مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب ۲۲

رسولوں کی دلیری

رسولوں کی دلیری

خلاصہ:‏ مسیحیوں پر اذیت ڈھائی گئی لیکن اِس کے باوجود اُن کی تعداد بڑھتی گئی۔‏

یہ ۳۳ عیسوی کی بات ہے۔‏ یسوع مسیح کے آسمان پر اُٹھائے جانے کے دس دن بعد یہودیوں کا وہ تہوار تھا جسے عیدِپنتِکُست کہا جاتا ہے۔‏ اِس موقعے پر یسوع مسیح کے ۱۲۰ شاگرد یروشلیم کے ایک گھر میں جمع ہوئے تھے۔‏ اچانک آسمان سے ایک آواز سنائی دی جیسے بڑی تیز ہوا چلنے لگی ہو۔‏ پھر یسوع مسیح کے شاگرد معجزانہ طور پر ایسی زبانیں بولنے لگے جو وہ پہلے نہیں بول سکتے تھے۔‏ اِس معجزے کے ذریعے یہوواہ خدا نے واضح کِیا کہ اُس نے یسوع مسیح کے شاگردوں پر اپنی پاک روح نازل کی ہے۔‏

اُس گھر کے باہر لوگوں کی ایک بِھیڑ جمع ہو گئی۔‏ بہت سے لوگ عیدِپنتِکُست منانے کے لئے مختلف ممالک سے یروشلیم آئے ہوئے تھے۔‏ جب اُنہوں نے یسوع مسیح کے شاگردوں کو مختلف زبانیں بولتے سنا تو وہ حیران ہو گئے۔‏ پطرس رسول نے لوگوں کو بتایا کہ یہ انوکھا واقعہ کیوں پیش آیا۔‏ اُس نے یوایل نبی کی نبوّت کا ذکر کِیا جس کے مطابق خدا ’‏اپنی روح نازل کرے گا‘‏ اور اِس کے نتیجے میں اُس کے خادم معجزے دکھائیں گے۔‏ (‏یوایل ۲:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ خدا نے یسوع مسیح کے شاگردوں پر اپنی پاک روح اِس شاندار طریقے سے کیوں نازل کی؟‏ وہ اِس بات کو ظاہر کر رہا تھا کہ اُس نے اسرائیل کو اپنی خاص قوم کے طور پر ترک کر دیا تھا اور اب مسیحی کلیسیا کو اُس کی خوشنودی حاصل تھی۔‏ ایسے لوگ جو خدا کی خوشنودی چاہتے تھے اُنہیں یسوع مسیح کے پیروکار بننے کی ضرورت تھی۔‏

یہودیوں کے مذہبی رہنما یسوع مسیح کے شاگردوں کی مخالفت کرنے لگے۔‏ اُنہوں نے بعض رسولوں کو قیدخانے میں ڈال دیا۔‏ لیکن رات کے وقت ایک فرشتے نے قیدخانے کے دروازے کھول دئے اور رسولوں سے کہا کہ وہ جا کر لوگوں کو یسوع مسیح کے بارے میں بتائیں۔‏ صبح ہوتے ہی شاگرد ہیکل گئے اور وہاں یسوع مسیح کے بارے میں خوشخبری کی منادی کرنے لگے۔‏ یہ سُن کر مذہبی رہنما آپے سے باہر ہو گئے اور اُنہیں حکم دیا کہ وہ منادی کرنا بند کر دیں۔‏ رسولوں نے بڑی دلیری سے جواب دیا:‏ ”‏ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔‏“‏—‏اعمال ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

اِس کے بعد یسوع مسیح کے شاگردوں کو سخت اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔‏ بعض یہودیوں نے یسوع کے شاگرد ستفنس پر کفر بکنے کا الزام لگایا اور اُسے سنگسار کر کے مار ڈالا۔‏ ساؤل نامی ایک جوان ستفنس کو قتل ہوتے دیکھ رہا تھا۔‏ اُس کے خیال میں ستفنس ایسی ہی سزا کے لائق تھا۔‏ اِس کے بعد ساؤل مسیحیوں کو گرفتار کرنے کے لئے شہر دمشق روانہ ہو گیا۔‏ راستے میں اچانک آسمان سے ایک نور اُس کے اِردگِرد چمکنے لگا اور ساؤل اندھا ہوگیا۔‏ پھر اُسے ایک آواز سنائی دی:‏ ”‏اَے ساؔؤل اَے ساؔؤل!‏ تُو مجھے کیوں ستاتا ہے؟‏“‏ ساؤل نے پوچھا:‏ ”‏اَے خداوند!‏ تُو کون ہے؟‏“‏ آواز نے کہا:‏ ”‏مَیں یسوؔع ہوں جِسے تُو ستاتا ہے۔‏“‏—‏اعمال ۹:‏۳-‏۵‏۔‏

اِس واقعے کے تین دن بعد یسوع مسیح نے حننیاہ نامی ایک شاگرد کو کہا کہ وہ جا کر ساؤل کی بینائی بحال کر دے۔‏ اِس کے بعد ساؤل نے یسوع کے شاگرد کے طور پر بپتسمہ لے لیا اور دلیری سے یسوع مسیح کے بارے میں تعلیم دینے لگا۔‏ وہ مسیحی کلیسیا کا ایک سرگرم رُکن بن گیا اور بعد میں پولس رسول کے نام سے مشہور ہو گیا۔‏

اِس وقت تک یسوع مسیح کے شاگرد صرف یہودیوں اور سامریوں کو خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنا رہے تھے۔‏ لیکن پھر ایک فرشتے نے کرنیلیس نامی ایک رومی صوبہ‌دار سے کہا کہ وہ پطرس رسول کو اپنے گھر بلوائے۔‏ پطرس رسول نے اِس خداترس شخص اور اُس کے گھرانے کو یسوع مسیح کے بارے میں تعلیم دی۔‏ وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ خدا کی پاک روح اِن غیریہودیوں پر نازل ہوئی۔‏ یہ دیکھ کر پطرس رسول نے کہا کہ اُنہیں یسوع مسیح کے نام سے بپتسمہ دیا جائے۔‏ اب مسیحی کلیسیا سب قوموں کو خوشخبری سنانے کے لئے تیار تھی۔‏ اُس وقت سے تمام قوموں کو ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع دیا جانے لگا۔‏

‏—‏اِن واقعات کا ذکر اعمال ۱:‏۱–‏۱۱:‏۲۱ میں ہوا ہے۔‏