پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے
پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے
ایک ایسا آدمی جس کی پرورش ایک مذہبی گھرانے میں ہوئی تھی اور جس نے خدا سے مُنہ موڑ لیا تھا، وہ خدا کی طرف کیوں لوٹ آیا؟ ایک جوان آدمی جو باپ کی محبت کو ترستا تھا، اُسے ایک اچھا باپ کیسے ملا؟ آئیں، اِن لوگوں کی کہانی، اُنہی کی زبانی سنیں۔
”مجھے یہوواہ کی طرف لوٹنے کی ضرورت تھی“—ایلی خلیل
پیدائش: 1976ء
پیدائش کا ملک: سائپرس
ماضی: سیدھی راہ سے بھٹکا ہوا بیٹا
میری سابقہ زندگی: میری پیدائش سائپرس میں ہوئی لیکن میں آسٹریلیا میں پلا بڑھا۔ میرے امی ابو یہوواہ کے گواہ تھے اور اُنہوں نے میرے دل میں یہوواہ خدا اور اُس کے کلام بائبل کے لیے محبت پیدا کرنے کی پوری کوشش کی۔ لیکن جب مَیں نوجوان ہوا تو مَیں سیدھی راہ سے بھٹکنے لگا۔ مَیں رات کو چوری چھپے اپنے دوستوں سے ملنے کے لیے نکل جاتا تھا۔ ہم گاڑیاں چوری کرتے اور کئی اُلٹے سیدھے کام کرتے۔
شروع شروع میں تو مَیں یہ کام چوری چھپے کرتا تھا کیونکہ مجھے اِس بات کا ڈر تھا کہ امی ابو مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔ لیکن آہستہ آہستہ میرے دل سے یہ ڈر نکل گیا۔ مَیں نے ایسے لوگوں سے دوستی کر لی جو عمر میں مجھ سے بہت بڑے تھے اور یہوواہ سے محبت نہیں کرتے تھے۔ اُنہوں نے میری سوچ پر بہت بُرا اثر ڈالا۔ پھر ایک وقت آیا کہ مَیں نے اپنے امی ابو سے صاف صاف کہہ دیا کہ اب سے مَیں اُن کے مذہب سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتا۔ اُنہوں نے بڑے پیار اور صبر سے میری مدد کرنے کی کوشش کی۔ مگر مَیں نے اُن کی ایک نہ سنی۔ اُن کا دل بُری طرح سے ٹوٹ گیا۔
جب مَیں نے گھر چھوڑ دیا تو مَیں منشیات لینے لگا، یہاں تک بہت بڑی تعداد میں چرس اُگانے اور اِسے بیچنے لگا۔ مَیں ایک بدچلن زندگی جینے لگا اور اپنا زیادہتر وقت نائٹ کلبوں میں پارٹیاں کرنے میں گزارنے لگا۔ مَیں بہت غصیلا شخص بھی بن گیا۔ اگر کوئی مجھ سے کوئی ایسی بات کہتا یا ایسا کام کرتا جو مجھے پسند نہ ہوتا تو مَیں غصے سے لال پیلا ہو جاتا تھا۔ اور اکثر تو مَیں لوگوں پر چیخنے چلّانے اور اُنہیں مارنے لگ جاتا تھا۔ دراصل مَیں وہ ہر کام کر رہا تھا جس کے بارے میں مَیں نے سیکھا تھا کہ ایک مسیحی کو نہیں کرنا چاہیے۔
پاک کلام کی تعلیم کا اثر: میری ایک ایسے لڑکے سے پکی دوستی ہو گئی جو منشیات لیتا تھا۔ جب وہ بہت چھوٹا ہی تھا تو اُس کے ابو فوت ہو گئے تھے۔ ہم اکثر رات دیر تک باتیں کِیا کرتے تھے۔ ایک دن باتیں کرتے کرتے وہ کُھل کر مجھے یہ بتانے لگا کہ وہ اپنے ابو کو کتنا یاد کرتا ہے۔ چونکہ مَیں نے بچپن سے یہ سیکھا تھا کہ خدا مُردوں کو زندہ کر دے گا اِس لیے مَیں اُسے یہ بتانے لگا کہ یسوع مسیح نے ماضی میں کچھ مُردوں کو زندہ کِیا تھا اور اُنہوں نے یہ وعدہ کِیا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی ایسا کریں گے۔ (یوحنا 5:28، 29) مَیں نے اُس سے کہا کہ ”ذرا سوچو کہ تُم اپنے ابو سے دوبارہ ملو گے اور ہم سب زمین پر فردوس میں ہمیشہ تک زندہ رہ سکیں گے!“ اِن باتوں نے اُس کے دل کو چُھو لیا۔
