مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

منگول سلطنت کا عروج‌وزوال

منگول سلطنت کا عروج‌وزوال

منگول سلطنت کا عروج‌وزوال

روس کے باشندے خوف کے مارے تھرتھر کانپ رہے تھے۔‏ مشرق کی سمت سے گُھڑسواروں کا ایک بڑا لشکر تیزی سے روس کی طرف بڑھ رہا تھا۔‏ روسی فوج نے اُن کا سامنا کرتے ہوئے بُری طرح شکست کھائی۔‏ جتنے بھی گاؤں،‏ قصبے اور شہر اُس لشکر کی زد میں آئے،‏ وہ سب کے سب تباہ ہو گئے۔‏ آخرکار روس کا صرف ایک ہی صوبہ اِس لشکر کے شکنجے میں آنے سے بچ گیا،‏ اور یہ نوگوروڈ کا صوبہ تھا۔‏ وہاں کے ایک خوف‌زدہ مؤرخ نے لکھا:‏ ”‏روس پر ایسے قبائلی حملہ‌آوروں کا سیلاب ٹوٹ پڑا ہے جن کے بارے میں ہمیں نہ تو معلوم ہے کہ وہ کون ہیں،‏ اور نہ ہی کہ وہ کونسی زبان بولتے ہیں۔‏“‏

روس پر حملہ کرنے والے یہ گُھڑسوار دراصل منگول تھے۔‏ اُن کا آبائی علاقہ وسطیٰ اور شمال‌مشرقی ایشیا میں واقع وہ میدانی علاقہ ہے جو آج تک منگولیا کہلاتا ہے۔‏ تیرھویں صدی کے شروع میں منگولوں نے ایشیا سے یورپ تک ایک وسیع علاقے پر قبضہ جما لیا۔‏ محض ۲۵ سال کے اندر اندر اُن کے قابو میں اتنا بڑا علاقہ آیا جتنا کہ رومی سلطنت ۴۰۰ سال میں مغلوب نہیں کر پائی۔‏ جب منگول سلطنت اپنے عروج پر تھی تو اُس نے کوریا سے ہنگری تک اور سائبیریا سے اِنڈیا تک راج کِیا۔‏ انسانی تاریخ میں کسی اَور سلطنت نے اِس پیمانے کے متواتر علاقے پر حکمرانی نہیں کی۔‏

منگول سلطنت کے بارے میں سیکھ کر نہ صرف ایشیا اور یورپ کی تاریخ کے بارے میں ہمارا علم بڑھتا ہے بلکہ خدا کے کلام میں پائی جانے والی کئی سچائیوں کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔‏ مثلاً یہ کہ حکمرانوں کی شان‌وشوکت محض تھوڑے ہی عرصے کے لئے ہوتی ہے۔‏ (‏زبور ۶۲:‏۹؛‏ ۱۴۴:‏۴‏)‏ انسان دوسروں پر حکومت کرکے اُن پر بلا لاتا ہے۔‏ (‏واعظ ۸:‏۹‏)‏ اس کے علاوہ پاک صحائف میں سلطنتوں کو اکثر جنگلی حیوانوں سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ وہ جانوروں کی طرح دوسری قوموں پر حملہ‌آور ہوتی ہیں۔‏ *

منگول کون تھے؟‏

منگول قوم ایسے خانہ‌بدوش قبیلوں پر مشتمل تھی جو ماہر گُھڑسوار تھے اور جو مویشی پالنے کے علاوہ شکار اور تجارت کرنے سے بھی اپنا گزر بسر کرتے تھے۔‏ اُس زمانے میں زیادہ‌تر قوموں میں صرف فوجی ہی جنگ‌بازی سیکھتے تھے جبکہ منگولوں کا تقریباً ہر مرد جس کے پاس گھوڑا ہوتا ایک زورآور جنگجو اور ماہر تیرانداز تھا۔‏ ہر قبیلے کا اپنا اپنا سردار ہوتا تھا جسے خان کا لقب دیا جاتا تھا۔‏ قبائلی ہر صورت میں اپنے سردار کے وفادار رہتے۔‏

