مطالعے کا مضمون نمبر 27
’یہوواہ کی آس رکھیں‘
”[یہوواہ] کی آس رکھ۔ مضبوط ہو اور تیرا دل قوی ہو۔“—زبور 27:14۔
گیت نمبر 128: آخر تک ثابتقدم رہیں
مضمون پر ایک نظر *
1. (الف) یہوواہ نے ہمیں کون سی اُمید دی ہے؟ (ب) ’یہوواہ کی آس رکھنے‘ کا کیا مطلب ہے؟ (”اِصطلاح کی وضاحت“ کو دیکھیں۔)
یہوواہ نے اُن لوگوں کو بہت شاندار اُمید دی ہے جو اُس سے پیار کرتے ہیں۔ بہت جلد وہ بیماری، دُکھ اور موت کو ختم کر دے گا۔ (مکا 21:3، 4) وہ ”حلیم“ لوگوں کی مدد کرے گا کہ وہ پوری زمین کو فردوس بنا دیں۔ (زبور 37:9-11) یہوواہ خدا ابھی اپنے بندوں کے بہت قریب ہے۔ لیکن نئی دُنیا میں وہ اُن کے اَور بھی قریب ہو جائے گا۔ یہ کتنی شاندار اُمید ہے! لیکن ہم یہ یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ کے وعدے ضرور پورے ہوں گے؟ اِس لیے کہ وہ کبھی بھی اپنے وعدوں کو نہیں توڑتا۔ اِسی وجہ سے ہم ’اُس کی آس‘رکھتے ہیں۔ * (زبور 27:14) اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہم یہوواہ کی آس رکھتے ہیں، ہم صبر اور خوشی سے اُس وقت کا اِنتظار کر رہے ہیں جب یہوواہ اپنے وعدوں کو پورا کرے گا۔—یسع 55:10، 11۔
2. یہوواہ نے اپنا کون سا وعدہ پورا کِیا ہے؟
2 یہوواہ نے ثابت کِیا ہے کہ وہ اپنے وعدوں کو ہمیشہ پورا کرتا ہے۔ ذرا اِس کی ایک مثال پر غور کریں۔ مکاشفہ کی کتاب میں یہوواہ نے ہمارے زمانے کے بارے میں وعدہ کِیا تھا کہ وہ ہر قوم، قبیلے اور زبان کے لوگوں کو جمع کرے گا تاکہ وہ مل کر اُس کی عبادت کریں۔ لوگوں کے اِس خاص گروہ کو بائبل میں ”بڑی بِھیڑ“ کہا گیا ہے۔ (مکا 7:9، 10) حالانکہ بڑی بِھیڑ میں شامل مرد، عورتیں اور بچے فرق فرق قوموں سے ہیں اور فرق فرق زبانیں بولتے ہیں لیکن وہ سب ایک خاندان کی طرح صلح صفائی سے رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔ (زبور 133:1؛ یوح 10:16) یہ لوگ لگن سے دوسروں کو ایک بہتر دُنیا کی اُمید کے بارے میں بتاتے ہیں۔ (متی 28:19، 20؛ مکا 14:6، 7؛ 22:17) اگر آپ بھی اِس بڑی بِھیڑ کا حصہ ہیں تو یقیناً آپ کو بھی بہتر مستقبل کی اُمید کی وجہ سے بہت خوشی ملتی ہوگی۔
3. شیطان کیا چاہتا ہے؟
3 شیطان چاہتا ہے کہ ہم اُن اچھی باتوں کی اُمید نہ رکھیں جو مستقبل میں ہوں گی۔ وہ ہمیں اِس بات کا یقین دِلانا چاہتا ہے کہ یہوواہ کو ہماری کوئی فکر نہیں ہے اور وہ اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرے گا۔ اگر شیطان ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ہم ہمت ہار جائیں گے، یہاں تک کہ یہوواہ کی عبادت کرنا بھی چھوڑ دیں گے۔ اور جیسا کہ ہم اِس مضمون میں دیکھیں گے، شیطان نے پوری کوشش کی کہ ایوب یہوواہ پر آس لگانا اور اُس کی عبادت کرنا چھوڑ دیں۔
4. اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟ (ایوب 1:9-12)
4 اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ شیطان نے کون سی چالیں چلیں تاکہ ایوب یہوواہ کی عبادت کرنا چھوڑ دیں۔ (ایوب 1:9-12 کو پڑھیں۔) ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم ایوب سے کیا سیکھتے ہیں اور ہمیں یہ کیوں یاد رکھنا چاہیے کہ یہوواہ ہم سے پیار کرتا ہے اور وہ اپنے وعدوں کو ضرور پورا کرے گا۔
شیطان نے ایوب کو نااُمیدی کے اندھیرے میں دھکیلنے کی کوشش کی
5-6. تھوڑے ہی وقت میں ایوب کے ساتھ کیا کچھ ہوا؟
5 ایوب بڑی خوشیوں بھری زندگی گزار رہے تھے۔ وہ یہوواہ کے بہت قریب تھے۔ وہ بہت زیادہ امیر تھے اور اُن کا بہت بڑا خاندان تھا۔ (ایو 1:1-5) لیکن ایک ہی دن میں ایوب کا تقریباً سب کچھ لٹ گیا۔ سب سے پہلے اُن کی دولت ختم ہو گئی۔ (ایو 1:13-17) اِس کے بعد اُن کے سارے بچے فوت ہو گئے۔ جب کسی ماں باپ کا کوئی ایک بچہ بھی فوت ہو جاتا ہے تو اُن پر دُکھ کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ جب ایوب اور اُن کی بیوی کو پتہ چلا ہوگا کہ اُن کے سارے بچے فوت ہو گئے ہیں تو اُن پر کیا بیتی ہوگی! بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ ایوب اِتنے دُکھی تھے کہ اُنہوں نے اپنے کپڑے پھاڑ دیے اور زمین پر گِر پڑے۔—ایو 1:18-20۔
6 اِس کے بعد شیطان نے ایوب کو ایک بہت بُری بیماری لگا دی جس کی وجہ سے ایوب کو بہت تکلیف اور شرمندگی اُٹھانی پڑی۔ (ایو 2:6-8؛ 7:5) ایک وقت تھا جب معاشرے میں لوگ ایوب کی بہت عزت کرتے تھے اور اُن سے مشورہ مانگنے آتے تھے۔ (ایو 31:18) لیکن اب وہ سب اُن سے دُور رہنے لگے۔ اُن کے بھائیوں، قریبی دوستوں، یہاں تک کہ اُن کے گھر کے نوکروں نے بھی اُنہیں چھوڑ دیا۔—ایو 19:13، 14، 16۔
آج بہت سے یہوواہ کے گواہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ایوب کو اُس وقت کیسا لگا ہوگا جب اُن پر مشکلیں آئیں۔ (پیراگراف نمبر 7 کو دیکھیں۔) *
7. (الف) ایوب کے خیال میں اُن پر جو مصیبتیں آئیں، وہ کس کی طرف سے آئی تھیں لیکن اُنہوں نے کیا کرنے سے اِنکار کر دیا؟ (ب) تصویر میں ایوب اور اُن کی بیوی جس طرح کی مشکل سے گزر رہے ہیں، ایک مسیحی پر اُسی طرح کی کون سی مشکل آ سکتی ہے؟
