مطالعے کا مضمون نمبر 11
بپتسمہ لینے کے بعد بھی ”نئی شخصیت“ کو پہنتے رہیں
”نئی شخصیت کو پہن لیں۔“—کُل 3:10۔
گیت نمبر 49: یہوواہ کا دل شاد کریں
مضمون پر ایک نظر *
1. کون سی چیز خاص طور پر ہماری شخصیت پر اثر ڈالتی ہے؟
چاہے ہمیں بپتسمہ لیے چند دن ہوئے ہوں یا پھر کئی سال، ہم سب چاہتے ہیں کہ ہماری شخصیت ایسی ہو جو یہوواہ کو پسند آئے۔ اِس کے لیے لازمی ہے کہ ہم اپنی سوچ کو قابو میں رکھیں۔ مگر کیوں؟ کیونکہ ہماری سوچ کا ہماری شخصیت پر سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ اگر ہم ایسی چیزوں کے بارے میں سوچتے رہیں گے جو ہمارے دل کو اچھی لگتی ہیں تو ہم بُری باتیں کہیں گے اور بُرے کام کریں گے۔ (اِفس 4:17-19) لیکن اگر ہم اچھی باتوں کے بارے میں سوچیں گے تو ہم ایسی باتیں کہیں گے اور ایسے کام کریں گے جن سے ہمارے آسمانی باپ یہوواہ کو خوشی ملے گی۔—گل 5:16۔
2. اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
2 جیسا کہ پچھلے مضمون میں بتایا گیا تھا، ہم بُرے خیالات کو اپنے ذہن میں آنے سے پوری طرح سے نہیں روک سکتے۔ لیکن ہم اِتنا ضرور کر سکتے ہیں کہ ہم وہ بُرے کام نہ کریں جو ہمارے ذہن میں آتے ہیں۔ہمیں بپتسمہ لینے سے پہلے ایسی باتیں اور کام چھوڑنے ہوں گے جن سے یہوواہ نفرت کرتا ہے۔ یہ وہ پہلا اور سب سے خاص قدم ہے جو ہمیں پُرانی شخصیت کو اُتار پھینکنے کے لیے اُٹھانا ہوگا۔ لیکن یہوواہ کو پوری طرح سے خوش کرنے کے لیے ہمیں اِس حکم پر بھی عمل کرنا ہوگا: ”نئی شخصیت کو پہن لیں۔“ (کُل 3:10) اِس مضمون میں اِن سوالوں کے جواب دیے جائیں گے: ”نئی شخصیت“ کیا ہے؟ اور ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم نئی شخصیت کو پہن لیں اور اِسے کبھی نہ اُتاریں؟
”نئی شخصیت“ کیا ہے؟
3. گلتیوں 5:22، 23 کے مطابق ”نئی شخصیت“ کیا ہے اور ایک شخص اِسے کس طرح پہنتا ہے؟
3 جس شخص نے ”نئی شخصیت“ پہنی ہوتی ہے، وہ یہوواہ جیسی سوچ رکھتا ہے اور اُس کی مثال پر عمل کرتا ہے۔ وہ اُن خوبیوں کو بھی ظاہر کرتا ہے جو پاک روح کے پھل کا حصہ ہیں۔ اِس طرح وہ ثابت کرتا ہے کہ اُس کی سوچ، احساسات اور کاموں پر پاک روح کا اثر ہے۔ (گلتیوں 5:22، 23 کو پڑھیں۔) مثال کے طور پر وہ یہوواہ اور اُس کے بندوں سے پیار کرتا ہے۔ (متی 22:36-39) وہ اُس وقت بھی خوش رہتا ہے جب اُسے مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (یعقو 1:2-4) وہ صلحپسند ہوتا ہے۔ (متی 5:9) وہ دوسروں کے ساتھ صبر اور پیار سے پیش آتا ہے۔ (کُل 3:13) وہ اچھائی سے محبت کرتا ہے اور اچھے کام کرتا ہے۔ (لُو 6:35) وہ اپنے کاموں سے ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنے آسمانی باپ پر مضبوط ایمان رکھتا ہے۔ (یعقو 2:18) جب دوسرے اُسے غصہ دِلاتے ہیں تو وہ آپے سے باہر نہیں ہو جاتا۔ اور جب وہ کسی غلط کام کرنے کی آزمائش کا سامنا کرتا ہے تو وہ خود کو قابو میں رکھتا ہے۔—1-کُر 9:25، 27؛ طط 3:2۔
4. نئی شخصیت کو پہننے کے لیے کیوں لازمی ہے کہ ہم اُن خوبیوں کو ظاہر کریں جو گلتیوں 5:22، 23 اور بائبل کی دوسری آیتوں میں لکھی ہیں؟
