کیا آپ کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے؟
کیا آپ کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے؟
کچھ لوگ خوشی خوشی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ اُن کے ٹیکس کی رقم کو ناجائز طریقے سے اور لاپرواہی سے اِستعمال کِیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ تو ٹیکس دینے سے ہی اِنکار کرتے ہیں کیونکہ اُنہیں لگتا ہے کہ اِنہیں ایسے کاموں میں اِستعمال کِیا جاتا ہے جو اخلاقی معیاروں کے خلاف ہیں۔ اِس سلسلے میں مشرقِوسطیٰ کے ایک شہر میں رہنے والے لوگوں کی بات پر غور کریں۔ اُنہوں نے کہا: ”ہم بندوق کی اُن گولیوں کے لیے بالکل پیسے نہیں دیں گے جن سے ہمارے بچوں کی جان لی جائے۔“
ٹیکس کے بارے میں لوگوں کی ایسی سوچ نئی نہیں ہے۔ ہندوؤں کے رہنما موہن داس گاندھی نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ اُن کا ضمیر اُنہیں کیوں ٹیکس ادا کرنے کی اِجازت نہیں دیتا۔ اُنہوں نے کہا: ”جو شخص براہِراست یا کسی اَور طریقے سے فوجی حکومت کی حمایت کرتا ہے، وہ اُس کے گُناہوں میں شریک ہوتا ہے۔ ہر بوڑھا اور جوان جو اِس حکومت کو قائم رکھنے کے لیے ٹیکس ادا کرتا ہے، وہ اُس کے گُناہ میں اُس کا حصےدار بنتا ہے۔“
اُنیسویں صدی کے فلاسفر ہینری ڈیوڈ تھوُرو نے بھی بتایا کہ وہ ایسا ٹیکس ادا کرنے سے کیوں اِنکار کرتے ہیں جسے جنگ میں اِستعمال کِیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”کیا ایک شہری کو کسی قانون بنانے والے کو یہ اِجازت دینی چاہیے کہ وہ اُس کے لیے ایسے فیصلے کرے جو اصل میں اُسے اپنے ضمیر کے مطابق کرنے چاہئیں؟ اگر ایک شخص نے ہی دوسرے شخص کے لیے فیصلے کرنے ہیں تو پھر ضمیر کس کام کا؟“
بائبل میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ مسیحیوں کو ہر معاملے میں اپنے ’ضمیر کو صاف‘ رکھنا چاہیے۔ (2-تیمُتھیُس 1:3) مگر ساتھ ہی ساتھ بائبل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حکومتوں کے پاس یہ اِختیار ہے کہ وہ اپنے شہریوں سے ٹیکس وصول کریں۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”ہر شخص حاکموں کا تابعدار ہو کیونکہ اِختیار خدا کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ حاکموں کے پاس جو اِختیار ہے، وہ اُنہیں خدا سے ملا ہے۔ اِس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ آپ اُن کے تابعدار ہوں اور صرف سزا کے ڈر سے نہیں بلکہ اپنے ضمیر کی وجہ سے بھی۔ آپ اِسی لیے تو ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے خادم ہیں جو ہر وقت عوام کی خدمت کرتے ہیں۔ سب لوگوں کا حق ادا کریں۔ جو ٹیکس مانگتا ہے، اُسے ٹیکس دیں؛ جو خراج مانگتا ہے، اُسے خراج دیں؛ جو احترام مانگتا ہے، اُسے احترام دیں؛ جو عزت مانگتا ہے، اُسے عزت دیں۔“—رومیوں 13:1، 5-7۔
