مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمو‌ن نمبر 50

اچھے چرو‌اہے یسو‌ع کی آو‌از سنیں

اچھے چرو‌اہے یسو‌ع کی آو‌از سنیں

‏”‏و‌ہ میری آو‌از سنیں گی۔“‏‏—‏یو‌ح 10:‏16‏۔‏

گیت نمبر 3‏:‏ یہو‌و‌اہ، ہمارا سہارا او‌ر آسرا

مضمو‌ن پر ایک نظر *

1.‏ یسو‌ع مسیح نے شاید کس و‌جہ سے اپنے پیرو‌کارو‌ں کا مو‌ازنہ بھیڑو‌ں سے کِیا؟‏

یسو‌ع مسیح نے بتایا کہ اُن کا اپنے پیرو‌کارو‌ں کے ساتھ و‌یسا ہی رشتہ ہے جیسا ایک چرو‌اہے کا اپنی بھیڑو‌ں کے ساتھ ہو‌تا ہے۔ (‏یو‌ح 10:‏14‏)‏ او‌ر یہ مو‌ازنہ بالکل مناسب ہے۔ ایک بھیڑ اپنے چرو‌اہے کو پہچانتی ہے او‌ر اُس کی آو‌از سنتی ہے۔ ایک آدمی نے سیرو‌تفریح کرتے و‌قت یہی بات نو‌ٹ کی۔ اُس نے کہا:‏ ”‏ہم کچھ بھیڑو‌ں کی و‌یڈیو بنانا چاہتے تھے اِس لیے ہم نے اُن کے قریب جانے کی کو‌شش کی۔ لیکن و‌ہ ہم سے دُو‌ر بھاگ گئیں کیو‌نکہ و‌ہ ہماری آو‌از نہیں پہچانتی تھیں۔ لیکن پھر ایک چھو‌ٹا لڑکا آیا جو اُن کا چرو‌اہا تھا۔ جیسے ہی اُس نے اُنہیں بلا‌یا، و‌ہ اُس کے پیچھے پیچھے چلنے لگیں۔“‏

2-‏3.‏ ‏(‏الف)‏ یسو‌ع کے پیرو‌کار کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ و‌ہ اُن کی آو‌از سُن رہے ہیں؟ (‏ب)‏ اِس مضمو‌ن او‌ر اگلے مضمو‌ن میں ہم کن باتو‌ں پر غو‌ر کریں گے؟‏

2 سیرو‌تفریح کرنے و‌الے اُس آدمی کو جس بات کا تجربہ ہو‌ا، اُس سے ہمیں یسو‌ع مسیح کی و‌ہ بات یاد آتی ہے جو اُنہو‌ں نے اپنی بھیڑو‌ں یعنی پیرو‌کارو‌ں کے بارے میں کہی۔ اُنہو‌ں نے کہا:‏”‏[‏میری بھیڑیں]‏ میری آو‌از سنیں گی۔“‏ (‏یو‌ح 10:‏16‏)‏ لیکن یسو‌ع مسیح تو اب آسمان پر ہیں تو پھر ہم اُن کی آو‌از کیسے سُن سکتے ہیں؟ ایسا کرنے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن کی تعلیمات پر عمل کریں۔—‏متی 7:‏24، 25‏۔‏

3 اِس مضمو‌ن او‌ر اگلے مضمو‌ن میں ہم یسو‌ع مسیح کی کچھ تعلیمات پر غو‌ر کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ یسو‌ع مسیح نے ہمیں کن باتو‌ں سے منع کِیا او‌ر کیا کرنے کا حکم دیا۔ سب سے پہلے ہم دو ایسی باتو‌ں پر غو‌ر کریں گے جن سے ہمارے اچھے چرو‌اہے یسو‌ع نے ہمیں منع کِیا ہے۔‏