منگول قبیلے ۲۰ سال تک ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔‏ آخرکار تقریباً ۲۷ منگول قبیلے تموجن نامی ایک خان (‏۱۱۶۲-‏۱۲۲۷ء)‏ کی سربراہی کے تحت متحد ہو گئے۔‏ بعد میں تُرکی مسلمان بھی اِس اتحاد میں شامل ہو گئے۔‏ ان تُرکی قبیلوں کو تاتار کہا جاتا تھا۔‏ اس لئے جب منگول اور تاتار لشکروں نے یورپ کا رُخ کِیا تو وہاں انہیں مجموعی طور پر ”‏تاتار“‏ یا ”‏تارتار“‏ کہا جانے لگا۔‏ سن ۱۲۰۶ء میں منگولوں نے تموجن کو ”‏چنگیز خان“‏ کا لقب دیا۔‏ اِس لقب کا مطلب ”‏طاقتور حکمران“‏ یا ”‏عالمگیر حکمران“‏ ہے۔‏ اس کے علاوہ اُسے ”‏خاقان“‏ یعنی ”‏عظیم خان“‏ کا لقب بھی دیا گیا۔‏

چنگیز خان کے لشکر ایسے تیراندازوں پر مشتمل تھے جو گھوڑوں پر سوار ہو کر تیر چلانے میں ماہر تھے۔‏ اس لئے وہ اتنی تیزی سے حملہ کر سکتے تھے کہ دُشمن اُن کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔‏ اکثر مختلف لشکر ایک ہی وقت میں مختلف علاقوں پر حملہ‌آور ہوتے۔‏ اس طرح میدانِ‌جنگ ہزاروں میل تک پھیلا ہوتا۔‏ اِنکارٹا انسائیکلوپیڈیا کے مطابق چنگیز خان جنگ‌بازی کے لحاظ سے ”‏سکندرِاعظم یا نپولین اوّل کے برابر تھا۔‏“‏ چنگیز خان کے زمانے میں رہنے والے فارسی مؤرخ جوزجانی نے اُس کے بارے میں لکھا کہ ”‏وہ بڑی توانائی،‏ امتیاز،‏ ذہانت اور سمجھداری کا مالک“‏ تھا۔‏ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جوزجانی نے اُسے ”‏قصائی“‏ کا لقب بھی دیا۔‏

ایشیا میں چنگیز خان کی فتوحات

شمالی چین کا علاقہ مانچو نامی ایک قوم کے قبضے میں تھا۔‏ اُنہوں نے اپنی سلطنت کو ”‏کن“‏ یعنی ”‏سنہری سلطنت“‏ کا نام دیا۔‏ مانچو کے علاقے تک پہنچنے کے لئے چنگیز خان کے لشکروں کو صحرائےگوبی کو پار کرنا پڑا۔‏ لیکن یہ ریگستان بھی اِن خانہ‌بدوشوں کی راہ میں رُکاوٹ نہ بن سکا۔‏ اُنہوں نے اپنے گھوڑوں کا دودھ اور اُن کا خون پی کر اِسے صحیح‌سلامت پار کر لیا۔‏ البتہ چین اور مانچوریا پر فتح حاصل کرنے میں چنگیز خان کو تقریباً ۲۰ سال لگے۔‏ جب آخرکار چین اُس کے قبضے میں آ گیا تو اُس نے وہاں کے عالموں،‏ کاریگروں،‏ تاجروں اور انجینئروں کو کام پر لگا لیا تاکہ وہ اُس کے لئے دیواریں توڑنے والی اور پتھر پھینکنے والی مشینیں بنائیں۔‏ اس کے علاوہ اُنہوں نے چنگیز خان کے لئے بارود والے بم بھی بنائے۔‏

