مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

گالی‌گلوچ کرنے میں کیا ہرج ہے؟‏

گالی‌گلوچ کرنے میں کیا ہرج ہے؟‏

نوجوانوں کا سوال

گالی‌گلوچ کرنے میں کیا ہرج ہے؟‏

‏”‏مَیں اپنے دوستوں کی طرح بننا چاہتی تھی۔‏ شاید اِسی لئے مَیں گالیاں بکنے کی عادت میں پڑ گئی۔‏“‏ —‏مونا۔‏ *

‏”‏میرا خیال تھا کہ گالیاں دینا اتنی بُری بات نہیں ہے۔‏ مَیں تو اکثر لوگوں کے منہ سے گالیاں سنتا تھا،‏ گھر پر اور سکول میں بھی۔‏“‏—‏راج۔‏

ایسا کیوں ہے کہ جب بالغ اشخاص گالی‌گلوچ کرتے ہیں تو کوئی اِس پر اعتراض نہیں کرتا،‏ لیکن جب نوجوان لوگ گالی‌گلوچ کرتے ہیں تو اِسے بُرا خیال کِیا جاتا ہے؟‏ کیا بالغ ہو جانے پر گالیاں بکنا قابلِ‌قبول ہو جاتا ہے؟‏ چونکہ بہت سے بالغ لوگ بدزبانی کرتے ہیں اس لئے شاید آپ پوچھیں کہ ”‏گالی‌گلوچ کرنے میں کیا ہرج ہے؟‏“‏

گالیاں بکنے کی عادت کیسے جڑ پکڑتی ہے؟‏

اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ بہتیرے لوگ گالیاں بکتے ہیں۔‏ کئی نوجوان تو یہ کہتے ہیں کہ اگر ہر اُس گالی کے لئے جو سکول میں اُن کے سننے میں آتی ہے اُنہیں ایک روپیہ دیا جائے تو اُنہیں کبھی ملازمت کرنے کی ضرورت نہ ہو اور اُن کے والدین بھی ملازمت چھوڑ کر گھر بیٹھ سکیں۔‏ پندرہ سالہ سونیا کہتی ہے:‏ ”‏میرے ہم‌جماعت بات‌چیت کے دوران ہر جملے میں گالیاں بک جاتے ہیں۔‏“‏ روزانہ اِس قسم کی بدزبانی سُن کر خود بدزبانی سے باز رہنا آسان نہیں ہوتا۔‏

کیا آپ بھی سونیا کی طرح ایسے لوگوں سے گِھرے ہوئے ہیں جو گالیاں بکتے رہتے ہیں؟‏ کیا آپ بھی اِس عادت میں پڑ گئے ہیں؟‏ * اگر ایسا ہے تو اپنے دل کو ٹٹولیں اور یہ بات جاننے کی کوشش کریں کہ آپ گالیاں کیوں بکتے ہیں۔‏ جب آپ اِس کی وجہ جان جائیں گے تو آپ کو اِس بُری عادت پر غالب آنے میں آسانی ہو جائے گی۔‏

اِس سلسلے میں خود کو ٹٹولنے کے لئے اِن سوالوں کے جواب دیں:‏

آپ عام طور پر گالی‌گلوچ کرنے پر کیوں اُتر آتے ہیں؟‏

□ غصہ اور رنج ظاہر کرنے کے لئے

□ توجہ حاصل کرنے کے لئے

□ اپنے ہم‌عمروں میں مقبول ہونے کے لئے

□ دوسروں پر رعب جمانے کے لئے

□ اختیار والوں کا مقابلہ کرنے کے لئے

□ کوئی دوسری وجہ ․․․․․‏

آپ کن صورتحال میں گالیاں بکتے ہیں؟‏

□ سکول میں

□ ملازمت کی جگہ پر

□ ای‌میل اور ایس‌ایم‌ایس کرتے وقت

□ اکیلے میں

کیا آپ گالی‌گلوچ کرنے کو اِس لئے مناسب سمجھتے ہیں کیونکہ .‏ .‏ .‏

□ آپ کے دوست گالیاں بکتے ہیں

□ آپ کے والدین گالی‌گلوچ کرتے ہیں

□ آپ کے ٹیچر گالی‌گلوچ کرتے ہیں

□ ٹی‌وی اور فلموں میں گالیاں بکی جاتی ہیں

□ آپ کے نزدیک یہ تو محض لفظ ہی ہیں

□ آپ صرف اُن لوگوں کے ساتھ ہوتے ہوئے گالی‌گلوچ کرتے ہیں جو اِسے بُرا خیال نہیں کرتے

