مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ‌بیتی

یہوواہ نے مجھے میرے تصور سے کہیں بڑھ کر برکتیں دیں!‏

یہوواہ نے مجھے میرے تصور سے کہیں بڑھ کر برکتیں دیں!‏

مَیں جانتا تھا کہ مجھے پہل‌کار بننا چاہیے۔‏ لیکن مَیں سوچتا تھا کہ پتہ نہیں مجھے اِس کام میں مزہ آئے گا بھی یا نہیں۔‏ مَیں جرمنی میں کھانے پینے کی اشیا برآمد کرنے والی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا اور مجھے اِس کام سے بہت لگاؤ تھا۔‏ ہم افریقہ کے دُوردراز شہروں جیسے کہ دارالسلام،‏ الیزبتھ‌وِل اور اسمارا میں اپنی برآمدات بھیجتے تھے۔‏ مجھے کیا پتہ تھا کہ ایک دن مَیں اِن شہروں اور افریقہ کے اَور بھی بہت سے شہروں میں کُل‌وقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کروں گا۔‏

آخرکار مَیں نے اپنے خدشات پر قابو پا لیا اور پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنی شروع کر دی۔‏ اِس فیصلے سے مجھے اِتنی خوشیاں ملیں جن کا مَیں نے کبھی تصور بھی نہیں کِیا تھا۔‏ (‏اِفس 3:‏20‏)‏ لیکن یہ سب ہوا کیسے۔‏ آئیں،‏ مَیں آپ کو شروع سے بتاتا ہوں۔‏

مَیں 1939ء میں جرمنی کے شہر برلن میں پیدا ہوا۔‏ اُس وقت دوسری عالمی جنگ کو شروع ہوئے ابھی کچھ ہی مہینے ہوئے تھے۔‏ 1945ء میں جب جنگ اپنے اِختتام کو پہنچ رہی تھی تو برلن سخت فضائی بمباری کی زد میں آ گیا۔‏ ایک بار کچھ بم ہماری گلی پر گِرے اور مَیں اور میرے گھر والے اپنی جان بچانے کے لیے ایک پناہ‌گاہ کو بھاگے جو خاص اِسی مقصد کے لیے تیار کی گئی تھی۔‏ بعد میں اپنے تحفظ کی خاطر ہم شہر ایرفرٹ چلے گئے جو کہ میری امی کی جائےپیدائش تھی۔‏

سن 1950ء میں جرمنی میں اپنے والدین اور بہن کے ساتھ

میری امی بڑی لگن سے سچائی کو کھوج رہی تھیں۔‏ وہ فلاسفروں کی کتابیں پڑھا کرتی تھیں اور فرق فرق مذاہب کا جائزہ لیتی تھیں لیکن پھر بھی سچائی کے لیے اُن کی بھوک اور پیاس دُور نہیں ہو رہی تھی۔‏ پھر 1948ء کے لگ بھگ ایک دن یہوواہ کی دو گواہوں نے ہمارے گھر پر دستک دی۔‏ میری امی نے اُنہیں اندر بلایا اور اُن سے ایک کے بعد ایک سوال کرنے لگیں۔‏ ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اُنہوں نے مجھے اور میری چھوٹی بہن کو بڑی خوشی سے بتایا:‏ ”‏آخر مجھے سچائی مل ہی گئی!‏“‏ اِس کے تھوڑے عرصے بعد مَیں،‏ میری امی اور میری بہن شہر ایرفرٹ کی کلیسیا میں اِجلاسوں پر جانے لگے۔‏

سن 1950ء میں ہم واپس شہر برلن آ گئے اور وہاں برلن کروٹس‌برگ نامی کلیسیا میں جانے لگے۔‏ اِس کے بعد ہم برلن کے کسی دوسرے علاقے میں منتقل ہو گئے اور برلن ٹیمپل‌ہوف نامی کلیسیا میں جانے لگے۔‏ کچھ عرصے بعد امی نے بپتسمہ لے لیا لیکن مَیں ایسا کرنے سے ہچکچا رہا تھا۔‏ آئیں،‏ مَیں آپ کو اِس کی وجہ بتاتا ہوں۔‏