شاہراہِ‌ریشم بھی چنگیز خان کے قبضے میں آ گئی تھی۔‏ اس کے ذریعے وہ مغربی قوموں کے ساتھ،‏ اور خاص طور پر تُرکی سلطان محمد کے ساتھ تجارت کرنا چاہتا تھا۔‏ جس وسیع علاقے پر سلطان محمد حکمرانی کر رہا تھا اس میں آج افغانستان،‏ تاجکستان،‏ تُرکمانستان،‏ اُزبکستان اور ایران شامل ہیں۔‏

سن ۱۲۱۸ء میں منگول ایلچی،‏ سلطان محمد کی سلطنت کی سرحد پر پہنچے۔‏ وہ تو محض تجارتی معاہدے کرنے کے لئے آئے تھے۔‏ لیکن وہاں کے صوبہ‌دار نے اُن سب کو قتل کر دیا۔‏ اس کے نتیجے میں منگولوں نے اُس مسلم ملک پر دھاوا بول دیا۔‏ وہ سیلاب کی طرح سلطان محمد کی سلطنت پر ٹوٹ پڑے۔‏ تین سال تک وہ لُوٹتے اور شہروں اور زمینوں کو آگ لگاتے رہے۔‏ اُنہوں نے سلطان محمد کی رعایا میں خون کی ندیاں بہا دیں۔‏ صرف ایسے لوگ زندہ بچ گئے جن کا کوئی ایسا ہنر تھا جو منگولوں کے کام آ سکتا تھا۔‏

ایک اندازے کے مطابق منگول لشکر تقریباً ۰۰۰،‏۲۰ جنگجوؤں پر مشتمل تھا۔‏ اُنہوں نے آذربائیجان اور جارجیا سے گزر کر کوہِ‌قاف کے شمال میں واقع میدانوں کا رُخ کِیا۔‏ راستے میں اُنہوں نے اُن کا سامنا کرنے والی ہر فوج کو شکست دی۔‏ ان میں ۰۰۰،‏۸۰ سپاہیوں پر مشتمل روسی فوج بھی شامل تھی۔‏ آخرکار اُنہوں نے بحیرۂخزر کے اِردگِرد کے پورے علاقے پر قبضہ جما لیا۔‏ اُنہوں نے ۰۰۰،‏۱۳ کلومیٹر [‏۰۰۰،‏۸ میل]‏ گھوڑوں پر سوار طے کئے۔‏ کئی تاریخ‌دانوں کا خیال ہے کہ یہ تاریخ میں ہونے والی سب سے بڑی فتح تھی جسے ایک گُھڑسوار فوج نے حاصل کی۔‏ چنگیز خان نے بعد میں آنے والے منگول حکمرانوں کے لئے مثال قائم کی۔‏ اُنہوں نے اِس مثال کی نقل کرتے ہوئے مشرقی یورپ پر حملہ کِیا۔‏

چنگیز خان کا جانشین

چنگیز خان کی پسندیدہ بیوی نے چار بیٹوں کو جنم دیا۔‏ تیسرے بیٹے کا نام اوکتائی تھا،‏ اور اُسی کو چنگیز خان کی موت پر خاقان بنایا گیا۔‏ جن علاقوں پر اُس کے والد نے فتح حاصل کی تھی،‏ اوکتائی خان نے اُن کے مقامی سرداروں سے خراج وصول کِیا۔‏ اس کے علاوہ اُس نے شمالی چین میں واقع کن نامی سلطنت کے باقی حصوں پر بھی قبضہ جما لیا۔‏

منگول اپنی کامیابی کے نتیجے میں جلد ہی عیش‌وعشرت کی زندگی کے عادی ہو گئے۔‏ اپنی دولت میں اضافہ کرنے کے لئے اوکتائی خان نے نئے نئے علاقوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ اُس نے یورپ پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ جنوبی چین میں واقع سنگ نامی سلطنت پر بھی حملہ کِیا۔‏ یورپ میں تو اُس نے فتح حاصل کر لی۔‏ لیکن سنگ سلطنت کے زیادہ‌تر علاقے پر وہ قبضہ نہیں جما سکا۔‏

