مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 24

گیت نمبر 24 یہوواہ کے پہاڑ پر آئیں!‏

ہمیشہ تک یہوواہ کے مہمان بنے رہیں!‏

ہمیشہ تک یہوواہ کے مہمان بنے رہیں!‏

‏”‏اَے یہوواہ!‏ کون تیرے خیمے کا مہمان بن سکتا ہے؟“‏‏—‏زبور 15:‏1‏۔‏

غور کریں کہ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏

یہوواہ کا دوست بنے رہنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا اور جس طرح سے ہمیں یہوواہ کے دوستوں کے ساتھ پیش آنا چاہیے، اُس حوالے سے یہوواہ ہم سے کن باتوں کی توقع کرتا ہے۔‏

1.‏ ہمیں زبور 15:‏1-‏5 پر غور کرنے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟‏

 پچھلے مضمون میں ہم نے سیکھا تھا کہ یہوواہ کے بندے اُس کے ساتھ گہری دوستی کرنے سے اُس کے خیمے میں اُس کے مہمان بن سکتے ہیں۔ لیکن یہوواہ کا مہمان بننے کے لیے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ زبور 15 میں اِس حوالے سے بہت کچھ بتایا گیا ہے۔ ‏(‏زبور 15:‏1-‏5 کو پڑھیں۔)‏ اِس زبور میں ہمیں ایسے مشورے دیے گئے ہیں جن کی مدد سے ہم یہوواہ کے اَور قریب ہو سکتے ہیں۔‏

2.‏ یہوواہ کے خیمے کا ذکر کرتے وقت شاید داؤد کیا سوچ رہے ہوں گے؟‏

2 زبور 15 کی شروعات اِس سوال سے ہوتی ہے:‏ ”‏اَے یہوواہ!‏ کون تیرے خیمے کا مہمان بن سکتا ہے؟ کون تیرے مُقدس پہاڑ پر بس سکتا ہے؟“‏ (‏زبور 15:‏1‏)‏ جب داؤد نے یہوواہ کے خیمے کا ذکر کِیا تو شاید وہ خیمۂ‌اِجتماع کا سوچ رہے ہوں گے جو کچھ وقت کے لیے شہر جِبعون میں تھا۔ داؤد نے خدا کے ”‏مُقدس پہاڑ“‏ کا بھی ذکر کِیا۔ اِس کا ذکر کرتے وقت شاید وہ یروشلم میں صِیّون کے پہاڑ کا سوچ رہے تھے۔ وہاں سے تقریباً 10 کلو میٹر جِبعون کے جنوب کی طرف داؤد نے ایک خیمہ لگایا تھا جہاں اُنہوں نے عہد کے صندوق کو تب تک رکھا جب تک ہیکل نہیں بن گئی۔—‏2-‏سمو 6:‏17‏۔‏

3.‏ ہم زبور 15 کو اچھی طرح سے کیوں سمجھنا چاہتے ہیں؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

3 بے‌شک زیادہ‌تر اِسرائیلیوں کو خیمۂ‌اِجتماع میں خدمت کرنے کی اِجازت نہیں تھی۔ لیکن جن کو اِجازت تھی، اُن میں سے صرف کچھ ہی کبھی اُس جگہ گئے تھے جہاں عہد کا صندوق رکھا تھا۔ لیکن یہوواہ کے مجازی خیمے میں اُس کے سبھی بندے اُس کے مہمان بن سکتے ہیں اور ہمیشہ تک اُس کے دوست رہ سکتے ہیں۔ بھلا ہم میں سے کون ایسا نہیں چاہتا؟ زبور 15 میں کچھ ایسی خوبیوں کا ذکر کِیا گیا ہے جو ہم سب کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں اور خدا کا دوست بنے رہنے کے لیے اِنہیں ظاہر کرنا چاہیے۔‏

داؤد کے زمانے میں رہنے والے اِسرائیلی اِس مثال کو آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ یہوواہ کے خیمے میں اُس کا مہمان بننے کا کیا مطلب ہے۔ (‏پیراگراف نمبر 3 کو دیکھیں۔)‏


وفاداری کی راہ پر چلیں اور صحیح کام کریں

4.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم بپتسمہ لینے کے علاوہ بھی کچھ کریں؟ (‏یسعیاہ 48:‏1‏)‏

