مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

روحانی خزانوں کی دل سے قدر کریں

روحانی خزانوں کی دل سے قدر کریں

‏”‏جہاں آپ کا خزانہ ہے وہیں آپ کا دل بھی ہوگا۔‏“‏‏—‏لُوقا 12:‏34‏۔‏

گیت:‏ 40،‏  9

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ نے ہمیں کون سے تین روحانی خزانے عطا کیے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

یہوواہ خدا کائنات کی سب سے امیرترین ہستی ہے کیونکہ سب کچھ اُسی کا ہے۔‏ (‏1-‏تواریخ 29:‏11،‏ 12‏)‏ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ وہ بڑا فراخ‌دل بھی ہے۔‏ اُس نے ہمیں بہت سے روحانی خزانے عطا کیے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:‏ (‏1)‏ خدا کی بادشاہت،‏ (‏2)‏ مُنادی کا کام اور (‏3)‏ پاک کلام کی سچائیاں۔‏ ہم اِن خزانوں کے لیے اُس کے بڑے شکرگزار ہیں۔‏ لیکن ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دل میں اِن کے لیے قدر کم نہ ہو جائے۔‏ ہمیں باقاعدگی سے اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ یہ خزانے کتنے قیمتی ہیں اور اپنے دل میں اِن کی قدر بڑھانے کے لیے قدم اُٹھانے چاہئیں۔‏ یاد رکھیں کہ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”‏جہاں آپ کا خزانہ ہے وہیں آپ کا دل بھی ہوگا۔‏“‏—‏لُوقا 12:‏34‏۔‏

2 آئیں،‏ دیکھیں کہ ہم خدا کی بادشاہت،‏ مُنادی کے کام اور پاک کلام کی سچائیوں کے لیے اپنی قدر کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔‏ اِس دوران اِس بارے میں بھی سوچیں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ کے دل میں اِن خزانوں کے لیے شکرگزاری کا جذبہ مضبوط سے مضبوط‌تر ہوتا جائے۔‏

خدا کی بادشاہت ایک قیمتی موتی کی طرح ہے

3.‏ یسوع مسیح کی کہانی میں تاجر ایک قیمتی موتی کو خریدنے کے لیے کیا کرنے کو تیار تھا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

3 متی 13:‏45،‏ 46 کو پڑھیں۔‏ یسوع مسیح نے ایک ایسے آدمی کی کہانی سنائی جو موتیوں کی تجارت کرتا تھا۔‏ ایک دن اُس آدمی کو ایک بہت ہی قیمتی موتی ملا۔‏ یہ موتی اُن سب موتیوں سے زیادہ قیمتی تھا جو اُس نے ابھی تک دیکھے تھے۔‏ اِس موتی کو پانے کے لیے اُس آدمی نے اپنا سب کچھ بیچ دیا جس سے ظاہر ہوا کہ وہ اِس موتی کی بہت قدر کرتا تھا۔‏

اگر ہم بادشاہت کی قدر کرتے ہیں تو ہم اِس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کو بھی تیار ہوں گے۔‏

4.‏ اگر ہم بادشاہت کی قدر کرتے ہیں تو ہم کیا کرنے کو تیار ہوں گے؟‏

4 ہم یسوع مسیح کی کہانی سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ دراصل خدا کی بادشاہت اُس بیش‌قیمت موتی کی طرح ہے۔‏ کیا ہم بادشاہت کی اُتنی ہی قدر کرتے ہیں جتنی کہ وہ تاجر اُس موتی کی کرتا تھا؟‏ پھر ہم اِس بادشاہت کی رعایا میں شامل ہونے اور اِس کا حصہ رہنے کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کو بھی تیار ہوں گے۔‏ ‏(‏مرقس 10:‏28-‏30 کو پڑھیں۔‏)‏ آئیں،‏ اب دو لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جنہوں نے ایسا ہی کِیا۔‏