اِسی وجہ سے پہلی صدی عیسوی کے مسیحی خوشی سے ٹیکس ادا کرتے تھے حالانکہ ٹیکس کی زیادہتر رقم فوجی کاموں میں اِستعمال کی جاتی تھی۔ آج یہوواہ کے گواہ بھی خوشی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ * مگر ایک مسیحی ایسے کاموں کے لیے ٹیکس کیوں ادا کرتا ہے جن کی وہ خود حمایت نہیں کرتا؟ کیا اُسے ٹیکس ادا کرتے وقت اپنے ضمیر کی آواز کو نظرانداز کر دینا چاہیے؟
ٹیکس کی ادائیگی اور ضمیر کی آواز
یہ بڑی دلچسپی کی بات ہے کہ پہلی صدی عیسوی کے مسیحی خدا کی ہدایت پر جو ٹیکس ادا کرتے تھے، اُس کا ایک حصہ فوج کو جاتا تھا۔ گاندھی اور تھوُرو کو پتہ تھا کہ اُن دونوں کے ٹیکس کا ایک حصہ فوج کو جائے گا اِسی لیے اُن کا ضمیر اُنہیں ٹیکس ادا کرنے کی اِجازت نہیں دیتا تھا۔
مسیحی رومیوں 13 باب میں لکھے حکم پر ”صرف سزا کے ڈر سے نہیں بلکہ اپنے ضمیر کی وجہ سے بھی“ عمل کرتے ہیں۔ (رومیوں 13:5) دراصل ایک مسیحی کا ضمیر ہی اُسے یہ ترغیب دیتا ہے کہ وہ ٹیکس ادا کرے پھر چاہے اِس ٹیکس کو ایسے کاموں میں اِستعمال کِیا جائے جنہیں وہ خود کرنے سے اِنکار کرتا ہے۔ شاید ہمیں یہ خیال عجیب لگے۔ مگر اِس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اپنے ضمیر کے بارے میں ایک اہم حقیقت جاننی ہوگی۔
تھوُرو کا کہنا تھا کہ ضمیر کی آواز ہر شخص کے اندر ہوتی ہے مگر ضروری نہیں کہ اِس پر بھروسا بھی کِیا جائے۔ اگر ہم خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ضمیر کی تربیت اُس کے معیاروں کے مطابق کرنی چاہیے۔ ہمیں اکثر اپنی سوچ کو خدا کی سوچ کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اُس کی سوچ ہماری سوچ سے کہیں افضل ہے۔ (زبور 19:7) لہٰذا ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خدا اِنسانی حکومتوں کو کیسا خیال کرتا ہے۔
یسوع مسیح کے شاگرد پولُس نے اِنسانی حکومتوں کو ”خدا کے خادم“ کہا۔ (رومیوں 13:6) اِس بات کا کیا مطلب ہے؟ اِس کا یہ مطلب ہے کہ حکومتیں معاشرے میں نظموضبط برقرار رکھتی ہیں اور ایسے کام کرتی ہیں جن سے لوگوں کو فائدہ ہو۔ اکثر کرپٹ سے کرپٹ حکومت بھی اپنے شہریوں کے فائدے کے لیے کئی کام کرتی ہے، مثلاً وہ لوگوں کے خطوں اور چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کی سہولتیں فراہم کرتی ہے، تعلیمی اِدارے قائم کرتی ہے، آگ بجھانے والے عملوں کی سہولت مہیا کرتی ہے اور قانون نافذ کرتی ہے۔ حالانکہ خدا جانتا ہے کہ اِنسانی حکومتوں میں کتنے نقص ہیں لیکن وہ اِنہیں وقتی طور پر برداشت کر رہا ہے اور اُس نے اِنہیں اِنسانوں پر حکومت کرنے کی اِجازت دی ہے۔ اُس نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے کہ ہم اُس کے اِس فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ٹیکس ادا کریں۔
خدا نے اِنسانوں کو حکومت کرنے کی اِجازت تو دی ہے مگر صرف کچھ وقت کے لیے۔ اُس نے یہ طے کِیا ہے کہ وہ تمام اِنسانی حکومتوں کی جگہ اپنی آسمانی حکومت قائم کرے گا اور یوں اُس سارے نقصان کو ٹھیک کر دے گا جو کئی صدیوں سے اِنسانی حکومتوں کی وجہ سے اِنسانوں کو اُٹھانا پڑا ہے۔ (دانیایل 2:44؛ متی 6:10) لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا، خدا ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم ٹیکس دینے سے اِنکار کرنے یا کسی اَور طریقے سے حکومت کے خلاف نہ جائیں۔