7 شیطان چاہتا تھا کہ ایوب سوچیں کہ اُن پر مصیبتیں اِس لیے آئی ہیں کیونکہ یہوواہ اُن سے ناراض ہے۔ اِس کے لیے اُس نے کچھ چالیں چلیں۔ مثال کے طور پر شیطان نے ایک زوردار آندھی کے ذریعے اُس گھر کو گِرا دیا جہاں ایوب کے سارے بچے مل کر کھانا کھا رہے تھے۔ (ایو 1:18، 19) اُس نے آسمان سے آگ بھی بھیجی جس کی وجہ سے نہ صرف ایوب کے مویشی بلکہ اُن کے وہ نوکر بھی مارے گئے جو اُن مویشیوں کا خیال رکھ رہے تھے۔ (ایو 1:16) چونکہ آندھی اور آگ آسمان سے آئی تھیں اِس لیے ایوب کو لگا کہ یہ یہوواہ کی طرف سے آئی ہیں۔ وہ یہ سوچنے لگے کہ اُنہوں نے کسی وجہ سے یہوواہ کو ناراض کر دیا ہے۔ لیکن اِس کے باوجود اُنہوں نے اپنے آسمانی باپ کی توہین کرنے سے اِنکار کر دیا۔ ایوب جانتے تھے کہ اُن کے پاس جو کچھ بھی تھا، وہ اُنہیں یہوواہ نے ہی دیا تھا۔ اِس لیے اُنہوں نے سوچا کہ اگر اُنہوں نے خوشی سے یہوواہ کی طرف سے برکتوں کو قبول کِیا تھا تو اب اگر یہوواہ کی طرف سے اُن کے ساتھ کچھ بُرا ہو گیا ہے تو اُنہیں اُسے بھی قبول کرنا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا: ”[یہوواہ] کا نام مبارک ہو۔“ (ایو 1:20، 21؛ 2:10) حالانکہ ایوب کی دولت اُن کے ہاتھ سے چلی گئی، اُن کے سارے بچے فوت ہو گئے اور اُنہیں بہت بُری بیماری لگ گئی لیکن اِس سب کے باوجود وہ یہوواہ کے وفادار رہے۔ مگر شیطان نے پھر بھی ہار نہیں مانی۔
8. شیطان نے اگلی چال کون سی چلی؟
8 شیطان نے ایوب کو یہوواہ سے دُور کرنے کے لیے ایک اَور چال چلی۔ اُس نے ایوب کے تین جھوٹے دوستوں کے ذریعے اُنہیں یہ احساس دِلانے کی کوشش کی کہ اُن کی کوئی قدر نہیں ہے۔ اِن تین آدمیوں نے ایوب سے کہا کہ اُن پر یہ مصیبتیں اِس لیے آئی ہیں کیونکہ اُنہوں نے بہت بُرے کام کیے ہیں۔ (ایو 22:5-9) اُنہوں نے ایوب کو یہ یقین دِلانے کی بھی کوشش کی کہ اگر اُنہوں کوئی بُرا کام نہ بھی کِیا ہو تو بھی وہ یہوواہ کو خوش کرنے کی جتنی مرضی کوشش کرلیں، یہوواہ کو اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (ایو 4:18؛ 22:2، 3؛ 25:4) دراصل اُنہوں نے ایوب کے دل میں اِس بارے میں شک پیدا کرنے کی کوشش کی کہ یہوواہ اُن سے پیار کرتا ہے، وہ اُن کا خیال رکھے گا اور وہ اُن کی عبادت کی قدر کرتا ہے۔ اُن کی باتوں سے ایوب کو ایسا لگ سکتا تھا کہ اُنہیں کسی اچھی چیز کی اُمید نہیں کرنی چاہیے۔
9. کس چیز نے ایوب کی مدد کی تاکہ وہ مشکلوں کے باوجود مضبوط رہیں؟