5.‏ زکائی خدا کی بادشاہت کی خاطر کیا کرنے کو تیار تھے؟‏

5 زکائی ٹیکس وصول کرنے والوں کے افسر تھے۔‏ وہ لوگوں سے پیسے بٹور بٹور کر امیر بن گئے تھے۔‏ (‏لُوقا 19:‏1-‏9‏)‏ مگر جب اُنہوں نے یسوع مسیح کو بادشاہت کے بارے میں بات کرتے سنا تو اُن کے دل میں اِس کے لیے اِتنی قدر پیدا ہوئی کہ اُنہوں نے اپنے بُرے طورطریقے چھوڑنے کی ٹھان لی۔‏ اُنہوں نے یسوع مسیح سے کہا:‏ ”‏مالک!‏ دیکھیں،‏ مَیں اپنا آدھا مال غریبوں کو دے رہا ہوں اور جن لوگوں سے مَیں نے ناحق پیسے بٹورے تھے،‏ اُن کو مَیں چار گُنا واپس کروں گا۔‏“‏ زکائی نے بڑی خوشی سے وہ تمام پیسے واپس کر دیے جو اُنہوں نے لوگوں سے ہتھیائے تھے اور اُنہوں نے اپنے دل سے لالچ کو نکال دیا۔‏

6.‏ ایک عورت اپنی زندگی میں کیا تبدیلیاں لائی اور اُس نے ایسا کیوں کِیا؟‏

6 کچھ سال پہلے ایک ہم‌جنس‌پرست عورت نے بادشاہت کی خوش‌خبری سنی۔‏ اُس وقت وہ ایک ایسی تنظیم کی صدر تھی جو ہم‌جنس‌پرستوں کے حقوق کے لیے لڑتی تھی۔‏ جب وہ عورت بائبل کورس کرنے لگی تو اُسے احساس ہوا کہ خدا کی بادشاہت کتنا قیمتی اثاثہ ہے۔‏ وہ یہ بھی سمجھ گئی کہ اِسے پانے کے لیے اُسے اپنی زندگی میں بہت بڑی تبدیلیاں لانی پڑیں گی۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 6:‏9،‏ 10‏)‏ وہ یہوواہ سے اِتنی محبت کرنے لگی کہ اُس نے ہم‌جنس‌پرستوں کی تنظیم سے ناتا توڑ دیا اور اُس عورت کو بھی چھوڑ دیا جس کے ساتھ وہ رہ رہی تھی۔‏ 2009ء میں اُس نے بپتسمہ لے لیا اور اِس کے اگلے سال پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنے لگی۔‏ وہ اپنی زندگی میں اِتنی بڑی تبدیلیاں کیوں لا پائی؟‏ کیونکہ وہ یہوواہ اور اُس کی بادشاہت سے اِس قدر محبت کرتی تھی کہ وہ اپنی غلط خواہشوں پر غالب آ گئی۔‏—‏مرقس 12:‏29،‏ 30‏۔‏

7.‏ ہمیں کس بات سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے؟‏

7 خدا کی بادشاہت کی رعایا میں شامل ہونے کے لیے ہم میں سے کچھ نے تو خود کو مکمل طور پر بدل لیا۔‏ (‏رومیوں 12:‏2‏)‏ لیکن ہمیں آئندہ بھی خبردار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ مال‌ودولت سے پیار،‏ غلط جنسی خواہشات یا پھر کوئی اَور بات بادشاہت کے لیے ہماری محبت کو ٹھنڈا کر سکتی ہے۔‏ (‏امثال 4:‏23؛‏ متی 5:‏27-‏29‏)‏ مگر یہوواہ نے ہمیں ایک اَور خزانہ دیا ہے جس کی مدد سے ہم بادشاہت کے لیے اپنی محبت کو مضبوط رکھ سکتے ہیں۔‏