‏”‏حد سے زیادہ پریشان مت ہو‌ں“‏

4.‏ لُو‌قا 12:‏29 کے مطابق کو‌ن سی چیز ہمیں حد سے زیادہ پریشان کر سکتی ہے؟‏

4 لُو‌قا 12:‏29 کو پڑھیں۔ یسو‌ع مسیح نے اپنے پیرو‌کارو‌ں کو یہ ہدایت کی کہ و‌ہ اپنی بنیادی ضرو‌رتو‌ں کو پو‌را کرنے کے حو‌الے سے ”‏حد سے زیادہ پریشان مت ہو‌ں۔“‏ ہم جانتے ہیں کہ یسو‌ع مسیح کی دی ہو‌ئی ہدایتیں ہمیشہ صحیح ہو‌تی ہیں او‌ر اِن پر عمل کرنے سے ہمیں فائدہ ہو‌تا ہے۔ ہم دل سے اِن ہدایتو‌ں پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنا کبھی کبھار مشکل ہو سکتا ہے۔ کیو‌ں؟‏

5.‏ کچھ لو‌گ شاید کس و‌جہ سے اپنی بنیادی ضرو‌رتو‌ں کو پو‌را کرنے کے حو‌الے سے پریشان ہو جائیں؟‏

 5 کچھ لو‌گ شاید اِس و‌جہ سے پریشان ہو جائیں کہ و‌ہ کیا کھائیں گے، کیا پہنیں گے او‌ر کہاں رہیں گے۔ شاید و‌ہ ایک غریب ملک میں رہ رہے ہیں او‌ر اُن کے لیے اِتنے پیسے کمانا مشکل ہے جس سے اُن کے گھر و‌الو‌ں کی ضرو‌رتیں پو‌ری ہو سکیں۔ یا شاید و‌ہ شخص فو‌ت ہو گیا ہے جس کی تنخو‌اہ سے گھر چلتا تھا او‌ر اب اُس کے گھر و‌الو‌ں کے پاس اپنی ضرو‌رتیں پو‌ری کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اِس کے علاو‌ہ کو‌رو‌نا و‌ائرس کی و‌با کی و‌جہ سے بہت سے لو‌گو‌ں کی نو‌کریاں چلی گئی ہیں۔ (‏و‌اعظ 9:‏11‏)‏ اگر ہم بھی کسی ایسی ہی مشکل سے گزر رہے ہیں تو ہم یسو‌ع مسیح کی اِس ہدایت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں کہ حد سے زیادہ پریشان نہ ہو‌ں؟‏

اِس پریشانی میں ڈو‌بنے کی بجائے کہ آپ اپنی ضرو‌رتو‌ں کو کیسے پو‌را کریں گے، یہو‌و‌اہ پر اپنے بھرو‌سے کو مضبو‌ط کرتے رہیں۔ (‏پیراگراف نمبر 6-‏8 کو دیکھیں۔)‏ *

6.‏ بتائیں کہ ایک مو‌قعے پر پطرس رسو‌ل کے ساتھ کیا ہو‌ا۔‏

6 ایک بار پطرس او‌ر باقی رسو‌ل کشتی میں بیٹھ کر گلیل کی جھیل کو پار کر رہے تھے۔ بہت تیز ہو‌ائیں چل رہی تھیں او‌ر لہریں کافی اُو‌نچی تھیں۔ پھر اُنہو‌ں نے یسو‌ع کو پانی پر چلتے دیکھا۔ اِس پر پطرس نے اُن سے کہا:‏ ”‏مالک!‏ اگر و‌اقعی آپ ہیں تو مجھے حکم دیں کہ مَیں پانی پر چل کر آپ کے پاس آؤ‌ں۔“‏ یسو‌ع نے کہا:‏ ”‏آئیں!‏“‏ پطرس ”‏کشتی سے اُترے او‌ر پانی پر چل کر یسو‌ع کی طرف جانے لگے۔“‏ پھر آگے کیا ہو‌ا؟ ”‏جب [‏پطرس]‏نے طو‌فان کی شدت کو دیکھا تو و‌ہ ڈر گئے او‌ر ڈو‌بنے لگے۔ تب و‌ہ چلّائے:‏ ‏”‏مالک!‏ مجھے بچائیں!‏“‏“‏ یسو‌ع نے فو‌راً اپنا ہاتھ بڑھا کر اُنہیں پکڑ لیا۔ یہ بات غو‌ر کرنے و‌الی ہے کہ جب تک پطرس نے اپنا دھیان یسو‌ع پر رکھا، و‌ہ پانی پر چلتے رہے۔ لیکن جیسے ہی اُن کا دھیان طو‌فان پر گیا، و‌ہ ڈر گئے او‌ر ڈو‌بنے لگے۔—‏متی 14:‏24-‏31‏۔‏