اِس کے بعد اُس نے اَور موقعوں پر بھی مجھ سے کچھ اَور موضوعات پر بات کی جیسے کہ آخری زمانے اور تثلیث کے عقیدے کے بارے میں۔ مَیں نے اُسے اُس کی بائبل میں سے ایسی آیتیں دِکھائیں جن میں یہوواہ خدا، یسوع مسیح اور آخری زمانے کے بارے میں بات کی گئی تھی۔ (یوحنا 14:28؛ 2-تیمُتھیُس 3:1-5) جتنا زیادہ مَیں اپنے دوست کو یہوواہ کے بارے میں بتانے لگا اُتنا ہی زیادہ میں یہوواہ کے بارے میں سوچنے لگا۔
آہستہ آہستہ میرے دل میں پاک کلام کی سچائیوں کے وہ بیج بڑھنے شروع ہو گئے جنہیں بونے کی میرے امی ابو نے بڑی کوشش کی تھی۔ مثال کے طور پر کبھی کبھار جب مَیں پارٹی کے دوران اپنے دوستوں کے ساتھ منشیات لیتا تھا تو میرے ذہن میں فوراً یہوواہ کا خیال آ جاتا تھا۔ میرے بہت سے دوست یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ خدا سے محبت کرتے ہیں لیکن اُن کے کاموں سے ایسا بالکل بھی ظاہر نہیں ہوتا تھا۔ مَیں اُن کی طرح نہیں بننا چاہتا تھا۔ مَیں سمجھ گیا کہ مجھے کیا کرنا ہوگا۔ مجھے یہوواہ کی طرف لوٹنے کی ضرورت تھی۔
یہ جاننا تو بہت آسان ہوتا ہے کہ صحیح کام کیا ہیں لیکن اِنہیں کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میرے لیے اپنی زندگی میں کچھ تبدیلیاں لانا تو بہت آسان تھا۔ مثال کے طور پر مجھے منشیات چھوڑنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ اِس کے علاوہ مَیں نے اپنے پُرانے دوستوں سے دوستی بھی توڑ دی اور یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیا کے ایک بزرگ سے بائبل کورس کرنے لگا۔
لیکن کچھ تبدیلیاں لانا مجھے بہت مشکل لگ رہا تھا، خاص طور پر اپنے غصے کو قابو میں رکھنا۔ کبھی کبھار تو مَیں بہت اچھے سے ایسا کر لیتا تھا لیکن پھر مجھے دوبارہ سے غصے کے دورے پڑنے لگتے تھے۔ اور جب بھی ایسا ہوتا تھا تو مجھے بہت بُرا لگتا تھا اور مَیں سوچتا تھا کہ مَیں کبھی بھی سدھر نہیں سکتا۔ مَیں بڑا بےحوصلہ ہو کر اُس بزرگ کے پاس جاتا تھا جو مجھے بائبل کورس کرا رہا تھا۔ وہ میرے ساتھ بڑے ہی صبر اور نرمی سے پیش آتا تھا اور اُس سے بات کر کے مجھے بڑا حوصلہ ملتا تھا۔ ایک بار تو اُس نے میرے ساتھ ”مینارِنگہبانی“ میں ایک ایسا مضمون پڑھا جو ہمت نہ ہارنے کے بارے میں تھا۔ * ہم نے ایسے طریقوں پر غور کِیا جن پر عمل کرنے سے مَیں اپنے غصے پر قابو پا سکتا تھا۔ اِس مضمون میں لکھی باتوں کو ذہن میں رکھنے سے اور یہوواہ سے بہت زیادہ دُعا کرنے کے بعد آخرکار مَیں اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کے قابل ہو گیا۔ پھر مَیں نے اپریل 2000ء میں یہوواہ کے ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔ میرے امی ابو کی خوشی کی تو کوئی اِنتہا ہی نہیں تھی۔