لیکن کیا گاندھی کی طرح آپ کو بھی یہ لگتا ہے کہ ٹیکس ادا کرنے سے آپ جنگ کی حمایت کر رہے ہوں گے اور یوں گُناہ کر رہے ہوں گے؟ اِنسانی نظر سے دیکھا جائے تو شاید ایسا لگے۔ لیکن یاد رکھیں کہ خدا کی سوچ اِنسانوں کی سوچ سے کہیں افضل ہے۔ اور کبھی کبھار ہمیں اُس کی سوچ کے مطابق اپنی سوچ کو ڈھالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یسعیاہ نبی نے کہا: ”[یہوواہ] فرماتا ہے کہ میرے خیال تمہارے خیال نہیں اور نہ تمہاری راہیں میری راہیں ہیں۔ کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اُسی قدر میری راہیں تمہاری راہوں سے اور میرے خیال تمہارے خیالوں سے بلند ہیں۔“—یسعیاہ 55:8، 9۔
کیا حکومتوں کے پاس ہر طرح کا اِختیار ہے؟
بےشک بائبل میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہمیں ٹیکس ادا کرنے چاہئیں لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حکومتیں اپنی عوام پر ہر طرح کا اِختیار رکھتی ہیں۔ یسوع مسیح نے بتایا کہ خدا نے اِنسانی حکومتوں کو جو اِختیار دیا ہے، اُس کی ایک حد ہے۔ جب یسوع کے زمانے میں کچھ لوگوں نے اُن سے یہ پوچھا کہ کیا رومی حکومت کو ٹیکس ادا کرنا خدا کی نظر میں جائز ہے تو یسوع نے اُنہیں بڑا ہی زبردست جواب دیا۔ اُنہوں نے کہا: ”جو چیزیں قیصر کی ہیں، قیصر کو دیں اور جو چیزیں خدا کی ہیں، خدا کو دیں۔“—مرقس 12:13-17۔
قیصر سے مُراد حکومتیں ہیں۔ حکومتیں نوٹوں کو چھاپتی اور یہ طے کرتی ہیں کہ کس نوٹ کی کتنی قدر ہے۔ لہٰذا خدا کی نظر میں حکومتوں کا یہ حق ہے کہ وہ لوگوں سے اِن نوٹوں کو ٹیکس کی صورت میں وصول کریں۔ لیکن یسوع مسیح نے یہ بھی بتایا کہ حکومتیں ’خدا کی چیزوں‘ یعنی ہماری زندگی اور عبادت پر حق نہیں جتا سکتیں۔ اِسی لیے جب اِنسانوں کے بنائے قانون خدا کے حکموں سے ٹکراتے ہیں تو مسیحیوں کے لیے ”خدا کا کہنا ماننا اِنسانوں کا کہنا ماننے سے زیادہ ضروری“ ہونا چاہیے۔—اعمال 5:29۔
ہو سکتا ہے کہ آج مسیحی اِس بات سے خوش نہ ہوں کہ اُن کے کچھ ٹیکس کو بُرے کاموں کے لیے اِستعمال کِیا جاتا ہے۔ لیکن وہ نہ تو حکومت کے معاملوں میں دخلاندازی کرتے ہیں اور نہ ہی اُس کی مخالفت کرتے اور ٹیکس دینے سے اِنکار کرتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ایسا کرنے سے وہ یہ ظاہر کریں گے کہ خدا نے اِنسانوں کے مسئلوں کو دُور کرنے کا جو حل سوچا ہے، اُنہیں اُس پر بھروسا نہیں ہے۔ اِس لیے مسیحی صبر سے اُس وقت کا اِنتظار کر رہے ہیں جب خدا اپنے بیٹے کی حکمرانی کے ذریعے اِنسانی حکومتوں کے خلاف کارروائی کرے گا۔ اور یسوع مسیح نے صاف صاف کہا تھا: ”میری بادشاہت کا اِس دُنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“—یوحنا 18:36۔
پاک کلام کے اصولوں پر عمل کرنے کے فائدے