مُنادی کا کام ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے

8.‏ ‏(‏الف)‏ پولُس رسول کی اِس بات کا کیا مطلب ہے کہ ’‏ہمارے پاس مٹی کے برتنوں میں خزانہ ہے‘‏؟‏ (‏ب)‏ پولُس رسول نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ بادشاہت کی خوش‌خبری کی قدر کرتے تھے؟‏

8 یسوع مسیح نے ہمیں یہ ذمےداری دی ہے کہ ہم بادشاہت کی مُنادی کریں اور لوگوں کو اِس کے بارے میں سکھائیں۔‏ (‏متی 28:‏19،‏ 20‏)‏ پولُس رسول نے اِس ذمےداری کے بارے میں کہا کہ یہ مٹی کے برتنوں میں ایک خزانہ ہے۔‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏7؛‏ 1-‏تیمُتھیُس 1:‏12‏)‏ عیب‌دار ہونے کی وجہ سے ہم مٹی کے برتنوں کی طرح ہیں۔‏ لیکن ہم جو پیغام سناتے ہیں،‏ وہ کسی خزانے سے کم نہیں کیونکہ اِس سے ہم بھی ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو ہمارے پیغام کو قبول کرتے ہیں۔‏ اِس لیے پولُس رسول نے کہا:‏ ”‏مَیں دوسروں کو خوش‌خبری سنانے کی خاطر سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔‏“‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 9:‏23‏)‏ پولُس رسول نے دوسروں کو خدا کی بادشاہت کے بارے میں تعلیم دینے کے لیے دن رات ایک کر دیے۔‏ ‏(‏رومیوں 1:‏14،‏ 15؛‏ 2-‏تیمُتھیُس 4:‏2 کو پڑھیں۔‏)‏ وہ بادشاہت کی خوش‌خبری کی اِتنی قدر کرتے تھے کہ وہ ”‏شدید مخالفت کے باوجود“‏ بھی اِسے سناتے رہے۔‏ (‏1-‏تھسلُنیکیوں 2:‏2‏)‏ ہم اُن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

ہم جو پیغام سناتے ہیں،‏ وہ کسی خزانے سے کم نہیں۔‏

9.‏ ہم کن طریقوں سے مُنادی کے کام کے لیے قدر ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

9 پولُس رسول لوگوں کو خوش‌خبری سنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔‏ اُن کی طرح اور پہلی صدی کے باقی مسیحیوں کی طرح ہم بھی گھر گھر جا کر،‏ عوامی جگہوں پر اور جہاں بھی لوگ ہوں،‏ خوش‌خبری سناتے ہیں۔‏ (‏اعمال 5:‏42؛‏ 20:‏20‏)‏ ہماری کوشش ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ وقت اِس کام میں صرف کریں۔‏ اگر ممکن ہو تو ہم مددگار پہل‌کار یا پہل‌کار کے طور پر خدمت کر سکتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم زیادہ لوگوں کو خوش‌خبری سنانے کی خاطر کوئی نئی زبان سیکھ سکتے ہیں،‏ اپنے ہی ملک میں کسی اَور جگہ منتقل ہو سکتے ہیں یا پھر کسی اَور ملک میں جا کر خدمت کر سکتے ہیں۔‏—‏اعمال 16:‏9،‏ 10‏۔‏

10.‏ بہن آئرین نے خوش‌خبری سنانے کے لیے جو محنت کی،‏ اِس کے نتیجے میں اُنہیں کون سی برکتیں ملیں؟‏