یورپ پر منگولوں کے حملے

سن ۱۲۳۶ء میں ڈیڑھ لاکھ منگول جنگجو یورپ کی طرف بڑھنے لگے۔‏ سب سے پہلے اُنہوں نے دریائےوُلگا کے علاقے پر حملہ کِیا۔‏ پھر اُنہوں نے دیگر روسی شہروں پر چڑھائی کی۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے شہر کی‌ایو کو راکھ کر دیا۔‏ اس کے بعد منگولوں نے پیشکش کی کہ اگر انہیں روسی شہروں میں موجود تمام مال کا دسواں حصہ دیا جائے تو وہ اِن کو تباہ نہیں کریں گے۔‏ لیکن روسیوں نے لڑنے کا فیصلہ کِیا۔‏ لہٰذا،‏ منگولوں نے پتھر پھینکنے والی مشینوں کے ذریعے اِن شہروں پر پتھر،‏ جلتا ہوا شورہ اور مٹی کا تیل برسایا۔‏ جب ایک شہر کی دیوار گِر جاتی تو منگول اس کے باشندوں میں اِس حد تک خونریزی کرتے کہ تقریباً کوئی شخص زندہ نہیں بچتا۔‏

منگول لشکر پولینڈ اور ہنگری میں تباہی مچاتے ہوئے اُس علاقے کی سرحد پر پہنچے جو آج جرمنی کہلاتا ہے۔‏ مغربی یورپ کے لوگ اِس بات کی توقع کر رہے تھے کہ منگول اُن پر حملہ‌آور ہوں گے۔‏ لیکن کوئی ایسی بات واقع نہیں ہوئی کیونکہ دسمبر ۱۲۴۱ء میں اوکتائی خان فوت ہو گیا۔‏ اس لئے تمام فوجی کمانڈر ایک نئے حکمران کو منتخب کرنے کے لئے منگولیا کے دارالحکومت قراقرم واپس لوٹے جو ۰۰۰،‏۶ کلومیٹر [‏۰۰۰،‏۴ میل]‏ دُور واقع تھا۔‏

اوکتائی خان کے بیٹے کیوک کو خاقان کے عہدے کے لئے منتخب کِیا گیا۔‏ کیوک خان کی تخت‌نشینی کے وقت ایک اطالوی رہبر بھی دربار میں حاضر تھا۔‏ اُس نے ۱۵ مہینے کا سفر طے کِیا تاکہ وہ کیوک خان تک پوپ اِنوسینٹ چہارم کا ایک پیغام پہنچا سکے۔‏ پوپ نے منگولوں سے یہ وعدہ چاہا کہ وہ دوبارہ سے یورپ پر حملہ نہیں کریں گے۔‏ اس کے علاوہ وہ اُنہیں عیسائی مذہب کو قبول کرنے کی ترغیب دینا چاہتا تھا۔‏ لیکن کیوک نے ایسا وعدہ کرنے سے انکار کِیا۔‏ اس کی بجائے اُس نے پوپ کو یہ پیغام بھیجا کہ بادشاہوں کا ایک ٹولا اپنے ساتھ لا کر میرے پاس آؤ اور میری تعظیم کرو۔‏

چین اور مشرقِ‌وسطیٰ پر حملہ

سن ۱۲۵۱ء میں منگو خان اگلا خاقان بنا۔‏ اپنے بھائی قبلائی خان سمیت اُس نے جنوبی چین میں واقع سنگ سلطنت پر حملہ کِیا۔‏ اس کے ساتھ ساتھ منگولوں کے ایک اَور لشکر نے مغرب کا رُخ کِیا۔‏ اِس لشکر نے شہر بغداد کو خاک میں ملا دیا اور شہر دمشق کو شکست دی۔‏ اُس وقت عیسائی،‏ مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ لڑ رہے تھے۔‏ وہ یہ دیکھ کر بڑے خوش ہوئے کہ مسلمانوں نے منگولوں کے ہاتھ شکست کھائی ہے۔‏ یہاں تک کہ بغداد میں رہنے والے عیسائی اپنے مسلمان پڑوسیوں کو قتل کرنے اور اُن کے گھروں کو لُوٹنے لگے۔‏