4 نئی شخصیت کو پہننے کے لیے ہمیں وہ تمام خوبیاں ظاہر کرنی ہوں گی جو گلتیوں 5:22، 23 اور بائبل کی دوسری آیتوں میں لکھی ہیں۔ * یہ خوبیاں فرق فرق لباس کی طرح نہیں ہیں جن میں سے ہم ایک وقت میں ایک ہی پہنتے ہیں۔ دراصل اِن میں سے ہر خوبی میں ایسی باتیں ہیں جن کا تعلق دوسری خوبیوں سے بھی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم سچ میں اپنے پڑوسی سے محبت کرتے ہیں تو ہم اُس کے ساتھ صبر اور شفقت سے پیش آئیں گے۔ اور اگر ہم سچ میں اچھے ہیں تو ہم نرممزاج ہوں گے اور ضبطِنفس سے کام لیں گے یعنی ہم خود پر قابو رکھیں گے۔
ہم ”نئی شخصیت“ کو کس طرح پہن سکتے ہیں؟
ہم جتنا زیادہ یسوع مسیح جیسی سوچ رکھیں گے اُتنا ہی زیادہ ہم اپنی شخصیت کو اُن کی شخصیت جیسا بنا پائیں گے۔ (پیراگراف نمبر 5، 8، 10، 12، 14 کو دیکھیں۔)
5. ”مسیح جیسی سوچ“ رکھنے کا کیا مطلب ہے اور ہمیں یسوع کی زندگی پر کیوں غور کرنا چاہیے؟ (1-کُرنتھیوں 2:16)
5 پہلا کُرنتھیوں 2:16 کو پڑھیں۔ نئی شخصیت کو پہننے کے لیے ہمیں ”مسیح جیسی سوچ“ رکھنی ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ یسوع کسی معاملے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور پھر ہمیں اُن کی مثال پر عمل کرنا ہوگا۔ یسوع مسیح اُن خوبیوں کو پوری طرح سے ظاہر کرتے ہیں جو خدا کی پاک روح کے پھل کا حصہ ہیں۔ یسوع مسیح ایک ایسے آئینے کی طرح ہیں جس میں یہوواہ کی خوبیاں بالکل صاف دِکھائی دیتی ہیں۔ (عبر 1:3) ہم جتنا زیادہ یسوع کی طرح سوچیں گے اُتنا ہی زیادہ ہم اُن جیسے کام کریں گے اور اپنی شخصیت کو ویسا بنا پائیں گے جیسی اُن کی ہے۔—فل 2:5۔
6. جب ہم نئی شخصیت کو پہننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں کن باتوں کو یاد رکھنا چاہیے؟
6 کیا یسوع کی مثال پر عمل کرنا سچ میں ممکن ہے؟ شاید ہم سوچیں: ”یسوع مسیح بےعیب ہیں۔ مَیں کبھی بھی پوری طرح سے اُن جیسا نہیں بن سکتا۔“ اگر آپ کو ایسا لگتا ہے تو اِن باتوں کو یاد رکھیں: سب سے پہلی بات تو یہ کہ یہوواہ نے آپ کو اِس طرح سے بنایا ہے کہ آپ اُس جیسے اور یسوع جیسے بنیں۔ تو اگر آپ اُن کی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کافی حد تک اِس میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ (پید 1:26) دوسری بات یہ ہے کہ اِس کائنات میں یہوواہ کی پاک روح سے بڑی طاقت اَور کچھ نہیں ہے۔ اِس کی مدد سے آپ ایسے کام بھی کر سکتے ہیں جو آپ اپنی طاقت سے نہیں کر سکتے۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہوواہ آپ سے یہ توقع نہیں کرتا کہ آپ ابھی اُن خوبیوں کو پوری طرح سے ظاہر کریں جو پاک روح کے پھل کا حصہ ہیں۔ ہمارا پیارا آسمانی باپ تو ہمیں نئی دُنیا میں بھی ایک ہزار سال دے گا تاکہ ہم بےعیب ہو جائیں اور اِن خوبیوں کو پوری طرح سے ظاہر کر سکیں۔ (مکا 20:1-3) فیالحال وہ ہم سے بس اِتنا چاہتا ہے کہ ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کریں اور اُس کی مدد پر بھروسا رکھیں۔
7. اب ہم کس بات پر غور کریں گے؟