اپنے شرمیلےپن پر قابو پانا

مَیں طبیعت سے بہت شرمیلا تھا اور اِس وجہ سے مَیں یہوواہ کی خدمت میں کچھ زیادہ نہیں کر رہا تھا۔‏ حالانکہ مَیں دو سال سے دوسروں کے ساتھ مُنادی میں جا رہا تھا لیکن مَیں نے کبھی خود لوگوں سے بات کرنے کی ہمت نہیں جٹائی تھی۔‏ مگر جب میری واقفیت ایسے بہن بھائیوں سے ہوئی جنہوں نے یہوواہ کے وفادار رہنے کے لیے بڑی دلیری ظاہر کی تھی تو اِس کا مجھ پر گہرا اثر ہوا۔‏ اِن میں سے کچھ بہن بھائی نازیوں کے قیدی کیمپوں یا مشرقی جرمنی کی جیلوں میں رہ چُکے تھے۔‏ دیگر اپنی آزادی کی پرواہ کیے بغیر مشرقی جرمنی میں بہن بھائیوں کو مطبوعات پہنچایا کرتے تھے۔‏ اُن کی مثال نے میرے دل کو چُھو لیا۔‏ مَیں نے سوچا کہ اگر وہ یہوواہ اور بہن بھائیوں کے لیے اپنی جان اور آزادی کا خطرہ مول لے سکتے ہیں تو کیا مَیں اپنے شرمیلےپن پر قابو بھی نہیں پا سکتا؟‏

سن 1955ء میں مُنادی کی خاص مہم چلائی گئی جس میں حصہ لینے سے مجھے اپنے شرمیلےپن پر قابو پانے میں مدد ملی۔‏ ‏”‏اِنفارمنٹ“‏ * میں شائع ہونے والے خط میں بھائی ناتھن نار نے اِس مہم کے حوالے سے بتایا کہ تنظیم نے اب تک جتنی بھی بڑی مہمات چلائی ہیں،‏ یہ اُن میں سے ایک ہے۔‏ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ”‏اگر ہر مبشر اِس میں حصہ لے گا تو یہ مُنادی کے کام میں گزارا گیا اب تک کا سب سے بہترین مہینہ ثابت ہوگا۔‏“‏ اور بالکل ایسا ہی ہوا!‏ اِس مہم کو ختم ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ مَیں نے اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کر دی اور 1956ء میں اپنے ابو اور اپنی بہن کے ساتھ بپتسمہ لے لیا۔‏ لیکن جلد ہی مجھے ایک اَور اہم فیصلہ کرنا پڑا۔‏

مَیں جانتا تھا کہ مجھے پہل‌کار کے طور پر خدمت شروع کر دینی چاہیے لیکن کئی سالوں تک مَیں یہ سوچ کر اِس فیصلے کو ٹالتا رہا کہ مَیں بعد میں پہل‌کار بن جاؤں گا۔‏ مَیں نے فیصلہ کِیا کہ مَیں پہلے برآمد اور درآمد کے کاروبار کی ٹریننگ حاصل کروں گا۔‏ ٹریننگ کے بعد مَیں کچھ عرصے کے لیے اِس کام میں تجربہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔‏ لہٰذا 1961ء میں مَیں جرمنی کے سب سے بڑے بندرگاہی شہر ہمبرگ میں ملازمت کرنے لگا۔‏ مَیں اپنے کام میں جتنا مگن ہوتا گیا اُتنا ہی مَیں پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنے کو ٹالتا گیا۔‏