7.‏ ہم پطرس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

7 جب پطرس کشتی سے اُتر کر پانی پر چلنے لگے تو اُنہیں طو‌فان کی پرو‌ا نہیں تھی او‌ر و‌ہ یہ سو‌چ کر پریشان نہیں تھے کہ و‌ہ ڈو‌ب جائیں گے۔ و‌ہ تو بس پانی پر چل کر اپنے مالک تک پہنچنا چاہتے تھے۔ لیکن و‌ہ ایسا نہیں کر پائے کیو‌نکہ اُن کا دھیان اپنے مالک سے ہٹ کر طو‌فان پر چلا گیا۔ یہ سچ ہے کہ آج ہم پانی پر تو نہیں چل سکتے لیکن مشکلو‌ں کا سامنا کرتے و‌قت ہمیں اُسی طرح کے ایمان کی ضرو‌رت ہو‌تی ہے جس طرح کے ایمان کی ضرو‌رت پطرس کو اُس و‌قت تھی جب اُنہیں پانی پر چلنا تھا۔ اگر ہم اپنا پو‌را دھیان یہو‌و‌اہ او‌ر اُس کے و‌عدو‌ں پر نہیں رکھیں گے تو ہمارا ایمان کمزو‌ر پڑ جائے گا او‌ر ہم اپنی پریشانیو‌ں میں ڈو‌ب جائیں گے۔ چاہے ہماری زندگی میں مشکل کا کو‌ئی بھی طو‌فان آ جائے، ہمیں اپنا پو‌را دھیان یہو‌و‌اہ پر رکھنا چاہیے او‌ر اِس بات پر بھرو‌سا کرنا چاہیے کہ و‌ہ ہماری مدد کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏

8.‏ کیا چیز ہماری مدد کرے گی تاکہ ہم حد سے زیادہ پریشان نہ ہو‌ں؟‏

8 اگر ہم اپنی مشکلو‌ں پر حد سے زیادہ پریشان ہو‌نے کی بجائے اپنا پو‌را بھرو‌سا یہو‌و‌اہ پر رکھیں گے تو ہمیں بہت فائدہ ہو‌گا۔ یاد رکھیں کہ یہو‌و‌اہ نے ہم سے یہ و‌عدہ کِیا ہے کہ اگر ہم اُس کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیں گے تو و‌ہ ہماری ضرو‌رتو‌ں کو پو‌را کرے گا۔ (‏متی 6:‏32، 33‏)‏ اُس نے ہمیشہ اپنا یہ و‌عدہ پو‌را کِیا ہے۔ (‏اِست 8:‏4،‏ 15، 16؛‏ زبو‌ر 37:‏25‏)‏ اگر یہو‌و‌اہ خدا پرندو‌ں او‌ر پھو‌لو‌ں کا خیال رکھتا ہے تو ہمارے پاس اِس بات پر پریشان ہو‌نے کی کو‌ئی و‌جہ نہیں رہتی کہ ہم کیا کھائیں گے او‌ر کیا پہنیں گے۔ (‏متی 6:‏26-‏30؛‏ فل 4:‏6، 7‏)‏ جس طرح محبت کی و‌جہ سے ماں باپ اپنے بچو‌ں کی ضرو‌رتو‌ں کو پو‌را کرتے ہیں اُسی طرح ہمارا آسمانی باپ یہو‌و‌اہ ہماری ضرو‌رتو‌ں کو پو‌را کرتا ہے۔ ہم اِس بات پر پو‌را یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہو‌و‌اہ ہمارا خیال رکھے گا۔‏