9 ذرا اِس منظر کے بارے میں سوچیں: ایوب راکھ میں بیٹھے ہیں اور بہت زیادہ تکلیف میں ہیں۔ (ایو 2:8) اُن کے جھوٹے دوست بار بار اُن سے کہہ رہے ہیں کہ وہ بہت بُرے شخص ہیں اور اُنہوں نے کبھی کوئی اچھا کام نہیں کِیا۔ ایوب شدید صدمے میں ہیں۔ اُن پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے اور اُن کا دل اپنے بچوں کی موت سے پھٹا جا رہا ہے۔ شروع میں ایوب بالکل خاموش ہیں۔ (ایو 2:13–3:1) اگر ایوب کے ساتھیوں کو لگ رہا ہے کہ ایوب کی خاموشی کا مطلب یہ ہے کہ اُنہوں نے یہوواہ کو چھوڑ دیا ہے تو یہ اُن کی غلطفہمی ہے۔ پھر ایک وقت آیا ہے کہ ایوب شاید اپنا ہاتھ اُٹھا کر اور اپنے جھوٹے دوستوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہہ رہے ہیں: ”مَیں مرتے دم تک اپنی راستی کو ترک نہ کروں گا۔“ (ایو 27:5) کس چیز نے ایوب کی مدد کی تاکہ وہ اِتنی زیادہ مشکلوں کے باوجود بھی مضبوط رہیں؟ حالانکہ ایوب دُکھ سے چُور تھے لیکن اُنہوں نے یہ اُمید نہیں چھوڑی کہ اُن کا شفیق خدا اُن کی مدد ضرور کرے گا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ مر بھی گئے تو یہوواہ اُنہیں زندہ کر دے گا۔—ایو 14:13-15۔
ہم ایوب کی طرح کیسے بن سکتے ہیں؟
10. ہم ایوب کے واقعے سے کیا سیکھتے ہیں؟
10 ایوب کے واقعے سے ہم سیکھتے ہیں کہ شیطان ہمیں یہوواہ کو چھوڑنے پر مجبور نہیں کر سکتا اور یہوواہ کو ہمیشہ پتہ ہوتا ہے کہ ہم کن حالات سے گزر رہے ہیں۔ ایوب کے واقعے سے ہم یہ بات بھی اچھی طرح سے سمجھ پاتے ہیں کہ ہم پر مصیبتیں کیوں آتی ہیں۔ آئیں، کچھ ایسی باتوں پر غور کریں جو ہم ایوب سے سیکھتے ہیں۔
11. اگر ہم یہوواہ پر بھروسا کرتے رہیں گے تو اِس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ (یعقوب 4:7)
11 ایوب نے ثابت کِیا کہ اگر ہم یہوواہ پر بھروسا کرتے رہتے ہیں تو ہم ہر طرح کی مشکل کے باوجود یہوواہ کے وفادار رہ سکتے ہیں اور شیطان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو اِس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ شیطان ’ہمارے پاس سے بھاگ جائے گا۔‘—یعقوب 4:7 کو پڑھیں۔
12. ایوب کو اِس اُمید سے حوصلہ کیسے ملا ہوگا کہ یہوواہ مُردوں کو زندہ کر دے گا؟
12 ہمیں اِس بات کی پکی اُمید رکھنی چاہیے کہ یہوواہ مُردوں کو زندہ کر دے گا۔ جیسا کہ ہم نے پچھلے مضمون میں دیکھا، شیطان اکثر موت کے ڈر کو اِستعمال کر کے ہمیں یہوواہ سے دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شیطان نے دعویٰ کِیا تھا کہ ایوب اپنی جان بچانے کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو جائیں گے، یہاں تک کہ یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو بھی۔ لیکن شیطان غلط تھا۔ ایوب اُس وقت بھی یہوواہ کے وفادار رہے جب اُنہیں لگ رہا تھا کہ وہ مر جائیں گے۔ ایوب کو پکی اُمید تھی کہ یہوواہ اُن کے حالات کو ٹھیک کر دے گا اور اِس وجہ سے وہ ہمت نہیں ہارے۔ اُنہیں اِس بات پر پکا بھروسا تھا کہ اگر یہوواہ نے اُن کے جیتے جی حالات کو ٹھیک نہیں بھی کِیا تو بھی یہوواہ اُنہیں مستقبل میں زندہ کر دے گا۔ اگر ایوب کی طرح ہم بھی اِس بات کی اُمید رکھیں گے کہ یہوواہ مُردوں کو زندہ کر دے گا تو موت کا ڈر بھی ہمیں اُس سے دُور نہیں کر پائے گا۔
