مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

قارئین کے سوال

قارئین کے سوال

اگر ایک مسیحی حرام‌کاری کے علاوہ کسی اَور وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے اور کسی اَور سے شادی کر لیتا ہے تو کلیسیا کو اُس کی پُرانی شادی اور نئی شادی کو کیسا خیال کر‌نا چاہیے؟‏

ایسی صورتحال میں کلیسیا کی نظر میں پُرانی شادی ختم ہو جائے گی اور نئی شادی جائز ہوگی۔ اِس کی وجہ سمجھنے کے لیے آئیں، اُس بات پر غور کر‌یں جو یسوع مسیح نے طلاق اور دوبارہ شادی کر‌نے کے بارے میں کہی تھی۔‏

متی 19:‏9 میں یسوع مسیح نے بتایا کہ طلاق صرف ایک وجہ سے ہو سکتی ہے۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جو شخص اپنی بیوی کو حرام‌کاری کے علاوہ کسی اَور وجہ سے طلاق دیتا ہے اور دوسری عورت سے شادی کر‌تا ہے، وہ زِنا کر‌تا ہے۔“‏ یسوع مسیح کے الفاظ سے دو باتیں پتہ چلتی ہیں:‏ پہلی بات یہ کہ طلاق صرف حرام‌کاری کی وجہ سے ہو سکتی ہے اور دوسری بات یہ کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی کو حرام‌کاری کے علاوہ کسی اَور وجہ سے طلاق دیتا ہے اور دوسری عورت سے شادی کر‌تا ہے تو وہ زِنا کر‌تا ہے۔‏ a

کیا یسوع کی بات کا مطلب یہ تھا کہ اگر شوہر حرام‌کاری کر‌تا ہے اور اپنی بیوی سے طلاق لے لیتا ہے تو وہ دوبارہ شادی کر سکتا ہے؟ لازمی نہیں۔ اگر شوہر زِناکاری کر‌تا ہے تو اُس کی بیوی فیصلہ کر سکتی ہے کہ وہ اُسے معاف کر‌ے گی یا نہیں۔ اگر اُس کی بیوی اُسے معاف نہیں کر‌تی اور اُس سے طلاق لے لیتی ہے تو طلاق کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد وہ دونوں شادی کر‌نے کے لیے آزاد ہیں۔‏

ہو سکتا ہے کہ جس عورت کے شوہر نے اُس سے بےوفائی کی ہے، وہ طلاق نہ لینا چاہے اور یہ کہے کہ وہ اپنے شوہر کو معاف کر‌نے کو تیار ہے۔ لیکن اگر اُس کا شوہر نہیں چاہتا کہ اُسے معاف کر دیا جائے اور وہ اُس سے طلاق لے لیتا ہے تو ایسی صورت میں کیا ہوتا ہے؟ چونکہ بیوی اپنے شوہر کو معاف کر‌نے کو تیار تھی اور اپنی شادی کو برقرار رکھنا چاہتی تھی اِس لیے بائبل کے مطابق شوہر دوبارہ شادی نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر وہ بائبل کے اصولوں کے خلاف جا کر کسی اَور سے شادی کر لیتا ہے تو وہ پھر سے حرام‌کاری کر‌تا ہے۔ ایسی صورت میں کلیسیا کے بزرگ دوبارہ سے عدالتی کمیٹی بناتے ہیں تاکہ اُس کے اِس گُناہ کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔—‏1-‏کُر 5:‏1، 2؛‏ 6:‏9، 10‏۔‏

جب کوئی ایسا شخص دوبارہ شادی کر لیتا ہے جو بائبل کے مطابق دوبارہ شادی نہیں کر سکتا تھا تو کلیسیا کو اُس کی پُرانی شادی اور نئی شادی کو کیسا خیال کر‌نا چاہیے؟ کیا بائبل کے مطابق اُس کی پچھلی شادی اب بھی قائم ہے؟ کیا اُس کی سابقہ بیوی اب بھی اُسے معاف کر‌نے یا چھوڑنے کا فیصلہ کر سکتی ہے؟ کیا اُس کی نئی شادی زِناکاری کے زمرے میں آتی ہے؟‏

ماضی میں ہم مانتے تھے کہ اگر ایک شخص کسی ناجائز وجہ سے اپنے جیون ساتھی کو طلاق دیتا ہے اور کسی اَور سے شادی کر لیتا ہے تو اُس کی نئی شادی تب تک زِناکاری کے زمرے میں آتی ہے جب تک اُس کا سابقہ جیون ساتھی زند‌ہ ہے، دوبارہ شادی نہیں کر لیتا یا حرام‌کاری جیسا سنگین گُناہ نہیں کر‌تا۔ جب یسوع مسیح نے طلاق اور دوسری شادی کر‌نے کے بارے میں بات کی تو وہ اُس شخص کے بارے میں بات نہیں کر رہے تھے جس کا جیون ساتھی اُس سے بےوفائی کر‌تا ہے۔ اِس کی بجائے وہ اُس شخص کے بارے میں بات کر رہے تھے جو اپنی بیوی کو حرام‌کاری کے علاوہ کسی اَور وجہ سے طلاق دیتا ہے اور دوسری عورت سے شادی کر‌تا ہے اور ایسا کر‌نے سے وہ شخص زِنا کر‌تا ہے۔ ایسی صورت میں اُس کی پچھلی شادی ختم ہو جاتی ہے۔‏

‏”‏جو شخص اپنی بیوی کو حرام‌کاری کے علاوہ کسی اَور وجہ سے طلاق دیتا ہے اور دوسری عورت سے شادی کر‌تا ہے، وہ زِنا کر‌تا ہے۔“‏—‏متی 19:‏9‏۔‏