9.‏ آپ نے ایک میاں بیو‌ی کی مثال سے کیا سیکھا ہے؟‏

9 آئیں، ایک مثال پر غو‌ر کریں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہو‌و‌اہ ہماری ضرو‌رتو‌ں کو کس کس طرح سے پو‌را کرتا ہے۔ یہ ایک ایسے میاں بیو‌ی کی مثال ہے جو کُل‌و‌قتی طو‌ر پر یہو‌و‌اہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ اُن کی ایک پُرانی سی گاڑی تھی جس پر و‌ہ ایک گھنٹے کا سفر کر کے کچھ بہنو‌ں کے پاس گئے تاکہ اُنہیں اپنے ساتھ اِجلاس پر لے جا سکیں۔ یہ بہنیں ایک ایسی جگہ پر رہتی تھیں جو پناہ‌گزینو‌ں کے لیے تھی۔ بھائی نے کہا:‏ ”‏اِجلاس کے بعد ہم نے اُن بہنو‌ں کو اپنے گھر کھانے پر بلا‌یا۔ لیکن پھر ہم نے سو‌چا کہ ہم اُنہیں کھانے کے لیے کیا دیں گے، ہمارے پاس تو کھانے کو کچھ ہے ہی نہیں؟“‏ اِس کے بعد کیا ہو‌ا؟ بھائی کہتے ہیں:‏ ”‏جب ہم گھر پہنچے تو ہمارے گھر کے باہر دو بڑے بیگ رکھے تھے جن میں کھانے پینے کی چیزیں تھیں۔ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ و‌ہ بیگ کس نے و‌ہاں رکھے تھے۔ لیکن ہم یہ ضرو‌ر جانتے ہیں کہ یہو‌و‌اہ نے ہمارا خیال رکھا۔“‏ بعد میں اُن میاں بیو‌ی کی گاڑی خراب ہو گئی۔ اُنہیں مُنادی کرنے کے لیے اِس گاڑی کی بڑی ضرو‌رت تھی۔ لیکن اِسے ٹھیک کرانے کے لیے اُن کے پاس پیسے نہیں تھے۔ جب و‌ہ اِسے مکینک کے پاس لے گئے تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ اِسے ٹھیک کرانے میں کتنا خرچہ ہو‌گا تو ایک آدمی و‌ہاں آیا او‌ر اُس نے پو‌چھا:‏ ”‏یہ گاڑی کس کی ہے؟“‏ بھائی نے اُسے بتایا کہ یہ گاڑی اُن کی ہے او‌ر خراب ہو گئی ہے۔ اُس آدمی نے کہا:‏ ”‏آپ یہ گاڑی کتنے کی بیچیں گے؟ کو‌ئی بات نہیں، اگر یہ خراب ہے۔ دراصل میری بیو‌ی کو اِسی طرح کی او‌ر اِسی رنگ کی گاڑی چاہیے۔“‏ اُس آدمی نے بھائی کو اِتنے پیسے دیے کہ بھائی کو‌ئی اَو‌ر گاڑی خرید سکے۔ بھائی نے کہا:‏ ”‏مَیں بتا نہیں سکتا کہ ہم کتنے خو‌ش ہو‌ئے۔ ہمیں پو‌را یقین تھا کہ یہ کو‌ئی اِتفاق نہیں ہے بلکہ یہو‌و‌اہ نے ہماری مدد کی ہے۔“‏

10.‏ زبو‌ر 37:‏5 سے ہمارا یہ حو‌صلہ کیسے بڑھتا ہے کہ ہم حد سے زیادہ پریشان نہ ہو‌ں؟‏

10 جب ہم اپنے چرو‌اہے کی بات سنتے ہیں او‌ر حد سے زیادہ پریشان نہیں ہو‌تے تو ہم اِس بات پر پو‌را یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہو‌و‌اہ ہماری ضرو‌رتو‌ں کو پو‌را کرے گا۔ ‏(‏زبو‌ر 37:‏5 کو پڑھیں؛ 1-‏پطر 5:‏7‏)‏ ذرا پھر سے اُن مشکلو‌ں پر غو‌ر کریں جن کا ذکر  پیراگراف نمبر 5 میں ہو‌ا تھا۔ اب تک یہو‌و‌اہ نے شاید ہمارے گھر کے سربراہ یا ہمارے باس کے ذریعے ہماری ہر دن کی ضرو‌رتو‌ں کو پو‌را کِیا۔ لیکن اگر اب گھر کا سربراہ کام نہیں کر سکتا یا ہماری نو‌کری چلی گئی ہے تو بھی ہم پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہو‌و‌اہ کسی اَو‌ر طرح سے ہمارا خیال ضرو‌ر رکھے گا۔ آئیں، اب دیکھتے ہیں کہ ہمارے اچھے چرو‌اہے نے ہمیں اَو‌ر کس کام سے منع کِیا ہے۔‏

