور کی مزدوری تیرے پاس ساری رات صبح تک رہنے نہ پائے۔“ قدیم اِسرائیل میں کھیتیباڑی کے لیے مزدوروں کو رکھنا ایک عام بات تھی اور دن کے آخر پر اِن مزدوروں کو اُن کی مزدوری دے دی جاتی تھی۔ جس دن اِن مزدوروں کو اُن کی مزدوری نہیں دی جاتی تھی، اُس دن وہ اپنے گھر والوں کا پیٹ نہیں بھر سکتے تھے۔ اِس سلسلے میں یہوواہ خدا نے کہا تھا: ”اُسے روزانہ سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے اُس کی مزدوری دے دینا، کیونکہ اِس سے اُس کا گزارہ ہوتا ہے۔“—اِست 24:14، 15، اُردو جیو ورشن؛ متی 20:8۔
10. ہم احبار 19:13 سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
10 آجکل بہت سے لوگوں کو روزانہ نہیں بلکہ مہینے میں ایک یا دو بار تنخواہ دی جاتی ہے۔ لیکن احبار 19:13 میں لکھے اصول پر آج ہمیں بھی عمل کرنا چاہیے۔ کچھ لوگ اپنے ملازموں کو اُتنی تنخواہ نہیں دیتے جتنی اُنہیں اُن کے کام کے لیے ملنی چاہیے۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کے ملازموں کو نوکری کی سخت ضرورت ہے اور وہ اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کم تنخواہ میں بھی کام کرتے رہیں گے۔ ایک لحاظ سے ایسے لوگ مزدور کو اُس کی مزدوری نہیں دے رہے ہوتے۔ اگر ایک مسیحی دوسروں کو ملازمت پر رکھتا ہے تو اُسے اُنہیں اُن کی جائز تنخواہ دینی چاہیے۔ آئیں، دیکھیں کہ ہم احبار 19 باب سے اَور کون سی باتیں سیکھ سکتے ہیں۔
پڑوسی سے محبت
11-12. احبار 19:17، 18 میں لکھی باتیں بتانے سے یسوع مسیح نے کس چیز پر زور دیا؟
11 یہوواہ ہم سے صرف اِس بات کی توقع نہیں کرتا کہ ہم دوسروں کو نقصان نہ پہنچائیں بلکہ وہ ہم سے ایک اَور بات کی بھی توقع کرتا ہے۔ یہ بات احبار 19:17، 18 سے پتہ چلتی ہے۔ (اِن آیتوں کو پڑھیں۔) غور کریں کہ خدا نے حکم دیا تھا: ”اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت کرنا۔“ اگر ایک مسیحی خدا کو خوش کرنا چاہتا ہے تو اُس کے لیے اِس حکم پر عمل کرنا لازمی ہے۔
12 غور کریں کہ یسوع مسیح نے احبار 19:18 میں لکھے حکم کی اہمیت پر کیسے زور دیا۔ ایک بار ایک فریسی نے یسوع سے پوچھا: ”شریعت میں سب سے بڑا حکم کون سا ہے؟“ جواب میں یسوع نے کہا کہ ”سب سے بڑا اور پہلا حکم“ یہ ہے کہ ہم یہوواہ سے اپنے سارے دل، اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھیں۔ پھر یسوع مسیح نے احبار 19:18 میں لکھی بات بتائی۔ اُنہوں نے کہا: ”اِس جیسا دوسرا حکم یہ ہے: ”اپنے پڑوسی سے اُسی طرح محبت کرو جس طرح تُم اپنے آپ سے کرتے ہو۔““ (متی 22:35-40) ہم بےشمار طریقوں سے اپنے پڑوسی کے لیے محبت ظاہر کر سکتے ہیں۔آئیں، احبار 19 باب سے کچھ طریقوں پر غور کریں۔
13. یوسف کے واقعے پر غور کرنے سے ہم احبار 19:18 میں لکھی بات کو اَور اچھی طرح سے کیوں سمجھ جاتے ہیں؟
13 اپنے پڑوسی سے محبت ظاہر کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم احبار 19:18 میں لکھی ہدایت پر عمل کریں۔ اِس آیت میں لکھا ہے: ”اِنتقام نہ لینا۔ اپنی قوم کے کسی شخص پر دیر تک تیرا غصہ نہ رہے۔“ (اُردو جیو ورشن) ہم میں سے زیادہتر ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو اپنے ساتھ کام کرنے والوں، اپنے ساتھ سکول میں پڑھنے والوں، اپنے رشتےداروں یا پھر اپنے گھر والوں کے لیے کئی کئی سال تک اپنے دل میں غصہ رکھتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یوسف کے سوتیلے بھائیوں کے دل میں یوسف کے لیے شدید غصہ بھرا تھا جس کی وجہ سے اُنہوں نے یوسف کو نقصان پہنچایا۔ (پید 37:2-8، 25-28) لیکن یوسف اپنے بھائیوں کی طرح نہیں تھے۔ جب یوسف کے پاس بہت زیادہ اِختیار آ گیا تو وہ اپنے بھائیوں سے بدلہ لے سکتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کِیا۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے اپنے بھائیوں پر رحم کِیا۔ یوسف نے اپنے دل میں غصہ نہیں پالا۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے وہ کام کِیا جس کے بارے میں بعد میں احبار 19:18 میں ہدایت دی گئی۔—پید 50:19-21۔
14. ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ احبار 19:18 جو اصول پائے جاتے ہیں، اُن پر ہمیں بھی عمل کرنا چاہیے؟
14 جو مسیحی خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں، اُنہیں یوسف کی طرح بننا چاہیے جنہوں نے اپنے بھائیوں سے بدلہ نہیں لیا بلکہ اُنہیں معاف کر دیا۔ جب یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو دُعا کرنا سکھایا تھا تو اُنہوں نے بھی یہی تعلیم دی تھی کہ ہمیں اُن لوگوں کو معاف کر دینا چاہیے جو ہمارے خلاف گُناہ کرتے ہیں۔ (متی 6:9، 12) اِسی طرح پولُس رسول نے بھی اپنے ہمایمانوں کو یہ مشورہ دیا: ”عزیزو، بدلہ نہ لیں۔“ (روم 12:19) اُنہوں نے اُن سے یہ بھی کہا: ”اگر آپ کو ایک دوسرے سے شکایت بھی ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کریں اور دل سے ایک دوسرے کو معاف کریں۔“ (کُل 3:13) یہوواہ کے اصول کبھی نہیں بدلتے۔ اِس لیے احبار 19:18 میں جو اصول پائے جاتے ہیں، اُن پر ہمیں آج بھی عمل کرنا چاہیے۔
15. مثال دے کر بتائیں کہ ہمیں دوسروں کو کیوں معاف کر دینا چاہیے۔
15 ذرا اِس مثال پر غور کریں۔ دل دُکھانے والی باتیں زخموں کی احبار 19:18 میں دی گئی ہدایت پر عمل کریں۔
طرح ہوتی ہیں۔ کچھ زخم چھوٹے ہوتے ہیں اور کچھ بڑے۔ ہو سکتا ہے کہ سبزی کاٹتے وقت شاید ہماری اُنگلی پر چھوٹا سا کٹ لگ جائے۔ اِس سے درد تو کافی ہوتا ہے لیکن یہ درد جلدی چلا جاتا ہے اور زخم بھر جاتا ہے۔ کچھ دن بعد تو شاید ہمیں یاد بھی نہیں رہتا کہ ہماری اُنگلی پر کٹ لگا کہاں تھا۔ اِسی طرح کچھ دل دُکھانے والی باتیں معمولی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ ہمارا کوئی دوست بِلاسوچے سمجھے کوئی ایسی بات کہہ دے یا کچھ ایسا کر دے جس سے ہمیں تکلیف پہنچے۔ شاید اِس کے لیے ہمیں اُسے معاف کرنا آسان لگے۔ لیکن اگر ہمارا زخم گہرا ہو تو شاید ڈاکٹر کو ٹانکے لگا کر اِس پر پٹی کرنی پڑے۔ اگر ہم اُس زخم کو کریدتے رہیں گے تو اِس سے ہمیں ہی تکلیف ہوگی۔ اِسی طرح ہو سکتا ہے کہ کسی نے ہمارا بہت زیادہ دل دُکھایا ہو۔ اگر ہم مسلسل اِس چیز کے بارے میں سوچتے رہیں گے تو اِس سے ہمیں ہی تکلیف پہنچے گی۔ اِس لیے اچھا ہے کہ ہم16. احبار 19:33، 34 کے مطابق بنیاِسرائیل کو پردیسیوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا تھا اور ہم اِس سے کیا سیکھتے ہیں؟
16 جب یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے پڑوسی سے محبت کریں تو وہ یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ اُنہیں صرف اپنی قوم یا نسل کے لوگوں سے محبت کرنی ہے۔ یہوواہ نے اُنہیں اُن اجنبیوں سے بھی محبت کرنے کا حکم دیا جو اُن کے ساتھ رہ رہے تھے۔ یہ حکم احبار 19:33، 34 میں لکھا ہے۔ (اِن آیتوں کو پڑھیں۔) یہوواہ چاہتا تھا کہ بنیاِسرائیل پردیسیوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں جیسا وہ اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں اور اُن سے ویسی ہی محبت کریں جیسی وہ اپنے آپ سے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ پردیسیوں اور غریب اِسرائیلیوں دونوں کو اپنے کھیتوں سے بالیں چُننے دیں۔ (احبا 19:9، 10) ہمیں بھی پردیسیوں سے محبت کرنے کے اصول پر عمل کرنا چاہیے۔ (لُو 10:30-37) ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ آجکل لاکھوں لوگ اپنا ملک چھوڑ کر کسی اَور ملک میں بس گئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اِن میں سے کچھ لوگ ہمارے علاقے میں بھی رہتے ہوں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اِن سب کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آئیں پھر چاہے وہ مرد ہوں، عورتیں یا بچے۔