7 ہم کن باتوں میں یسوع مسیح کی طرح بن سکتے ہیں؟ ہم چار ایسی خوبیوں پر بات کریں گے جو پاک روح کے پھل کا حصہ ہیں۔ ہم ہر خوبی کے بارے میں دیکھیں گے کہ یسوع نے اِسے کیسے ظاہر کِیا اور ہم اِسے کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔ اِس دوران ہم کچھ ایسے سوالوں پر بھی غور کریں گے جن کی مدد سے ہم دیکھ پائیں گے کہ ہم نے نئی شخصیت کو کتنی اچھی طرح سے پہنا ہوا ہے۔
8. یسوع نے محبت کیسے ظاہر کی؟
8 یہوواہ سے گہری محبت کی وجہ سے یسوع نے اپنے باپ اور ہمارے لیے قربانیاں دیں۔ (یوح 14:31؛ 15:13) یسوع نے زمین پر جس طرح سے زندگی گزاری، اُس سے ثابت ہوا کہ اُنہیں اِنسانوں سے کتنی محبت ہے۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے ساتھ پیار سے پیش آتے تھے اور اُن سے ہمدردی کرتے تھے، اُس وقت بھی جب لوگ اُن کی مخالفت کرتے تھے۔ ایک خاص طریقہ جس سے اُنہوں نے دوسروں کے لیے محبت ظاہر کی، وہ یہ تھا کہ اُنہوں نے دوسروں کو خدا کی بادشاہت کے بارے میں بتایا۔ (لُو 4:43، 44) یسوع نے خدا اور اِنسانوں کے لیے محبت کا سب سے بڑا ثبوت یہ دیا کہ اُنہوں نے گُناہگار اِنسانوں کے ہاتھوں بڑی تکلیفدہ موت سہی۔ اِس طرح اُنہوں نے ہم سب کے لیے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا راستہ کھول دیا۔
9. ہم یسوع مسیح کی طرح دوسروں کے لیے محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
9 ہم اپنے آسمانی باپ سے محبت کرتے ہیں اِس لیے ہم نے اپنی زندگی اُس کے لیے وقف کی اور بپتسمہ لیا۔ یہوواہ کے لیے اپنی محبت ثابت کرنے کے لیے ہمیں دوسروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہیے جیسا یسوع نے دوسروں کے ساتھ کِیا۔ یوحنا رسول نے لکھا: ”جو شخص اپنے بھائی سے محبت نہیں کرتا جس کو وہ دیکھ سکتا ہے، وہ خدا سے بھی محبت نہیں کرتا جس کو اُس نے نہیں دیکھا۔“ (1-یوح 4:20) ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے: ”کیا مَیں نے اپنے دل میں دوسروں کے لیے گہری محبت پیدا کی ہے؟ کیا مَیں اُس وقت بھی دوسروں سے ہمدردی کرتا ہوں جب اُن کا رویہ میرے ساتھ اچھا نہیں ہوتا؟ کیا مَیں دوسروں سے محبت کی وجہ سے اپنا وقت، طاقت اور پیسہ لگا کر اُنہیں یہوواہ کے بارے میں سکھاتا ہوں؟ کیا مَیں اُس وقت بھی ایسا کرتا ہوں جب دوسرے اِس کی کوئی قدر نہیں کرتے یا میری مخالفت کرتے ہیں؟ مَیں لوگوں کو مسیح کا شاگرد بنانے کے لیے اَور زیادہ وقت کیسے نکال سکتا ہوں؟“—اِفس 5:15، 16۔
10. یسوع مسیح نے کیسے ثابت کِیا کہ وہ صلحپسند ہیں؟
10 یسوع صلحپسند تھے۔ جب لوگ اُن کے ساتھ بُرا سلوک کرتے تھے تو وہ بُرائی کے بدلے بُرائی نہیں کرتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے صرف اِتنا ہی نہیں کِیا۔ وہ دوسروں سے صلح کرنے کے لیے خود قدم بڑھاتے تھے اور دوسروں کو بھی سمجھاتے تھے کہ وہ آپس کے جھگڑوں کو ختم کر کے صلح صفائی سے رہیں۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے دوسروں کو سکھایا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ یہوواہ اُن کی عبادت کو قبول کرے تو اُنہیں پہلے اپنے بھائی سے صلح کرنی چاہیے۔ (متی 5:9، 23، 24) اور اُنہوں نے بار بار اپنے رسولوں کی مدد کی کہ وہ اِس بات پر بحث کرنا چھوڑ دیں کہ اُن میں سے کس کو سب سے بڑا سمجھا جاتا ہے۔—لُو 9:46-48؛ 22:24-27۔
