مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمو‌ن نمبر 8

کیا آپ اِس طرح سے دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کرتے ہیں کہ اُن کا دل خو‌ش ہو؟‏

کیا آپ اِس طرح سے دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کرتے ہیں کہ اُن کا دل خو‌ش ہو؟‏

‏”‏تیل او‌ر بخو‌ر دل کو خو‌ش کرتے ہیں،‏ لیکن دو‌ست اپنے اچھے مشو‌رو‌ں سے خو‌شی دِلاتا ہے۔“‏‏—‏امثا 27:‏9‏، اُردو جیو و‌رشن۔‏

گیت نمبر 102‏:‏ ”‏کمزو‌رو‌ں کی مدد کریں“‏

مضمو‌ن پر ایک نظر *

1-‏2.‏ ایک بھائی نے دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کرنے کے بارے میں کیا سیکھا؟‏

کئی سال پہلے دو بزرگ ایک ایسی بہن سے ملنے گئے جو کچھ عرصے سے اِجلاسو‌ں میں نہیں آ رہی تھی۔ اُن میں سے ایک بزرگ نے بہن کو اِجلاسو‌ں میں آنے کے حو‌الے سے کئی آیتیں دِکھائیں۔ اُسے لگا کہ اُس نے اُس بہن کا کافی حو‌صلہ بڑھایا ہے۔ لیکن جب و‌ہ دو‌نو‌ں بزرگ اُس بہن کے گھر سے نکل رہے تھے تو بہن نے اُن سے کہا:‏ ”‏آپ بھائیو‌ں کو ذرا بھی اندازہ نہیں کہ مجھ پر کیا بیت رہی ہے۔“‏ اُن بزرگو‌ں نے یہ جانے بغیر ہی اُس بہن کی اِصلاح کرنے کی کو‌شش کی کہ اُسے کن مسئلو‌ں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اِس و‌جہ سے اُن کی بات‌چیت سے اُس بہن کو کو‌ئی فائدہ نہیں ہو‌ا۔‏

2 اِس و‌اقعے کو یاد کرتے ہو‌ئے و‌ہ بزرگ جس نے اُس بہن کو بہت سی آیتیں دِکھائی تھیں، کہتا ہے:‏ ”‏اُس و‌قت مجھے لگا کہ اُس بہن نے ہماری بات کی کو‌ئی قدر نہیں کی۔ لیکن پھر مجھے احساس ہو‌ا کہ مَیں نے اپنی بہن کے بارے میں سو‌چنے کی بجائے اُن آیتو‌ں کے بارے میں سو‌چا جو مَیں اُسے دِکھانا چاہتا تھا۔ مجھے اُس سے پو‌چھنا چاہیے تھا کہ و‌ہ کن حالات سے گزر رہی ہے او‌ر مَیں اُس کی مدد کیسے کر سکتا ہو‌ں۔“‏ اِس و‌اقعے سے اُس بزرگ نے بہت خاص سبق سیکھا۔ آج و‌ہ ایک ایسا چرو‌اہا ہے جو دو‌سرو‌ں سے ہمدردی کرتا ہے او‌ر اُن کا حو‌صلہ بڑھاتا ہے۔‏

3.‏ کلیسیا میں کو‌ن دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کر سکتا ہے؟‏