□ کوئی دوسری وجہ ․․․․․‏

آپ کو اِس عادت کو توڑنے کی کوشش کیوں کرنی چاہئے؟‏ کیا گالی‌گلوچ کرنا غلط ہے؟‏ ذرا اِن باتوں پر غور کریں:‏

گالیاں محض لفظ نہیں ہیں۔‏ یسوع مسیح نے کہا تھا:‏ ”‏جو [‏آدمی کے]‏ دل میں بھرا ہے وہی اُس کے مُنہ پر آتا ہے۔‏“‏ (‏لوقا ۶:‏۴۵‏)‏ غور کریں کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں اِس سے اِس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ ہم کس قسم کی شخصیت کے مالک ہیں۔‏ اگر آپ محض اِس لئے گالیاں بکتے ہیں کیونکہ بہت سے دوسرے لوگ بھی ایسا کرتے ہیں تو آپ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ اپنی قدروں کے مطابق چلنے کی بجائے ”‏بِھیڑ کی پیروی“‏ کر رہے ہیں۔‏—‏خروج ۲۳:‏۲‏۔‏

جیمز اوکانر نامی ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ”‏ایسے لوگ جو گالیاں بکتے ہیں اکثر بہت غصیلے ہوتے ہیں،‏ دوسروں کی نکتہ‌چینی کرتے ہیں،‏ بات بات پر جھگڑا کرتے ہیں اور شکایت کرتے رہتے ہیں۔‏“‏ جو لوگ اُس وقت گالیاں بکتے ہیں جب اُن سے یا کسی اَور سے غلطی ہو جاتی ہے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ غلطیوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔‏ جیمز اوکانر آگے بتاتے ہیں کہ ایسے لوگ جو گالی‌گلوچ نہیں کرتے وہ ”‏پُختہ شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور زندگی کی اُونچ‌نیچ سے نپٹنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏“‏ آپ کس قسم کے شخص کے طور پر مشہور ہونا چاہتے ہیں؟‏

گالی‌گلوچ کرنے سے آپ کے کردار پر داغ لگ سکتا ہے۔‏ زیادہ‌تر نوجوانوں کی طرح شاید آپ بھی اپنے بناؤسنگھار کو اہمیت دیتے ہوں کیونکہ آپ دوسروں کی نظروں میں مقبول ہونا چاہتے ہیں۔‏ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ لوگ آپ کے بناؤسنگھار سے کہیں زیادہ آپ کی باتوں سے متاثر ہوتے ہیں؟‏ سچ تو یہ ہے کہ آپ کی باتوں سے اِس پر بھی اثر ہوتا ہے کہ .‏ .‏ .‏

▪ کون لوگ آپ سے دوستی کریں گے۔‏

▪ آپ کو ملازمت پر رکھا جائے گا یا نہیں۔‏

▪ لوگ آپ کے ساتھ احترام سے پیش آئیں گے یا نہیں۔‏

لوگ ہمارے بناؤسنگھار کی وجہ سے ہمارے بارے میں اچھی رائے قائم کرتے ہیں لیکن ہماری بات‌چیت سُن کر وہ اِس رائے کو بدل بھی سکتے ہیں۔‏ جیمز اوکانر کہتے ہیں:‏ ”‏آپ اِس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ گالیاں بکنے سے آپ نے نئے دوست بنانے کے کتنے موقعے گنوائے ہیں،‏ کتنے لوگوں نے آپ سے دُوری اختیار کی ہے اور آپ کس کس کی نظر میں گِرے ہیں۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ گالی‌گلوچ کرنے سے آپ خود کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔‏

گالی‌گلوچ کرنے سے ہم خالق کی توہین کرتے ہیں جس نے ہمیں بولنے کی صلاحیت سے نوازا ہے۔‏ ذرا تصور کریں کہ آپ نے اپنے دوست کو تحفے کے طور پر ایک سوٹ دیا ہے۔‏ اگر آپ کا دوست اِس سوٹ کو گھر میں جھاڑپونچھ کرنے کے لئے استعمال کرے تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟‏ ہماری بولنے کی صلاحیت خالق کی طرف سے ایک تحفہ ہے۔‏ ذرا سوچیں کہ جب ہم بدزبانی کرتے ہیں تو وہ کیسا محسوس کرتا ہوگا؟‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏ہر طرح کی تلخ مزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تُم سے دُور کی جائیں۔‏“‏—‏افسیوں ۴:‏۳۱‏۔‏

جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے گالی‌گلوچ سے باز رہنے کی ٹھوس وجوہات ہیں۔‏ لیکن اگر آپ اِس بُری عادت میں پڑ گئے ہیں تو آپ اِس سے چھٹکارا پانے کے لئے کونسے قدم اُٹھا سکتے ہیں؟‏

پہلا قدم:‏ اِس بات کو تسلیم کریں کہ آپ کو اِس عادت کو توڑنے کی ضرورت ہے۔‏ آپ اُس وقت تک گالیاں بکنے کی عادت پر قابو نہیں پا سکیں گے جب تک کہ آپ یہ نہیں سمجھ پائیں گے کہ اِس عادت کو توڑنے سے آپ کو کونسے فائدے ہوں گے۔‏ آپ کن وجوہات سے گالی‌گلوچ کرنے سے باز آنا چاہیں گے؟‏

□ خالق کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر

□ دوسروں کا احترام پانے کی خاطر

□ روزمرہ بول‌چال میں بہتری لانے کی خاطر

□ اپنی شخصیت میں بہتری لانے کی خاطر

دوسرا قدم:‏ اِس بات کی کھوج لگانے کی کوشش کریں کہ آپ کیوں گالیاں بکتے ہیں؟‏ مونا کہتی ہے:‏ ”‏مَیں دوسروں پر رعب جمانے کے لئے گالی‌گلوچ کرتی تھی۔‏ مَیں نہیں چاہتی تھی کہ لوگ مجھے کمزور خیال کریں۔‏ اپنے دوستوں کی طرح مَیں بھی دوسروں کو بُرابھلا کہہ کر اُن پر برتری حاصل کرنا چاہتی تھی۔‏“‏

کیا یہ باتیں آپ کے بارے میں بھی سچ ہیں؟‏ اِس بات کو سمجھ لینا بہت اہم ہے کہ آپ کیوں گالیاں بکتے ہیں کیونکہ اِس طرح آپ بہتر طور پر جان جائیں گے کہ آپ اِس عادت پر کیسے قابو پا سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر اگر آپ محض اِس لئے گالیاں بکتے ہیں کیونکہ دوسرے لوگ بھی ایسا کرتے ہیں تو آپ کو اُن سے فرق ہونے کی جُرأت پیدا کرنی چاہئے۔‏ ایسا کرنے سے آپ نہ صرف گالیاں بکنے کی عادت کو توڑنے میں کامیاب ہوں گے بلکہ آپ پُختہ شخصیت کے مالک بھی بن جائیں گے۔‏

تیسرا قدم:‏ اپنے احساسات اور جذبات کو ظاہر کرنے کے لئے مناسب الفاظ استعمال کرنا سیکھیں۔‏ صرف اتنا کافی نہیں کہ آپ خود کو زبان پر گالی لانے سے روکیں۔‏ گالیاں بکنے کی عادت پر غالب آنے میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ ’‏نئی انسانیت کو پہنیں۔‏‘‏ (‏افسیوں ۴:‏۲۲-‏۲۴‏)‏ ایسا کرنے سے آپ ضبط کرنا سیکھیں گے،‏ دوسرے لوگ آپ کا احترام کرنے لگیں گے اور آپ دوسروں کے لئے احترام ظاہر کریں گے۔‏

