اِنٹرویو | راکیل ہال
ایک یہودی عورت نے بتایا کہ اُس نے اپنا مذہب کیوں بدل لیا
راکیل ہال کی امی یہودی تھیں اور ابو آسٹریا سے تھے جنہوں نے یہودی مذہب اپنایا تھا۔ اُن کے نانا نانی صیہونی تھے (صیہونی لوگ اِس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ یہودیوں کو دوبارہ سے اِسرائیل میں آ کر بسنا چاہیے)۔ جب 1948ء میں اِسرائیل ایک آزاد ریاست بنا تو وہ وہاں شفٹ ہو گئے۔ ”جاگو!“ کو شائع کرنے والوں نے راکیل سے پوچھا کہ اُنہوں نے اپنے مذہب کو کیوں بدلا۔
ہمیں اپنے پس منظر کے بارے میں کچھ بتائیں۔
مَیں 1979ء میں امریکہ میں پیدا ہوئی۔ جب مَیں تین سال کی تھی تو امی ابو کی طلاق ہو گئی۔ میری امی نے میری پرورش یہودی روایتوں کے مطابق کی اور مجھے یہودیوں کے سکول میں پڑھنے کے لیے بھیجا۔ جب مَیں سات سال کی تھی تو ہم ایک سال کے لیے اِسرائیل گئے۔ وہاں مَیں ایک یہودی سکول میں پڑھنے لگی۔ اِس کے بعد مَیں اور امی میکسیکو شفٹ ہو گئے۔
ہم میکسیکو کے جس علاقے میں رہتے تھے، وہاں یہودیوں کی کوئی عبادتگاہ نہیں تھی۔ مگر مَیں پھر بھی یہودی روایتوں پر پوری طرح سے چلتی رہی۔ مَیں سبت کے دن مومبتیاں جلاتی، توریت پڑھتی اور یہودیوں کی دُعا کی کتاب سے دُعائیں پڑھتی۔ مَیں سکول میں اکثر اپنی کلاس کے بچوں کو بتاتی تھی کہ میرا مذہب ہی اصل مذہب ہے۔ مَیں نے کبھی نیا عہدنامہ نہیں پڑھا تھا جس میں زمین پر یسوع مسیح کی زندگی اور تعلیمات پر بات کی گئی ہے۔ دراصل میری امی نے مجھے منع کِیا تھا کہ مَیں اِسے بالکل نہ پڑھوں کیونکہ اُنہیں ڈر تھا کہ میرا ذہن اِن تعلیمات سے آلودہ ہو جائے گا۔
تو پھر آپ نے نئے عہدنامے کو پڑھنے کا فیصلہ کیوں کِیا؟
جب مَیں 17 سال کی ہوئی تو مَیں اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے لیے واپس امریکہ چلی گئی۔ وہاں ایک شخص سے میری جان پہچان ہوئی جو کہ ایک مسیحی تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ یسوع کے بغیر ایک شخص کی زندگی بالکل ادھوری ہے۔
مَیں نے اُسے جواب دیا کہ ”جو لوگ یسوع پر ایمان رکھتے ہیں، وہ بھٹکے ہوئے ہیں۔“
اُس نے مجھ سے کہا: ”کیا تُم نے کبھی نیا عہدنامہ پڑھا بھی ہے؟“
مَیں نے جواب دیا:” نہیں۔“
اِس پر اُس نے کہا: ”تو پھر تُم بِنا کچھ جانے اپنی رائے کیسے قائم کر سکتی ہو؟“
اُس کی یہ بات میرے دل پر لگی کیونکہ مَیں ہمیشہ یہ کہا کرتی تھی کہ بِنا کچھ جانے کسی بات کے بارے میں رائے قائم کر لینا سراسر بےوقوفی ہے۔ شرمندہ سی ہو کر مَیں اُس کی بائبل اُٹھا کر اپنے گھر لے آئی اور نیا عہدنامہ پڑھنا شروع کر دیا۔
آپ نے جو باتیں پڑھیں، اُن کا آپ پر کیا اثر ہوا؟
مجھے اُس وقت بڑی حیرانی ہوئی جب مجھے یہ پتہ چلا کہ جن لوگوں نے نیا عہدنامہ لکھا، وہ یہودی تھے۔ اِس کے علاوہ مَیں جتنا زیادہ اِسے پڑھتی گئی، مجھے محسوس ہونے لگا کہ یسوع تو بہت ہی نرمدل اور خاکسار یہودی تھے جو دوسروں کی مدد کرنا چاہتے تھے نہ کہ اُنہیں سیدھی راہ سے بھٹکانا چاہتے تھے۔ مَیں تو یسوع کے بارے میں اَور زیادہ جاننے کے لیے لائبریری گئی تاکہ وہاں سے اُن پر لکھی کچھ کتابیں لے سکوں۔ مگر کوئی بھی کتاب مجھے اِس بات پر قائل نہیں کر پائی کہ یسوع ہی مسیح تھے۔ کچھ کتابوں میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ وہ خدا ہیں۔ مجھے تو اِس بات کی کوئی تُک سمجھ نہیں آتی تھی۔ سوچنے کی بات ہے کہ یسوع کس سے دُعا کرتے تھے؟ خود سے؟ اِس کے علاوہ یسوع فوت ہوئے جبکہ بائبل میں خدا کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ’وہ مر نہیں سکتا۔‘ *
آپ کو اپنے اِن سوالوں کے جواب کیسے ملے؟