مَیں یہوواہ کا بہت شکرگزار ہوں کہ اُس نے شفیق بھائیوں کے ذریعے میری مدد کی تاکہ مَیں اُس کی خدمت کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دے سکوں۔‏ میرے اُن بہت سے دوستوں نے بھی میرے لیے بڑی اچھی مثال قائم کی جو پہل‌کار تھے۔‏ اِس کے علاوہ بھائی ایرک منڈ نے جو کہ قیدی کیمپ میں رہ چُکے تھے،‏ میری حوصلہ‌افزائی کی کہ مَیں یہوواہ پر بھروسا رکھوں۔‏ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ جن بھائیوں نے قید کے دوران خود پر بھروسا کِیا،‏ بعد میں اُن کا ایمان کمزور پڑ گیا۔‏ لیکن جن بھائیوں نے یہوواہ پر پورا بھروسا رکھا،‏ وہ وفادار رہ پائے اور کلیسیا میں مضبوط ستونوں کی طرح بن گئے۔‏

سن 1963ء میں جب مَیں نے پہل‌کار کے طور پر خدمت شروع کی

اِس کے علاوہ بھائی مارٹن پوئٹ‌زینگر جو بعد میں گورننگ باڈی کے ایک رُکن کے طور پر خدمت کرنے لگے،‏ بھائیوں سے کہا کرتے تھے کہ ”‏دلیری آپ کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے!‏“‏ اُن کی یہ بات میرے دل پر چھپ گئی اور آخرکار مَیں نے اپنی ملازمت چھوڑ دی۔‏ جون 1963ء میں مَیں نے پہل‌کار کے طور پر خدمت شروع کر دی۔‏ یہ میری زندگی کا بہترین فیصلہ تھا!‏ مجھے پہل‌کار بنے دو مہینے ہو گئے تھے اور ابھی مَیں نے ملازمت ڈھونڈنی شروع بھی نہیں کی تھی کہ مجھے خصوصی پہل‌کار بنا دیا گیا۔‏ کچھ سال بعد یہوواہ نے مجھے ایسی برکت سے نوازا جس کی مجھے بالکل توقع نہیں تھی۔‏ مجھے گلئیڈ سکول کی 44ویں کلاس میں جانے کی دعوت ملی۔‏

گلئیڈ سکول سے سیکھی ایک اہم بات

گلئیڈ سکول میں مَیں نے خاص طور پر بھائی ناتھن نار اور لائیمن سوِنگل سے یہ اہم بات سیکھی کہ ”‏آپ کو جو بھی ذمےداری دی جائے،‏ اُسے نبھانے میں ہمت نہ ہاریں۔‏“‏ اُنہوں نے ہماری حوصلہ‌افزائی کی کہ ہمیں جہاں بھی بھیجا جائے،‏ ہم وہاں خدمت کرتے رہیں۔‏ بھائی نار نے کہا:‏ ”‏آپ کس بات پر دھیان رکھیں گے:‏ وہاں کی گندگی،‏ کیڑے مکوڑوں اور غربت پر؟‏ یا وہاں کے لہلہاتے درختوں،‏ رنگ‌برنگے پھولوں اور ہنستے مسکراتے چہروں پر؟‏ اپنے دل میں وہاں کے لوگوں کے لیے محبت پیدا کریں۔‏“‏ ایک دن جب بھائی سوِنگل یہ بتا رہے تھے کہ کچھ بھائی تھوڑے عرصے بعد اُن جگہوں کو کیوں چھوڑ آئے جہاں اُنہیں بھیجا گیا تھا تو اُن کی آنکھیں بھر آئیں۔‏ وہ اِتنے جذباتی ہو گئے کہ اُنہیں اپنی بات تھوڑی دیر کے لیے روکنی پڑی تاکہ وہ سنبھل سکیں۔‏ اِس واقعے نے میرے دل کو چُھو لیا اور مَیں نے ٹھان لیا کہ مَیں کبھی بھی نہ تو مسیح کو اور نہ ہی اُس کے وفادار بھائیوں کو مایوس کروں گا۔‏—‏متی 25:‏40‏۔‏

