پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے
اُنہوں نے ہر سوال کا جواب بائبل میں سے دیا!
پیدائش: 1950ء
پیدائش کا ملک: سپین
ماضی: ایک کیتھولک سسٹر
میری سابقہ زندگی:
مَیں شمال مغربی سپین کے ایک دُوردراز گاؤں گالیسیا میں پیدا ہوئی۔ وہاں میرے والدین کا ایک چھوٹا سا فارم تھا۔ مَیں اپنے آٹھ بہن بھائیوں میں سے چوتھے نمبر پر تھی۔ ہمارے گھر کا ماحول بہت خوشگوار تھا۔ اُس زمانے میں سپین میں یہ بہت عام بات تھی کہ گھر کا کم سے کم ایک بچہ سیمنری یا کانونٹ ضرور جائے۔ اور ہمارے گھر کے تو تین بچوں نے ایسا کِیا۔
جب مَیں 13 سال کی ہوئی تو مَیں شہر میدرد کے ایک کانونٹ میں چلی گئی جہاں میری بڑی بہن پہلے سے ہی رہ رہی تھی۔ کانونٹ کا ماحول بہت ہی سخت تھا۔ دوستیاں کرنے کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ ہم بس وہاں کے بنائے ہوئے قوانین پر چلتے تھے اور دُعائیں کِیا کرتے تھے۔ صبح سویرے ہم خدا کے بارے میں سوچ بچار کرنے کے لیے چیپل میں جمع ہوتے تھے حالانکہ اکثر مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ مَیں خدا کے بارے میں کیا سوچ بچار کروں۔ اِس کے بعد ہم مذہبی گیت گاتے اور ماس کی تقریب مناتے تھے جو کہ سب لاطینی زبان میں تھا۔ مجھے زیادہ کچھ سمجھ نہیں آتا تھا اور مجھے لگتا تھا کہ خدا مجھ سے کوسوں دُور ہے۔ کانونٹ میں ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کی اِجازت نہیں تھی اِس لیے میرے دن خاموشی میں گزرتے تھے، یہاں تک کہ اگر میری ملاقات اپنی بہن سے ہوتی تھی تو ہم یہ تک بڑی مشکل سے کہتے تھے: ”مُقدسہ مریم کی جئے ہو۔“ سسٹروں نے ہمیں کھانے کے بعد صرف آدھے گھنٹے کے لیے بات کرنے کی اِجازت دی ہوئی تھی۔ یہاں تو ہماری زندگی اُس ہنستی کھیلتی زندگی سے بہت فرق تھی جو ہم گھر میں گزارا کرتے تھے ۔ مجھے بہت اکیلاپن محسوس ہوتا تھا اور مَیں اکثر روتی تھی۔
حالانکہ مَیں نے خود کو کبھی بھی خدا کے قریب محسوس نہیں کِیا لیکن پھر بھی مَیں نے سسٹر کا حلف اُٹھایا اور 17 سال کی عمر میں سسٹر بن گئی۔ سچ کہوں تو مَیں نے صرف وہی کِیا جس کی مجھ سے توقع کی گئی تھی لیکن جلد ہی مَیں یہ سوچنے لگی کہ کیا خدا نے واقعی مجھے اِس کام کے لیے چُنا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سسٹریں کہا کرتی تھیں کہ جن لوگوں کے ذہن میں اِس طرح کے سوال آتے ہیں، وہ دوزخ میں ہی جاتے ہیں۔ اِس کے باوجود میرے ذہن سے یہ سوال نہیں نکلے۔ مَیں جانتی تھی کہ یسوع مسیح کبھی بھی خود کو دوسروں سے الگ تھلگ نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ تو تعلیم دینے اور دوسروں کی مدد کرنے میں بہت مصروف رہا کرتے تھے۔ (متی 4:23-25) جب مَیں 20 سال کی ہوئی تو مجھ پر یہ بات اَور واضح ہو گئی کہ میرے پاس سسٹر بنے رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جب یہ بات مدر کو پتہ چلی تو اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ مجھے سسٹر کے طور پر خدمت کرنی چاہیے یا نہیں تو جتنی جلدی ہو سکے، مَیں یہاں سے چلی جاؤں۔ مجھے لگتا ہے کہ اُنہیں اِس بات کا ڈر تھا کہ کہیں مَیں اپنی سوچ سے دوسروں کو نہ متاثر کر دوں۔ لہٰذا مَیں نے کانونٹ چھوڑ دیا۔
جب مَیں اپنے گھر لوٹی تو امی ابو نے میرے فیصلے میں میرا ساتھ دیا۔ چونکہ ہمارے گاؤں میں نوکریاں نہیں تھیں اِس لیے مَیں جرمنی شفٹ ہو گئی جہاں میرا ایک بھائی رہتا تھا۔ وہ سپین کے جلاوطن شہریوں کے کمیونسٹ گروپ کا ایک رُکن تھا۔ مجھے اُن لوگوں کے بیچ رہ کر بہت اچھا لگتا تھا کیونکہ وہ مزدوروں کے حقوق اور عورتوں کی برابری کے حقوق کے لیے لڑتے تھے۔ لہٰذا مَیں بھی کمیونسٹ گروپ کا حصہ بن گئی اور اِس گروپ کے ایک ممبر سے شادی کر لی۔ مَیں کمیونسٹ گروپ کے بنائے ہوئے پرچے لوگوں میں بانٹنے لگی اور اُن کے ساتھ مل کر احتجاجوں میں حصہ لینے لگی۔ مجھے لگتا تھا کہ مَیں بہت نیک کام کر رہی ہوں۔
