اعمال 26‏:1‏-‏32

  • پولُس، اگرِپا کے سامنے صفائی پیش کرتے ہیں (‏1-‏11‏)‏

  • پولُس شاگرد کیسے بنے (‏12-‏23‏)‏

  • فیستُس اور اگرِپا کا ردِعمل (‏24-‏32‏)‏

26  اگرِپا نے پولُس سے کہا:‏ ”‏تمہیں اپنی صفائی پیش کرنے کی اِجازت ہے۔“‏ پولُس نے ہاتھ سے اِشارہ کِیا اور کہا:‏ 2  ‏”‏بادشاہ اگرِپا، مَیں بہت خوش ہوں کہ مجھے آپ کے سامنے اُن اِلزامات کی صفائی پیش کرنے کا موقع ملا ہے جو یہودیوں نے مجھ پر لگائے ہیں 3  کیونکہ آپ یہودیوں کی روایتوں اور اِختلافات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ لہٰذا مَیں آپ سے اِلتجا کرتا ہوں کہ میری بات سنیں۔‏ 4  جو یہودی پہلے سے مجھ سے واقف ہیں، وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مَیں نے بچپن سے اپنی قوم کے درمیان اور یروشلیم میں کس طرح کی زندگی گزاری ہے۔ 5  اُنہیں علم ہے کہ مَیں ایک فریسی تھا یعنی اُس فرقے سے تعلق رکھتا تھا جو ہمارے مذہب کی سختی سے پابندی کرتا ہے۔ اور اگر وہ چاہیں تو وہ اِس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ 6  مجھ پر اِس لیے مُقدمہ چلایا جا رہا ہے کیونکہ مجھے اُمید ہے کہ وہ وعدہ پورا ہوگا جو خدا نے ہمارے باپ‌دادا سے کِیا تھا۔ 7  اور یہی اُمید ہمارے 12 قبیلوں کو بھی ہے اِسی لیے تو وہ دن رات لگن سے خدا کی خدمت کرتے ہیں۔ بادشاہ سلامت، اِسی اُمید کی بِنا پر یہودیوں نے مجھ پر اِلزامات عائد کیے ہیں۔‏ 8  یہ بات آپ لوگوں کے لیے اِس قدر ناقابلِ‌یقین کیوں ہے کہ خدا مُردوں کو زندہ کرے گا؟ 9  ایک زمانے میں میرا خیال تھا کہ مجھے ہر طرح سے یسوع ناصری کے نام کی مخالفت کرنی چاہیے۔ 10  اور مَیں نے یروشلیم میں بالکل یہی کِیا۔ مَیں نے بہت سے مُقدسوں کو قید کرایا کیونکہ مجھے اعلیٰ کاہنوں کی طرف سے ایسا کرنے کا اِختیار ملا تھا۔ اور جب اُن کو سزائے‌موت سنائی گئی تو مَیں نے اِس کے حق میں ووٹ دیا۔ 11  میری کوشش تھی کہ وہ اپنے ایمان سے پھر جائیں اِس لیے مَیں نے تمام عبادت‌گاہوں میں اُنہیں سزا دی۔ مجھے اُن پر اِتنا غصہ تھا کہ مَیں اُن کو اذیت پہنچانے کے لیے دوسرے شہروں میں بھی گیا۔‏ 12  اِسی کام کے لیے مَیں دمشق جا رہا تھا کیونکہ اعلیٰ کاہنوں نے مجھے حکم اور اِختیار دیا تھا۔ 13  لیکن بادشاہ سلامت، پھر راستے میں دوپہر کے وقت میرے اور میرے ساتھیوں کے اِردگِرد آسمان سے ایسی روشنی چمکی جو سورج کی روشنی سے بھی زیادہ تیز تھی۔ 14  ہم سب زمین پر گِر گئے اور مجھے ایک آواز سنائی دی جس نے عبرانی زبان میں مجھ سے کہا:‏ ”‏ساؤل، ساؤل، آپ مجھے اذیت کیوں پہنچا رہے ہیں؟ اگر آپ اُس لاٹھی*‏ کو ٹھوکر مارتے رہیں گے جس سے آپ کو ہانکا جا رہا ہے تو آپ کو نقصان ہوگا۔“‏ 15  لیکن مَیں نے پوچھا:‏ ”‏جناب، آپ کون ہیں؟“‏ اُس نے جواب دیا:‏ ”‏مَیں یسوع ہوں جسے آپ اذیت پہنچا رہے ہیں۔ 16  اُٹھ کر اپنے پیروں پر کھڑے ہوں۔ مَیں آپ پر اِس لیے ظاہر ہوا ہوں کہ آپ کو خادم اور گواہ کے طور پر چُنوں اور یوں آپ کے ذریعے لوگوں کو وہ باتیں بتاؤں جو آپ نے میرے بارے میں دیکھی ہیں اور آئندہ بھی دیکھیں گے۔ 17  مَیں آپ کو اِس قوم اور اُن قوموں سے بچاؤں گا جن کے پاس مَیں آپ کو بھیج رہا ہوں 18  تاکہ آپ اُن کی آنکھیں کھولیں اور اُنہیں تاریکی سے روشنی میں لائیں اور شیطان کے اِختیار سے نکال کر خدا کی طرف لائیں۔ اِس طرح وہ گُناہوں کی معافی حاصل کر سکیں گے اور اُن لوگوں کے ساتھ وراثت پا سکیں گے جنہیں مجھ پر ایمان رکھنے کی وجہ سے مُقدس ٹھہرایا گیا ہے۔“‏ 19  بادشاہ اگرِپا، مَیں نے اِس رُویا کو نظرانداز نہیں کِیا 20  بلکہ مَیں نے پہلے تو دمشق میں اور پھر یروشلیم اور سارے یہودیہ میں اور دوسری قوموں میں بھی یہ پیغام سنایا کہ لوگوں کو توبہ کرنی چاہیے اور خدا کی طرف آنے کے لیے ایسے کام کرنے چاہئیں جن سے ثابت ہو کہ اُنہوں نے توبہ کر لی ہے۔ 21  اِسی وجہ سے یہودیوں نے ہیکل*‏ میں مجھے پکڑ لیا اور قتل کرنے کی کوشش کی۔ 22  لیکن مجھے خدا کی مدد حاصل ہے۔ اِس لیے مَیں آج تک چھوٹوں اور بڑوں سب کو اُن پیش‌گوئیوں کے بارے میں بتا رہا ہوں جو موسیٰ اور دوسرے نبیوں نے کی تھیں 23  کہ مسیح اذیت اُٹھائے گا اور مُردوں میں سے سب سے پہلے زندہ ہو کر اِس قوم اور دوسری قوموں کو روشنی کا پیغام دے گا۔“‏ 24  پولُس اپنی صفائی میں یہ باتیں کہہ ہی رہے تھے کہ فیستُس نے اُونچی آواز میں کہا:‏ ”‏پولُس، تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے!‏ اِتنا زیادہ علم حاصل کر کے تُم پاگل ہو گئے ہو!‏“‏ 25  لیکن پولُس نے کہا:‏ ”‏مُعزز فیستُس، میرا دماغ خراب نہیں ہے بلکہ مَیں سچائی اور سمجھ‌داری کی باتیں کر رہا ہوں۔ 26  حقیقت تو یہ ہے کہ جس بادشاہ سے مَیں مخاطب ہوں، وہ اِن باتوں سے اچھی طرح واقف ہے بلکہ مجھے پورا یقین ہے کہ وہ اِن باتوں سے باخبر ہے کیونکہ یہ کسی کونے میں نہیں ہوئیں۔ 27  بادشاہ اگرِپا، کیا آپ نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں؟ مَیں جانتا ہوں کہ آپ ایمان رکھتے ہیں۔“‏ 28  تب اگرِپا نے کہا:‏ ”‏تُم تو تھوڑی سی دیر میں مجھے مسیحی بننے پر قائل کر لو گے۔“‏ 29  اِس پر پولُس نے کہا:‏ ”‏چاہے تھوڑی دیر لگے یا زیادہ، میری دُعا ہے کہ نہ صرف آپ بلکہ وہ سب لوگ بھی جو میری باتیں سُن رہے ہیں، میری طرح بن جائیں لیکن اِن زنجیروں کے بغیر۔“‏ 30  پھر بادشاہ کھڑا ہو گیا اور حاکم اور برنیکے اور اُن کے ساتھ بیٹھے دوسرے آدمی بھی کھڑے ہو گئے۔ 31  لیکن جب وہ دربار سے باہر جا رہے تھے تو وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے:‏ ”‏اِس آدمی نے کوئی ایسا کام نہیں کِیا کہ اِسے قید میں ڈالا جائے یا سزائے‌موت دی جائے۔“‏ 32  اور اگرِپا نے فیستُس سے کہا:‏ ”‏اگر اِس آدمی نے قیصر سے اپیل نہ کی ہوتی تو اِسے رِہا کِیا جا سکتا تھا۔“‏

فٹ‌ نوٹس

یا ”‏آنکڑا؛ آنکس“‏
یعنی خدا کا گھر