مَیں،‏ کلوڈ لنزے اور ہنرک ڈن‌بوسٹل 1967ء میں شہر لوبمباشی میں مشنریوں کے طور پر خدمت کرتے ہوئے

جب ہمیں یہ بتا دیا گیا کہ ہم کہاں جائیں گے تو بیت‌ایل میں کام کرنے والے کچھ بہن بھائیوں نے بڑے تجسّس سے ہم میں سے کچھ سے پوچھا کہ ہمیں کہاں بھیجا جا رہا ہے۔‏ اُنہوں نے جن جن ملکوں کا سنا،‏ اُن میں سے ہر ایک کے بارے میں کوئی نہ کوئی اچھی بات کہی۔‏ لیکن جب مَیں نے بتایا کہ مَیں کانگو جا رہا ہوں تو وہ ایک دم چپ ہو گئے اور بس اِتنا کہا:‏ ”‏اوہو کانگو!‏ ہماری دُعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔‏“‏ اُن دنوں کانگو دنگے فسادوں اور قتل‌وغارت کی وجہ سے کافی شہ‌سُرخیوں میں تھا۔‏ لیکن مَیں نے اپنا دھیان اُنہی باتوں پر رکھا جو مَیں نے گلئیڈ سکول میں سیکھی تھیں۔‏ ستمبر 1967ء میں ہماری گریجویشن کے تھوڑی ہی دیر بعد مَیں،‏ بھائی ہنرک ڈن‌بوسٹل اور بھائی کلوڈ لنزے کانگو کے دارالحکومت کن‌شاسا جانے کے لیے روانہ ہوئے۔‏

کانگو میں اچھا بُرا وقت

کن‌شاسا پہنچنے کے بعد ہم نے تین مہینے تک فرانسیسی زبان سیکھی۔‏ اِس کے بعد ہم لوبمباشی (‏سابقہ الیزبتھ‌وِل)‏ گئے جو کانگو کے جنوب میں واقع ہے۔‏ وہاں ہم ایک مشنری ہوم میں رہنے لگے۔‏

لوبمباشی کے بہت سے علاقوں میں پہلے کبھی مُنادی نہیں کی گئی تھی اِس لیے ہمیں خوشی تھی کہ اِن علاقوں کے لوگوں کو پہلی بار خوش‌خبری سننے کا موقع ملے گا۔‏ دیکھتے ہی دیکھتے اِتنے زیادہ لوگ بائبل کورس کرنے کی خواہش ظاہر کرنے لگے کہ ہمارے لیے ہر شخص کو بائبل کورس کرانا ممکن نہیں رہا۔‏ ہم نے سرکاری حکام اور پولیس کو بھی گواہی دی۔‏ اِن میں سے بہت سے لوگوں نے خدا کے کلام اور ہمارے مُنادی کے کام کے لیے بڑا احترام ظاہر کِیا۔‏ چونکہ یہاں لوگ عام طور پر سواحلی زبان بولتے تھے اِس لیے کلوڈ لنزے اور مَیں نے یہ زبان سیکھی۔‏ پھر تھوڑے عرصے بعد ہمیں سواحلی زبان کی کلیسیا میں بھیج دیا گیا۔‏

ہمیں مُنادی میں بہت سی شان‌دار باتوں کا تجربہ ہوا لیکن ساتھ ساتھ کچھ مسئلوں کا سامنا بھی ہوا۔‏ اکثر شراب میں دُھت مسلح فوجی اور گرم دماغ پولیس والے ہم پر ایسی باتوں کا اِلزام لگاتے جو ہم نے کی بھی نہیں ہوتی تھیں۔‏ ایک مرتبہ ہتھیاروں سے لیس پولیس والوں کا گروہ مشنری ہوم میں گھس آیا جہاں ہماری عبادت چل رہی تھی اور ہمیں اُٹھا کر تھانے لے گیا۔‏ وہاں اُنہوں نے ہمیں رات کے دس بجے تک زمین پر بٹھائے رکھا اور پھر ہمیں رِہا کر دیا۔‏