4 زبور 15:‏2 میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ کے دوست ’‏وفاداری کی راہ پر چلتے ہیں‌اور ہمیشہ صحیح کام کرتے ہیں۔‘‏ یہ ایسے کام ہیں جو ہمیں کرتے رہنے چاہئیں۔ لیکن کیا ہم واقعی وفاداری کی راہ پر چل سکتے ہیں؟ جی ہاں۔ سچ ہے کہ کوئی بھی اِنسان بے‌عیب نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم یہوواہ کے حکموں پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے تو یہوواہ اِسے ایسے خیال کرے گا جیسے ہم ”‏وفاداری کی راہ“‏ پر چل رہے ہوں۔ جب ہم دُعا میں اپنی زندگی یہوواہ کے نام کر دیتے ہیں اور بپتسمہ لیتے ہیں تو یہ یہوواہ کے ساتھ ہمارے سفر کی بس شروعات ہوتی ہے۔ غور کریں کہ پُرانے زمانے میں ایک شخص صرف اِسرائیلی ہونے کی وجہ سے یہوواہ کا مہمان نہیں بن جاتا تھا۔ کچھ اِسرائیلی یہوواہ سے مخاطب تو ہوتے تھے لیکن ”‏سچائی اور راستبازی“‏ سے نہیں۔ ‏(‏یسعیاہ 48:‏1 کو فٹ‌نوٹ سے پڑھیں۔‏ a‏)‏ اگر ایک اِسرائیلی یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ واقعی یہوواہ کا مہمان بننا چاہتا ہے تو اُسے یہوواہ کے معیاروں کے بارے میں جاننا اور اِن پر عمل کرنا ہوتا تھا۔ آج بھی یہوواہ سے گہری دوستی کرنے کے لیے صرف بپتسمہ لینا اور یہوواہ کا گواہ کہلانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں کچھ اَور بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہمیشہ ”‏صحیح کام“‏ کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏

5.‏ سب باتوں میں یہوواہ کی فرمانبرداری کرنے کا کیا مطلب ہے؟‏

5 یہوواہ کی نظر میں ’‏وفاداری کی راہ پر چلنے اور ہمیشہ صحیح کام کرنے‘‏ کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم باقاعدگی سے عبادتوں میں جائیں۔ (‏1-‏سمو 15:‏22‏)‏ ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں یہوواہ کے حکموں پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے، اُس وقت بھی جب ہم اکیلے ہوتے ہیں۔ (‏اَمثا 3:‏6؛‏ واعظ 12:‏13، 14‏)‏ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ایسے معاملوں میں بھی یہوواہ کے فرمانبردار رہیں جو بہت معمولی ہوتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم ظاہر کریں گے کہ ہم یہوواہ سے دل سے محبت کرتے ہیں اور یہ دیکھ کر یہوواہ ہم سے اَور بھی زیادہ محبت کرے گا۔—‏یوح 14:‏23؛‏ 1-‏یوح 5:‏3‏۔‏

6.‏ عبرانیوں 6:‏10-‏12 کے مطابق ہم نے ماضی میں یہوواہ کے لیے جو کام کیے تھے، اُن سے بھی زیادہ اہم بات کیا ہے؟‏

6 ہم نے ماضی میں یہوواہ کے لیے جو کچھ بھی کِیا تھا، یہوواہ اِس کی بہت زیادہ قدر کرتا ہے۔ لیکن صرف اُن اچھے کاموں کی بِنا پر ہمیں اِس بات کی ضمانت نہیں مل جاتی کہ ہم ہمیشہ تک یہوواہ کے خیمے میں اُس کے مہمان بنے رہیں گے۔ یہ بات عبرانیوں 6:‏10-‏12 سے صاف پتہ چلتی ہے۔ ‏(‏اِن آیتوں کو پڑھیں۔)‏ یہ سچ ہے کہ یہوواہ ہمارے اُن کاموں کو کبھی نہیں بھولے گا جو ہم نے ماضی میں اُس کے لیے کیے تھے۔ لیکن وہ چاہتا ہے کہ ہم ”‏آخر تک“‏ یعنی اپنی ساری زندگی پورے دل سے اُس کی عبادت کریں۔ ”‏اگر ہم ہمت نہیں ہاریں گے“‏ تو یہوواہ ہمیشہ تک ہمارا دوست بنا رہے گا۔—‏گل 6:‏9‏۔‏