10 بہن آئرین امریکہ میں رہتی ہیں اور غیرشادی‌شُدہ ہیں۔‏ وہ ایسے لوگوں کو خوش‌خبری سنانا چاہتی تھیں جو روسی زبان بولتے ہیں۔‏ اِس لیے وہ 1993ء میں روسی زبان کے ایک گروپ میں خدمت کرنے لگیں جو شہر نیو یارک میں واقع تھا۔‏ 20 سال اَن‌تھک محنت کرنے کے بعد بہن آئرین نے کہا:‏ ”‏مَیں ابھی بھی روسی زبان بولتے وقت کئی غلطیاں کرتی ہوں۔‏“‏ لیکن یہوواہ نے اُن کی اور دوسرے مبشروں کی مدد کی تاکہ وہ اِس زبان میں خوش‌خبری سنا سکیں۔‏ اِس کے نتیجے میں آج نیو یارک میں روسی زبان والی چھ کلیسیائیں ہیں۔‏ بہن آئرین نے بہت سے لوگوں کو بائبل کورس کرایا ہے جن میں سے 15 نے بپتسمہ بھی لیا ہے۔‏ آج اِن میں سے کچھ بیت‌ایل میں خدمت کر رہے ہیں،‏ کچھ پہل‌کار ہیں اور کچھ بزرگ ہیں۔‏ بہن آئرین کہتی ہیں:‏ ”‏مجھے نہیں لگتا کہ مجھے کسی اَور کام سے اِتنی خوشی ملتی جتنی کہ مجھے اِس کام سے ملی ہے۔‏“‏

کیا آپ مُنادی کے کام کی قدر کرتے ہیں اور اِس کے لیے ہر ہفتے وقت نکالتے ہیں؟‏(‏پیراگراف 11،‏ 12 کو دیکھیں۔‏)‏

11.‏ جب ہم سخت مخالفت کے باوجود مُنادی کے کام کو جاری رکھتے ہیں تو اِس کے کیا نتیجے نکلتے ہیں؟‏

11 اگر ہم مُنادی کے کام کی قدر کرتے ہیں تو پولُس رسول کی طرح ہم بھی سخت مخالفت کے باوجود اِس کام کو جاری رکھیں گے۔‏ (‏اعمال 14:‏19-‏22‏)‏ امریکہ میں 1930ء سے 1944ء کے دوران ہمارے بھائیوں پر سخت اذیت ڈھائی گئی لیکن وہ خوش‌خبری سناتے رہے۔‏ جب حکومت نے اُنہیں روکنے کی کوشش کی تو ہمارے بھائیوں نے عدالت کا رُخ کِیا اور بہت سے مُقدمے جیتے۔‏ 1943ء میں بھائی نار نے ایسے مُقدموں کا ذکر کِیا جو ہم نے امریکہ کے سپریم کورٹ میں جیتے تھے۔‏ پھر اُنہوں نے کہا:‏ ”‏یہ مُقدمے آپ مبشروں کی وجہ سے جیتے گئے ہیں۔‏ اگر آپ مُنادی کا کام جاری نہ رکھتے تو سپریم کورٹ میں اِس طرح کے مُقدمے چلائے ہی نہ جاتے۔‏ لیکن چونکہ نہ صرف آپ لوگ بلکہ پوری دُنیا میں ہمارے بہن بھائی بغیر ہمت ہارے مُنادی کرتے ہیں اِس لیے مخالفوں کے مُنہ بند کر دیے جاتے ہیں۔‏ مالک کے بندوں کی ثابت‌قدمی واقعی ایک جیت ہے۔‏ اِس ثابت‌قدمی کی وجہ سے عدالت ہمارے حق میں فیصلہ سناتی ہے۔‏“‏ دوسرے ملکوں میں بھی ہمارے بہن بھائی پابندیوں کے باوجود ثابت‌قدمی سے مُنادی کا کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اِن ملکوں میں بھی بہت سے مُقدمے جیتے گئے ہیں۔‏ ہم مُنادی کے کام کی اِتنی قدر کرتے ہیں کہ ہم کسی بھی چیز کو اِس کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیتے۔‏

12.‏ آپ نے کیا کرنے کا عزم کِیا ہے؟‏

12 جب ہمارے دل میں مُنادی کے کام کے لیے قدر ہوتی ہے تو ہم یہ کام صرف اِس لیے نہیں کرتے تاکہ ہم رپورٹ میں گھنٹے لکھ سکیں بلکہ ہم ”‏خوش‌خبری کی اچھی طرح سے مُنادی“‏ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏اعمال 20:‏24؛‏ 2-‏تیمُتھیُس 4:‏5‏)‏ لیکن ہم مُنادی کرتے وقت لوگوں کو کیا سکھاتے ہیں؟‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں ایک اَور خزانے پر غور کریں جو ہمیں یہوواہ کی طرف سے ملا ہے۔‏