 3 چرو‌اہو‌ں کے طو‌ر پر بزرگو‌ں کی ذمےداری ہے کہ و‌ہ ضرو‌رت پڑنے پر دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کریں۔ لیکن کبھی کبھار کلیسیا میں دو‌سرے بہن بھائیو‌ں کو بھی کسی کی اِصلاح کرنے کی ضرو‌رت پڑ سکتی ہے۔ مثال کے طو‌ر پر ہو سکتا ہے کہ کسی بہن یا بھائی کو اپنے کسی دو‌ست کو بائبل میں سے کو‌ئی مشو‌رہ دینا پڑے۔ (‏زبو‌ر 141:‏5؛‏ امثا 25:‏12‏)‏ یا پھر شاید کسی بڑی عمر کی بہن کو جو‌ان بہنو‌ں کو ایسی باتیں سکھانی پڑیں جن کا ذکر طِطُس 2:‏3-‏5 میں ہو‌ا ہے۔ او‌ر بےشک ماں باپ کو کئی بار اپنے بچو‌ں کو کچھ باتیں سمجھانی پڑتی ہیں او‌ر اُن کی درستی کرنی پڑتی ہے۔ بھلے ہی یہ مضمو‌ن بزرگو‌ں کے لیے ہے لیکن اِس میں دیے گئے مشو‌رو‌ں سے ہم سب یہ سیکھ سکتے ہیں کہ ہمیں کس طرح دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کرنی چاہیے تاکہ اِس سے نہ صرف اُنہیں فائدہ ہو بلکہ اُن کا ’‏دل خو‌ش‘‏ ہو او‌ر و‌ہ ہماری بات پر عمل بھی کریں۔—‏امثا 27:‏9‏، اُردو جیو و‌رشن۔‏

4.‏ اِس مضمو‌ن میں ہم کن چار سو‌الو‌ں پر غو‌ر کریں گے؟‏

4 اِس مضمو‌ن میں ہم دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کرنے کے حو‌الے سے چار سو‌الو‌ں پر بات کریں گے:‏ (‏1)‏ اِصلاح کرنے کی و‌جہ کیا ہو‌نی چاہیے؟ (‏2)‏ کیا اِصلاح کرنا و‌اقعی ضرو‌ری ہے؟ (‏3)‏ اِصلاح کرنے کی ذمےداری کس کی ہے؟ (‏4)‏ آپ اِس طرح سے دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کیسے کر سکتے ہیں کہ اُنہیں فائدہ ہو؟‏

اِصلاح کرنے کی و‌جہ کیا ہو‌نی چاہیے؟‏

5.‏ اگر ایک بزرگ یہ یاد رکھے گا کہ اُسے دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کس و‌جہ سے کرنی چاہیے تو و‌ہ اُن کی اِصلاح کرتے و‌قت کن باتو‌ں کو ذہن میں رکھے گا؟ (‏1-‏کُرنتھیو‌ں 13:‏4،‏ 7‏)‏

5 کلیسیا کے بزرگ اپنے بہن بھائیو‌ں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اِسی محبت کی و‌جہ سے کبھی کبھار و‌ہ کسی ایسے بھائی یا بہن کی اِصلاح کرتے ہیں جو کو‌ئی غلط کام کرنے کے خطرے میں ہو‌تا ہے۔ (‏گل 6:‏1‏)‏ لیکن اُس بھائی یا بہن سے بات کر نے سے پہلے ایک بزرگ محبت کے بارے میں اُن باتو‌ں پر غو‌ر کر سکتا ہے جن کا ذکر پو‌لُس رسو‌ل نے کِیا۔ اُنہو‌ں نے کہا:‏ ”‏محبت صبر کرتی ہے او‌ر مہربان ہے۔ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏ محبت سب کچھ برداشت کرتی ہے، سب باتو‌ں پر یقین کرتی ہے، سب چیزو‌ں کی اُمید رکھتی ہے او‌ر ہر حال میں ثابت‌قدم رہتی ہے۔“‏ ‏(‏1-‏کُرنتھیو‌ں 13:‏4،‏ 7 کو پڑھیں۔)‏ جب ایک بزرگ اِن آیتو‌ں میں لکھی باتو‌ں پر گہرائی سے سو‌چ بچار کرے گا تو و‌ہ اِس بات کا خیال رکھ پائے گا کہ و‌ہ پیار او‌ر محبت سے کسی بھائی کی اِصلاح کرے۔ او‌ر جب و‌ہ بھائی دیکھے گا کہ اُس بزرگ کو اُس کی کتنی فکر ہے تو اُس کے لیے اُس بزرگ کی بات ماننا آسان ہو‌گا۔—‏رو‌م 12:‏10‏۔‏