13. شیطان نے ایوب کو یہوواہ سے دُور کرنے کے لیے جو چالیں چلیں، ہمیں اُن پر کیوں دھیان دینا چاہیے؟
13 شیطان نے ایوب کو یہوواہ سے دُور کرنے کے لیے جو چالیں چلیں، ہمیں اُن پر اِس لیے دھیان دینا چاہیے کیونکہ وہ یہی چالیں آج ہمارے ساتھ بھی چلتا ہے۔ شیطان نے یہ دعویٰ کِیا تھا: ”اِنسان [صرف ایوب نہیں] اپنی جان کی خاطر اپنا سب کچھ لُٹا دے گا۔“ (ایو 2:4، 5، نیو اُردو بائبل ورشن) ایک طرح سے شیطان ہم پر یہ اِلزام لگا رہا تھا کہ ہم یہوواہ سے محبت نہیں کرتے اور ہم اپنی جان بچانے کی خاطر اُسے چھوڑ دیں گے۔ شیطان نے یہ دعویٰ بھی کِیا کہ یہوواہ ہم سے پیار نہیں کرتا اور ہم اُسے خوش کرنے کے لیے جو بھی کوششیں کرتے ہیں، اُس کی نظر میں اُن کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اِن دعووں کے پیچھے شیطان کا مقصد کیا ہے۔ اِس لیے ہم اُس کی جھوٹی باتوں پر یقین نہیں کرتے۔
14. جب ہم پر مشکلیں آتی ہیں تو ہمارے بارے میں کیا بات پتہ چل جاتی ہے؟ مثال دیں۔
14 جب ہم پر مشکلیں آتی ہیں تو ہمارے پاس یہ دیکھنے کا موقع ہوتا ہے کہ ہمیں خود میں کہاں پر بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ ایوب پر جو مشکلیں آئیں، اُن کی وجہ سے وہ اپنی خامیوں کو دیکھ پائے اور اِنہیں ٹھیک کر پائے۔ مثال کے طور پر وہ یہ دیکھ پائے کہ اُنہیں اَور زیادہ خاکسار بننے کی ضرورت ہے۔ (ایو 42:3) جب ہم پر مشکلیں آتی ہیں تو ہمیں بھی اپنے بارے میں بہت سی باتیں پتہ چل سکتی ہیں۔ اِس سلسلے میں غور کریں کہ نکولائی نام کے بھائی نے کیا کہا۔ * اُنہیں صحت کے بہت بڑے مسئلے تھے لیکن اِس کے باوجود اُنہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ اُنہوں نے کہا: ”جیل میں مَیں دیکھ پایا کہ مجھے اپنے اندر کون سی خوبیوں کو نکھارنے کی ضرورت ہے۔“ جب ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ ہمارے اندر کون سی خامیاں ہیں تو پھر ہم اُنہیں ٹھیک کر سکتے ہیں۔
15. ہمیں کس کی بات سننی چاہیے اور کیوں؟