سچائی کبھی چھپ نہیں سکتی۔ اِس لیے مَیں نے فیصلہ کِیا کہ مَیں سچائی جان کر رہوں گی۔ پھر زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مَیں نے دُعا کرنے کے لیے یہودیوں کی دُعا کی کتاب کو اِستعمال نہیں کِیا۔ اِس کی بجائے مَیں نے دل کی گہرائیوں سے رو رو کر خدا سے دُعا کی۔ ابھی مجھے دُعا کیے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ دو یہوواہ کے گواہوں نے میرے گھر کا دروازہ بجایا۔ اُنہوں نے مجھے ایک کتاب دی جس سے وہ لوگوں کو بائبل کورس کراتے تھے۔ مَیں نے اِس کتاب کو پڑھا اور کئی بار یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ میری باتچیت بھی ہوئی۔ مَیں اِس بات پر قائل ہو گئی کہ گواہوں کے عقیدے واقعی بائبل کے مطابق ہیں۔ مثال کے طور پر وہ یسوع کو تثلیث کا حصہ نہیں سمجھتے بلکہ یہ مانتے ہیں کہ یسوع ’خدا کے بیٹے‘ * اور ”خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کی اِبتدا“ * ہیں۔
اِس کے تھوڑے ہی عرصے بعد مَیں واپس میکسیکو چلی گئی جہاں مَیں گواہوں سے مسیح کے حوالے سے پیشگوئیوں کے بارے میں سیکھتی رہی۔ مَیں یہ جان کر بہت ہی حیران ہوئی کہ مسیح کے بارے میں کتنی زیادہ پیشگوئیاں کی گئی تھیں۔ مگر پھر بھی میرے ذہن سے کچھ شک دُور نہیں ہوئے۔ مَیں سوچتی تھی: ”کیا صرف یسوع ہی وہ شخص تھے جس پر یہ پیشگوئیاں پوری ہوئیں؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے بڑی ہوشیاری سے ایسے کام کیے جن سے لگے کہ یہ پیشگوئیاں اُن پر پوری ہوئی ہیں۔“
کس بات نے آپ کو پوری طرح سے قائل کر دیا کہ یسوع ہی مسیح تھے؟
گواہوں نے مجھے ایسی پیشگوئیاں دِکھائیں جو کوئی بھی شخص خود اپنے اُوپر پوری نہیں کروا سکتا تھا۔ مثال کے طور پر یسوع کی پیدائش سے 700 سال پہلے خدا نے اپنے نبی میکاہ کے ذریعے یہ پیشگوئی کی کہ مسیح یہودیہ کے شہر بیتلحم میں پیدا ہوگا۔ * بھلا ایک شخص اپنی پیدائش کی جگہ خود کیسے چُن سکتا ہے؟ اِس کے علاوہ خدا نے یسعیاہ نبی کے ذریعے پیشگوئی کی کہ مسیح ایک مُجرم کی موت مرے گا مگر اُس کی قبر امیروں کی قبروں میں ہوگی۔ * یہ ساری پیشگوئیاں یسوع پر ہی پوری ہوئیں۔
یسوع کے مسیح ہونے کا آخری ثبوت تو اُن کے نسبنامے سے ملتا ہے۔ بائبل میں بتایا گیا تھا کہ مسیح بادشاہ داؤد کی اولاد سے آئے گا۔ * قدیم زمانے میں یہودیوں کے قبیلوں اور خاندانوں کے نسبنامے کے ریکارڈ رکھے جاتے تھے۔ اگر یسوع داؤد کی اولاد سے نہ ہوتے تو اُن کے دُشمن چیخ چیخ کر اِس بات کا اِعلان کرتے۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ اِس بات کو جھٹلا نہیں سکتے تھے کہ یسوع داؤد کی نسل سے ہیں۔ اُس زمانے میں تو لوگ یسوع کو ’داؤد کا بیٹا‘ * کہہ کر مخاطب کر تے تھے۔
یسوع کی موت کے 37 سال بعد 70ء میں رومی فوج نے یروشلیم پر حملہ کِیا اور اِسی دوران یہودی قبیلوں اور خاندانوں کے نسبنامے کے ریکارڈ یا تو گم یا پھر تباہ ہو گئے۔ اِس لیے مسیح کا 70ء سے پہلے ظاہر ہونا لازمی تھا تاکہ اُس کی شناخت اُس کے نسبنامے کے مطابق کی جا سکے۔
اِس سچائی کو جان کر آپ کو کیسا لگا؟
اِستثنا 18:18، 19 میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ خدا بنیاِسرائیل میں موسیٰ جیسا ایک نبی مقرر کرے گا۔ خدا نے یہ بھی کہا کہ ”جو کوئی میری اُن باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو مَیں اُن کا حساب اُس سے لوں گا۔“ پوری بائبل کا گہرائی سے مطالعہ کرنے سے مجھے پکا یقین ہو گیا کہ ناصرت میں رہنے والے یسوع ہی وہ نبی تھے جن کے بارے یہ پیشگوئی کی گئی تھی۔
^ پیراگراف 15 حبقوق 1:12، ”ترجمہ نئی دُنیا۔“
^ پیراگراف 20 میکاہ 5:2؛ متی 2:1۔
^ پیراگراف 21 یسعیاہ 9:6، 7؛ لُوقا 1:30-32۔ متی 1 باب میں یسوع کا نسبنامہ اُن کے سوتیلے باپ کی طرف سے بتایا گیا ہے اور لُوقا 3 باب میں اُن کا نسبنامہ اُن کی ماں کی طرف سے بتایا گیا ہے۔