میری زندگی سنور گئی: اب مجھے ذہنی سکون حاصل ہے اور میرا ضمیر صاف ہے کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ اب مَیں اپنے جسم کو منشیات اور حرامکاری سے ناپاک نہیں کر رہا۔ اب چاہے مَیں کام کی جگہ پر ہوں، عبادت پر ہوں، سیروتفریح کر رہا ہوں یا کوئی اَور کام کر رہا ہوں، مَیں بہت خوش رہتا ہوں۔ اب مَیں زندگی کے حوالے سے بہت اچھی سوچ رکھتا ہوں۔
مَیں یہوواہ خدا کا بہت شکرگزار ہوں کہ اُس نے مجھے ایسے ماں باپ دیے ہیں جنہوں نے میری مدد کرنے میں کبھی ہمت نہیں ہاری۔ مَیں اکثر یوحنا 6:44 میں لکھی یسوع کی اِس بات پر سوچ بچار کرتا ہوں: ”کوئی شخص میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک کہ باپ اُسے میرے پاس نہ لائے۔“ یہ سوچ کر میرے دل پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے کہ مَیں یہوواہ کی طرف اِس لیے لوٹ آیا کیونکہ وہ مجھے اپنے پاس کھینچ لایا۔
”مَیں باپ کی محبت کے لیے ترستا تھا“—مارکو آنتونیو آلویزاز سوٹو
پیدائش: 1977ء
پیدائش کا ملک: چلی
ماضی: ڈیتھ میٹل بینڈ کا رُکن
میری سابقہ زندگی: مَیں چلی کے شہر پونتا آریناس میں پلا بڑھا جو کہ ایک بہت ہی اچھا شہر تھا۔ میری امی نے میری پرورش کی۔ جب مَیں پانچ سال کا تھا تو میرے امی ابو ایک دوسرے سے الگ ہو گئے اور اِس وجہ سے مَیں خود کو بہت اکیلا محسوس کرنے لگا۔ مَیں باپ کی محبت کے لیے ترستا تھا۔
میری امی یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کورس کر رہی تھیں اور وہ مجھے اپنے ساتھ اُن کی عبادتوں پر لے جاتی تھیں۔ مگر مجھے وہاں جانا بالکل پسند نہیں تھا۔ مَیں تو اکثر وہاں جاتے ہوئے راستے میں رونا دھونا شروع کر دیتا تھا۔ جب مَیں 13 سال کا ہوا تو مَیں نے عبادتوں پر بالکل ہی جانا چھوڑ دیا۔
اِسی دوران میرے دل میں موسیقی کا شوق پیدا ہوا اور مجھے محسوس ہوا کہ میرے اندر اِسے سیکھنے کا ہنر بھی ہے۔ لہٰذا 15 سال کی عمر میں مَیں تقریبوں میں، باروں میں اور لوگوں کی پارٹیوں میں ہیوی میٹل اور ڈیتھ میٹل موسیقی بجانے لگا۔ میری بڑے ہی اچھے موسیقاروں سے جان پہچان تھی جن کے ساتھ رہ کر میرے دل میں کلاسیکل موسیقی کا شوق بڑھا۔ مَیں موسیقی سکھانے والے ایک مقامی سکول میں جانے لگا۔ جب مَیں 20 سال کا ہوا تو اپنی پڑھائی جاری رکھنے کے لیے مَیں دارالحکومت سینٹیاگو شفٹ ہو گیا۔ ساتھ ہی ساتھ مَیں ڈیتھ میٹل اور ہیوی میٹل بینڈز کے لیے موسیقی بھی بجاتا رہا۔
اِس سارے وقت کے دوران مجھے اپنی زندگی میں کچھ خالی خالی سا لگتا تھا۔ تنہائی کے اِس احساس سے پیچھا چھڑانے کے لیے مَیں اپنے بینڈ کے لڑکوں کے ساتھ مل کر شراب پینے اور منشیات لینے لگا۔ مَیں اپنے بینڈ کے لوگوں کو بالکل اپنے گھر والوں کی طرح سمجھتا تھا۔ میری سوچ بہت بگڑی ہوئی تھی اور یہ تو میرے حُلیے سے بھی نظر آتی تھی۔ مَیں کالے کپڑے پہنتا تھا، مَیں نے داڑھی بڑھائی ہوئی تھی اور میرے بال تو میری کمر تک تھے۔
کئی بار اپنے بُرے رویے کی وجہ سے مَیں لوگوں سے لڑائیاں کر بیٹھتا تھا اور پولیس مجھے اُٹھا کر لے جاتی تھی۔ ایک بار تو شراب کے نشے میں دُھت ہو کر مَیں نے کچھ ایسے لوگوں پر حملہ کر دیا جو منشیات بیچتے تھے کیونکہ وہ مجھے اور میرے دوستوں کو تنگ کر رہے تھے۔ اُنہوں نے مجھے اِتنی بُری طرح سے مارا کہ میرا جبڑا ہی ٹوٹ گیا۔