11. ہم صلحپسند کیسے بن سکتے ہیں؟
11 صلحپسند بننے کے لیے صرف اِتنا کافی نہیں ہے کہ ہم لڑائی جھگڑوں سے بچے رہیں۔ ہمیں دوسروں سے صلح کرنے کے لیے خود قدم اُٹھانا چاہیے اور اپنے بہن بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے کہ وہ آپس کے جھگڑوں کو ختم کر کے صلح صفائی سے رہیں۔ (فل 4:2، 3؛ یعقو 3:17، 18) ہم خود سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں: ”مَیں دوسروں سے صلح کرنے کے لیے کس حد تک جانے کو تیار ہوں؟ جب کوئی بہن یا بھائی میرا دل دُکھاتا ہے تو کیا مَیں اُس سے ناراض رہتا ہوں؟ کیا مَیں اِس بات کا اِنتظار کرتا ہوں کہ وہ خود مجھ سے صلح کرنے کی کوشش کرے یا پھر کیا مَیں پہلے صلح کرنے کی کوشش کرتا ہوں پھر چاہے مجھے یہ کیوں نہ لگے کہ غلطی اُس کی ہے؟ جب مناسب ہو تو کیا مَیں دوسروں کو سمجھاتا ہوں کہ وہ آپس کے جھگڑوں کو ختم کر کے صلح صفائی سے رہیں؟“
12. یسوع نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ نرممزاج ہیں اور اُنہیں دوسروں کی فکر ہے؟
12 یسوع مسیح نرممزاج تھے اور دوسروں کی فکر کرتے تھے۔ (متی 11:28-30) وہ مشکل صورتحال میں بھی دوسروں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے تھے اور اُن کے لیے فکرمندی ظاہر کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب ایک بار فینیکے کی ایک عورت نے اُن سے درخواست کی کہ وہ اُن کی بیٹی کو ٹھیک کر دیں تو شروع میں یسوع نے اُس کی بات نہیں مانی۔ لیکن جب اُس عورت نے ثابت کِیا کہ اُس کا ایمان کتنا مضبوط ہے تو یسوع نے اُس کی بیٹی کو ٹھیک کر دیا۔ (متی 15:22-28) یسوع مسیح نرممزاج تو تھے لیکن وہ دوسروں کی غلطی پر اُنہیں سمجھاتے بھی تھے۔ کبھی کبھار اُن کی نرممزاجی اور فکرمندی اِس بات سے ظاہر ہوئی کہ جن لوگوں سے وہ پیار کرتے تھے، اُنہیں اُنہوں نے صاف لفظوں میں سمجھایا کہ اُنہیں کہاں پر بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر جب پطرس نے یسوع کو یہوواہ کی مرضی کے مطابق عمل کرنے سے روکنے کی کوشش کی تو یسوع نے دوسرے رسولوں کے سامنے اُن کی درستی کی۔ (مر 8:32، 33) اُنہوں نے ایسا پطرس کی بےعزتی کرنے کے لیے نہیں کِیا تھا بلکہ وہ پطرس اور دوسرے رسولوں کو ایک خاص بات سکھانا چاہتے تھے۔ اور وہ بات یہ تھی کہ اُنہیں کبھی بھی ایسی بات نہیں کہنی چاہیے جو یہوواہ کی مرضی کے خلاف ہو۔ بےشک پطرس کو شرمندگی تو ہوئی ہوگی لیکن اُنہیں جو بات سمجھائی گئی، اُس سے باقی شاگردوں کو بھی فائدہ ہوا۔
13. ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم نرممزاج ہیں اور ہمیں دوسروں کی فکر ہے؟