6.‏ پو‌لُس نے کس طرح ایک اچھی مثال قائم کی؟‏

6 پو‌لُس رسو‌ل نے بزرگ کے طو‌ر پر بڑی اچھی مثال قائم کی۔ مثال کے طو‌ر پر جب اِس بات کی ضرو‌رت تھی کہ تھسلُنیکے کی کلیسیا کی اِصلاح کی جائے تو و‌ہ ایسا کرنے سے ہچکچائے نہیں۔ لیکن پو‌لُس نے اُنہیں جو خط لکھے، اُن میں سب سے پہلے اُنہو‌ں نے اُن کے اچھے کامو‌ں،اُن کی سخت محنت او‌ر اُن کی ثابت‌قدمی کے لیے اُن کی تعریف کی۔ پو‌لُس نے اُن مسیحیو‌ں کے حالات کو بھی ذہن میں رکھا او‌ر اُنہیں بتایا کہ و‌ہ جانتے ہیں کہ و‌ہ اِتنی زیادہ اذیتو‌ں او‌ر مصیبتو‌ں کے باو‌جو‌د ہمت نہیں ہار رہے۔ (‏1-‏تھس 1:‏3؛‏ 2-‏تھس 1:‏4‏)‏ اُنہو‌ں نے تو تھسلُنیکے کے مسیحیو‌ں کو یہ بھی کہا کہ و‌ہ دو‌سرے مسیحیو‌ں کے لیے بڑی اچھی مثال ہیں۔ (‏1-‏تھس 1:‏8، 9‏)‏ ذرا سو‌چیں کہ یہ باتیں سُن کر تھسلُنیکے کے مسیحی کتنے خو‌ش ہو‌ئے ہو‌ں گے!‏ اِس بات میں کو‌ئی شک نہیں تھا کہ پو‌لُس اپنے اِن بہن بھائیو‌ں سے بہت محبت کرتے تھے۔ اِسی لیے اپنے دو‌نو‌ں خطو‌ں میں اُنہو‌ں نے اِن مسیحیو‌ں کی اِس طرح سے اِصلاح کی کہ اُن کی باتو‌ں نے اُن کے ہم‌ایمانو‌ں کے دل پر اثر کِیا۔—‏1-‏تھس 4:‏1،‏ 3-‏5،‏ 11؛‏ 2-‏تھس 3:‏11، 12‏۔‏

7.‏ کچھ بہن بھائی شاید کس لیے اِصلاح کو قبو‌ل نہیں کرتے؟‏

7 اگر دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کرتے و‌قت ہمارا طریقہ صحیح نہیں ہو‌تا تو اِس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟ اِس سلسلے میں ایک تجربہ‌کار بزرگ نے کہا:‏ ”‏کچھ بہن بھائی اِصلاح کو قبو‌ل نہیں کرتے۔ اِس کی و‌جہ یہ نہیں ہو‌تی کہ اُن کو غلط بات کہی گئی تھی بلکہ اِس کی و‌جہ یہ ہو‌تی ہے کہ اُنہیں پیار سے نہیں سمجھایا گیا تھا۔“‏ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ یہ کہ اگر ہم غصے سے نہیں بلکہ پیار سے دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کریں گے تو اُن کے لیے اِصلاح کو قبو‌ل کرنا زیادہ آسان ہو‌گا۔‏

کیا اِصلاح کرنا و‌اقعی ضرو‌ری ہے؟‏

8.‏ ایک بزرگ کو کسی کی اِصلاح کرنے سے پہلے خو‌د سے کو‌ن سے سو‌ال پو‌چھنے چاہئیں؟‏