دل میں سچ بولیں

7.‏ دل میں سچ بولنے کا کیا مطلب ہے؟‏

7 جو شخص یہوواہ کا مہمان بننا چاہتا ہے، اُسے ’‏اپنے دل میں سچ بولنا‘‏ چاہیے۔ (‏زبور 15:‏2‏)‏ اِس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ وہ جھوٹ نہ بولے۔ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہماری ہر بات اور ہر کام سے ایمان‌داری نظر آئے۔ (‏عبر 13:‏18‏)‏ ایسا کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ”‏یہوواہ دھوکے‌بازوں سے گِھن کھاتا ہے لیکن سیدھی راہ پر چلنے والوں سے اُس کی گہری دوستی ہے۔“‏—‏اَمثا 3:‏32‏۔‏

8.‏ ہمیں کس بات سے خبردار رہنا چاہیے؟‏

8 جو لوگ ’‏دل میں سچ بولتے‘‏ ہیں، وہ ایسے لوگ نہیں ہوتے جو دوسروں کے سامنے تو یہوواہ کی فرمانبرداری کرنے کا دِکھاوا کرتے ہیں لیکن اکیلے میں اُس کے حکم توڑ دیتے ہیں۔ (‏یسع 29:‏13‏)‏ وہ دھوکے‌بازی سے کام نہیں لیتے۔ ایک دھوکے‌باز شخص یہوواہ کے حکموں کے پیچھے پائی جانے والی دانش‌مندی پر شک کرتا ہے۔ (‏یعقو 1:‏5-‏8‏)‏ وہ ایسے معاملوں میں یہوواہ کی نافرمانی کرتا ہے جو اُس کی نظر میں اہم نہیں ہیں۔ اور پھر جب اُسے ایسا کرنے کی وجہ سے کوئی نقصان نہ ہوتا تو وہ یہوواہ کے اَور بھی زیادہ حکم توڑنے لگتا ہے۔ حالانکہ اُسے لگتا ہے کہ وہ یہوواہ کی عبادت کر رہا ہے لیکن یہوواہ اُس کی عبادت کو قبول نہیں کرے گا۔ (‏واعظ 8:‏11‏)‏ لیکن ہم ہر بات میں ایمان‌داری سے کام لینا چاہتے ہیں۔‏

9.‏ جب یسوع مسیح پہلی بار نتن‌ایل سے ملے تو کیا ہوا اور اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

9 جب یسوع مسیح نتن‌ایل سے پہلی بار ملے تو اِس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دل سے سچا ہونا کتنا اہم ہوتا ہے۔ جب فِلپّس اپنے دوست نتن‌ایل کو پہلی بار یسوع سے ملوانے لائے تو ایک بہت ہی زبردست بات ہوئی۔ حالانکہ یسوع مسیح نتن‌ایل سے پہلے کبھی نہیں ملے تھے لیکن پھر بھی اُنہوں نے نتن‌ایل کے بارے میں کہا:‏ ”‏دیکھیں!‏ یہ ایک سچا اِسرائیلی ہے جو فریب سے پاک ہے۔“‏ (‏یوح 1:‏47‏)‏ بے‌شک یسوع مسیح جانتے تھے کہ اُن کے باقی شاگرد بھی سچے اور ایمان‌دار ہیں لیکن نتن‌ایل ایمان‌داری اور سچائی سے بھرے تھے۔ حالانکہ نتن‌ایل بھی ہماری طرح عیب‌دار تھے لیکن اُن میں ذرا سی بھی ریاکاری نہیں پائی جاتی تھی اور وہ ہر معاملے میں ایمان‌دار تھے۔ اِسی لیے یسوع نے اِس بات کے لیے اُنہیں سراہا اور اُن کی تعریف کی۔ ذرا سوچیں کہ اگر یسوع مسیح ہمارے بارے میں یہ بات کہیں تو ہمیں کتنا فخر محسوس ہوگا!‏

فِلپّس نے اپنے دوست نتن‌ایل کو یسوع مسیح سے ملوایا۔ نتن‌ایل ایک ایسے شخص تھے جو فریب سے پاک تھے۔ کیا یہی بات ہمارے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے؟ (‏پیراگراف نمبر 9 کو دیکھیں۔)‏