13 اگر ہم سچ میں نرممزاج ہیں اور ہمیں دوسروں کی فکر ہے تو جن لوگوں سے ہم پیار کرتے ہیں، ہم ضرورت پڑنے پر اُنہیں صاف لفظوں میں بتائیں گے کہ اُنہیں کہاں پر اپنے اندر بہتری لانی چاہیے۔ اور ہم یسوع مسیح کی طرح ہمیشہ خدا کے کلام سے ایسا کریں گے۔ کسی کو کوئی بات سمجھاتے وقت اُس کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔ اِس بات پر بھروسا رکھیں کہ وہ صحیح کام کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ بھی یقین رکھیں کہ وہ یہوواہ سے اور آپ سے محبت کرتا ہے اور آپ کے مشورے پر عمل کرے گا۔ خود سے یہ سوال پوچھیں: ”جس شخص سے مَیں محبت کرتا ہوں، اگر وہ کوئی غلط کام کرے تو کیا مجھ میں اِتنی ہمت ہے کہ مَیں اِس بارے میں جا کر اُس سے بات کر سکوں؟ اگر اُسے صحیح راہ پر لانے کے لیے مجھے اُس سے بات کرنی پڑتی ہے تو کیا مَیں اُس سے نرمی سے بات کرتا ہوں یا سختی سے؟ مَیں کس وجہ سے اُس کی درستی کرنا چاہتا ہوں؟ کیا اِس وجہ سے کہ مجھے اُس پر غصہ ہے یا کیا اِس وجہ سے کہ مَیں اُس کا بھلا چاہتا ہوں؟“
14. یسوع مسیح نے کس طرح اچھائی کی؟
14 یسوع مسیح صرف یہ جانتے ہی نہیں تھے کہ اچھے کام کیا ہیں بلکہ وہ اچھائی کرتے بھی تھے۔ یسوع اپنے باپ سے محبت کرتے تھے اِس لیے وہ ہمیشہ اچھے کام اچھی نیت سے کرتے تھے۔ ایک اچھا شخص ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اُن کے لیے ایسے کام کرتا ہے جن سے اُنہیں فائدہ ہو۔ مگر صرف اِتنا کافی نہیں ہے کہ ہمیں یہ پتہ ہو کہ اچھے کام کیا ہیں بلکہ ہمیں اچھے کام کرنے بھی چاہئیں اور اچھی نیت سے کرنے چاہئیں۔ شاید کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آئے: ”بھلا کوئی شخص بُری نیت سے بھی اچھے کام کر سکتا ہے؟“ ایسا ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یسوع نے ایسے لوگوں کے بارے میں بتایا جو غریبوں کو خیرات تو دیتے تھے لیکن وہ اِس کا ڈھنڈورا بھی پیٹتے تھے تاکہ لوگ اُن کی تعریف کریں۔ یہ کام اچھے تو ہیں لیکن جس نیت سے یہ کام کیے جاتے ہیں، یہوواہ اُس کی وجہ سے اِن کاموں سے خوش نہیں ہوتا۔—متی 6:1-4۔
15. ہم دل سے اچھے کیسے ہو سکتے ہیں؟
15 ہم تبھی دل سے اچھے ہوں گے جب ہم بغیر کسی لالچ کے اچھے کام کریں گے۔ اِس لیے خود سے پوچھیں: ”کیا مجھے اچھے کاموں کا پتہ ہے اور کیا مَیں اِنہیں کرتا بھی ہوں؟ مَیں اچھے کام کس نیت سے کرتا ہوں؟“
ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم ”نئی شخصیت“ کو پہنے رہیں؟
16. ہمیں ہر دن کیا کرنا چاہیے اور کیوں؟
16 یہ نہ سوچیں کہ بپتسمہ لینے سے آپ نے نئی شخصیت کو مکمل طور پر پہن لیا ہے اور اب آپ کو آگے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نئی شخصیت نئے کپڑوں کی طرح ہے جسے ہمیں اچھی حالت میں رکھنا ہوگا۔ ایسا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم ہر روز یہ دیکھیں کہ ہم وہ خوبیاں کیسے ظاہر کر سکتے ہیں جو پاک روح کے پھل کا حصہ ہیں۔ ہمیں ایسا کیوں کرنا چاہیے؟ کیونکہ یہوواہ قدم اُٹھانے والا خدا ہے اور اُس کی پاک روح ایسی طاقت ہے جو کام کرتی ہے۔ (پید 1:2) اِس لیے پاک روح ہمارے دل میں ہر اُس خوبی کو ظاہر کرنے کی خواہش پیدا کر سکتی ہے جو اِس کے پھل کا حصہ ہے۔ مثال کے طور پر یعقوب نے لکھا: ”ایمان بغیر کاموں کے مُردہ ہے۔“ (یعقو 2:26) یہی بات پاک روح کے پھل میں شامل دوسری خوبیوں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ جب بھی ہم اِس پھل میں شامل خوبیوں کو ظاہر کرتے ہیں تو ہم ثابت کرتے ہیں کہ ہم پاک روح کی رہنمائی میں چل رہے ہیں۔
