لُوقا 18‏:1‏-‏43

  • بیوہ اور منصف (‏1-‏8‏)‏

  • فریسی اور ٹیکس وصول کرنے والا (‏9-‏14‏)‏

  • یسوع اور ننھے بچے (‏15-‏17‏)‏

  • ایک حاکم کا سوال (‏18-‏30‏)‏

  • یسوع کی موت کے متعلق دوبارہ پیش‌گوئی (‏31-‏34‏)‏

  • اندھا فقیر دیکھنے لگتا ہے (‏35-‏43‏)‏

18  پھر یسوع نے اپنے شاگردوں کو ایک مثال دی تاکہ وہ ہمیشہ دُعا کرنے اور ہمت نہ ہارنے کی اہمیت سمجھ جائیں۔ 2  اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ایک شہر میں ایک منصف تھا جسے نہ تو خدا کا خوف تھا اور نہ ہی لوگوں کی پرواہ۔ 3  اُسی شہر میں ایک بیوہ بھی رہتی تھی۔ وہ بار بار اُس منصف کے پاس جا کر کہتی:‏ ”‏میرے مخالف نے میرے خلاف مُقدمہ کِیا ہے۔ مجھے اِنصاف دِلائیں۔“‏ 4  کچھ عرصے کے لیے تو اُس منصف نے بیوہ کی مدد نہیں کی۔ لیکن پھر اُس نے خود سے کہا:‏ ”‏حالانکہ مَیں خدا سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی کسی کی پرواہ کرتا ہوں 5  لیکن مَیں اِس بیوہ کو ضرور اِنصاف دِلاؤں گا کیونکہ یہ بار بار آ کر مجھے تنگ کرتی ہے ورنہ تو یہ میرا سر کھاتی رہے گی۔“‏ “‏ 6  اِس کے بعد ہمارے مالک نے کہا:‏ ”‏غور کریں کہ اُس منصف نے کیا کہا حالانکہ وہ بُرا تھا۔ 7  تو پھر کیا خدا اپنے چُنے ہوئے لوگوں کو اِنصاف نہیں دِلائے گا جو دن رات اُس سے اِلتجا کرتے ہیں؟ بلکہ وہ تو اُن کے ساتھ صبر سے پیش آئے گا۔ 8  مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ وہ اُن کو جلد اِنصاف دِلائے گا۔ لیکن جب اِنسان کا بیٹا*‏ آئے گا تو کیا وہ زمین پر اِس طرح کا ایمان پائے گا؟“‏ 9  وہاں بعض لوگ تھے جو خود کو بڑا نیک سمجھتے تھے لیکن دوسروں کو ناچیز خیال کرتے تھے۔ اُن کو یسوع نے یہ مثال دی:‏ 10  ‏”‏دو آدمی دُعا کرنے کے لیے ہیکل*‏ میں گئے۔ ایک آدمی فریسی تھا جبکہ دوسرا ٹیکس وصول کرنے والا تھا۔ 11  فریسی نے کھڑے ہو کر دل ہی دل میں یہ دُعا کی:‏ ”‏اَے خدا، مَیں تیرا شکر کرتا ہوں کہ مَیں دوسروں کی طرح لُٹیرا، بُرا اور زِناکار نہیں ہوں اور اِس ٹیکس وصول کرنے والے کی طرح بھی نہیں ہوں۔ 12  مَیں تو ہفتے میں دو بار روزہ رکھتا ہوں اور اپنی ہر چیز کا دسواں حصہ*‏ ادا کرتا ہوں۔“‏ 13  لیکن ٹیکس وصول کرنے والا دُور ہی کھڑا رہا۔ اُس نے آسمان کی طرف دیکھنے کی جُرأت بھی نہیں کی بلکہ وہ بار بار اپنی چھاتی پیٹ رہا تھا اور کہہ رہا تھا:‏ ”‏اَے خدا، مجھ پر رحم کر۔ مَیں بڑا گُناہ‌گار ہوں۔“‏ 14  مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ جب یہ آدمی ہیکل سے نکلا تو وہ خدا کی نظر میں فریسی کی نسبت زیادہ نیک ثابت ہوا کیونکہ جو اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے، اُس کو چھوٹا کِیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا خیال کرتا ہے، اُس کو بڑا کِیا جائے گا۔“‏ 15  لوگ اپنے ننھے بچوں کو یسوع کے پاس لا رہے تھے تاکہ وہ اُن پر ہاتھ رکھیں۔ لیکن جب شاگردوں نے یہ دیکھا تو وہ اُن کو ڈانٹنے لگے۔ 16  مگر یسوع نے اِشارہ کِیا کہ بچوں کو اُن کے پاس لایا جائے اور کہا:‏ ”‏بچوں کو میرے پاس آنے دیں، اُن کو نہ روکیں کیونکہ خدا کی بادشاہت ایسے لوگوں کی ہے جو اِن چھوٹے بچوں کی طرح ہیں۔ 17  مَیں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ جو شخص خدا کی بادشاہت کو اِس طرح قبول نہیں کرتا جس طرح چھوٹے بچے کسی چیز کو قبول کرتے ہیں، وہ اِس میں داخل نہیں ہوگا۔“‏ 18  ایک حاکم نے یسوع سے پوچھا:‏ ”‏اچھے اُستاد، مجھے کیا کرنا چاہیے تاکہ مجھے ہمیشہ کی زندگی ورثے میں ملے؟“‏ 19  یسوع نے اُس سے کہا:‏ ”‏آپ مجھے کیوں اچھا کہہ رہے ہیں؟ کوئی اچھا نہیں سوائے خدا کے۔ 20  آپ اِن حکموں کو تو جانتے ہیں کہ ”‏زِنا نہ کرو؛ قتل نہ کرو؛ چوری نہ کرو؛ جھوٹی گواہی نہ دو؛ اپنے ماں باپ کی عزت کرو۔“‏ “‏ 21  اُس نے کہا:‏ ”‏اِن سب حکموں پر تو مَیں بچپن سے عمل کر رہا ہوں۔“‏ 22  یہ سُن کر یسوع نے کہا:‏ ”‏آپ کو ایک اَور کام کرنے کی ضرورت ہے:‏ اپنا مال بیچ کر سارا پیسہ غریبوں کو دے دیں تاکہ آپ آسمان پر خزانہ جمع کریں۔ اور پھر میرے پیروکار بن جائیں۔“‏ 23  جب اُس آدمی نے یہ سنا تو وہ بہت دُکھی ہوا کیونکہ وہ بہت امیر تھا۔‏ 24  یسوع نے اُس کی طرف دیکھا اور کہا:‏ ”‏جن لوگوں کے پاس پیسہ ہے، اُن کے لیے خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا کتنا مشکل ہوگا!‏ 25  دراصل ایک امیر آدمی کے لیے خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا اُتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک اُونٹ کے لیے سوئی کے ناکے سے گزرنا۔“‏ 26  جن لوگوں نے یہ سنا، اُنہوں نے کہا:‏ ”‏پھر کون نجات حاصل کر سکتا ہے؟“‏ 27  یسوع نے جواب دیا:‏ ”‏اِنسانوں کے لیے جو کچھ ناممکن ہے، وہ خدا کے لیے ممکن ہے۔“‏ 28  لیکن پطرس نے کہا:‏ ”‏دیکھیں!‏ ہم نے اپنی ساری چیزیں چھوڑ دی ہیں اور آپ کے پیروکار بن گئے ہیں۔“‏ 29  یسوع نے کہا:‏ ”‏مَیں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ جس شخص نے خدا کی بادشاہت کی خاطر گھر یا بیوی یا بھائی یا والدین یا بچے چھوڑ دیے ہیں، 30  اُسے اِس زمانے میں کثرت سے ملے گا اور آنے والے زمانے میں ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔“‏ 31  پھر یسوع 12 رسولوں کو ایک طرف لے گئے اور اُن سے کہا:‏ ”‏دیکھیں، ہم یروشلیم جا رہے ہیں اور نبیوں نے اِنسان کے بیٹے کے بارے میں جتنی بھی باتیں لکھی ہیں، وہ پوری ہوں گی۔ 32  مثال کے طور پر اُسے غیریہودیوں کے حوالے کِیا جائے گا، اُس کا مذاق اُڑایا جائے گا، اُس کی بے‌عزتی کی جائے گی، اُس پر تھوکا جائے گا، 33  اُسے کوڑے لگوائے جائیں گے اور اِس کے بعد اُسے مار ڈالا جائے گا لیکن تیسرے دن وہ زندہ ہو جائے گا۔“‏ 34  مگر وہ اِن سب باتوں کا مطلب نہیں سمجھے کیونکہ یہ اُن سے پوشیدہ تھیں اِس لیے وہ اِنہیں سمجھ نہیں سکے۔‏ 35  اب یسوع یریحو کے نزدیک پہنچ گئے۔ وہاں سڑک کے کنارے ایک اندھا آدمی بیٹھا بھیک مانگ رہا تھا۔ 36  جب اُس نے بہت سے لوگوں کا شور سنا تو اُس نے پوچھا:‏ ”‏کیا ہو رہا ہے؟“‏ 37  لوگوں نے اُس سے کہا:‏ ”‏یسوع ناصری یہاں سے گزر رہے ہیں۔“‏ 38  یہ سُن کر وہ چلّانے لگا:‏ ”‏یسوع، داؤد کے بیٹے!‏ مجھ پر رحم کریں۔“‏ 39  لیکن جو لوگ بِھیڑ میں آگے آگے تھے، اُنہوں نے اُسے ٹوکا اور کہا:‏ ”‏چپ رہو!‏“‏ مگر وہ اَور بھی اُونچی آواز میں چلّانے لگا:‏ ”‏داؤد کے بیٹے!‏ مجھ پر رحم کریں۔“‏ 40  اِس پر یسوع رُک گئے اور کہنے لگے:‏ ”‏اُسے میرے پاس لائیں۔“‏ جب وہ آدمی یسوع کے پاس آیا تو اُنہوں نے اُس سے پوچھا:‏ 41  ‏”‏آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟“‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مالک، میری آنکھوں کو ٹھیک کر دیں تاکہ مَیں دوبارہ سے دیکھ سکوں۔“‏ 42  یسوع نے کہا:‏ ”‏آپ کی آنکھوں کی روشنی لوٹ آئے۔ آپ اپنے ایمان کی وجہ سے ٹھیک ہو گئے ہیں۔“‏ 43  اور اُس آدمی کو فوراً دوبارہ سے دِکھائی دینے لگا اور وہ خدا کی بڑائی کرتے ہوئے یسوع کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو وہ بھی خدا کی بڑائی کرنے لگے۔‏

فٹ‌ نوٹس

‏”‏الفاظ کی وضاحت‏“‏ کو دیکھیں۔‏
یعنی خدا کا گھر
یا ”‏دہ‌یکی“‏