آپبیتی
مَیں نے یہوواہ کے بتائے راستے پر چلنے کا فیصلہ کِیا
جب مَیں نوجوان تھا تو مَیں نے اپنے لیے ایک ایسا راستہ چُنا جس پر چلنے میں مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔لیکن یہوواہ نے میرے لیے ایک فرق ہی راستہ سوچا ہوا تھا۔ ایک طرح سے وہ مجھ سے کہہ رہا تھا: ”مَیں تجھے تعلیم دوں گا اور جس راہ پر تجھے چلنا ہوگا تجھے بتاؤں گا۔“ (زبور 32:8) چونکہ مَیں یہوواہ کے بتائے راستے پر چلا اِس لیے مجھے فرق فرق طریقوں سے اُس کی خدمت کرنے کے موقع ملے اور بہت سی برکتیں بھی۔ اِن میں سے ایک برکت یہ تھی کہ مَیں نے 52 سال تک افریقہ میں یہوواہ کی خدمت کی۔
اِنگلینڈ سے افریقہ تک کا سفر
مَیں 1935ء میں اِنگلینڈ کے شہر ڈارلاسٹن میں پیدا ہوا۔ اِس شہر میں بہت سے فیکٹریاں ہیں۔ جب مَیں چار سال کا تھا تو میرے امی ابو یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کورس کرنے لگے اور تقریباً 14 سال کی عمر میں مجھے بھی اِس بات پر یقین ہو گیا کہ یہوواہ کے گواہ بائبل کی صحیح تعلیم دیتے ہیں۔ اِس لیے 1952ء میں مَیں نے بپتسمہ لے لیا۔ اُس وقت میری عمر 16 سال تھی۔
اِسی دوران مَیں اوزار اور گاڑیوں کے پارٹس بنانے والی ایک بڑی کمپنی میں سکریٹری کی ٹریننگ لینے لگا اور اِس کام میں مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔
لیکن پھر مجھے ایک اہم فیصلہ لینا پڑا۔ ایک بار سفری نگہبان نے مجھ سے کہا کہ مَیں اپنی کلیسیا میں بائبل کے مطالعے میں پیشوائی کروں۔ لیکن ایک مسئلہ تھا۔ اُس وقت مَیں دو کلیسیاؤں میں جایا کرتا تھا۔ ہفتے کے دوران میں برومزگرو کلیسیا میں جایا کرتا تھا۔ یہ کلیسیا میرے گھر سے تقریباً 32 کلومیٹر (20 میل) دُور تھی۔ لیکن مَیں وہاں اِس لیے جایا کرتا تھا کیونکہ یہ میرے کام کی جگہ کے نزدیک تھی۔ اور ہفتے کے آخر پر جب مَیں اپنے گھر واپس جاتا تھا تو مَیں اپنی کلیسیا میں اِجلاس پر جاتا تھا جس کا نام وِلنہال کلیسیا تھا۔
میری دلی خواہش تھی کہ مَیں یہوواہ کی تنظیم کے کام آؤں۔ اِس لیے مَیں نے سفری نگہبان کی بات مان لی حالانکہ اِس وجہ سے مجھے اپنا کام چھوڑنا پڑا جسے کرنے میں مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔ مَیں نے یہوواہ کے بتائے راستے پر چلنے کا فیصلہ کِیا جس کی وجہ سے میری زندگی خوشیوں سے بھر گئی اور مَیں اپنے اِس فیصلے پر کبھی نہیں پچھتایا۔
جب مَیں برومزگرو کلیسیا میں جاتا تھا تو وہاں میری ملاقات ایک خوبصورت بہن سے ہوئی جس کا نام این تھا۔ وہ یہوواہ سے بہت پیار کرتی تھیں۔ 1957ء میں ہم نے شادی کر لی اور ہم نے مل کر یہوواہ کی خدمت کے لیے بہت سارے کام کیے۔ ہم نے پہلکاروں اور خصوصی پہلکاروں کے طور پر خدمت کی۔ ہم نے فرق فرق کلیسیاؤں کا دورہ کِیا اور بیتایل میں بھی خدمت کی۔ این جیسی شریکِحیات کا ساتھ کسی برکت سے کم نہیں ہے۔