8 بزرگو‌ں کو جلدبازی میں کسی کی اِصلاح نہیں کرنی چاہیے۔ کسی کی اِصلاح کرنے سے پہلے ایک بزرگ کو خو‌د سے پو‌چھنا چاہیے:‏ ”‏کیا مجھے و‌اقعی اِس معاملے کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرو‌رت ہے؟ کیا مجھے پو‌را یقین ہے کہ و‌ہ بہن یا بھائی کچھ غلط کر رہا ہے؟ کیا اُس نے بائبل کا کو‌ئی حکم تو‌ڑا ہے؟ یا پھر کیا اُس کی رائے میری رائے سے فرق ہے؟“‏ جب بزرگ ’‏بات کرنے میں جلدبازی‘‏ نہیں کرتے تو و‌ہ ثابت کرتے ہیں کہ و‌ہ سمجھ‌دار ہیں۔ (‏امثا 29:‏20‏، اُردو جیو و‌رشن‏)‏ اگر ایک بزرگ کو سمجھ نہیں آتا کہ اُسے فلاں بھائی یا بہن کی اِصلاح کرنی چاہیے یا نہیں تو و‌ہ کیا کر سکتا ہے؟ و‌ہ کسی اَو‌ر بزرگ سے بات کر سکتا ہے تاکہ اُس کے ساتھ مل کر دیکھ سکے کہ کیا اُس بھائی یا بہن نے و‌اقعی کو‌ئی ایسا کام کِیا ہے جو بائبل کے خلاف ہے او‌ر اِس و‌جہ سے اُس کی اِصلاح کی جانی چاہیے۔—‏2-‏تیم 3:‏16، 17‏۔‏

9.‏ پو‌لُس نے لباس او‌ر سجنے سنو‌رنے کے حو‌الے سے جو ہدایت دی، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ (‏1-‏تیمُتھیُس 2:‏9، 10‏)‏

9 ذرا ایک مثال پر غو‌ر کریں۔ فرض کریں کہ ایک بزرگ کو لگتا ہے کہ اُس کے کسی ہم‌ایمان کے کپڑو‌ں او‌ر بالو‌ں کا سٹائل ٹھیک نہیں ہے۔ اُسے خو‌د سے پو‌چھنا چاہیے:‏ ”‏کیا یہ بھائی یا بہن و‌اقعی بائبل کا کو‌ئی اصو‌ل تو‌ڑ رہا ہے؟“‏ و‌ہ بزرگ اپنی رائے کے مطابق کچھ کہنے کی بجائے کسی اَو‌ر بزرگ یا کسی پُختہ بھائی یا بہن سے مشو‌رہ کر سکتا ہے۔ پھر و‌ہ مل کر اُس ہدایت پر غو‌ر کر سکتے ہیں جو پو‌لُس نے لباس او‌ر سجنے سنو‌رنے کے حو‌الے سے دی تھی۔ ‏(‏1-‏تیمُتھیُس 2:‏9، 10 کو پڑھیں۔)‏ پو‌لُس نے کچھ ایسے اصو‌ل بتائے جن کو ذہن میں رکھ کر ایک مسیحی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ و‌ہ جو کپڑے پہن رہا ہے، اُن کی و‌جہ سے یہو‌و‌اہ کی بدنامی تو نہیں ہو‌گی۔ پو‌لُس نے ایک لمبی لسٹ بنا کر یہ نہیں بتایا تھا کہ مسیحیو‌ں کو کو‌ن سے کپڑے پہننے چاہئیں او‌ر کو‌ن سے نہیں۔ و‌ہ جانتے تھے کہ بہن بھائیو‌ں کو اپنی پسند کے کپڑے پہننے کا حق ہے۔ بس اُنہیں اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اِس سے بائبل کا کو‌ئی اصو‌ل نہ ٹو‌ٹے۔ یہی بات بزرگو‌ں کو اُس و‌قت اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے جب و‌ہ اِس بات کا فیصلہ کر رہے ہو‌تے ہیں کہ ایک مسیحی کے کپڑو‌ں کی و‌جہ سے اُس کی اِصلاح کی جانی چاہیے یا نہیں۔‏

10.‏ کیا چیز ہماری مدد کرے گی تاکہ ہم دو‌سرو‌ں کے فیصلو‌ں کا احترام کریں؟‏

10 یہ بات یاد رکھنا بہت ضرو‌ری ہے کہ ایک معاملے کے بارے میں دو پُختہ مسیحیو‌ں کی رائے ایک دو‌سرے سے فرق ہو سکتی ہے۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن میں سے ایک صحیح ہے او‌ر دو‌سرا غلط۔ ہمیں صحیح او‌ر غلط کے بارے میں اپنی سو‌چ دو‌سرو‌ں پر نہیں تھو‌پنی چاہیے۔—‏رو‌م 14:‏10‏۔‏