17. جب ہم پاک روح کا پھل نہیں ظاہر کر پاتے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
17 بہت سے مسیحیوں کو بپتسمہ لیے ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھار وہ اُن خوبیوں کو ظاہر نہیں کر پاتے جو پاک روح کے پھل کا حصہ ہیں۔ لیکن زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ وہ اِن خوبیوں کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اِس سلسلے میں ذرا ایک مثال پر غور کریں۔ اگر آپ کی پسند کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں تو کیا آپ فوراً اُنہیں پھینک دیتے ہیں؟ نہیں بلکہ آپ اِنہیں رفو کرواتے ہیں اور پھر آئندہ دھیان رکھتے ہیں کہ وہ کپڑے نہ پھٹیں۔ اِسی طرح اگر آپ کبھی کبھار کسی کے لیے نرممزاجی، فکرمندی، صبر اور محبت نہیں ظاہر کر پاتے تو بےحوصلہ نہ ہوں۔ اگر آپ دل سے معافی مانگیں گے تو یہ ایک طرح سے رفو کا کام کرے گا جس سے آپ کے خراب تعلقات صحیح ہو پائیں گے۔ اِس کے بعد عزم کریں کہ آپ روح کے پھل میں شامل خوبیوں کو ظاہر کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔
18. ہم کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟
18 ہم یسوع کی مثال کے لیے یہوواہ اور یسوع کے بہت شکرگزار ہیں۔ ہم جتنا زیادہ یسوع مسیح جیسی سوچ رکھیں گے، ہمارے لیے اُن جیسے کام کرنا اُتنا ہی آسان ہوگا۔ اور جتنا زیادہ ہم یسوع مسیح جیسے کام کریں گے اُتنا ہی زیادہ ہم نئی شخصیت کو پہن لیں گے۔ اِس مضمون میں ہم نے روح کے پھل میں شامل صرف چار خوبیوں پر غور کِیا ہے۔ کیوں نہ وقت نکال کر اِس پھل میں شامل باقی خوبیوں پر بھی غور کریں اور دیکھیں کہ ہم اِنہیں کتنی اچھی طرح ظاہر کر رہے ہیں؟ جن مضامین میں اِن خوبیوں پر بات کی گئی ہے، اُن کی فہرست دیکھنے کے لیے کتاب ”یہوواہ کے گواہوں کے لئے مطالعے کے حوالے“ میں ”مسیحی زندگی“ اور پھر ”روح کا پھل“ دیکھیں۔ یقین رکھیں کہ اگر آ پ پوری کوشش کریں گے کہ آپ نئی شخصیت کو پہن لیں اور اِسے کبھی نہ اُتاریں تو یہوواہ اِس سلسلے میں آپ کی مدد ضرور کرے گا۔
گیت نمبر 127: مَیں تیرا شکریہ کیسے ادا کروں؟
^ پیراگراف 5 چاہے ہمارا ماضی جیسا بھی ہو، ہم نئی شخصیت کو پہن سکتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں اپنی سوچ کو بدلتے رہنا ہوگا اور یسوع مسیح کی طرح بننے کی پوری کوشش کرنی ہوگی۔ اِس مضمون میں ہم یسوع مسیح کی سوچ اور کاموں پر غور کرنے کے لیے کچھ مثالوں پر بات کریں گے۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم بپتسمہ لینے کے بعد بھی یسوع کی مثال پر کیسے چل سکتے ہیں۔
^ پیراگراف 4 گلتیوں 5:22، 23 میں وہ تمام خوبیاں نہیں لکھی ہوئیں جو ہم پاک روح کی مدد سے اپنے اندر پیدا کر سکتے ہیں۔ اِس بارے میں اَور جاننے کے لیے جون 2020ء کے ”مینارِنگہبانی“ میں ”قارئین کے سوال“ کو دیکھیں۔