سن 1966ء میں جب ہم گلئیڈ کی 42ویں کلاس کا حصہ بنے تو ہماری خوشی کی اِنتہا نہیں تھی۔ ہمیں ملک ملاوی میں خدمت کرنے کو کہا گیا جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ افریقہ کا دل ہے کیونکہ یہاں کے لوگ بہت ملنسار اور مہماننواز ہیں۔ لیکن ہمیں نہیں پتہ تھا کہ یہاں کے لوگ ہمیں زیادہ دیر تک اپنے ملک میں ٹکنے نہیں دیں گے۔
ملاوی میں شدید مسئلوں کا سامنا
ملاوی میں ہم نے کلیسیاؤں کا دورہ کرنے کے لیے اِس جیپ کو اِستعمال کِیا۔
1 فروری 1967ء کو ہم ملاوی پہنچے۔ پہلا مہینہ تو ہم نے زیادہتر وہاں کی زبان سیکھنے میں لگایا اور پھر مَیں نے صوبائی نگہبان کے طور پر خدمت کرنی شروع کی۔ ہم وہاں کی ایک خاص جیپ میں سفر کرتے تھے جس کے بارے میں لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ کسی بھی راستے پر چل سکتی ہے، یہاں تک کہ دریا بھی پار کر سکتی ہے۔ لیکن یہ سچ نہیں تھا۔ ہم صرف وہی دریا پار کر سکتے تھے جو زیادہ گہرے نہیں تھے۔ کبھی کبھار ہم مٹی کے بنے گھروں میں ٹھہرتے تھے جہاں بارشوں کے موسم میں چھت پر ترپال لگانی پڑتی تھی تاکہ پانی اندر نہ آ سکے۔ اِس طرح سے مشنری کے طور پر کام شروع کرنا کافی مشکل تھا لیکن ہمیں کام میں مزہ آ رہا تھا۔
اپریل کے مہینے میں مجھے پتہ چلا کہ ملک میں ہمارے لیے بڑی مشکل کھڑی ہونے والی ہے۔ مَیں نے ریڈیو پر ملاوی کے صدر بانڈا کا خطاب سنا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ یہوواہ کے گواہ ٹیکس نہیں دیتے اور حکومت کے لیے مسئلے کھڑے کر رہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ سارے اِلزام جھوٹے تھے۔ ہم جانتے تھے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم سیاست میں اُن کی طرفداری نہیں کر رہے تھے اور اُن کی پارٹی کا ممبر بننے کے لیے کارڈ نہیں خرید رہے تھے۔
ستمبر میں ہم نے ایک اخبار میں پڑھا کہ ملک کے صدر نے ہمارے بہن بھائیوں پر یہ اِلزام لگایا ہے کہ ہم سب لوگوں کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ اُس صدر نے اپنے ایک جلسے میں اِس با ت کا اِعلان کِیا کہ اُس کی حکومت بہت جلد یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی لگا دے گی۔ اور پھر 20 اکتوبر 1967ء میں ہمارے کام پر پابندی لگ گئی۔ اِس کے کچھ ہی دیر بعد پولیس اور امیگریشن والے ہماری برانچ کو بند کرنے اور مشنریوں کو ملک سے نکالنے آ گئے۔
1967ء میں ہمیں اور ہمارے ساتھ دوسرے مشنریوں یعنی جیک اور لنڈِا جوہانسن کو گِرفتار کر کے ملک سے نکال دیا گیا۔
ہمیں تین دن جیل میں رکھا گیا اور پھر ہمیں ملک موریشس بھیج دیا گیا جس پر برطانیہ حکومت کر رہا تھا۔ لیکن ہمیں موریشس میں بھی مشنریوں کے طور پر رہنے کی اِجازت نہیں ملی۔ اِس لیے تنظیم نے ہمیں روڈیسیا بھیج دیا