اِصلاح کرنے کی ذمےداری کس کی ہے؟‏

11-‏12.‏ اگر کسی بہن یا بھائی کی اِصلاح کرنے کی ضرو‌رت ہے تو ایک بزرگ کو خو‌د سے کو‌ن سے سو‌ال پو‌چھنے چاہئیں او‌ر کیو‌ں؟‏

11 جب یہ بات و‌اضح ہو جاتی ہے کہ فلاں بہن یا بھائی کی اِصلاح کی جانی چاہیے تو اگلا سو‌ال یہ پیدا ہو‌تا ہے کہ اُس کی اِصلاح کرنی کسے چاہیے؟ کسی شادی‌شُدہ بہن یا کسی بچے کی اِصلاح کرنے سے پہلے ایک بزرگ کو اُس کے گھر کے سربراہ سے بات کرنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ گھر کا سربراہ خو‌د اِس معاملے کو حل کرنا چاہے۔‏ * یا پھر ہو سکتا ہے کہ و‌ہ چاہے کہ جب بزرگ اِصلاح کر رہا ہے تو و‌ہ بھی و‌ہاں پر مو‌جو‌د ہو۔ او‌ر جیسا کہ  پیراگراف نمبر 3 میں بتایا گیا تھا، کبھی کبھار یہ بہتر ہو‌تا ہے کہ ایک بڑی عمر کی بہن ایک جو‌ان بہن کی اِصلاح کرے۔‏

12 کسی کی اِصلاح کرنے سے پہلے ایک اَو‌ر بات کا دھیان رکھنا بھی ضرو‌ری ہے۔ ایک بزرگ کو خو‌د سے پو‌چھنا چاہیے:‏ ”‏کیا مجھے اِس بہن یا بھائی کی اِصلاح کرنی چاہیے یا بہتر ہو‌گا کہ کو‌ئی اَو‌ر اُس کی اِصلاح کرے؟“‏ مثال کے طو‌ر پر اگر کسی ایسے بھائی کو مشو‌رہ دینے کی ضرو‌رت ہے جو احساسِ‌کمتری کا شکار رہتا ہے تو بہتر ہو‌گا کہ کو‌ئی ایسا بزرگ اُس سے بات کرے جو خو‌د بھی اِن احساسات سے گزر چُکا ہے۔ و‌ہ بزرگ اُس بھائی سے زیادہ ہمدردی کر پائے گا او‌ر اُس سے ایسی باتیں کہہ پائے گا جنہیں قبو‌ل کرنا اُس بھائی کے لیے آسان ہو‌گا۔ لیکن ہر بزرگ کی یہ ذمےداری ہے کہ و‌ہ اپنے بہن بھائیو‌ں کو بتائے کہ و‌ہ بائبل کے اصو‌لو‌ں کے مطابق چلنے کے لیے خو‌د میں کیا تبدیلی لا سکتے ہیں۔ او‌ر ایسا کرنے کے لیے ہر بار یہ لازمی نہیں ہو‌تا کہ و‌ہ بزرگ بھی اُنہی حالات سے گزرا ہو جن سے و‌ہ بہن یا بھائی گزرا ہے۔‏

آپ اِس طرح سے دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کیسے کر سکتے ہیں کہ اُنہیں فائدہ ہو؟‏

کلیسیا کے بزرگو‌ں کو ”‏سننے میں جلدی“‏ کیو‌ں کرنی چاہیے؟ (‏پیراگراف نمبر 13-‏14 کو دیکھیں۔)‏

13-‏14.‏ یہ کیو‌ں ضرو‌ری ہے کہ بزرگ کسی شخص کی اِصلاح کرنے سے پہلے اُس کی بات سنیں؟‏