10.‏ ہمیں بولنے کی صلاحیت کا غلط اِستعمال کیوں نہیں کرنا چاہیے؟ (‏یعقوب 1:‏26‏)‏

10 زبور 15 میں یہوواہ کا مہمان بننے کے حوالے سے جو باتیں بتائی گئی ہیں، اُن میں سے زیادہ‌تر کا تعلق اِس بات سے ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ کس طرح سے پیش آتے ہیں۔ زبور 15:‏3 میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ کے خیمے میں آنے والا مہمان ”‏اپنی زبان سے جھوٹی باتیں نہیں پھیلاتا، وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ کچھ بُرا نہیں کرتا اور اپنے دوستوں کو بدنام نہیں کرتا۔“‏ اگر ہم اپنی بولنے کی صلاحیت کا غلط اِستعمال کریں گے تو ہم دوسروں کا دل دُکھا بیٹھیں گے اور یہوواہ کے خیمے میں اُس کے مہمان بننے کے لائق نہیں رہیں گے۔‏‏—‏یعقوب 1:‏26 کو پڑھیں۔‏

11.‏ اُس شخص کے ساتھ کیا ہوتا ہے جو دوسروں کی نیک‌نامی خراب کرتا ہے اور ایسا کرنے سے توبہ نہیں کرتا؟‏

11 زبور 15 میں خاص ایسے شخص کا ذکر کِیا گیا ہے جو دوسروں کی نیک‌نامی برباد کرتا ہے۔ وہ ایسا اُن کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلانے سے کرتا ہے۔ جو شخص دوسروں کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلاتا ہے اور اپنے اِس گُناہ سے توبہ نہیں کرتا، اُسے کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے۔—‏یرم 17:‏10‏۔‏

12-‏13.‏ کچھ ایسی صورتحال کیا ہیں جن میں ہم انجانے میں اپنے دوستوں کو بدنام کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

12 زبور 15:‏3 میں ہمیں یاد دِلایا گیا ہے کہ یہوواہ کے مہمان دوسروں کے ساتھ کچھ بُرا نہیں کرتے اور اپنے دوستوں کو بدنام بھی نہیں کرتے۔ ہم اپنے دوستوں کو بدنام کرنے کے خطرے میں کیسے پڑ سکتے ہیں؟‏

13 ہم انجانے میں اپنے دوستوں کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے سے اُنہیں بدنام کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ ذرا اِن صورتحال پر غور کریں:‏ (‏1)‏ہو سکتا ہے کہ ایک بہن نے کُل‌وقتی طور پر خدمت کرنا چھوڑ دی ہے، (‏2)‏ایک میاں بیوی اب بیت‌ایل میں خدمت نہیں کر رہے یا (‏3)‏ایک بھائی اب خادم یا بزرگ کے طور پر خدمت نہیں کر رہا۔ کیا اِس طرح کی صورتحال میں یہ اندازہ لگانا ٹھیک ہوگا کہ اُن کے ساتھ ایسا اِس لیے ہوا ہے کیونکہ اُنہوں نے کچھ غلط کِیا ہے؟ اور پھر کیا اپنی رائے کو دوسروں میں پھیلانا ٹھیک ہوگا؟ ہو سکتا ہے کہ جن وجوہات کی بِنا پر اُن کی زندگی میں یہ تبدیلی آئی ہے، اُس کے بارے میں ہم نہیں جانتے۔ یاد رکھیں کہ یہوواہ کا مہمان ”‏اپنے پڑوسی کے ساتھ کچھ بُرا نہیں کرتا اور اپنے دوستوں کو بدنام نہیں کرتا۔“‏

دوسروں کے بارے میں غلط معلومات پھیلانا بہت آسان ہوتا ہے۔ یہ تو جھوٹی باتوں کی شکل بھی اِختیار کر سکتی ہیں۔ (‏پیراگراف نمبر 12-‏13 کو دیکھیں۔)‏


اُن لوگوں کی عزت کریں جو یہوواہ کا خوف رکھتے ہیں

14.‏ ”‏گھٹیا لوگوں سے دُور“‏ رہنے کا کیا مطلب ہے؟‏

14 زبور 15:‏4 میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ کے دوست ”‏گھٹیا لوگوں سے دُور“‏ رہتے ہیں۔ اِس کا کیا مطلب ہے؟ ہم یہ طے نہیں کر سکتے کہ کون شخص گھٹیا ہے اور کون نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ہم عیب‌دار ہیں۔ اِس لیے ہو سکتا ہے کہ ہم اُن لوگوں کو پسند کریں جن کے ساتھ ہماری اچھی بنتی ہے۔ لیکن اُن لوگوں کو سخت ناپسند کریں جن کے کچھ کاموں سے ہمیں اُلجھن ہوتی ہے۔ تو ہم اپنی رائے یا پسند ناپسند کی بِنا پر کسی شخص کو گھٹیا نہیں کہہ سکتے۔ اِس لیے ہمیں صرف اُن لوگوں سے دُور رہنا چاہیے جنہیں یہوواہ ”‏گھٹیا“‏ خیال کرتا ہے۔ (‏1-‏کُر 5:‏11‏)‏ اِن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے بُرے کاموں سے توبہ نہیں کرتے؛ ہمارے عقیدوں کی توہین کرتے ہیں یا یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔—‏اَمثا 13:‏20‏۔‏