جسے اب زمبابوے کہا جاتا ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ہم ایک بہت ہی گرم دماغ امیگریشن افسر سے ملے جس نے ہمیں ملک میں رہنے کی اِجازت دینے سے اِنکار کر دیا۔ اُس نے کہا: ”پہلے تمہیں ملاوی سے نکال دیا گیا اور پھر تمہیں موریشس میں رہنے کی اِجازت بھی نہیں ملی۔ اور اب تُم یہاں چلے آئے ہو کیونکہ یہاں آنا آسان تھا۔“ یہ سُن کر این رونے لگیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بھی ہمیں اپنے ملک میں نہیں رکھنا چاہتا۔ اُس وقت میرا دل چاہ رہا تھا کہ مَیں سب کچھ چھوڑ کر اپنے گھر اِنگلینڈ واپس چلا جاؤں۔ لیکن پھر امیگریشن والوں نے اِس شرط پر ہمیں ہماری برانچ میں ایک رات گزارنے کی اِجازت دی کہ ہم اگلی صبح اُن کے ہیڈکوارٹر میں حاضری دیں۔ ہماری ہمت جواب دے گئی تھی۔ لیکن ہم نے سب کچھ یہوواہ کے ہاتھ میں چھوڑ دیا۔ اگلی دوپہر ہمیں ایک ایسی خبر ملی جس کی ہمیں توقع بھی نہیں تھی۔ ہمیں زمبابوے میں کچھ دیر رہنے کی اِجازت مل گئی۔ مَیں وہ وقت کبھی نہیں بھول سکتا کیونکہ اُس دن مجھے اِس بات پر یقین ہو گیا کہ یہوواہ ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔زمبابوے سے ملاوی کے لیے کام
سن 1968ء میں این کے ساتھ زمبابوے بیتایل میں
زمبابوے برانچ میں مجھے خدمتی شعبے میں کام کرنے کو کہا گیا جو کہ ملاوی اور موزمبیق میں مُنادی کے کام کی نگرانی کرتا تھا۔ ملاوی میں ہمارے بہن بھائیوں کو بہت سخت اذیت دی جا رہی تھی۔ میرے کام میں یہ بھی شامل تھا کہ مَیں اُن رپورٹوں کا انگریزی میں ترجمہ کروں جو ملاوی سے حلقے کے نگہبان بھیجتے تھے۔ ایک شام جب مَیں کافی دیر تک کام کر رہا تھا تو مَیں یہ پڑھ کر رونے لگا کہ ہمارے بہن بھائیوں کو کس قدر مارا پیٹا جا رہا ہے۔ * لیکن یہوواہ کے لیے اُن کی وفاداری، ایمان اور اُن کے صبر کو دیکھ کر میری بہت ہمت بڑھی۔—2-کُر 6:4، 5۔
ہم اُن بہن بھائیوں تک روحانی کھانا پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے جو ملاوی میں رہ گئے تھے اور جو پناہ لینے کے لیے موزمبیق چلے گئے تھے۔ چچیوا زبان میں ترجمہ کرنے والی ٹیم ملاوی سے زمبابوے چلی گئی۔ وہاں ایک بھائی نے اپنے بڑے سے کھیت میں اُن کے لیے گھر اور دفتر بنائے۔ اِس طرح یہ بہن بھائی ترجمے کا کام جاری رکھ سکے۔
ہم نے ملاوی کے حلقے کے نگہبانوں کے لیے یہ بندوبست کِیا کہ وہ زمبابوے میں ہر سال چچیوا زبان میں ہونے والے صوبائی اِجتماع (علاقائی اِجتماع) پر حاضر ہو سکیں۔ وہاں وہ اِجتماعوں پر کی جانے والی تقریروں کے خاکے حاصل کر سکتے تھے۔ ملاوی واپس جا کر وہ اِن خاکوں سے فرق فرق کلیسیاؤں میں تقریریں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب یہ حلقے کے نگہبان زمبابوے واپس آئے تو ہم نے اُن کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بادشاہتی خدمتی سکول کا بندوبست کِیا۔