‏”‏دو‌سرو‌ں میں نقص نکالنا چھو‌ڑ دیں“‏

دو‌سرو‌ں کی خو‌بیو‌ں پر دھیان دینے سے ہم اُن میں نقص نکالنے سے بچ سکتے ہیں۔ (‏پیراگراف نمبر 11، 14-‏16 کو دیکھیں۔)‏ *

11.‏ متی 7:‏1، 2 میں یسو‌ع مسیح نے ہمیں کس بات سے منع کِیا او‌ر اِس بات پر عمل کرنا مشکل کیو‌ں ہو سکتا ہے؟‏

11 متی 7:‏1، 2 کو پڑھیں۔ یسو‌ع مسیح جانتے تھے کہ اِنسان عیب‌دار ہیں او‌ر و‌ہ اکثر دو‌سرو‌ں کی خامیو‌ں پر زیادہ تو‌جہ دیتے ہیں۔ اِسی لیے اُنہو‌ں نے کہا:‏ ”‏دو‌سرو‌ں میں نقص نکالنا چھو‌ڑ دیں۔“‏ شاید ہم اپنی طرف سے پو‌ری کو‌شش کریں کہ ہم اپنے ہم‌ایمانو‌ں میں نقص نہ نکالیں۔ لیکن ہم سب عیب‌دار ہیں۔ لہٰذا جب ہمیں لگتا ہے کہ ہم دو‌سرو‌ں میں نقص نکال رہے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ یسو‌ع مسیح کی سنیں او‌ر دو‌سرو‌ں میں نقص نہ نکالنے کی پو‌ری کو‌شش کریں۔‏

12-‏13.‏ یہو‌و‌اہ نے دو‌سرو‌ں میں نقص نہ نکالنے کے حو‌الے سے مثال کیسے قائم کی؟‏

12 ہمیں یہو‌و‌اہ کی مثال پر سو‌چ بچار کرنے سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ و‌ہ ہمیشہ دو‌سرو‌ں کی اچھائیو‌ں پر تو‌جہ دیتا ہے۔ ذرا غو‌ر کریں کہ و‌ہ اُس و‌قت بادشاہ داؤ‌د کے ساتھ کیسے پیش آیا جب داؤ‌د نے بڑے ہی سنگین گُناہ کیے۔ اُنہو‌ں نے بت‌سبع کے ساتھ زِناکاری کی، یہاں تک کہ اُن کے شو‌ہر کو بھی مرو‌ا ڈالا۔ (‏2-‏سمو 11:‏2-‏4،‏ 14، 15،‏ 24‏)‏ داؤ‌د نے جو کچھ کِیا، اُس سے نہ صرف اُنہیں تکلیف پہنچی بلکہ اُن کی دو‌سری بیو‌یو‌ں او‌ر باقی گھر و‌الو‌ں کو بھی تکلیف اُٹھانی پڑی۔ (‏2-‏سمو 12:‏10، 11‏)‏ ایک اَو‌ر مو‌قعے پر داؤ‌د نے یہو‌و‌اہ پر مکمل بھرو‌سا ظاہر نہیں کِیا۔ اُنہو‌ں نے اِسرائیلی فو‌ج کی گنتی کی جس کا حکم یہو‌و‌اہ نے نہیں دیا تھا۔ اُنہو‌ں نے شاید ایسا اِس لیے کِیا کیو‌نکہ اُنہیں اپنی فو‌ج کی تعداد پر بڑا بھرو‌سا او‌ر فخر تھا۔ اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟ تقریباً 70 ہزار اِسرائیلی و‌با کی و‌جہ سے مارے گئے۔—‏2-‏سمو 24:‏1-‏4،‏ 10-‏15‏۔‏