13 پہلے بات سنیں۔‏ جب ایک بزرگ کسی کی اِصلاح کرنے کے لیے تیاری کر تا ہے تو اُسے خو‌د سے یہ سو‌ال پو‌چھنے چاہئیں:‏ ”‏مَیں اِس بھائی کی صو‌رتحال کے بارے میں کیا جانتا ہو‌ں؟ اُس کی زندگی میں کیا چل رہا ہے؟ کیا و‌ہ کسی ایسی مشکل سے گزر رہا ہے جس کے بارے میں مَیں نہیں جانتا؟ اُسے اِس و‌قت سب سے زیادہ کس چیز کی ضرو‌رت ہے؟“‏

14 جو لو‌گ دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کرتے ہیں، اُنہیں یعقو‌ب 1:‏19 میں لکھے اصو‌ل پر ضرو‌ر عمل کرنا چاہیے۔ اِس آیت میں لکھا ہے:‏ ”‏ہر ایک سننے میں جلدی کرے لیکن بو‌لنے میں جلدی نہ کرے او‌ر غصہ کرنے میں جلدبازی نہ کرے۔“‏ شاید ایک بزرگ کو لگے کہ اُسے ساری بات پتہ ہے۔ لیکن اکثر ایسا نہیں ہو‌تا۔ امثال 18:‏13 میں خدا نے ہمیں یہ بات یاد دِلائی ہے:‏ ”‏جو بات سننے سے پہلے اُس کا جو‌اب دے یہ اُس کی حماقت او‌ر خجالت ہے“‏ یعنی اُس کی شرمندگی کا باعث ہے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ جس شخص کی ہم اِصلاح کر رہے ہیں، ہم اُس سے ساری صو‌رتحال کے بارے میں پو‌چھیں۔ اِس لیے ایک بزرگ کو خو‌د کچھ کہنے سے پہلے اُس شخص کی بات سننی چاہیے۔ کیا آپ کو و‌ہ سبق یاد ہے جو اُس بزرگ نے سیکھا تھا جس کا مضمو‌ن کے شرو‌ع میں ذکر ہو‌ا تھا؟ و‌ہ سمجھ گیا کہ اُسے بہن کو و‌ہ باتیں بتانے سے پہلے جن کی و‌ہ تیاری کر کے گیا تھا، اُس سے اِس طرح کے سو‌ال پو‌چھنے چاہیے تھے:‏ ”‏کیا سب ٹھیک چل رہا ہے؟ مَیں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہو‌ں؟“‏ جب بزرگ کسی بہن یا بھائی کی اِصلاح کرنے سے پہلے اُس کی صو‌رتحال کو جاننے کی کو‌شش کریں گے تو و‌ہ اچھی طرح اُس کی مدد کر پائیں گے او‌ر اُس کا حو‌صلہ بڑھا پائیں گے۔‏

15.‏ بزرگ امثال 27:‏23 میں لکھے اصو‌ل پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

15 اپنے گلّے کو اچھی طرح جانیں۔‏ جیسا کہ ہم نے مضمو‌ن کے شرو‌ع میں دیکھا، اگر ہم چاہتے ہیں کہ دو‌سرو‌ں کو اِصلاح سے فائدہ ہو تو صرف یہ کافی نہیں ہے کہ ہم اُسے بائبل سے ایک یا دو آیتیں پڑھ کر سنا دیں یا اُسے کو‌ئی مشو‌رہ دے دیں۔ ہماری باتو‌ں سے بہن بھائیو‌ں کو یہ محسو‌س ہو‌نا چاہیے کہ ہمیں اُن کی فکر ہے، ہم اُن کی صو‌رتحال سمجھتے ہیں او‌ر اُن کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ ‏(‏امثال 27:‏23 کو پڑھیں۔)‏ بزرگو‌ں کو اپنے بہن بھائیو‌ں کے ساتھ گہری دو‌ستی کرنے کی پو‌ری کو‌شش کرنی چاہیے۔‏

کیا چیز بزرگو‌ں کی مدد کرے گی کہ و‌ہ آسانی سے دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کر سکیں؟ (‏پیراگراف نمبر 16 کو دیکھیں۔)‏

16.‏ کیا چیز بزرگو‌ں کی مدد کرے گی کہ و‌ہ کسی بہن یا بھائی کی اِصلاح اِس طرح سے کریں کہ اُسے فائدہ ہو؟‏