زمبابوے میں چچیوا اور شونا زبان میں ایک اِجتماع پر چچیوا زبان میں تقریر کرتے ہوئے
فروری 1975ء میں مَیں اُن گواہوں سے ملنے گیا جو پناہ لینے کے لیے ملاوی سے موزمبیق آئے تھے۔ یہ بہن بھائی یہوواہ کی تنظیم کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہے تھے۔ وہ تنظیم کی طرف سے ملنے والی نئی ہدایتوں پر پوری طرح سے عمل کر رہے تھے۔ اِن میں سے ایک ہدایت یہ تھی کہ کلیسیا میں بزرگوں کی جماعت ہو۔ اِن بزرگوں نے یہوواہ کی خدمت کے حوالے سے بہت سے کاموں کو منظم کِیا ہوا تھا جیسے کہ عوامی تقریریں کرنا، روزانہ کی آیت پر بات کرنا، ”مینارِنگہبانی“ کا مطالعہ کرنا اور اِجتماعوں کو منعقد کرنا۔ اُنہوں نے صفائی کرنے، کھانا تقسیم کرنے اور سیکورٹی کے شعبے بنائے ہوئے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے وہ اِجتماعوں کے لیے کرتے تھے۔ وہ وفادار بھائی یہوواہ کی مدد سے بہت کچھ کر پائے اور اُن سے ملنے کے بعد میرا حوصلہ بہت زیادہ بڑھا۔
تقریباً 1979ء سے زمبیا برانچ ملاوی میں مُنادی کے کام کی نگرانی کرنے لگی۔ لیکن مَیں پھر بھی ملاوی میں رہنے والے بہن بھائیوں کے بارے میں سوچتا تھا اور اُن کے لیے دُعا کرتا تھا اور دوسرے بہن بھائی بھی ایسا کرتے تھے۔ مَیں زمبابوے برانچ کمیٹی کا رُکن تھا اِس لیے کئی بار میری ملاقات ہمارے مرکزی دفتر کے نمائندوں سے ہوئی۔ اِن موقعوں پر میرے ساتھ ملاوی، جنوبی افریقہ اور زمبیا سے بھی کچھ بھائی ہوتے تھے۔ ہر بار ہم اِسی سوال پر بات کرتے تھے کہ ہم ملاوی میں رہنے والے بہن بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے اَور کیا کر سکتے ہیں۔
آہستہ آہستہ ملاوی میں ہمارے بہن بھائیوں کے لیے اذیت کم ہونا شروع ہو گئی اور اُنہیں سُکھ کا سانس ملا۔ جو بہن بھائی اذیت کی وجہ سے ملاوی چھوڑ کر چلے گئے تھے، وہ بھی آہستہ آہستہ ملاوی واپس آنے لگے۔ آس پڑوس کے ملکوں نے یہوواہ کے گواہوں کے کام سے پابندیاں اُٹھا دیں اور اُنہیں مُنادی کرنے اور عبادت کے لیے جمع ہونے کی اِجازت دے دی۔ 1991ء میں
موزمبیق میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ہمارے ذہن میں بس یہ سوال چل رہا تھا کہ ملاوی میں یہوواہ کے گواہ کب آزادی سے یہوواہ کی عبادت کر پائیں گے۔ملاوی میں واپسی
آخرکار ملاوی میں سیاسی حالات بدل گئے اور 1993ء میں حکومت نے وہاں پر یہوواہ کے گواہوں کے کام سے پابندی اُٹھا دی۔ اِس کے کچھ عرصے بعد مَیں ایک مشنری سے بات کر رہا تھا جس نے مجھ سے پوچھا: ”کیا آپ ملاوی واپس جائیں گے؟“ اُس وقت مَیں 59 سال کا ہو چُکا تھا۔ اِس لیے مَیں نے اُس سے کہا: ”نہیں، اب تو میری عمر کافی ہو گئی ہے۔“ لیکن اُسی دن ہمیں گورننگ باڈی کی طرف سے خط ملا جس میں بھائیوں نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہم ملاوی واپس جانا چاہیں گے۔