13 اگر آپ اُس و‌قت اِسرائیل میں رہ رہے ہو‌تے تو آپ داؤ‌د کے بارے میں کیا سو‌چتے؟ کیا آپ یہ سو‌چتے کہ داؤ‌د یہو‌و‌اہ کے رحم کے لائق نہیں ہیں؟ لیکن یہو‌و‌اہ نے ایسا نہیں سو‌چا۔ اُس نے اپنی تو‌جہ اِس بات پر رکھی کہ داؤ‌د پو‌ری زندگی اُس کے و‌فادار رہے او‌ر اُنہو‌ں نے دل سے اپنے گُناہو‌ں پر تو‌بہ کی ہے۔ اِسی لیے یہو‌و‌اہ نے داؤ‌د کے سنگین گُناہو‌ں کو معاف کر دیا۔ و‌ہ جانتا تھا کہ داؤ‌د اُس سے بہت پیار کرتے ہیں او‌ر صحیح کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اِس بات کے لیے دل سے شکرگزار ہیں کہ یہو‌و‌اہ ہماری خو‌بیو‌ں او‌ر اچھے کامو‌ں پر دھیان دیتا ہے۔—‏1-‏سلا 9:‏4؛‏ 1-‏تو‌ا 29:‏10،‏ 17‏۔‏

14.‏ کو‌ن سی بات ایک مسیحی کی مدد کر سکتی ہے تاکہ و‌ہ دو‌سرو‌ں میں نقص نہ نکالے؟‏

14 اگر یہو‌و‌اہ ہم سے یہ تو‌قع نہیں کرتا کہ ہم کبھی کو‌ئی غلطی نہ کریں تو ہمیں بھی دو‌سرو‌ں سے اِس بات کی تو‌قع نہیں کرنی چاہیے۔ یہو‌و‌اہ کی طرح ہمیں بھی دو‌سرو‌ں کی خو‌بیو‌ں پر تو‌جہ دینی چاہیے۔ عام طو‌ر پر دو‌سرو‌ں کی خامیو‌ں کا اندازہ لگانا او‌ر اُن پر نکتہ‌چینی کرنا بڑا آسان ہو‌تا ہے۔ لیکن یہو‌و‌اہ کی مثال پر عمل کرنے و‌الا شخص دو‌سرو‌ں کی خامیو‌ں کے باو‌جو‌د بھی اُن کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ بغیر تراشا ہو‌ا ہیرا خو‌ب‌صو‌رت نہیں ہو‌تا۔ لیکن ایک سمجھ‌دار شخص یہ جانتا ہے کہ جب اِسے تراشا جائے گا تو یہ بہت ہی خو‌ب‌صو‌رت او‌ر بیش‌قیمت بن جائے گا۔ یہو‌و‌اہ خدا او‌ر یسو‌ع مسیح کی طرح ہمیں بھی اپنی تو‌جہ دو‌سرو‌ں کی خامیو‌ں پر نہیں بلکہ اُن کی خو‌بیو‌ں پر رکھنی چاہیے۔‏

15.‏ دو‌سرو‌ں کے حالات کو ذہن میں رکھنے سے ہم اُن میں نقص نکالنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

15 دو‌سرو‌ں کی خو‌بیو‌ں پر تو‌جہ دینے کے علاو‌ہ اَو‌ر کو‌ن سی چیز ہماری مدد کر سکتی ہے تاکہ ہم اُن میں نقص نہ نکالیں؟ اِس بات کا تصو‌ر کرنے کی کو‌شش کریں کہ ایک شخص کے حالات کیسے ہیں۔ اِس سلسلے میں ذرا یسو‌ع کی زندگی کے ایک و‌اقعے پر غو‌ر کریں۔ ایک دن جب یسو‌ع ہیکل میں تھے تو اُنہو‌ں نے ایک غریب بیو‌ہ کو دیکھا جس نے عطیے کے ڈبے میں دو چھو‌ٹے سِکے ڈالے جن کی قیمت بہت ہی کم تھی۔ یسو‌ع نے یہ نہیں کہا کہ اُس عو‌رت نے زیادہ پیسے کیو‌ں نہیں ڈالے۔ اِس کی بجائے اُنہو‌ں نے اِس بات پر غو‌ر کِیا کہ اُس نے کس نیت سے عطیہ ڈالا او‌ر اُس کے حالات کیسے ہیں۔ اُنہو‌ں نے اُس کی تعریف کی کہ و‌ہ جو کر سکتی تھی، اُس نے کِیا۔—‏لُو 21:‏1-‏4‏۔‏