سن 1969ء میں مجھے حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کے لیے مقرر کِیا گیا۔‏ اِس خدمت کو سرانجام دیتے ہوئے مجھے کبھی کبھار کیچڑ اور لمبی لمبی گھاس سے ہو کر طویل سفر طے کرنا پڑتا تھا۔‏ ایک مرتبہ جس گاؤں میں مَیں ٹھہرا،‏ وہاں میرے بستر کے نیچے رات کو ایک مُرغی اپنے چوزوں کے ساتھ آرام فرمایا کرتی تھی۔‏ مَیں کبھی نہیں بھولوں گا کہ دن چڑھنے سے پہلے ہی وہ مجھے اپنی زوردار آواز سے کیسے جگا دیا کرتی تھی۔‏ اِس کے علاوہ ہم بھائی اکثر شام کو آگ کے گِرد بیٹھ کر بائبل کی سچائیوں پر بات کِیا کرتے تھے۔‏ اُس وقت کو یاد کر کے مجھے بہت خوشی ملتی ہے۔‏

وہاں ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کچھ لوگ یہوواہ کے گواہ ہونے کا ڈھونگ کر رہے تھے۔‏ اُن کا تعلق کٹاوالا تحریک * سے تھا۔‏ اِن میں سے کچھ نے بپتسمہ لے لیا،‏ یہاں تک کہ بزرگوں کے طور پر کلیسیا میں خدمت کرنے لگے۔‏ یہ لوگ ’‏پانی کے نیچے چھپی چٹانوں‘‏ کی طرح تھے جن میں سے بہت سوں کو ہمارے وفادار بہن بھائیوں نے بےنقاب کِیا۔‏ (‏یہوداہ 12‏)‏ وقت آنے پر یہوواہ نے اپنی کلیسیا کو اِن لوگوں سے پاک کِیا اور اِس کے بعد وہاں گواہوں کی تعداد میں تیزی سے اِضافہ ہونے لگا۔‏

سن 1971ء میں مجھے کن‌شاسا کی برانچ میں خدمت کرنے کو کہا گیا جہاں مَیں نے مختلف شعبوں میں کام کِیا جیسے کہ خط‌وکتابت کے شعبے،‏ مطبوعات اِرسال کرنے کے شعبے اور خدمتی شعبے میں۔‏ بیت‌ایل میں رہ کر مَیں نے سیکھا کہ ہم ایک ایسے بڑے ملک میں اپنا کام کیسے کر سکتے ہیں جہاں بنیادی سہولیات کا کوئی اچھا بندوبست نہ ہو جیسے کہ چیزیں اِرسال کرنے کی سہولت کا۔‏ کبھی کبھار کلیسیاؤں کو ڈاک پہنچنے میں مہینوں لگ جاتے تھے۔‏ پہلے ڈاک کو ہوائی جہاز سے بھیجا جاتا اور پھر اِسے آگے کشتیوں پر لادا جاتا۔‏ یہ کشتیاں پانی پر پھیلی موٹی موٹی آبی بوٹیوں میں ہفتوں تک پھنسی رہتی تھیں۔‏ البتہ ایسے اور دیگر کئی مسئلوں کے باوجود ہمارا کام ہو ہی جاتا تھا۔‏

مَیں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا کہ ہمارے بھائی کم پیسوں میں بھی بڑے اِجتماعات کا اِنتظام کتنی عمدگی سے کرتے تھے۔‏ وہ دیمک کے ٹیلوں کو کاٹ کر پلیٹ‌فارم بناتے اور لمبی لمبی گھاس سے دیواریں کھڑی کرتے۔‏ اِس کے علاوہ وہ اِس گھاس کو گدیاں بنانے کے لیے بھی اِستعمال کرتے۔‏ وہ کھمبوں کے لیے بانس اِستعمال کرتے اور سرکنڈوں سے چھت اور میز تیار کرتے۔‏ وہ درختوں کی چھال کے ٹکڑے کر کے اِنہیں کیلوں کی جگہ اِستعمال کرتے۔‏ مَیں یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتا تھا کہ یہ بہن بھائی اِس طرح کی ہر مشکل کا کتنی ذہانت سے حل نکال لیتے ہیں۔‏ وہ مجھے دل سے عزیز ہو گئے تھے۔‏ مَیں بتا نہیں سکتا کہ جب مَیں نئی جگہ خدمت کرنے لگا تو مجھے یہ بہن بھائی کتنے یاد آتے تھے۔‏