پاک کلام کی سچائیاں بیش‌قیمت ہیں

13،‏ 14.‏ متی 13:‏52 میں کس ”‏خزانے“‏ کا ذکر کِیا گیا ہے؟‏ اور ہم یہ خزانہ کیسے جمع کر سکتے ہیں؟‏

13 ایک اَور خزانہ جو یہوواہ نے ہمیں دیا ہے،‏ وہ پاک کلام کی سچائیاں ہیں۔‏ یہوواہ سچائی کا خدا ہے۔‏ (‏2-‏سموئیل 7:‏28؛‏ زبور 31:‏5‏)‏ وہ ایک فراخ‌دل باپ بھی ہے اِس لیے وہ ہمیں اِن سچائیوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہے۔‏ بہت سی سچائیاں ہم نے اُس کے کلام اور اُس کی تنظیم کی مطبوعات کو پڑھنے سے اور اِجتماعوں اور اِجلاسوں پر جانے سے سیکھی ہیں۔‏ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے اِن سچائیوں کا ایسا خزانہ جمع کر لیا ہے جس میں ”‏نئی اور پُرانی“‏ سچائیاں شامل ہیں۔‏ ‏(‏متی 13:‏52 کو پڑھیں۔‏)‏ اگر ہم اِن سچائیوں کو اُتنے ہی جوش‌وجذبے سے تلاش کریں گے جس طرح ”‏پوشیدہ خزانوں“‏ کو تلاش کِیا جاتا ہے تو یہوواہ ہماری مدد کرے گا اور یوں ہم اپنے خزانے میں بہت سی نئی سچائیاں شامل کر سکیں گے۔‏ ‏(‏امثال 2:‏4-‏7 کو پڑھیں۔‏)‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں۔‏

14 ہمیں بائبل اور تنظیم کی مطبوعات کا نہ صرف باقاعدگی سے مطالعہ کرنا چاہیے بلکہ تحقیق کے لیے وقت بھی نکالنا چاہیے۔‏ یوں ہم نئی سچائیاں سیکھیں گے یعنی ایسی باتیں جو ہم پہلے نہیں جانتے تھے۔‏ (‏یشوع 1:‏8،‏ 9؛‏ زبور 1:‏2،‏ 3‏)‏ ‏”‏واچ‌ٹاور“‏ کے سب سے پہلے شمارے میں جو جولائی 1879ء میں شائع ہوا،‏ یہ لکھا تھا:‏ ”‏سچائی ایک چھوٹے سے پھول کی طرح ہے۔‏ یہ پھول زندگی کے جنگل میں اُگتا ہے جس میں جھوٹ کی جھاڑیوں کی کثرت ہے۔‏ اِس لیے سچائی کے پھول کو تلاش کرنے کے لیے آپ کو بڑی چھان‌بین کرنی پڑتی ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ اور جب یہ آپ کو مل جاتا ہے تو آپ کو اِسے حاصل کرنے کے لیے جھک کر اِسے توڑنا پڑتا ہے۔‏ لیکن ایک پھول حاصل کرنے پر راضی نہ رہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ اپنی تلاش کو جاری رکھیں؛‏ زیادہ پھول حاصل کرنے کی کوشش کریں۔‏“‏ لہٰذا ہمیں اپنی تلاش کو جاری رکھنا چاہیے تاکہ ہمیں اَور بھی سچائیاں مل جائیں۔‏

15.‏ ‏(‏الف)‏ ہم کن سچائیوں کو پُرانی سچائیاں کہہ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ آپ کو اِن میں سے کون سی سچائی سب سے زیادہ عزیز ہے؟‏