15.‏ اُن لوگوں کی عزت کرنے کا ایک طریقہ کیا ہے ”‏جو یہوواہ کا خوف رکھتے ہیں“‏؟‏

15 زبور 15:‏4 میں آگے بتایا گیا ہے کہ ہمیں اُن لوگوں کی عزت کرنی چاہیے ”‏جو یہوواہ کا خوف رکھتے ہیں۔“‏ اِس لیے ہم ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن میں ہم یہوواہ کے دوستوں کے لیے شفقت اور احترام دِکھا سکیں۔ (‏روم 12:‏10‏)‏ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ ایسا کرنے کا ایک طریقہ زبور 15:‏4 میں لکھا ہے۔ وہاں بتایا گیا ہے کہ جو شخص یہوواہ کے خیمے میں اُس کا مہمان ہوتا ہے، ”‏وہ ہمیشہ اپنا وعدہ پورا کرتا ہے پھر چاہے اُسے نقصان ہی کیوں نہ اُٹھانا پڑے۔“‏ اگر ہم اپنے وعدے توڑ دیتے ہیں تو اِس سے دوسروں کو بہت دُکھ پہنچ سکتا ہے۔ (‏متی 5:‏37‏)‏ مثال کے طور پر یہوواہ اپنے مہمانوں سے یہ توقع کرتا ہے کہ اگر وہ شادی‌شُدہ ہیں تو وہ اپنے شادی کے عہدو پیمان کو نبھائیں۔ وہ اُس وقت بھی بہت خوش ہوتا ہے جب ماں باپ اپنے اُن وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو وہ اپنے بچوں سے کرتے ہیں۔ چونکہ ہم یہوواہ اور دوسروں سے بہت محبت کرتے ہیں اِس لیے ہم اپنے وعدوں کو نبھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔‏

16.‏ یہوواہ کے دوستوں کی عزت کرنے کا ایک اَور طریقہ کیا ہے؟‏

16 یہوواہ کے دوستوں کی عزت کرنے کا ایک اَور طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن کی مہمان‌نوازی کریں اور اُن کے لیے فراخ‌دلی دِکھائیں۔ (‏روم 12:‏13‏)‏ جب ہم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ عبادتوں میں اور مُنادی کرنے کے علاوہ بھی وقت گزارتے ہیں تو ہماری دوستی اُن سے اور یہوواہ سے اَور زیادہ پکی ہو جاتی ہے۔ اِس کے علاوہ اُن کے لیے مہمان‌نوازی دِکھانے سے ہم یہوواہ کی مثال پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔‏

اپنے دل میں پیسے کے لیے محبت پیدا نہ ہونے دیں

17.‏ زبور 15 میں پیسے کے موضوع پر بات کیوں کی گئی ہے؟‏

17 ہم زبور 15 میں یہ بھی پڑھتے ہیں کہ یہوواہ کا مہمان ”‏سُود پر قرض نہیں دیتا اور بے‌قصور شخص کو پھنسانے کے لیے رشوت نہیں لیتا۔“‏ (‏زبور 15:‏5‏)‏ اِس چھوٹے سے زبور میں پیسے کے موضوع پر بات کیوں کی گئی ہے؟ کیونکہ اگر ہم پیسے کے بارے میں حد سے زیادہ سوچیں گے یا اِس سے پیار کرنے لگیں گے تو یہ ہمارے لیے یہوواہ اور اِنسانوں سے زیادہ اہم بن جائے گا۔ اور اِس طرح اُن کے ساتھ ہمارے رشتے میں دراڑ آ جائے گی۔ (‏1-‏تیم 6:‏10‏)‏ پُرانے زمانے میں کچھ اِسرائیلی اپنے غریب بھائیوں سے سُود سمیت قرضہ واپس لے کر اُنہیں لُوٹ رہے تھے۔ اِس کے علاوہ کچھ قاضی لوگوں سے رشوت لیتے تھے اور بے‌قصور شخص کا نااِنصافی سے فیصلہ کرتے تھے۔ یہوواہ کو ایسے کام کرنے والوں سے سخت نفرت تھی۔—‏حِز 22:‏12‏۔‏