اب ایسا لگ رہا تھا کہ منگول لشکر مسلمان دُنیا کو تباہ‌وبرباد کر دے گا۔‏ لیکن عین اُس وقت اُنہیں منگو خان کی موت کی خبر ملی۔‏ ایک بار پھر منگول فوج اپنے وطن واپس لوٹی۔‏ اُنہوں نے صرف ۰۰۰،‏۱۰ سپاہیوں کو سرحد کی حفاظت کے لئے کھڑا کِیا۔‏ تھوڑے ہی عرصے بعد مصری فوج نے اِس قدراً چھوٹے لشکر کا نام‌ونشان مٹا دیا۔‏

تاہم جنوبی چین کی جنگ میں منگول لشکر نے سنگ سلطنت کے خلاف فتح حاصل کر لی۔‏ قبلائی خان اس سلطنت پر حکومت کرنے لگا اور اِسے یوآن کا نام دیا۔‏ اُس نے ایک نیا دارالحکومت تعمیر کِیا جو آج تک بیجنگ کے نام سے مشہور ہے۔‏ سن ۱۲۷۹ء کے لگ‌بھگ قبلائی خان نے چین کے اُن علاقوں پر بھی فتح حاصل کر لی جہاں سنگ سلطنت کے حمایتی باقی تھے۔‏ اس طرح چین تقریباً ۳۷۰ سال کے بعد پہلی بار متحد ہو گیا۔‏

منگول سلطنت کا زوال

سن ۱۳۰۰ء کے لگ‌بھگ منگولوں کی سلطنت میں شگاف پڑنے لگے۔‏ چنگیز خان کی اولاد میں سے بعض افراد طاقت آزمائی کرنے لگے۔‏ اس کے نتیجے میں منگول سلطنت کے دیگر حصوں میں مختلف خان حکومت کرنے لگے۔‏ اس کے علاوہ منگول اُن علاقوں کی تہذیبوں کو اپنانے لگے جن پر اُنہوں نے فتح حاصل کر لی تھی۔‏ چین میں بھی قبلائی خان کی اولاد ایک دوسرے سے طاقت آزمائی کرنے کی وجہ سے اپنا اختیار کھونے لگی۔‏ چینی لوگ ناقص حکمرانوں،‏ کرپشن اور خراج کے بوجھ سے اُکتا گئے تھے۔‏ لہٰذا،‏ اُنہوں نے ۱۳۶۸ء میں منگولوں کے تخت کو اُلٹا کر یوآن سلطنت کو ختم کر دیا۔‏

ایشیا اور یورپ پر منگول ایک آندھی کی طرح آئے،‏ تھوڑے ہی عرصے کے لئے زوروں پر رہے اور پھر آندھی کی طرح جلد ہی تھم گئے۔‏ اِس کے باوجود منگولوں نے ایشیا اور یورپ کے نقشے پر اپنا نشان چھوڑ دیا۔‏ درحقیقت آج بھی منگولیا میں چنگیز خان کو بابائےقوم خیال کِیا جاتا ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 مثال کے طور پر چند ایسے صحیفوں پر غور کریں جن میں مختلف حیوانوں کا اشارہ بادشاہتوں اور سلطنتوں کی طرف ہے:‏ دانی‌ایل ۷:‏۶،‏ ۱۲،‏ ۱۷،‏ ۲۳؛‏ ۸:‏۲۰-‏۲۲؛‏ مکاشفہ ۱۶:‏۱۰؛‏ ۱۷:‏۳،‏ ۹-‏۱۲‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر بکس/‏تصویر]‏