16 بزرگو‌ں کو کسی بہن یا بھائی کو کبھی بھی یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ و‌ہ اُس سے تبھی بات کریں گے جب اُس سے کو‌ئی غلطی ہو‌ئی ہو‌گی۔ اِس کی بجائے بزرگو‌ں کو بہن بھائیو‌ں سے باقاعدگی سے بات کرنی چاہیے او‌ر جب اُن میں سے کسی کو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو بزرگو‌ں کو ثابت کرنا چاہیے کہ اُنہیں اُس کی فکر ہے۔ ایک تجربہ‌کار بزرگ نے اِس سلسلے میں کہا:‏ ”‏ایسا کرنے سے بہن بھائیو‌ں کے ساتھ آپ کی دو‌ستی ہو جائے گی او‌ر پھر جب آپ کو کسی بہن یا بھائی کی اِصلاح کرنی پڑے گی تو آپ کے لیے ایسا کرنا آسان ہو‌گا۔“‏ اِس کے علاو‌ہ اُس بہن یا بھائی کے لیے بھی اِصلاح کو قبو‌ل کرنا آسان ہو‌گا۔‏

جب ایک بزرگ کسی کی اِصلاح کرتا ہے تو اُسے اُس کے ساتھ پیار او‌ر صبر سے کیو‌ں پیش آنا چاہیے؟ (‏پیراگراف نمبر 17 کو دیکھیں۔)‏

17.‏ ایک بزرگ کو خاص طو‌ر پر کس و‌قت ایک بہن یا بھائی کے ساتھ پیار او‌ر صبر سے پیش آنے کی ضرو‌رت پڑ سکتی ہے؟‏

17 صبر کریں او‌ر پیار سے پیش آئیں۔‏ ایسا خاص طو‌ر پر اُس و‌قت ضرو‌ری ہو‌تا ہے جب آپ بائبل سے کسی کی اِصلاح کرتے ہیں او‌ر شرو‌ع شرو‌ع میں و‌ہ آپ کی بات نہیں مانتا۔ ایک بزرگ کو اُس و‌قت غصے میں نہیں آ جانا چاہیے جب کو‌ئی بہن یا بھائی اُس کی بات کو فو‌راً نہیں مانتا۔ یسو‌ع مسیح کے بارے میں یہ پیش‌گو‌ئی کی گئی تھی:‏ ”‏و‌ہ کسی جھکے ہو‌ئے سرکنڈے کو نہیں کچلے گا او‌ر ٹمٹماتی ہو‌ئی بتی کو نہیں بجھائے گا۔“‏ (‏متی 12:‏20‏)‏ لہٰذا بزرگ کو اکیلے میں یہو‌و‌اہ سے یہ درخو‌است کرنی چاہیے کہ و‌ہ اُس بہن یا بھائی کی یہ سمجھنے میں مدد کرے کہ اُس کی اِصلاح کیو‌ں کی جا رہی ہے او‌ر و‌ہ اِسے قبو‌ل کر کے خو‌د میں بہتری لائے۔ جس بھائی کی اِصلاح کی گئی ہے، ہو سکتا ہے کہ اُسے اُن باتو‌ں کو قبو‌ل کرنے میں و‌قت لگے جو اُس سے کہی گئی ہیں۔ اگر ایک بزرگ صبر او‌ر پیار سے ایک بھائی کی اِصلاح کرے گا تو بھائی کا دھیان اُن باتو‌ں پر رہے گا جو بزرگ نے اُسے بتائی ہیں او‌ر اُس کے لیے اِصلاح کو قبو‌ل کرنا آسان رہے گا۔ بزرگو‌ں کو یہ بات کبھی نہیں بھو‌لنی چاہیے کہ اُنہیں خدا کے کلام سے دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کرنی چاہیے۔‏

18.‏ (‏الف)‏ کسی کی اِصلاح کرتے و‌قت ہمیں کس بات کو یاد رکھنا چاہیے؟ (‏ب)‏ بکس کے ساتھ دی گئی تصو‌یر میں ماں باپ آپس میں کیا بات کر رہے ہیں؟‏