ہمیں زمبابوے میں یہوواہ کی خدمت کرنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اِس لیے ملاوی جانے کا فیصلہ کرنا ہمارے لیے آسان نہیں تھا۔ ہم زمبابوے میں بہت خوش تھے اور کچھ بہن بھائیوں کے ساتھ ہماری بہت گہری دوستی ہو گئی تھی۔ گورننگ باڈی نے یہ ہم پر چھوڑا تھا کہ ہم ملاوی جائیں گے یا نہیں۔ اِس لیے اگر ہم چاہتے تو ہم زمبابوے میں رُک سکتے تھے۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ اُس وقت مَیں نے ابراہام اور سارہ کے بارے میں سوچا جنہوں نے اِتنی زیادہ عمر میں یہوواہ کی ہدایت پر عمل کِیا اور اُس راہ پر چل پڑے جو یہوواہ نے اُنہیں بتائی تھی۔—پید 12:1-5۔
ہم نے یہوواہ کی ہدایت پر عمل کرنے کا فیصلہ کِیا اور 1 فروری 1995ء کو ملاوی واپس آ گئے یعنی پہلی بار ملاوی آنے کے ٹھیک 28 سال بعد۔ ملاوی میں برانچ کی کمیٹی بنائی گئی جس میں مَیں اور دو اَور بھائی تھے اور ہم نے فوراً ہی ملاوی میں یہوواہ کے گواہوں کے کام کو منظم کرنا شروع کر دیا۔
یہوواہ بڑھاتا ہے
ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ملاوی میں یہوواہ نے ہمارے کام میں کتنی زیادہ برکت ڈالی۔ 1993ء میں وہاں مبشروں کی تعداد 30 ہزار تھی۔ لیکن 1998ء میں یہ تعداد 42 ہزار سے بھی اُوپر چلی گئی۔ * ملاوی میں مبشروں کی بڑھتی تعداد کو دیکھ کر گورننگ باڈی نے یہاں پر ایک نئی برانچ بنانے کی اِجازت دے دی۔ اِس کام کے لیے ہم نے شہر لیلونگوے میں 30 ایکڑ زمین خریدی اور مجھے تعمیراتی کمیٹی میں کام کرنے کی ذمےداری دی گئی۔
مئی 2001ء میں گورننگ باڈی کے رُکن بھائی گائی پیئرس نے ایک تقریر میں نئی برانچ کو یہوواہ کے لیے وقف کِیا۔ اِس موقعے پر 2000 سے بھی زیادہ یہوواہ کے گواہ موجود تھے۔ اور اِن میں سے زیادہتر کو بپتسمہ لیے 40 سال سے بھی زیادہ عرصہ ہو چُکا تھا۔ اِن بہن بھائیوں نے پابندی کے عرصے میں ایسی ایسی مصیبتیں جھیلیں جو بیان سے باہر ہیں۔ اُن کے مالی حالات تو کمزور تھے لیکن اُن کا ایمان اور یہوواہ کے ساتھ اُن کی دوستی بہت
مضبوط تھی۔ نئے بیتایل کو دیکھ کر اُنہیں بہت زیادہ خوشی ہو رہی تھی۔ یہ بہن بھائی بیتایل کے جس بھی کونے میں جا رہے تھے، وہاں پر بہن بھائی افریقی دُھنوں میں گیت گا رہے تھے۔ مَیں نے دل کو جوش سے بھر دینے والا ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ اِس بات کا پکا ثبوت تھا کہ جو لوگ مصیبتوں کے باوجود یہوواہ کے وفادار رہتے ہیں، یہوواہ اُنہیں ڈھیروں ڈھیر برکتیں دیتا ہے۔برانچ بننے کے بعد ملاوی میں بہت سی عبادتگاہیں بھی بننا شروع ہو گئیں۔ اور میرے لیے یہ بہت اعزاز کی بات تھی کہ مجھے اِن میں سے بہت سی عبادتگاہوں کو تقریر میں یہوواہ کے لیے وقف کرنے کو کہا گیا۔ ملاوی میں کلیسیاؤں کو اُس اِنتظام سے بہت فائدہ ہوا جس کے تحت تنظیم اُن ملکوں میں بڑی تیزی سے عبادتگاہوں کو بنا رہی تھی جہاں پر بہن بھائیوں کے پاس اِتنے پیسے نہیں ہیں۔ اِس سے پہلے بہن بھائی سفیدے کے درختوں سے بنی عبادتگاہوں میں جمع ہوتے تھے۔ اِن عبادتگاہوں کی چھتیں گھاس سے بنی چٹائیوں کی ہوتی تھیں اور اِن میں بیٹھنے کے لیے مٹی کے بینچ ہوتے تھے۔ لیکن پھر بہن بھائی بڑی محنت سے بھٹی میں اینٹیں تیار کرنے لگے اور اِن اینٹوں سے خوبصورت عبادتگاہیں بنانے لگے۔ پر بیٹھنے کے لیے وہ بینچ ہی پسند کرتے تھے کیونکہ اُن کا کہنا تھا کہ بینچ پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بٹھایا جا سکتا ہے۔
مجھے یہ دیکھ کر بھی بہت خوشی ہوئی کہ کس طرح یہوواہ نے پُختہ مسیحی بننے میں لوگوں کی مدد کی۔ مجھے خاص طور پر افریقہ میں نوجوان بھائیوں کو دیکھ کر خوشی ہوئی جو ہمیشہ مدد کے لیے تیار رہتے تھے اور اُنہوں نے بہت جلدی وہ کام سیکھ لیے جو یہوواہ کی تنظیم اُنہیں سکھا رہی تھی۔ اُنہوں نے بیتایل میں اور کلیسیاؤں میں بڑی بڑی ذمےداریاں اُٹھانا شروع کر دیں۔ افریقہ میں بہت سے مقامی بھائیوں کو حلقے کے نگہبان بنایا گیا جن سے کلیسیاؤں کو بہت فائدہ ہوا۔ اِن میں سے بہت سے بھائی شادیشُدہ تھے۔ حالانکہ افریقہ کی ثقافت میں بچے پیدا کرنے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور کبھی کبھار تو گھر والے بھی بچے پیدا کرنے کا دباؤ ڈالتے ہیں۔ لیکن اِن جوڑوں نے بچے نہ پیدا کرنے اور یہوواہ کی اَور زیادہ خدمت کرنے کا فیصلہ کِیا۔
مجھے اپنے فیصلوں پر کوئی پچھتاوا نہیں
این کے ساتھ برطانیہ بیتایل میں
جب مجھے افریقہ میں خدمت کرتے ہوئے 52 سال ہو گئے تو مجھے صحت کے کچھ مسئلوں کا سامنا ہوا۔ برانچ کمیٹی کے کہنے پر گورننگ باڈی نے ہمیں برطانیہ خدمت کرنے کے لیے بھیج دیا۔ ہمیں افریقہ میں یہوواہ کی خدمت چھوڑنے کا بہت دُکھ تھا۔ لیکن برطانیہ بیتایل میں رہنے والے بہن بھائی ہمارے بڑھاپے میں بہت اچھے سے ہمارا خیال رکھ رہے ہیں۔
یہوواہ کے بتائے راستے پر چلنا میری زندگی کا سب سے اچھا فیصلہ تھا۔ اگر مَیں نے خود پر بھروسا کِیا ہوتا تو شاید میری زندگی اِتنی اچھی نہ ہوتی۔ یہوواہ شروع سے ہی جانتا تھا کہ اپنی راہوں کو ہموار کرنے کے لیے مجھے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ (امثا 3:5، 6) جب مَیں نوجوان تھا تو مجھے یہ سیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ایک بڑی کمپنی کیسے کام کرتی ہے۔ لیکن جو خوشی اور اِطمینان مجھے یہوواہ کی تنظیم کے ساتھ کام کر کے ملا ہے، وہ کسی بھی بڑی کمپنی کے ساتھ کام کر کے نہیں مل سکتا تھا۔ یہوواہ کی خدمت کرنے سے مجھے پہلے بھی بہت سکون ملتا تھا اور آج بھی بہت سکون مل رہا ہے۔