سرِورق کا موضوع: پریشانیوں سے کیسے نمٹیں؟
گھریلو مشکلات کی وجہ سے پریشان
جینٹ کہتی ہیں: ”میرے والد کو فوت ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ میرے شوہر نے مجھے بتایا کہ وہ کسی اَور عورت کو پسند کرتے ہیں۔ پھر کچھ دنوں بعد اُنہوں نے اپنا سامان لیا اور ہم سے کچھ کہے بغیر چلے گئے۔“ جینٹ کو ملازمت تو مل گئی لیکن اُن کی تنخواہ اِتنی کم تھی کہ اُنہیں گھر بدلنا پڑا۔ مالی پریشانیوں کے علاوہ اُنہیں اَور بھی کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ ”مَیں نہایت پریشان تھی کیونکہ میرے کندھوں پر بہت سی نئی ذمےداریوں کا بوجھ آ گیا تھا اور مجھے لگتا تھا کہ اِن سے اکیلے نمٹنا میرے بس سے باہر ہے۔ مجھے اکثر یہ بات کھٹکتی تھی کہ مَیں اپنے بچوں کو وہ چیزیں نہیں دِلا سکتی جو دوسرے والدین اپنے بچوں کو دِلاتے ہیں۔ اِتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مجھے کبھی کبھار یہ فکر ستاتی ہے کہ ”لوگ میرے اور میرے بچوں کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے؟ کیا اُن کو لگتا ہے کہ میرا گھر میری وجہ سے برباد ہوا ہے؟““
جینٹ دُعا کرنے سے خدا کی قربت محسوس کرتی ہیں اور اپنے احساسا ت پر غالب آتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”رات کا وقت مجھ پر بہت بھاری گزرتا ہے۔ جب ہر طرف خاموشی ہوتی ہے تو میری پریشانیاں چلّا چلّا کر مجھے پکارتی ہیں۔ تب خدا کا کلام پڑھنے اور دُعا کرنے سے مَیں پُرسکون ہو جاتی ہوں اور سو پاتی ہوں۔ میرا پسندیدہ صحیفہ فِلپّیوں 4:6، 7 ہے جس میں لکھا ہے: ”کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور مِنت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ تو خدا کا اِطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو . . . محفوظ رکھے گا۔“ مَیں نے بہت سی راتیں دُعا میں گزاری ہیں اور اُس اِطمینان کو محسوس کِیا ہے جو یہوواہ خدا بخشتا ہے۔“
یسوع مسیح نے دُعا کے بارے میں ایک ایسی بات کہی جس سے ہمیں مشکل صورتحال کا سامنا کرتے وقت بہت تسلی ملتی ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”تمہارا [خدا] تمہارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ تُم کن کن چیزوں کے محتاج ہو۔“ (متی 6:8) لیکن کیا اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں دُعا مانگنے کی ضرورت نہیں ہے؟ جی نہیں۔ دراصل دُعا ’خدا کے نزدیک جانے‘ کا اہم ذریعہ ہے اور جب ہم دُعا کرتے ہیں تو خدا بھی ہمارے نزدیک آتا ہے۔—یعقوب 4:8۔
زبور 65:2) اِس وجہ سے یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو ہدایت دی کہ ”ہر وقت دُعا کرتے رہنا اور ہمت نہ ہارنا۔“ (لُوقا 18:1) ہمیں خدا کی رہنمائی اور مدد کے لیے دُعا کرتے رہنا چاہیے اور پورا بھروسا رکھنا چاہیے کہ وہ ہماری سنے گا۔ ہمیں اِس بات پر پکا ایمان بھی رکھنا چاہیے کہ خدا نہ صرف ہماری مدد کر سکتا ہے بلکہ وہ ایسا کرنا بھی چاہتا ہے۔ جو شخص اِن باتوں پر عمل کر کے ”بِلاناغہ دُعا“ کرتا ہے، وہ ظاہر کرتا ہے کہ اُس کا ایمان واقعی مضبوط ہے۔—1-تھسلُنیکیوں 5:17۔