کینیا میں خدمت

سن 1974ء میں مجھے کینیا کے شہر نیروبی میں واقع ہماری برانچ میں بھیج دیا گیا۔‏ یہاں کام بہت زیادہ تھا کیونکہ کینیا کی برانچ آس‌پاس کے دس ملکوں میں مُنادی کے کام کی نگرانی کر رہی تھی جن میں سے کچھ ممالک ایسے تھے جہاں ہمارے کام پر پابندی لگی ہوئی تھی۔‏ مجھے اکثر اِن ممالک میں دورہ کرنے کے لیے بھیجا گیا،‏ خاص طور پر ایتھوپیا میں جہاں ہمارے بھائیوں کو سخت مشکلات اور اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔‏ اِن میں سے بہت سوں کے ساتھ یا تو بُرا سلوک کِیا جا رہا تھا یا اُنہیں قید میں ڈالا جا رہا تھا۔‏ کچھ کو تو جان سے مار ڈالا گیا تھا۔‏ لیکن یہوواہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ مضبوط رشتہ رکھنے کی وجہ سے وہ اِن تمام مشکلات کے باوجود ثابت‌قدم رہ پائے۔‏

سن 1980ء میں میری زندگی میں ایک حسین موڑ آیا۔‏ میری شادی گیل میتھی‌سن سے ہو گئی جو کینیڈا سے تھیں۔‏ ہم دونوں گلئیڈ سکول کی ایک ہی کلاس میں تھے۔‏ سکول ختم ہونے کے بعد ہم دونوں خطوں کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں تھے۔‏ گیل کو بولیویا میں مشنری کے طور پر خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔‏ 12 سال بعد ہم نیو یارک میں دوبارہ ایک دوسرے سے ملے اور اِس کے تھوڑے ہی عرصے بعد ہم نے کینیا میں شادی کر لی۔‏ مَیں گیل کی بہت قدر کرتا ہوں کیونکہ وہ معاملات کو ہمیشہ یہوواہ کی نظر سے دیکھتی ہیں اور تھوڑے میں بھی مطمئن رہتی ہیں۔‏ وہ ابھی بھی بڑی محبت سے ہر قدم پر میرا ساتھ نبھاتی ہیں۔‏

سن 1986ء میں مَیں نے سفری نگہبان کے طور پر خدمت شروع کی۔‏ ساتھ ہی ساتھ مَیں برانچ کی کمیٹی کے رُکن کے طور پر بھی کام کر رہا تھا۔‏ سفری نگہبان کے طور پر کام کرنے میں ایسے بہت سے ممالک کا دورہ کرنا شامل تھا جو کینیا کی برانچ کے زیرِنگرانی تھے۔‏

سن 1992ء میں شہر اسمارا میں منعقد ہونے والے اِجتماع پر تقریر کرتے ہوئے

مجھے آج بھی وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب ہم 1992ء میں اسمارا میں (‏جو کہ ایریٹریا کا ایک شہر ہے)‏ اِجتماع کی تیاریاں کر رہے تھے۔‏ اُس وقت وہاں ہمارے کام پر پابندی نہیں تھی۔‏ افسوس کی بات ہے کہ ہمیں اِجتماع کے لیے صرف ایک بدنما گودام کے علاوہ کوئی جگہ نہیں ملی۔‏ یہ گودام باہر سے جتنا بُرا تھا اندر سے اُس سے بھی بدتر تھا۔‏ اِجتماع کے دن اِس جگہ کو دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔‏ بھائیوں نے اِسے ایک ایسی جگہ بنا ڈالا تھا جو یہوواہ کی عبادت کے شایانِ‌شان تھی۔‏ بہت سے خاندان اپنے ساتھ خوب‌صورت کڑھائی کیے ہوئے بچھونے لائے اور اُنہوں نے ہر بدنما چیز کو بڑی نفاست سے چھپا دیا۔‏ وہ کیا ہی شان‌دار اِجتماع تھا جس سے 1279 لوگوں نے فائدہ اُٹھایا!‏