لیکن کچھ وقت بعد مَیں پھر سے بےحوصلہ ہو گئی۔ مَیں نے دیکھا کہ کمیونزم کے نظریے کو ماننے والے لوگ اکثر وہ کام نہیں کرتے جو وہ دوسروں کو سکھاتے ہیں۔ میرے دل میں اِن لوگوں کو لے کر جو شک پیدا ہوئے، وہ 1971ء میں اُس وقت اَور بھی پکے ہو گئے جب ہمارے گروپ کے کچھ نوجوانوں نے شہر فرینکفرٹ میں موجود سپینش سفارتخانے کو جلایا۔ اُنہوں نے ایسا سپین میں آمرانہ حکومت کے ہاتھوں ہونے والی نااِنصافیوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے کِیا۔ لیکن مَیں یہ مانتی تھی کہ اپنی بھڑاس نکالنے کا یہ طریقہ سراسر غلط ہے۔
جب ہمارا پہلا بچہ ہوا تو مَیں نے اپنے شوہر سے کہا کہ اب سے مَیں کمیونسٹ اِجلاسوں میں نہیں جایا کروں گی۔ دراصل مجھے اُس وقت بڑا ہی اکیلاپن محسوس ہوا جب میرے پُرانے دوستوں میں سے کوئی بھی مجھے اور میرے بچے کو دیکھنے تک نہیں آیا۔ مَیں یہ سوچنے لگی کہ آخر زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کیا اِس معاشرے کو بہتر بنانے کی کوششیں کرنے کا واقعی کوئی فائدہ ہے؟
پاک کلام کی تعلیم کا اثر:
سن 1976ء میں سپین سے تعلق رکھنے والی دو یہوواہ کی گواہوں نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا اور ہمیں بائبل پر مبنی کچھ کتابیں اور رسالے دیے جو کہ مَیں نے قبول کر لیے۔ جب وہ دوسری بار مجھ سے ملنے آئیں تو مَیں نے اُن پر دُکھ تکلیف، تعصب اور نااِنصافی کے موضوعات پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ مَیں اِس بات پر بہت حیران تھی کہ اُنہوں نے ہر سوال کا جواب بائبل میں سے دیا۔ لہٰذا جب اُنہوں نے مجھے بائبل کورس کرنے کی پیشکش کی تو مَیں نے اِسے خوشی خوشی قبول کر لیا۔
شروع شروع میں تو مَیں بس علم حاصل کرنے کی غرض سے بائبل کورس کر رہی تھی۔ لیکن جب مَیں نے اور میرے شوہر نے یہوواہ کے گواہوں کی عبادتوں پر جانا شروع کِیا تو میری سوچ بدل گئی۔ اُس وقت تک ہمارے دو بیٹے تھے۔ گواہ ہمیں عبادتوں پر لے جانے کے لیے آتے اور عبادت کے دوران ہمارے بچوں کا خیال رکھتے۔ میرے دل میں گواہوں کے لیے محبت پیدا ہو گئی۔
مگر میرے ذہن میں ابھی بھی مذہب کے حوالے سے شک تھے۔ مَیں نے سپین میں اپنے گھر والوں سے ملنے کا فیصلہ کِیا۔ میرے چچا پاسٹر تھے اور اُنہوں نے مجھے بائبل کورس کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن وہاں کے مقامی گواہوں نے میری بہت مدد کی۔ اُنہوں نے میرے سوالوں کے جواب بائبل میں سے دیے، بالکل جیسے جرمنی میں یہوواہ کے گواہوں نے کِیا تھا۔ مَیں نے عزم کِیا کہ جب مَیں جرمنی واپس لوٹوں گی تو مَیں دوبارہ سے بائبل کورس کرنا شروع کر دوں گی۔ حالانکہ میرے شوہر نے فیصلہ کِیا کہ وہ بائبل کورس جاری نہیں رکھیں گے لیکن مَیں اپنے عزم پر قائم رہی۔ 1978ء میں مَیں نے یہوواہ کی گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔
میری زندگی سنور گئی:
پاک کلام کی سچائیوں کا صحیح علم حاصل کرنے سے میری زندگی کو ایک مقصد ملا ہے اور صحیح راہ پر چلنے میں میری مدد ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر مجھے 1-پطرس 3:1-4 میں درج ہدایت پر عمل کرنے سے ایک اچھی بیوی اور ایک اچھی ماں بننے میں بڑی مدد ملی ہے۔ اِس آیت میں بیویوں کی یہ حوصلہافزائی کی گئی ہے کہ وہ ”اپنے شوہر کی تابعدار ہوں،“ ’اُس کا گہرا احترام کریں‘ اور ’خود کو پُرسکون اور نرم رویے سے سجائیں جو خدا کی نظر میں بہت ہی قیمتی ہے۔‘
مجھے یہوواہ کی گواہ بنے تقریباً 35 سال ہو گئے ہیں۔ مجھے پوری دُنیا میں موجود اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر یہوواہ کی خدمت کرنے سے بڑی خوشی ملتی ہے۔ مجھے اِس بات کی بھی بہت خوشی ہے کہ میرے پانچ بچوں میں سے چار بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