15 ہمیں یہوواہ کی بات سننی چاہیے، اپنے دُشمنوں کی نہیں۔ جب یہوواہ نے ایوب سے بات کی تو ایوب نے بہت دھیان سے اُس کی بات سنی۔ خدا نے ایوب سے کچھ سوال کیے تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ اُسے اُن کی کتنی فکر ہے۔ اِن سوالوں کے ذریعے ایک لحاظ سے یہوواہ ایوب سے کہہ رہا تھا: ”کیا تُم میری بنائی ہوئی چیزوں سے دیکھ سکتے ہو کہ مَیں کتنا طاقتور ہوں؟ مَیں جانتا ہوں کہ تُم کن حالات سے گزر رہے ہو۔ کیا تمہیں نہیں لگتا کہ مَیں تمہارا خیال رکھ سکتا ہوں؟“ ایوب نے یہوواہ کو خاکساری سے جواب دیا اور اِس بات کے لیے اُس کا شکریہ ادا کِیا کہ اُس نے اِنسانوں کے لیے کتنا کچھ کِیا ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”پہلے مَیں نے تیرے بارے میں صرف سنا تھا، لیکن اب میری اپنی آنکھوں نے تجھے دیکھا ہے۔“ (ایو 42:5، اُردو جیو ورشن) ایوب نے شاید یہ بات اُس وقت کہی جب وہ راکھ میں بیٹھے ہوئے تھے، اُن کا پورا جسم زخموں سے بھرا ہوا تھا اور وہ اب بھی اپنے بچوں کی موت کا ماتم کر رہے تھے۔ اِن حالات میں بھی یہوواہ نے ایوب کو یقین دِلایا کہ وہ اُن سے پیار کرتا ہے اور اُن سے خوش ہے۔—ایو 42:7، 8۔
16. یسعیاہ 49:15، 16 کے مطابق جب ہم پر مشکلیں آتی ہیں تو ہمیں کیا بات یاد رکھنی چاہیے؟
16 ہو سکتا ہے کہ لوگ ہماری بھی بےعزتی کریں اور ہمارے ساتھ ایسا سلوک کریں جیسے ہماری کوئی قدر ہی نہیں ہے۔ شاید وہ ہمیں یا ہماری تنظیم کو بدنام کرنے کی کوشش کریں یا ’ہمارے خلاف جھوٹی باتیں پھیلائیں۔‘ (متی 5:11) ایوب کے واقعے سے ہم سیکھتے ہیں کہ یہوواہ کو اِس بات پر پورا بھروسا ہے کہ ہم مشکلوں کے باوجود اُس کے وفادار رہیں گے۔ یہوواہ ہم سے پیار کرتا ہے اور وہ اُن لوگوں کو کبھی نہیں چھوڑتا جو اُس کی آس رکھتے ہیں۔ (یسعیاہ 49:15، 16 کو پڑھیں۔) خدا کے دُشمن ہم پر جو اِلزام لگاتے ہیں، اُن پر دھیان نہ دیں۔ تُرکی میں ہمارے ایک بھائی رہتے ہیں جن کا نام جیمز ہے۔ اُنہیں اور اُن کے گھر والوں کو بہت زیادہ مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اُنہوں نے کہا: ”ہم سمجھ گئے کہ اگر ہم خدا کے بندوں کے خلاف باتیں سنیں گے تو اِس سے ہمارا حوصلہ ٹوٹ سکتا ہے۔ اِس لیے ہم نے اپنا دھیان اِس بات پر رکھا کہ بہت جلد خدا کی بادشاہت ہماری مشکلوں کو ختم کر دے گی اور ہم لگن سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہے۔ اِس وجہ سے ہم خوش رہ پائے۔“ ایوب کی طرح ہم بھی یہوواہ کی بات سنتے ہیں۔ ہمارے دُشمنوں کے جھوٹ ہم سے ہماری اُمید چھین نہیں سکتے۔
اُمید کی وجہ سے آپ ہمت نہیں ہاریں گے
یہوواہ نے ایوب کو اُن کی وفاداری کا اجر دیا۔ ایوب اور اُن کی بیوی نے ایک لمبی اور خوشیوں بھری زندگی گزاری۔ (پیراگراف نمبر 17 کو دیکھیں۔) *
17. عبرانیوں 11 باب میں خدا کے جن بندوں کا ذکر ہوا ہے، آپ نے اُن سے کیا سیکھا ہے؟