جب ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے اور دوسری شادی کر لیتا ہے تو اُس کی سابقہ بیوی کے پاس اُسے معاف کر‌نے یا چھوڑنے کا حق نہیں رہتا۔ اُس پر یہ فیصلہ کر‌نے کا بھاری بوجھ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے سابقہ شوہر کو معاف کر دے یا چھوڑ دے۔ اِس کے علاوہ چاہے اُس شخص کی سابقہ بیوی فوت ہو جائے، دوبارہ شادی کر لے یا پھر حرام‌کاری کر‌ے، اِس کا اِس بات پر کوئی اثر نہیں ہوگا کہ کلیسیا اُس شخص کی نئی شادی کو کیسا خیال کر‌تی ہے۔‏ b

ہم نے اُوپر جس مثال پر غور کِیا، اُس میں شوہر نے حرام‌کاری کی تھی جس کی وجہ سے میاں بیوی کی طلاق ہو گئی۔ لیکن اگر شوہر نے حرام‌کاری نہ کی ہوتی مگر اُس نے طلاق لے کر دوسری شادی کر لی ہوتی تو ایسی صورت میں کیا ہوتا؟ یا اگر شوہر نے طلاق لینے سے پہلے حرام‌کاری نہ کی ہوتی بلکہ طلاق لینے کے بعد حرام‌کاری کی ہوتی اور دوسری شادی کر لی ہوتی حالانکہ اُس کی بیوی اُسے معاف کر‌نے کو تیار تھی تو پھر کیا ہوتا؟ اِن ساری مثالوں میں طلاق اور دوبارہ شادی زِناکاری کے زمرے میں آتی ہے جس کی وجہ سے پچھلی شادی ختم ہو جاتی ہے۔ نئی شادی قانونی لحاظ سے جائز ہے۔ جیسے کہ 15 نومبر 1979ء کے ‏”‏دی واچ‌ٹاور“‏ کے صفحہ نمبر 32 پر بتایا گیا تھا:‏ ”‏اب چونکہ اُس نے نئی شادی کر لی ہے اور وہ اِسے ختم کر کے اپنی سابقہ بیوی کے ساتھ پہلے کی طرح شادی‌شُدہ زند‌گی نہیں گزار سکتا اِس لیے طلاق، زِناکاری اور دوسری شادی کی وجہ سے اُس کی پچھلی شادی ختم ہو گئی ہے۔“‏

اِس نئی وضاحت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسیحیوں کی نظر میں شادی کا بندھن پہلے جتنا مُقدس نہیں ہے یا زِناکاری اِتنا بڑا گُناہ نہیں ہے۔ اگر ایک شخص اپنی بیوی کو حرام‌کاری کے علاوہ کسی اَور وجہ سے طلاق دیتا ہے اور دوسری عورت سے شادی کر‌تا ہے تو بزرگ اِس زِناکاری کے خلاف کارروائی کر‌نے کے لیے عدالتی کمیٹی بنائیں گے۔ (‏اگر وہ شخص بھی یہوواہ کا گواہ ہے جس سے اُس نے شادی کی ہے تو زِناکاری کی وجہ سے اُس کے خلاف بھی عدالتی کمیٹی بنائی جائے گی۔)‏ نئی شادی زِناکاری کے زمرے میں تو نہیں آئے گی لیکن اُس شخص کو کئی سالوں تک یا پھر اُس وقت تک کلیسیا میں کوئی خاص ذمےداری نہیں مل سکتی جب تک دوسرے اُس کے گُناہ کے بارے میں سوچ کر دُکھی ہونا کم نہیں کر دیتے یا پھر یہ سوچنا چھوڑ نہیں دیتے کہ یہ شخص عزت کے لائق نہیں ہے۔ اِس کے علاوہ بزرگ اِس بات پر بھی دھیان دیں گے کہ اُس کا سابقہ جیون ساتھی جس سے طلاق لینے کی غرض سے ہی شاید اُس نے حرام‌کاری کی تھی، کن حالات سے گزر رہا ہے۔ وہ یہ بھی دیکھیں گے کہ اُس کے بچوں کی کیا صورتحال ہے جنہیں شاید اُس نے چھوڑ دیا ہے۔—‏ملا 2:‏14-‏16‏۔‏

اگر ایک شخص بائبل کے اصولوں کے خلاف جا کر اپنے جیون ساتھی کو طلاق دیتا ہے اور کسی اَور سے شادی کر لیتا ہے تو اِس کے بہت بُرے نتیجے نکلتے ہیں۔ اِس لیے یہوواہ کی طرح مسیحیوں کو بھی شادی کے بندھن کو مُقدس خیال کر‌نا چاہیے۔—‏واعظ 5:‏4، 5؛‏ عبر 13:‏4‏۔‏

a آسانی کے لیے ہم اِس مضمون میں یہ مان کر چلیں گے کہ شوہر نے زِناکاری کی ہے اور اپنی بیوی کو دھوکا دیا ہے۔ لیکن جیسا کہ مرقس 10:‏11، 12 میں یسوع مسیح نے واضح کِیا، یہ اصول آدمیوں اور عورتوں دونوں پر لاگو ہوتا ہے۔‏

b پہلے ہم مانتے تھے کہ جب تک وہ جیون ساتھی جس کے ساتھ بےوفائی ہوئی ہے، فوت نہیں ہو جاتا، دوبارہ شادی نہیں کر لیتا یا حرام‌کاری نہیں کر‌تا تب تک بےوفائی کر‌نے والے شخص کی دوسری شادی زِناکاری کے زمرے میں آتی ہے۔ اِس مضمون میں دی گئی معلومات کے مطابق اب ہم ایسا نہیں مانتے۔‏