15 جب ہم نے بائبل کورس کرنا شروع کِیا تو ہم نے پاک کلام کی بہت سی سچائیاں سیکھیں۔‏ ہم اِن سچائیوں کو پُرانی سچائیاں کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہم نے یہ سب سے پہلے سیکھی تھیں۔‏ اِن میں سے کچھ سچائیاں کیا تھیں؟‏ ہم نے سیکھا کہ یہوواہ ہمارا خالق ہے اور اُس نے اِنسانوں کو ایک خاص مقصد کے لیے بنایا ہے۔‏ ہم نے یہ بھی سیکھا کہ خدا نے اپنے بیٹے کو زمین پر بھیجا تاکہ وہ اپنی جان قربان کر کے ہمیں گُناہ اور موت سے چھٹکارا دِلائے۔‏ ہم نے یہ بھی سیکھا کہ خدا کی بادشاہت کے ذریعے ہمارے تمام دُکھ درد ختم ہو جائیں گے اور ہم زمین پر ہمیشہ تک سُکھ چین کی زندگی گزار سکیں گے۔‏—‏یوحنا 3:‏16؛‏ مکاشفہ 4:‏11؛‏ 21:‏3،‏ 4‏۔‏

16.‏ جب ہماری تنظیم ایک پیش‌گوئی یا آیت کی وضاحت میں تبدیلی کرتی ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

16 کبھی کبھار ہماری تنظیم ایک پیش‌گوئی یا آیت کی وضاحت میں تبدیلی کرتی ہے۔‏ ایسی صورت میں یہ بہت اہم ہے کہ ہم اِس نئی وضاحت کو سمجھنے اور اِس پر غور کرنے کے لیے وقت نکالیں۔‏ (‏اعمال 17:‏11؛‏ 1-‏تیمُتھیُس 4:‏15‏)‏ صرف یہ کافی نہیں کہ ہم پُرانی اور نئی وضاحت میں فرق سمجھ جائیں بلکہ ہمیں نئی وضاحت کو تفصیل سے سمجھنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔‏ جب ہم اِس طرح سے مطالعہ کریں گے تو ہم اِس نئی سچائی کو اپنے خزانے میں جمع کر لیں گے۔‏ ایسا کرنا اہم کیوں ہے؟‏

17،‏ 18.‏ پاک روح ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟‏

17 یسوع مسیح نے کہا تھا کہ خدا کی پاک روح ہمیں وہ باتیں یاد دِلائے گی جو ہم نے ماضی میں سیکھی تھیں۔‏ (‏یوحنا 14:‏25،‏ 26‏)‏ یہ بات خوش‌خبری سناتے وقت ہمارے کام کیسے آ سکتی ہے؟‏ ذرا غور کریں کہ بھائی پیٹر کے ساتھ کیا ہوا جنہوں نے 1970ء میں برطانیہ بیت‌ایل میں خدمت کرنی شروع کی۔‏ اُس وقت اُن کی عمر 19 سال تھی۔‏ ایک دن جب وہ گھر گھر مُنادی کر رہے تھے تو اُن کی ملاقات ایک اَدھیڑ عمر آدمی سے ہوئی جس کی داڑھی تھی۔‏ بھائی پیٹر نے اِس آدمی سے پوچھا کہ ”‏کیا آپ پاک کلام میں لکھی باتوں کو سمجھنا چاہتے ہیں؟‏“‏ یہ آدمی یہودیوں کا ایک ربّی تھا۔‏ اُسے یہ بات بہت عجیب لگی کہ ایک نوجوان اُس کو پاک کلام کی تعلیم دینا چاہتا ہے۔‏ اُس نے بھائی پیٹر کا اِمتحان لینے کے لیے اُن سے پوچھا:‏ ”‏بیٹا،‏ ذرا بتاؤ کہ دانی‌ایل نبی کی کتاب کس زبان میں لکھی گئی؟‏“‏ بھائی پیٹر نے جواب دیا:‏ ”‏اِس کتاب کے کچھ حصے ارامی زبان میں لکھے گئے۔‏“‏ بھائی پیٹر کہتے ہیں کہ ”‏وہ ربّی یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ مجھے اِس سوال کا جواب پتہ تھا۔‏ لیکن اُس سے بھی زیادہ حیران مَیں تھا۔‏ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ مجھے یہ بات کیسے معلوم تھی۔‏ جب مَیں گھر گیا تو مَیں نے ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ اور ‏”‏جاگو!‏“‏ کے پچھلے چند شماروں کو کھول کر دیکھا۔‏ اِن میں مجھے ایک مضمون ملا جس میں بتایا گیا تھا کہ دانی‌ایل کی کتاب ارامی زبان میں لکھی گئی تھی۔‏“‏ (‏دانی‌ایل 2:‏4‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک روح ہمیں وہ باتیں یاد دِلا سکتی ہے جو ہم نے ماضی میں پڑھی تھیں اور اپنے خزانے میں محفوظ کر لی تھیں۔‏—‏لُوقا 12:‏11،‏ 12؛‏ 21:‏13-‏15‏۔‏