اِس سے بھی زیادہ گہری چوٹ تو مجھے اپنے قریبی دوستوں کے ہاتھوں لگی۔ ایک دن مجھے پتہ چلا کہ میری گرل فرینڈ اور میرے ایک قریبی دوست کا کئی سالوں سے چکر چل رہا ہے۔ اور میرے سب دوست یہ جانتے تھے مگر اُنہوں نے مجھ سے یہ بات چھپا کر رکھی۔ مَیں بالکل ٹوٹ گیا۔
مَیں واپس پونتا آریناس چلا گیا جہاں مَیں موسیقی سکھانے لگا اور چیلو ساز بجانے والے کے طور پر کام کرنے لگا۔ مَیں نے ہیوی میٹل اور ڈیتھ میٹل بینڈز کے ساتھ مل کر موسیقی بجانا اور گانے ریکارڈ کرنا بھی جاری رکھا۔ اِسی دوران میری ملاقات ایک بڑی پیاری لڑکی سے ہوئی جس کا نام سوزن تھا اور ہم دونوں اِکٹھے رہنے لگے۔ سوزن کی امی تثلیث کے عقیدے کو مانتی تھیں۔ مگر ایک دن مَیں نے اُسے بتایا کہ مَیں اِسے نہیں مانتا۔ اُس نے مجھ سے پوچھا: ”تو پھر سچ کیا ہے؟“ مَیں نے اُس سے کہا کہ مَیں یہ تو جانتا ہوں کہ تثلیث کا عقیدہ جھوٹا ہے لیکن مَیں اِسے بائبل سے ثابت نہیں کر سکتا۔ ہاں مگر مَیں ایسے لوگوں کو ضرور جانتا ہوں جو اِسے ثابت کر سکتے ہیں۔ مَیں نے اُس سے کہا کہ یہوواہ کے گواہ اُسے بائبل سے اِس بارے میں سچائی بتا سکتے ہیں۔ پھر مَیں نے ایک ایسا کام کِیا جو مَیں نے کئی سالوں تک نہیں کِیا تھا۔ مَیں نے خدا سے مدد کے لیے دُعا مانگی۔
کچھ دن بعد مَیں نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جس کا پہناوا بڑا جانا پہچانا لگ رہا تھا۔ مَیں اُس کے پاس گیا اور اُس سے پوچھا کہ کیا وہ یہوواہ کا گواہ ہے۔ حالانکہ میرے حُلیے کو دیکھ کر وہ کافی گھبرا سا گیا لیکن اُس نے بڑے ہی پیار سے مجھے میرے اُن سوالوں کے جواب دیے جو مَیں نے عبادت پر جانے کے حوالے سے کیے تھے۔ مَیں پوری طرح سے قائل تھا کہ اِس شخص سے ملاقات کوئی اِتفاق نہیں بلکہ خدا نے مجھے میری دُعا کا جواب دیا ہے۔ پھر مَیں گواہوں کی عبادت پر گیا اور وہاں جا کر سب سے آخری والی سیٹوں پر بیٹھ گیا تاکہ کوئی مجھے دیکھ نہ سکے۔لیکن بہت سے لوگوں نے مجھے پہچان لیا جنہوں نے مجھے بچپن میں دیکھا تھا۔ اُنہوں نے بڑے پیار سے مجھے گلے لگا لیا۔ مَیں نے بڑا ہی الگ سا سکون محسوس کِیا۔ مجھے ایسے لگا جیسے مَیں اپنے گھر لوٹ آیا ہوں۔ وہاں مَیں نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جس نے مجھے بچپن میں بائبل کورس کرایا تھا۔ مَیں نے اُس سے کہا کہ کیا وہ مجھے دوبارہ بائبل کورس کرا سکتا ہے۔
پاک کلام کی تعلیم کا اثر: ایک دن مَیں نے امثال 27:11 پڑھی جہاں لکھا ہے: ”اَے میرے بیٹے! دانا بن اور میرے دل کو شاد کر۔“ مَیں یہ سوچ کر بڑا ہی متاثر ہوا کہ ایک خاکی اِنسان کائنات کے خالق کو خوش کر سکتا ہے۔ مَیں سمجھ گیا کہ یہوواہ ایک شفیق باپ ہے۔ ایک ایسا باپ جس کی مَیں ساری زندگی تلاش کر رہا تھا۔