سفری نگہبان کے طور پر خدمت کرنا ہمارے لیے ایک بڑی تبدیلی تھی کیونکہ ہمیں ہر ہفتے فرق فرق جگہوں میں رہنا پڑتا تھا۔‏ مثال کے طور پر ایک مرتبہ تو ہم ساحلِ‌سمندر کے قریب بڑے ہی آرام‌دہ اور پُرآسائش گھر میں رُکے جبکہ دوسرے موقعے پر ہم مزدوروں کے کیمپ میں رہے جو لوہے کی چادر سے بنا تھا اور جہاں سے لیٹرین 300 فٹ (‏100 میٹر)‏ کی دُوری پر تھی۔‏ لیکن اِس سے قطعِ‌نظر کہ ہم کن کن جگہوں پر رہے،‏ ہمیں اُن دنوں کو یاد کر کے بڑی خوشی ملتی ہے جو ہم نے پہل‌کاروں اور مبشروں کے ساتھ خدمت میں گزارے۔‏ جب ہمیں نئی جگہ پر خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا تو ہمیں اپنے اِن عزیز دوستوں کو الوداع کہنا پڑا۔‏ وہ ہمیں بہت یاد آئے۔‏

ایتھوپیا میں ملنے والی برکتیں

سن 1980ء کے دہے کے آخر اور 1990ء کے دہے کے آغاز میں کینیا کی برانچ کی نگرانی میں آنے والے کئی ملکوں میں ہمارے کام کو قانونی حیثیت مل گئی۔‏ اِس کے نتیجے میں کچھ ملکوں میں الگ برانچیں یا دفاتر قائم کیے گئے۔‏ 1993ء میں ہمیں ایتھوپیا کے شہر ادیس ابابا کے دفتر میں خدمت کرنے کو کہا گیا جہاں بہت سالوں سے ہمارے بھائی خفیہ طور پر مُنادی کا کام کر رہے تھے لیکن اب وہاں ہمارے کام کو قانونی حیثیت مل گئی تھی۔‏

سن 1996ء میں سفری نگہبان کے طور پر خدمت کرتے وقت ایتھوپیا کے ایک گاؤں میں

یہوواہ نے ایتھوپیا میں مُنادی کے کام پر بڑی برکت ڈالی۔‏ بہت سے بہن بھائی پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنے لگے۔‏ 2012ء سے ہر سال مبشروں کی کُل تعداد میں سے 20 فیصد سے زیادہ پہل‌کاروں کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہماری تنظیم کے قائم‌کردہ سکولوں سے بہن بھائیوں کو خدا کی خدمت کے حوالے سے ضروری تربیت دی جا رہی ہے اور 120 سے زیادہ عبادت‌گاہیں تعمیر کی گئی ہیں۔‏ 2004ء میں بیت‌ایل ایک نئی جگہ منتقل ہو گیا اور یہیں اِجتماع کے لیے ہال بھی تعمیر کِیا گیا جو کہ برکت سے کم نہیں۔‏

سالوں کے دوران مَیں نے اور گیل نے ایتھوپیا میں ہمارے بہت سے بہن بھائیوں سے قریبی دوستیاں قائم کیں۔‏ ہم اُن کی محبت اور مہربانی کی وجہ سے اُن سے بےپناہ پیار کرتے ہیں۔‏ حال ہی میں ہمیں صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ہمیں دوبارہ وسطی یورپ کی برانچ میں خدمت کرنے کے لیے بلا لیا گیا۔‏ یہاں ہماری کافی دیکھ‌بھال کی جا رہی ہے لیکن ہم ایتھوپیا میں رہنے والے اپنے دوستوں کو دل سے یاد کرتے ہیں۔‏