18 اگر ہم پاک کلام کی اُن سچائیوں کی قدر کرتے ہیں جو ہم نے اپنے خزانے میں جمع کر لی ہیں تو ہم اِس خزانے میں اَور بھی سچائیاں جمع کرنا چاہیں گے۔‏ یوں اِن کے لیے ہماری محبت اور شکرگزاری بڑھتی رہے گی اور ہم دوسروں کو تعلیم دینے میں زیادہ مہارت حاصل کریں گے۔‏

اپنے روحانی خزانوں کی حفاظت کریں

19.‏ ہمیں اپنے روحانی خزانوں کی حفاظت کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟‏

19 اِس مضمون میں ہم نے دیکھا کہ روحانی خزانوں کی قدر کرنا کتنا اہم ہوتا ہے۔‏ لیکن شیطان اور اُس کی دُنیا اِن خزانوں کے لیے ہماری قدر کو کم کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔‏ اگر ہم محتاط نہیں رہیں گے تو ہمارا دھیان اِن خزانوں سے ہٹ سکتا ہے۔‏ وہ کیسے؟‏ شاید ہمیں بہت پیسے والی ملازمت کی پیشکش کی جائے یا شاید ہم پُرآسائش زندگی کے خواب بُننے لگیں یا پھر شاید ہم اپنے مال‌ودولت کا دِکھاوا کرنے لگیں۔‏ یوحنا رسول نے خبردار کِیا کہ دُنیا اور اُس کی خواہش مٹنے والی ہے۔‏ (‏1-‏یوحنا 2:‏15-‏17‏)‏ اِس لیے یہ بہت اہم ہے کہ ہم اپنے روحانی خزانوں کی حفاظت کریں اور اِن کے لیے اپنی قدر کو ماند نہ پڑنے دیں۔‏

20.‏ آپ اپنے روحانی خزانوں کی حفاظت کرنے کے لیے کیا کچھ کرنے کو تیار ہیں؟‏

20 ہر اُس چیز کو قربان کرنے کو تیار رہیں جس کی وجہ سے خدا کی بادشاہت کے لیے آپ کی محبت کمزور پڑ سکتی ہے۔‏ جوش‌وجذبے سے مُنادی کرنے کی ٹھان لیں اور اِس کام کے لیے اپنی قدر کو کبھی کم نہ ہونے دیں۔‏ پاک کلام کی سچائیوں کی تلاش کرتے نہ تھکیں۔‏ ایسا کرنے سے آپ ”‏آسمان پر لازوال خزانہ جمع کریں [‏گے]‏ جہاں کوئی چور نہیں جاتا اور کوئی کیڑا نہیں لگتا کیونکہ جہاں آپ کا خزانہ ہے وہیں آپ کا دل بھی ہوگا۔‏“‏—‏لُوقا 12:‏33،‏ 34‏۔‏