نیچے دئے گئے صحیفوں پر غور کرنے سے آپ نہ صرف نئی انسانیت کو پہن سکیں گے بلکہ اِسے ہمیشہ تک پہنے رکھیں گے۔‏

کلسیوں ۳:‏۲‏:‏ ‏”‏عالمِ‌بالا کی چیزوں کے خیال میں رہو۔‏“‏

سبق:‏ ایسی باتوں پر دھیان دیں جو خدا کی نظروں میں اچھی ہیں کیونکہ آپ کی سوچ آپ کی باتوں پر اثر کرتی ہے۔‏

امثال ۱۳:‏۲۰‏:‏ ‏”‏وہ جو داناؤں کے ساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائے گا۔‏“‏

سبق:‏ آپ کے ساتھیوں کی بول‌چال آپ پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔‏

زبور ۱۹:‏۱۴‏:‏ ‏”‏میرے مُنہ کا کلام اور میرے دل کا خیال تیرے حضور مقبول ٹھہرے۔‏ اَے [‏یہوواہ]‏!‏“‏

سبق:‏ یہوواہ خدا اِس بات پر غور کرتا ہے کہ ہم زبان کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔‏

کیا آپ کو مزید مدد کی ضرورت ہے؟‏ اُوپر دی گئی فہرست کو استعمال کرتے ہوئے اِس بات کا اندازہ لگائیں کہ آپ کتنی مرتبہ گالی‌گلوچ کرتے ہیں۔‏ اس طرح آپ کو احساس ہوگا کہ آپ اِس عادت کو توڑنے میں کس حد تک ترقی کر رہے ہیں۔‏

عنوان ”‏نوجوانوں کا سوال“‏ کے مزید مضامین اِس ویب‌سائٹ پر مل سکتے ہیں:‏ www.watchtower.org/ype

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 اس مضمون میں نام بدل دئے گئے ہیں۔‏

^ پیراگراف 8 مسیحیوں کے لئے گالی‌گلوچ سے باز رہنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏کوئی گندی بات تمہارے مُنہ سے نہ نکلے۔‏“‏ ”‏تمہارا کلام ہمیشہ .‏ .‏ .‏ پُرفضل اور نمکین ہو۔‏“‏—‏افسیوں ۴:‏۲۹؛‏ کلسیوں ۴:‏۶‏۔‏

ذرا سوچیں

اگر آپ گالی‌گلوچ کریں گے تو .‏ .‏ .‏

▪ کس قسم کے لوگ آپ سے دوستی کرنا پسند کریں گے؟‏

▪ اِس کا کتنا امکان ہوگا کہ آپ کو اچھی ملازت ملے؟‏

▪ دوسرے لوگ آپ کے بارے میں کیسا نظریہ رکھیں گے؟‏

‏[‏صفحہ ۳۰ پر چارٹ

کیا آپ اِس عادت پر قابو پا رہے ہیں؟‏

سوموار منگل بدھ جمعرات جمعہ ہفتہ اتوار

پہلا ہفتہ ․․․․․․ ․․․․․․․ ․․․․․․․․․ ․․․․․․․․ ․․․․․․ ․․․․․․․․ ․․․․․․‏

دوسرا ہفتہ ․․․․․․ ․․․․․․․ ․․․․․․․․․ ․․․․․․․․ ․․․․․․ ․․․․․․․․ ․․․․․․‏

تیسرا ہفتہ ․․․․․․ ․․․․․․․ ․․․․․․․․․ ․․․․․․․․ ․․․․․․ ․․․․․․․․ ․․․․․․‏

چوتھا ہفتہ ․․․․․․ ․․․․․․․ ․․․․․․․․․ ․․․․․․․․ ․․․․․․ ․․․․․․․․ ․․․․․․‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر]‏

بِلاشُبہ آپ ایک تحفے کو حقیر نہیں جانیں گے۔‏ اسی طرح آپ کو بولنے کی صلاحیت کو غلط طریقے سے استعمال نہیں کرنا چاہئے