ایک ایسا خاص کام جس کا احبار 19 باب میں ذکر نہیں ہوا
17-18. (الف) احبار 19:2 اور 1-پطرس 1:15 میں خدا کے بندوں کو کیا ہدایت دی گئی ہے؟ (ب) پطرس رسول نے کون سا خاص کام کرنے کی حوصلہافزائی کی؟
17 احبار 19:2 اور 1-پطرس 1:15 میں خدا کے بندوں کو واضح ہدایت دی گئی ہے کہ وہ پاک ہوں۔ احبار 19 باب میں اَور بہت سی ایسی باتیں بتائی گئی ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم خدا کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم نے اِن میں سے کچھ آیتوں پر غور کر کے دیکھا ہے کہ ہمیں کون سے کام کرنے چاہئیں اور کون سے نہیں۔ * یونانی صحیفوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آج ہمیں بھی اِن اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔ لیکن پطرس رسول نے ایک اَور بات بھی بتائی۔
18 ہو سکتا ہے کہ ہم باقاعدگی سے یہوواہ کی عبادت کرتے ہوں اور دوسروں کے فائدے کے لیے کئی کام کرتے ہوں۔ لیکن پطرس نے مسیحیوں کو ایک خاص کام کرنے کی ہدایت کی۔ اپنے ہمایمانوں سے یہ کہنے سے پہلے کہ وہ اپنے سارے چالچلن کو پاک کریں، پطرس نے اُن سے کہا: ”سخت محنت کے لیے تیار ہو جائیں۔“ (1-پطر 1:13، 15) مسیحیوں کو کس کام میں سخت محنت کرنی تھی؟ پطرس نے بتایا کہ مسیح کے مسحشُدہ بھائیوں کو خدا کی ”عظیم صفات کا چرچا“ کرنا تھا جس نے اُنہیں ’تاریکی سے اپنی شاندار روشنی میں بلایا ہے۔‘ (1-پطر 2:9) دراصل آج سب مسیحیوں کو اِس اہم کام کو کرنا چاہیے کیونکہ وہ دوسروں کی جتنی زیادہ مدد اِس کام کے ذریعے کر سکتے ہیں اُتنی زیادہ وہ کسی اَور کام سے نہیں کر سکتے۔ یہ ہمارے لیے کتنے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ خدا کے پاک بندوں کے طور پر ہم باقاعدگی اور لگن سے خدا کے کلام کی مُنادی کرتے اور دوسروں کو اِس کی تعلیم دیتے ہیں۔ (مر 13:10) جب ہم احبار 19 باب میں لکھے اصولوں پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں تو ہم ثابت کرتے ہیں کہ ہم خدا اور پڑوسی سے محبت کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ ہم ”اپنے سارے چالچلن کو پاک“ رکھنا چاہتے ہیں۔
گیت نمبر 111: ہماری خوشی کی وجوہات
^ پیراگراف 5 مسیحی موسیٰ کی شریعت کے تحت تو نہیں ہیں لیکن اِس شریعت میں بہت سی ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ اِن باتوں پر غور کرنے سے ہم دیکھ پائیں گے کہ ہم دوسروں کے لیے محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں اور خدا کو خوش کیسے کر سکتے ہیں۔ اِس مضمون میں احبار 19 باب سے ایسی ہی کچھ باتوں پر ہماری توجہ دِلائی جائے گی۔
^ پیراگراف 17 پچھلے مضمون اور اِس مضمون میں ہم نے احبار 19 باب کی اُن آیتوں پر غور نہیں کِیا جن میں طرفداری کرنے، دوسروں کو بدنام کرنے، خون کے اِستعمال، جادوگری، مستقبل کا حال بتانے اور بدچلنی کے بارے میں بات کی گئی ہے۔—احبا 19:15، 16، 26-29، 31۔—اِس شمارے میں ”قارئین کے سوال“ کو دیکھیں۔
^ پیراگراف 52 تصویر کی وضاحت: ایک یہوواہ کا گواہ اپنے ایک ایسے ہمایمان کو ڈاکٹر کی بات سمجھا رہا ہے جو سُن نہیں سکتا۔
^ پیراگراف 54 تصویر کی وضاحت: ایک بھائی جو دیواروں پر رنگ روغن کا کاروبار کرتا ہے، وہ اپنے ایک ملازم کو اُس کی دیہاڑی دے رہا ہے۔
^ پیراگراف 56 تصویر کی وضاحت: ایک بہن کا دھیان اپنی اُنگلی پر لگی معمولی سی چوٹ سے فوراً ہٹ گیا ہے۔ لیکن کیا وہ اپنے ہاتھ پر لگے بڑے زخم سے بھی اپنا دھیان ہٹائے گی؟