اگر آپ ٹیکس ادا کرنے کے سلسلے میں پاک کلام میں لکھے اصولوں پر عمل کریں گے تو آپ کو بہت سے فائدے ہوں گے۔ مثال کے طور پر آپ اُس سزا سے بچ جائیں گے جو قانون توڑنے والوں کو ملتی ہے۔ (رومیوں 13:3-5) سب سے بڑھ کر خدا کے سامنے آپ کا ضمیر صاف رہے گا اور حکومت کے بنائے قوانین پر عمل کرنے سے آپ اُس کی بڑائی کر رہے ہوں گے۔ شاید آپ دیکھیں کہ آپ کو ٹیکس ادا کرنے کی وجہ سے کچھ مالی نقصان اُٹھانا پڑا ہے جبکہ اُن لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا جو ٹیکس ادا نہیں کرتے یا اِس میں ہیر پھیر کرتے ہیں۔ مگر خدا کے اِس وعدے پر بھروسا رکھیں کہ وہ اپنے اُن بندوں کا خیال رکھتا ہے جو اُس کی بات مانتے ہیں۔ داؤد نبی کو بھی خدا کے اِس وعدے پر بھروسا تھا اور اُنہوں نے کہا: ”مَیں جوان تھا اور اب بوڑھا ہوں تو بھی مَیں نے صادق کو بےکس اور اُس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا۔“—زبور 37:25۔
ٹیکس کے بارے میں بائبل کے اصولوں کو سمجھنے اور اِن پر عمل کرنے سے آپ کو ایک اَور فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کو ذہنی سکون حاصل ہوگا۔ یقین مانیں کہ جس طرح حکومت آپ کو اُن کاموں کے لیے قصوروار نہیں ٹھہراتی جو آپ کا مالکِ مکان آپ کے کرایے کے پیسوں سے کرتا ہے اُسی طرح یہوواہ آپ کو اُن کاموں کے لیے قصوروار نہیں ٹھہرائے گا جو حکومت آپ کے ٹیکس کے پیسوں سے کرتی ہے۔ ذرا جنوبی یورپ میں رہنے والے سٹیلویو نامی آدمی کے تجربے پر غور کریں جو پاک کلام کی سچائیاں سیکھنے سے پہلے سیاسی نظام میں تبدیلی لانے کی جیتوڑ کوشش کر رہا تھا۔ اُس نے کہا: ”مجھے یہ ماننا پڑا کہ اِنسان اِس قابل نہیں کہ اِنصاف، امن اور اِتحاد کو قائم کر سکے۔ صرف خدا کی بادشاہت ہی ایک بہترین معاشرہ قائم کر سکتی ہے۔“
اگر سٹیلویو کی طرح آپ بھی پوری ایمانداری سے ’خدا کی چیزیں، خدا کو دیں گے‘ تو خدا کی بادشاہت پر آپ کا بھی بھروسا مضبوط ہوگا۔ آپ وہ وقت دیکھ پائیں گے جب خدا پوری زمین پر حکومت کرے گا اور اُس نقصان کو ٹھیک کر دے گا جو اِنسانی حکومتوں کی وجہ سے پہنچا ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 6 اِس بارے میں مزید جاننے کے لیے کہ ٹیکس ادا کرنے کے سلسلے میں یہوواہ کے گواہوں کا کیا ریکارڈ رہا ہے، ”مینارِنگہبانی،“ 1 نومبر 2002ء، صفحہ نمبر 12، پیراگراف نمبر 15 کو اور ”مینارِنگہبانی،“ 1 جون 1996ء، صفحہ نمبر 15، پیراگراف نمبر 7 کو دیکھیں۔
[صفحہ نمبر 22 پر عبارت]
ہمیں اپنی سوچ کو خدا کی سوچ کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے کیونکہ اُس کی سوچ ہماری سوچ سے کہیں افضل ہے۔
[صفحہ نمبر 23 پر عبارت]
ایمانداری سے ٹیکس ادا کرنے سے ایک مسیحی کا ضمیر خدا کے سامنے صاف رہتا ہے اور وہ اِس بات پر اپنا بھروسا ظاہر کرتا ہے کہ خدا اُس کی ضرورتیں پوری کرے گا۔
[صفحہ نمبر 22 پر تصویر]
”جو چیزیں قیصر کی ہیں، قیصر کو دیں اور جو چیزیں خدا کی ہیں، خدا کو دیں۔“
Copyright British Museum