مَیں اپنے آسمانی باپ کو خوش کرنا چاہتا تھا اور وہ کام کرنا چاہتا تھا جو اُسے پسند ہیں۔ لیکن مجھے کئی سالوں سے شراب پینے اور منشیات لینے کی لت لگی ہوئی تھی۔ مَیں متی 6:24 میں لکھی یسوع کی اِس بات کو اچھی طرح سے سمجھ گیا کہ ”کوئی شخص دو مالکوں کا غلام نہیں ہو سکتا۔“ جب مَیں اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانے کی پوری کوشش کر رہا تھا تو 1-کُرنتھیوں 15:33 میرے دل پر لگی۔ اِس آیت میں لکھا ہے: ”بُرے ساتھی اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتے ہیں۔“ مَیں یہ سمجھ گیا کہ اگر مَیں بُری جگہوں پر جاتا رہا اور بُرے لوگوں کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا رہا تو مَیں کبھی بھی اپنی بُری عادتوں کو چھوڑ نہیں پاؤں گا۔ بائبل میں لکھی یہ نصیحت بالکل واضح تھی کہ مجھے اپنی زندگی سے ہر اُس چیز کو نکال پھینکنا تھا جو مجھے گمراہ کر سکتی تھی۔—متی 5:30۔
مجھے موسیقی سے عشق تھا اور ہیوی میٹل موسیقی کو چھوڑنا تو میری زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ تھا۔ لیکن کلیسیا میں اپنے دوستوں کی مدد سے آخرکار مَیں نے یہ موسیقی چھوڑ دی۔ مَیں نے منشیات لینا اور حد سے زیادہ شراب پینا بھی چھوڑ دیا۔ مَیں نے اپنے بال کٹوا دیے، اپنی داڑھی ہٹا دی اور صرف کالے کپڑے پہننا چھوڑ دیے۔ جب مَیں نے سوزن کو بتایا کہ مَیں اپنے بال کٹوانا چاہتا ہوں تو اُس کے دل میں گواہوں کی عبادتوں پر جانے کا تجسّس بڑھا۔ اُس نے کہا: ”مَیں بھی تمہارے ساتھ عبادت پر جاؤں گی۔ مَیں دیکھنا چاہتی ہوں کہ اُن کی عبادتوں پر ہوتا کیا ہے۔“ اُسے وہاں جا کر بہت اچھا لگا اور جلد ہی اُس نے بھی بائبل کورس کرنا شروع کر دیا۔ پھر مَیں نے اور سوزن نے شادی کر لی اور 2008ء میں ہم نے یہوواہ کے گواہوں کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔ اب سوزن اور مَیں میری امی کے ساتھ مل کر یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔
میری زندگی سنور گئی: مَیں اِس دُنیا کی کھوکھلی خوشیوں اور دغاباز دوستوں کو پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔ مجھے ابھی بھی موسیقی بہت اچھی لگتی ہے لیکن اب مَیں صرف اچھی موسیقی کا اِنتخاب کرتا ہوں۔ مَیں نے زندگی میں جن باتوں کا تجربہ کِیا ہے، اُنہیں مَیں اپنے گھر والوں اور دوسرے لوگوں کو بتاتا ہوں، خاص طور پر نوجوانوں کو تاکہ اُنہیں اِس سے فائدہ ہو۔ مَیں چاہتا ہوں کہ وہ یہ دیکھیں کہ دُنیا جن چیزوں کو دینے کا وعدہ کرتی ہے، وہ دِکھنے میں تو بہت دلکش لگتی ہیں لیکن وہ صرف ”کوڑا کرکٹ“ ہیں۔—فِلپّیوں 3:8۔
مجھے یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیا میں سچے دوست ملے ہیں۔ یہ کلیسیا محبت اور امن سے بھری ہے۔ سب سے بڑھ کر مَیں یہوواہ کے قریب چلا گیا ہوں اور مجھے آخرکار ایک شفیق باپ مل گیا ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 14 اِس مضمون کا عنوان ”کامیابی بذریعہ مستقل مزاجی“ تھا اور یہ 1 فروری 2000ء کے ”مینارِنگہبانی“ کے صفحہ نمبر 4-6 پر تھا۔
[صفحہ نمبر 11 پر عبارت]
”مَیں یہوواہ کی طرف اِس لیے لوٹ آیا کیونکہ وہ مجھے اپنے پاس کھینچ لایا۔“