جب ہم دُعا کرتے ہیں تو ہمارا دل ہلکا ہو جاتا ہے اور یہوواہ خدا ہماری مدد بھی کرتا ہے کیونکہ وہ ’دُعا کا سننے والا‘ ہے۔ (مضبوط ایمان پیدا کریں
مضبوط ایمان رکھنے کا مطلب کیا ہے؟ اِس کا مطلب ہے کہ ہم خدا کو قریب سے جانیں۔ (یوحنا 17:3) ایسا کرنے کے لیے ہمیں خدا کے کلام کے ذریعے اُس کی باتیں اپنے دل میں اُتارنی ہوں گی۔ یوں ہم جان جائیں گے کہ خدا کو ہماری فکر ہے اور وہ ہماری مدد کرنا چاہتا ہے۔ لیکن خدا کے بارے میں یہ باتیں جاننا کافی نہیں ہے۔ مضبوط ایمان رکھنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم خدا کا احترام کریں اور اُس کے ساتھ دوستی کا بندھن قائم کریں۔ ایسا بندھن راتوں رات قائم نہیں ہوتا۔ جب ہم خدا کے بارے میں علم حاصل کرتے ہیں، ’وہی کام کرتے ہیں جو اُسے پسند آتے ہیں‘ اور دیکھتے ہیں کہ وہ واقعی ہماری مدد کرتا ہے تو ہمارے ”ایمان میں ترقی“ ہوتی ہے۔ (2-کُرنتھیوں 10:15؛ یوحنا 8:29) جینٹ اِسی طرح کے مضبوط ایمان کی مالک ہیں۔ اِس لیے وہ اپنی پریشانیوں سے نمٹ پاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ”جب مَیں نے دیکھا کہ یہوواہ خدا قدم قدم پر ہمارے ساتھ ہے تو میرا ایمان اَور مضبوط ہو گیا۔ نااِنصافیوں کا سامنا کرتے وقت اکثر ہم بہت بےبس محسوس کرتے تھے۔ لیکن جب ہم یہوواہ خدا سے دُعا کرتے تھے تو وہ ہمارے لیے کوئی ایسا راستہ نکال دیتا تھا جو میرے وہموگمان میں بھی نہیں ہوتا تھا۔ جب مَیں اُس کا شکر ادا کرتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ اُس نے میری کتنی مدد کی ہے۔ اُس نے ضرورت کے وقت ہمیں اکیلا نہیں چھوڑا بلکہ عین وقت پر ہماری مدد کی۔ اُس نے مجھے ایسے دوست بھی عطا کیے ہیں جو پورے دل سے اُس کی بندگی کرتے ہیں۔ یہ دوست میری مدد کرنے کو تیار رہتے ہیں اور میرے بچوں کے لیے اچھی مثال قائم کرتے ہیں۔ *
مَیں سمجھ گئی ہوں کہ یہوواہ خدا نے ملاکی 2:16 میں کیوں کہا کہ ”مَیں طلاق سے بیزار ہوں۔“ جیون ساتھی کی بےوفائی دل کو چُور چُور کر دیتی ہے۔ حالانکہ میرے شوہر نے مجھے سالوں پہلے چھوڑا تھا لیکن پھر بھی مَیں وقتاًفوقتاً بہت خالی خالی محسوس کرتی ہوں۔ ایسے وقت میں مَیں دوسروں کی مدد کرتی ہوں اور یوں میری بھی مدد ہو جاتی ہے۔“ چونکہ جینٹ پاک کلام کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے دوسروں سے الگ تھلگ نہیں رہتیں اِس لیے وہ اپنی پریشانیوں سے نمٹ پاتی ہیں۔—امثال 18:1۔
خدا ”یتیموں کا باپ اور بیواؤں کا دادرس ہے۔“—زبور 68:5۔
جینٹ کہتی ہیں: ”مجھے سب سے زیادہ تسلی اِس بات سے ملتی ہے کہ خدا ”یتیموں کا باپ اور بیواؤں کا دادرس ہے۔“ وہ میرے شوہر کی طرح ہمیں چھوڑ کر نہیں جائے گا بلکہ ہمیشہ ہمارا ساتھ دے گا۔“ (زبور 68:5) جینٹ جانتی ہیں کہ خدا بُرائی کے ذریعے کسی کو نہیں آزماتا بلکہ وہ ”فیاضی کے ساتھ“ دانشمندی اور قوت عطا کرتا ہے تاکہ ہم پریشانیوں سے نمٹ پائیں۔—یعقوب 1:5، 13؛ 2-کُرنتھیوں 4:7۔
لیکن اگر ہم جان کے خطرے کی وجہ سے پریشان ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
^ پیراگراف 9 1-کُرنتھیوں 10:13؛ عبرانیوں 4:16 کو دیکھیں۔