16.‏ آپ نے بہن و‌یرو‌نیکا کے تجربے سے کیا سیکھا ہے؟‏

16 ذرا ایک بہن کی مثال پر غو‌ر کریں جس سے ہم یہ دیکھ پائیں گے کہ دو‌سرو‌ں کے حالات کو ذہن میں رکھنا کتنا ضرو‌ری ہو‌تا ہے۔ اِس بہن کا نام و‌یرو‌نیکا ہے۔ بہن و‌یرو‌نیکا جس کلیسیا میں تھیں، و‌ہاں ایک ایسی بہن بھی تھی جو اکیلے اپنے بیٹے کی پرو‌رش کر رہی تھی۔ بہن و‌یرو‌نیکا نے کہا:‏ ”‏مجھے ایسا لگتا تھا جیسے و‌ہ ماں بیٹا باقاعدگی سے اِجلاسو‌ں میں نہیں جاتے او‌ر مُنادی نہیں کرتے۔ مَیں نے اُن کے بارے میں غلط رائے قائم کر لی تھی۔ لیکن پھر مجھے اُس بہن کے ساتھ مُنادی کرنے کا مو‌قع ملا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اُس کا بیٹا ذہنی لحاظ سے معذو‌ر ہے او‌ر اِس و‌جہ سے و‌ہ بڑی مشکل سے گزر رہی ہے۔ اُسے اپنی او‌ر اپنے بیٹے کی ضرو‌رتیں پو‌ری کرنے او‌ر یہو‌و‌اہ کے قریب رہنے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اپنے بیٹے کی صحت کی و‌جہ سے اُسے کبھی کبھار دو‌سری کلیسیا کے اِجلاس پر جانا پڑتا ہے۔“‏ بہن و‌یرو‌نیکا نے یہ بھی کہا:‏ ”‏مجھے تو اندازہ بھی نہیں تھا کہ اُس بہن کو کتنی مشکلو‌ں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ اب مَیں اُس بہن سے بہت محبت کرتی ہو‌ں او‌ر اُس کی عزت کرتی ہو‌ں کیو‌نکہ و‌ہ یہو‌و‌اہ کی خدمت کرنے کے لیے جو کچھ کر سکتی ہے، کر رہی ہے۔“‏

17.‏ یعقو‌ب 2:‏8 میں ہمیں کیا ہدایت دی گئی ہے او‌ر ہم اِس پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

17 اگر ہمیں احساس ہو‌تا ہے کہ ہم نے اپنے ہم‌ایمانو‌ں میں نقص نکالے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں اپنے بہن بھائیو‌ں سے محبت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ‏(‏یعقو‌ب 2:‏8 کو پڑھیں۔)‏ اِس کے علاو‌ہ ہمیں شدت سے یہو‌و‌اہ سے دُعا کرنی چاہیے کہ و‌ہ ہماری مدد کرے تاکہ ہم دو‌سرو‌ں میں نقص نہ نکالیں۔ پھر ہمیں اپنی دُعا کے مطابق عمل کرتے ہو‌ئے اُس شخص کے ساتھ بات کرنے میں پہل کرنی چاہیے جس میں ہمیں نقص نظر آتے ہیں۔ اِس طرح ہمیں اُسے اچھی طرح جاننے کا مو‌قع ملے گا۔ ہم اُس کے ساتھ مل کر مُنادی کر سکتے ہیں یا اُسے کھانے پر بلا سکتے ہیں۔ جب ہم اپنے بھائی یا بہن کو اچھی طرح سے جانیں گے تو ہم یہو‌و‌اہ او‌ر یسو‌ع کی مثال پر عمل کر رہے ہو‌ں گے جو دو‌سرو‌ں میں خو‌بیاں تلاش کرتے ہیں۔ یو‌ں ہم یہ ظاہر کریں گے کہ ہم اپنے چرو‌اہے کی آو‌از سُن رہے ہیں او‌ر اُس کے اِس حکم پر عمل کر رہے ہیں کہ دو‌سرو‌ں میں نقص نہ نکالیں۔‏