یہوواہ نے بڑھایا

ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ یہوواہ اپنے کام کو کیسے بڑھاتا ہے۔‏ (‏1-‏کُر 3:‏6،‏ 9‏)‏ مثال کے طور پر جب مَیں نے پہلی بار روانڈا سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو گواہی دی تھی جو کانگو میں تانبے کی کان میں کام کرنے آئے تھے تو اُس وقت روانڈا میں ایک بھی مبشر نہیں تھا۔‏ لیکن اب اُس ملک میں 30 ہزار سے زیادہ بہن بھائی ہیں۔‏ 1967ء میں کانگو (‏کن‌شاسا)‏ میں تقریباً 6000 مبشر تھے مگر اب وہاں تقریباً 2 لاکھ 30 ہزار مبشر ہیں اور 2018ء میں وہاں یادگاری تقریب پر حاضری دس لاکھ سے زیادہ تھی۔‏ وہ تمام ملک جو پہلے کبھی کینیا کی برانچ کی زیرِنگرانی ہوا کرتے تھے،‏ اب اُن میں سے ہر ملک میں مبشروں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔‏

پچاس سال سے زیادہ عرصہ پہلے یہوواہ خدا نے مختلف بھائیوں کے ذریعے میری مدد کی تاکہ مَیں کُل‌وقتی خدمت اِختیار کر سکوں۔‏ حالانکہ مَیں ابھی بھی اپنے شرمیلےپن پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن مَیں نے یہوواہ خدا پر مکمل بھروسا کرنا سیکھ لیا ہے۔‏ افریقہ میں مَیں نے جن باتوں کا تجربہ کِیا،‏ اُن سے مَیں نے صبر کرنا اور ہر حال میں مطمئن رہنا سیکھا۔‏ گیل اور مَیں اُن عزیز بہن بھائیوں کو بہت سراہتے ہیں جو دل کھول کر مہمان‌نوازی کرتے ہیں،‏ مشکلات کا ثابت‌قدمی سے مقابلہ کرتے ہیں اور یہوواہ پر پورا بھروسا رکھتے ہیں۔‏ مَیں یہوواہ کی عظیم رحمت کے لیے دل کی گہرائیوں سے اُس کا شکرگزار ہوں۔‏ یہوواہ خدا نے واقعی مجھے میرے تصور سے کہیں بڑھ کر برکتیں دی ہیں!‏—‏زبور 37:‏4‏۔‏

^ پیراگراف 11 بعد میں اِسے ‏”‏ہماری بادشاہتی خدمتگزاری“‏ کا نام دیا گیا اور اب اِس کی جگہ ‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت—‏اِجلاس کا قاعدہ“‏ اِستعمال کِیا جاتا ہے۔‏

^ پیراگراف 23 لفظ ”‏کٹاوالا“‏ ایک سواحلی اِصطلاح سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے:‏ ”‏رُعب جھاڑنا،‏ ہدایت دینا یا حکم چلانا۔‏“‏ اِس گروہ کا مقصد کانگو کے لوگوں کو بیلجیئم کے خلاف تحریکِ‌آزادی پر اُکسانا تھا۔‏ کٹاوالا گروہ یہوواہ کے گواہوں کی مطبوعات کو حاصل کرتا،‏ اِن کا مطالعہ کرتا،‏ اِنہیں دوسروں میں بانٹتا اور بائبل کی تعلیمات کو اِس طرح سے پیش کرتا جن سے اُس کے سیاسی نظریات،‏ اُس کی توہم‌پرستانہ رسومات اور اُس کے بداخلاق طرزِزندگی کو فروغ ملتا۔‏