17 ایوب کے علاوہ بھی یہوواہ کے بہت سے بندے مشکلوں کے باوجود مضبوط رہے اور اُنہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ عبرانیوں کے نام اپنے خط میں پولُس نے یہوواہ کے بہت سے بندوں کا ذکر کِیا اور اُنہیں ’گواہوں کا بڑا بادل‘ کہا۔ (عبر 12:1) اُن سب کو بہت سخت مشکلوں سے گزرنا پڑا۔ لیکن وہ ساری زندگی یہوواہ کے وفادار رہے۔ (عبر 11:36-40) کیا اُنہیں اِس کا اجر ملا؟ بےشک! حالانکہ اُنہوں نے اپنے جیتے جی یہوواہ کے سارے وعدوں کو پورے ہوتے نہیں دیکھا لیکن اُنہوں نے یہوواہ پر آس رکھی۔ اور چونکہ اُنہیں اِس بات کا پکا یقین تھا کہ یہوواہ اُن سے خوش ہے اِس لیے اُنہیں بھروسا تھا کہ وہ یہوواہ کے وعدوں کو پورا ہوتے ضرور دیکھیں گے۔ (عبر 11:4، 5) اُن کی مثال سے ہمارا یہ عزم مضبوط ہو سکتا ہے کہ ہم ہمیشہ یہوواہ پر آس رکھیں گے۔
18. آپ نے کیا عزم کِیا ہے؟ (عبرانیوں 11:6)
18 ہم جس دُنیا میں رہ رہے ہیں، وہ بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ (2-تیم 3:13) شیطان نے آج بھی خدا کے بندوں کو آزمانا بند نہیں کِیا۔ چاہے آگے چل کر ہمیں کسی بھی مشکل کا سامنا ہو؛ آئیں، اِس بات کا عزم کریں کہ ہم دلوجان سے یہوواہ کی عبادت کرتے رہیں گے کیونکہ ”ہم زندہ خدا پر اُمید رکھتے ہیں۔“ (1-تیم 4:10) یاد رکھیں کہ یہوواہ نے ایوب کو جو اجر دیا، اُس سے ثابت ہوا کہ وہ ”بہت ہی شفیق اور رحیم ہے۔“ (یعقو 5:11) دُعا ہے کہ ہم بھی یہوواہ کے وفادار رہیں اور اِس بات کا پکا یقین رکھیں کہ وہ ”اُن سب کو اجر دے گا جو لگن سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔“—عبرانیوں 11:6 کو پڑھیں۔
گیت نمبر 150: مخلصی کے لیے یہوواہ پر آس لگائیں
^ جب ہم کسی ایسے شخص کے بارے میں سوچتے ہیں جو سخت مشکلوں میں بھی یہوواہ کا وفادار رہا تو اکثر ہمارے ذہن میں ایوب کا نام آتا ہے۔ ایوب کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ ہم سیکھتے ہیں کہ شیطان ہمیں یہوواہ کو چھوڑنے پر مجبور نہیں کر سکتا اور یہ بھی کہ یہوواہ کو ہمیشہ پتہ ہوتا ہے کہ ہم کن حالات سے گزر رہے ہیں۔ ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ جس طرح سے یہوواہ نے ایوب کی مشکلوں کو ختم کر دیا تھا اُسی طرح وہ ایک دن ہماری بھی ہر پریشانی اور مشکل کو ختم کر دے گا۔ اگر ہم بھی اپنے کاموں سے ثابت کریں گے کہ ہمیں اِن باتوں کا پکا یقین ہے تو ہم اُن لوگوں میں شامل ہوں گے جو ’یہوواہ کی آس‘ رکھتے ہیں۔
^ اِصطلاح کی وضاحت: جس عبرانی اِصطلاح کا ترجمہ ”آس“ کِیا گیا ہے، اُس کا مطلب بڑی شدت سے کسی چیز کا ”اِنتظار“ کرنا ہے۔ اِس کا مطلب کسی پر بھروسا کرنا بھی ہے۔—زبور 25:2، 3؛ 62:5۔
^ کچھ نام فرضی ہیں۔