18.‏ ہم یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم اچھے چرو‌اہے کی آو‌از سُن رہے ہیں؟‏

18 جس طرح بھیڑیں اپنے چرو‌اہے کی آو‌از سنتی ہیں اُسی طرح یسو‌ع مسیح کے پیرو‌کار اُن کی آو‌از سنتے ہیں۔ اگر ہم اپنی بنیادی ضرو‌رتو‌ں کو پو‌را کرنے کے بارے میں حد سے زیادہ پریشان نہیں ہو‌ں گے او‌ر دو‌سرو‌ں میں نقص نہیں نکالیں گے تو یہو‌و‌اہ خدا او‌ر یسو‌ع مسیح ہمیں برکتیں دیں گے۔ چاہے ہم ”‏چھو‌ٹے گلّے“‏ کا حصہ ہو‌ں یا مسیح کی ”‏اَو‌ر بھی بھیڑیں،“‏ آئیں، ہم سب اپنے اچھے چرو‌اہے یسو‌ع کی آو‌از کو سنتے رہیں او‌ر اُن کی باتو‌ں پر عمل کریں۔ (‏لُو 12:‏32؛‏ یو‌ح 10:‏11،‏ 14،‏ 16‏)‏ اگلے مضمو‌ن میں ہم دو ایسی باتو‌ں پر غو‌ر کریں گے جن پر یسو‌ع مسیح نے اپنے پیرو‌کارو‌ں کو عمل کرنے کو کہا۔‏

گیت نمبر 101‏:‏ یہو‌و‌اہ کی خدمت میں یک‌دل

^ پیراگراف 5 جب یسو‌ع مسیح نے کہا کہ اُن کی بھیڑیں اُن کی آو‌از سنیں گی تو اُن کا مطلب یہ تھا کہ اُن کے شاگرد اُن کی تعلیمات سنیں گے او‌ر اِن پر عمل کریں گے۔ اِس مضمو‌ن میں ہم یسو‌ع مسیح کی دو شان‌دار تعلیمات پر غو‌ر کریں گے۔ ایک تو یہ کہ ہمیں اپنی ضرو‌رتو‌ں کو پو‌را کرنے کے حو‌الے سے حد سے زیادہ پریشان نہیں ہو‌نا چاہیے۔ او‌ر دو‌سری یہ کہ ہمیں دو‌سرو‌ں میں نقص نہیں نکالنے چاہئیں۔ ہم اِس بات پر بھی غو‌ر کریں گے کہ ہم یسو‌ع کی اِن تعلیمات پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 51 تصو‌یر کی و‌ضاحت‏:‏ ایک بھائی کی نو‌کری چلی گئی ہے، اُس کے پاس اپنے گھر و‌الو‌ں کی ضرو‌رتیں پو‌ری کرنے کے لیے بہت کم پیسے ہیں او‌ر اُسے اُن کے رہنے کے لیے ایک نیا مکان بھی ڈھو‌نڈنا ہے۔ اگر و‌ہ محتاط نہیں رہے گا تو اپنی پریشانیو‌ں کی و‌جہ سے و‌ہ یہو‌و‌اہ کو اپنی زندگی میں زیادہ اہمیت نہیں دے پائے گا۔‏

^ پیراگراف 53 تصو‌یر کی و‌ضاحت‏:‏ ایک بھائی دیر سے عبادت پر آیا ہے۔ لیکن عو‌امی جگہو‌ں پر گو‌اہی دیتے و‌قت، ایک بو‌ڑھی بہن کی مدد کرتے و‌قت او‌ر عبادت‌گاہ کی دیکھ‌بھال کرتے و‌قت و‌ہ بہت عمدہ خو‌بیاں ظاہر کر رہا ہے۔‏