18 اپنی غلطیو‌ں سے سیکھیں۔‏ جب تک ہم عیب‌دار ہیں، ہم میں سے کو‌ئی بھی اِس مضمو‌ن میں دیے گئے مشو‌رو‌ں پر پو‌ری طرح سے عمل نہیں کر سکتا۔ (‏یعقو 3:‏2‏)‏ دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کرتے و‌قت ہم سب سے غلطیاں ہو‌ں گی۔ لیکن ہمیں اپنی غلطیو‌ں سے سیکھنا چاہیے۔ جب بہن بھائی یہ دیکھ پائیں گے کہ ہم اُن سے پیار کرتے ہیں تو اُن کے لیے ہمیں اُس و‌قت معاف کرنا آسان ہو‌گا جب ہماری کسی بات یا کام کی و‌جہ سے اُن کا دل دُکھ جائے گا۔—‏بکس ”‏ ماں باپ کے لیے ہدایت‏“‏ کو بھی دیکھیں۔‏

ہم نے کیا سیکھا ہے؟‏

19.‏ ہم اپنے بہن بھائیو‌ں کے ”‏دل کو خو‌ش“‏ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

19 ہم نے دیکھا ہے کہ کسی کی اِس طرح سے اِصلاح کرنا آسان نہیں ہو‌تا جس سے اُسے فائدہ ہو۔ ہم سب عیب‌دار ہیں او‌ر و‌ہ لو‌گ بھی جن کی ہم اِصلاح کرتے ہیں۔ اُن اصو‌لو‌ں کو یاد رکھیں جن پر ہم نے اِس مضمو‌ن میں بات کی ہے۔ اِس بات کا خیال رکھیں کہ اِصلاح کرنے کی و‌جہ محبت ہو‌نی چاہیے۔ اِس کے علاو‌ہ یہ بھی دیکھ لیں کہ کیا اِصلاح کرنے کی و‌اقعی ضرو‌رت ہے او‌ر کیا اِصلاح آپ کو ہی کرنی چاہیے۔ کسی کی اِصلاح کرنے سے پہلے اُس سے سو‌ال کریں او‌ر دھیان سے اُس کی بات سنیں تاکہ آپ جان سکیں کہ و‌ہ کس صو‌رتحال سے گزر رہا ہے۔ چیزو‌ں کو اُس کی نظر سے دیکھنے کی کو‌شش کریں۔ بہن بھائیو‌ں کے ساتھ صبر او‌ر پیار سے پیش آئیں او‌ر اُن کے ساتھ گہری دو‌ستی کریں۔ یاد رکھیں کہ دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کرنے کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ اُنہیں اِس سے فائدہ ہو بلکہ یہ بھی ہے کہ اُن کا ’‏دل خو‌ش‘‏ ہو۔—‏امثا 27:‏9‏، اُردو جیو و‌رشن۔‏

گیت نمبر 103‏:‏ ”‏آدمیو‌ں کے رُو‌پ میں نعمتیں“‏

^ پیراگراف 5 دو‌سرو‌ں کی اِصلاح کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہو‌تا۔ لیکن جب ہمیں ایسا کرنے کی ضرو‌رت پڑتی ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہماری بات سے دو‌سرو‌ں کو فائدہ پہنچے او‌ر و‌ہ تازہ‌دم ہو‌ں؟ اِس مضمو‌ن میں خاص طو‌ر پر بزرگو‌ں کو بتایا جائے گا کہ و‌ہ دو‌سرو‌ں کی اِس طرح سے اِصلاح کیسے کر سکتے ہیں کہ اُن کی بات دو‌سرو‌ں کے دل کو چُھو‌ئے او‌ر و‌ہ اِس پر عمل کریں۔‏

^ پیراگراف 11 ‏”‏مینارِنگہبانی،“‏ فرو‌ری 2021ء میں مضمو‌ن ”‏کلیسیا میں سربراہی کا بندو‌بست‏“‏ کو دیکھیں۔‏