18.‏ ہمیں خود سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ ہم پیسے کے بارے میں کیسی سوچ رکھتے ہیں؟ (‏عبرانیوں 13:‏5‏)‏

18 یہ اچھا ہوگا کہ ہم جانیں کہ ہم پیسے کے بارے میں کیسی سوچ رکھتے ہیں۔ خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مَیں اکثر پیسوں کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں اور یہ کہ مَیں اِس سے کیا کچھ خریدوں گا؟ اگر مَیں نے کسی سے پیسے اُدھار لیے ہیں تو کیا مَیں اِسے واپس کرنے میں دیر کرتا ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ قرض دینے والے شخص کو اِس کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا پیسہ ہونے کی وجہ سے مَیں خود کو دوسروں سے اہم سمجھتا ہوں لیکن جب دوسروں کی مدد کرنے کے لیے اِسے دینے کی بات آتی ہے تو کنجوسی سے کام لیتا ہوں؟ اگر میرے کسی ہم‌ایمان کے پاس زیادہ پیسہ ہے تو کیا مَیں یہ سوچتا ہوں کہ وہ یہوواہ سے زیادہ مال‌ودولت سے پیار کرتا ہے؟ کیا مجھے غریب لوگوں سے زیادہ امیر لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے کا شوق ہے؟“‏ خود سے یہ سوال پوچھنا بہت ہی ضروری ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ پیسے سے پیار کرنے کی وجہ سے ہم سے یہوواہ کا مہمان بننے کا شان‌دار اعزاز چھن جائے۔ ہم ہر قیمت پر یہوواہ کے مہمان بنے رہنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم پیسے سے نہیں بلکہ یہوواہ سے پیار کریں گے تو یہوواہ ہمیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔‏‏—‏عبرانیوں 13:‏5 کو پڑھیں۔‏

یہوواہ کو اپنے دوستوں سے محبت ہے

19.‏ یہوواہ یہ کیوں چاہتا ہے کہ ہم زبور 15 میں لکھی ہر بات پر عمل کریں؟‏

19 زبور 15 کا اِختتام اِس وعدے پر ہوتا ہے:‏ ”‏جو شخص یہ سارے کام کرتا ہے، وہ کبھی ڈگمگائے گا نہیں۔“‏ (‏زبور 15:‏5‏)‏ اِس زبور کو لکھنے والے شخص نے بتایا کہ دراصل یہوواہ یہ کیوں چاہتا ہے کہ ہم اِس زبور میں لکھی ہر بات پر عمل کریں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم خوش رہیں۔ اِس لیے اُس نے ہمیں ایسی ہدایتیں دی ہیں جن سے ہمیں برکتیں اور تحفظ مل سکتا ہے۔—‏یسع 48:‏17‏۔‏

20.‏ یہوواہ کے مہمان کس بات کی اُمید رکھ سکتے ہیں؟‏

20 یہوواہ کے مہمان ایک شان‌دار مستقبل کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔ وفادار مسح‌شُدہ مسیحیوں کو آسمان پر اُس ”‏جگہ“‏ رہنے کا موقع ملے گا جو یسوع نے اُن کے لیے تیار کی ہے۔ (‏یوح 14:‏2‏)‏ اور جو لوگ زمین پر ہمیشہ کی زندگی پانے کے منتظر ہیں، وہ اُس وعدے کے پورا ہونے کی اُمید رکھ سکتے ہیں جو مُکاشفہ 21:‏3 میں کِیا گیا ہے۔ بے‌شک یہ ہمارے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ہم یہوواہ کے دوستوں کے طور پر اُس کے خیمے میں ہمیشہ تک اُس کے مہمان بن کر رہ سکتے ہیں!‏

گیت نمبر 39 یہوواہ کی نظروں میں نیک‌نامی

a نیو اُردو بائبل ورشن:‏ ”‏یہ بات سنو اَے یعقوب کے گھرانے والو، تُم جو اِسرائیل کے نام سے پکارے جاتے ہو اور یہوداہ کی نسل سے ہو، اور جو[‏یہوواہ]‏کے نام کی قسم کھاتے ہو اور اِسرائیل کے خدا سے مخاطب ہوتے ہو۔ لیکن سچائی اور راستبازی سے نہیں۔“‏