منگولوں کی تجارت

قبلائی خان نے یوآن سلطنت کو وجود دیا۔‏ یہ سلطنت اپنے عروج پر دُور دراز علاقوں کے ساتھ تجارت کرتی تھی۔‏ تاریخ‌دانوں کا کہنا ہے کہ ”‏تاریخ میں یورپ اور ایشیا کے درمیان تجارت میں سب سے زیادہ اضافہ یوآن سلطنت کی وجہ سے ہوا۔‏“‏ یہ وہ زمانہ بھی تھا جب اطالوی مسافر مارکو پولو (‏۱۲۵۴-‏۱۳۲۴ء)‏ نے چین تک سفر کِیا۔‏ * اُس زمانے میں عرب،‏ فارس،‏ اِنڈیا اور یورپ سے تاجر یا تو خشکی کے راستے یا پھر سمندر کے ذریعے چین کا سفر کرتے تھے۔‏ وہ گھوڑوں،‏ قالینوں،‏ جواہرات اور مصالحوں کے بدلے باریک ظروف،‏ لاکھ کے کام کے فرنیچر اور ریشم کی تجارت کرتے تھے۔‏

مارکو پولو کے سفرنامے کو پڑھنے کے بعد کرسٹوفر کولمبس منگول سلطنت کے ساتھ دوبارہ سے تجارت شروع کرنا چاہتا تھا۔‏ اس لئے وہ ۱۴۹۲ء میں منگولوں کے مُلک کی تلاش میں یورپ سے مغرب کی طرف روانہ ہوا۔‏ البتہ،‏ اُسے یہ معلوم نہیں تھا کہ اس سلطنت کا وجود ایک صدی پہلے ختم ہو چکا تھا۔‏ اس کے زوال کی خبر اس لئے یورپ تک نہیں پہنچی تھی کیونکہ مسلمانوں نے یورپ سے مشرق کی طرف جانے والی تمام شاہراہوں کو بند کر دیا تھا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 32 مارکو پولو کے چین تک سفر کے سلسلے میں جاگو!‏ اکتوبر-‏دسمبر ۲۰۰۴ کو دیکھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر بکس/‏تصویر]‏

منگول دوسرے مذاہب کا احترام کرتـے تھــے

منگولوں کے مذہب کے مطابق ہر چیز کی ایک رُوح ہوتی ہے جسے راضی رکھنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔‏ لیکن منگول دوسرے مذاہب کا بھی احترام کرتے تھے۔‏ منگولوں کی تاریخ کے بارے میں ایک کتاب میں لکھا ہے کہ جب یورپی لوگ منگولیا کے دارالحکومت قراقرم پہنچے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں چرچ،‏ مسجدیں اور مندر ساتھ ساتھ بنے ہیں۔‏

منگولوں کا ایسے عیسائیوں سے بھی واسطہ پڑا جو بزنطینی چرچ کے ایک فرقے (‏نسٹوریوں)‏ سے تعلق رکھتے تھے۔‏ اِس فرقے کی تبلیغ کی وجہ سے ایشیا کے تُرک قبیلوں میں بہت سے لوگ عیسائی بن گئے تھے۔‏ منگولوں کے اُن قبیلوں کے ساتھ بھی تعلقات تھے۔‏ یہاں تک کہ ان قبیلوں میں سے کئی عیسائی عورتوں نے منگولوں کے شاہی خاندان کے چند اراکین سے شادی کر لی۔‏

آجکل منگولیا کے لوگ طرح طرح کے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔‏ کُل آبادی میں سے تقریباً ۳۰ فیصد اپنے پردادا کے پُرانے مذہب پر چلتے ہیں،‏ ۲۳ فیصد بدھ‌مت سے تعلق رکھتے ہیں اور ۵ فیصد مسلمان ہیں۔‏ آبادی کا باقی حصہ کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں رکھتا۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

منگول سلطنت

ہنگری

نوگوروڈ

کی‌ایو

روس

دریائےوُلگا

سائبیریا

دمشق

بحیرۂخزر

بغداد

ایران

اُزبکستان

منگولیا

قراقرم

صحرائےگوبی

بیجنگ

کوریا

چین

اِنڈیا

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

منگولیا میں گھوڑوں کے غول

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

چنگیز خان

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر کا حوالہ]‏

Bildarchiv Preussischer Kulturbesitz/​Art Resource, NY

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

‏;Scenic: © Bruno Morandi/​age fotostock

Genghis Khan: © The Stapleton

Collection/​The Bridgeman Art Library