لُوقا 23‏:1‏-‏56

  • یسوع، پیلاطُس اور ہیرودیس کے سامنے (‏1-‏25‏)‏

  • یسوع اور دو مُجرموں کو سُولی پر لٹکایا جاتا ہے (‏26-‏43‏)‏

    • ‏”‏آپ میرے ساتھ فردوس میں ہوں گے“‏ (‏43‏)‏

  • یسوع کی موت (‏44-‏49‏)‏

  • یسوع کو دفنایا جاتا ہے (‏50-‏56‏)‏

23  پھر وہ سب کے سب اُٹھے اور یسوع کو پیلاطُس کے پاس لے گئے۔ 2  وہاں پہنچ کر وہ یسوع پر اِلزام لگانے لگے کہ ”‏یہ آدمی ہماری قوم کو بغاوت کرنے پر اُکساتا ہے، قیصر کا ٹیکس ادا کرنے سے منع کرتا ہے اور اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ بادشاہ اور مسیح ہے۔“‏ 3  پیلاطُس نے یسوع سے پوچھا:‏ ”‏کیا تُم یہودیوں کے بادشاہ ہو؟“‏ اُنہوں نے جواب دیا:‏ ”‏آپ نے خود ہی کہہ دیا کہ مَیں ہوں۔“‏ 4  پھر پیلاطُس نے اعلیٰ کاہنوں اور باقی لوگوں سے کہا:‏ ”‏میرے خیال میں تو اِس آدمی نے کوئی جُرم نہیں کِیا۔“‏ 5  لیکن وہ اِصرار کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ”‏یہ آدمی تمام یہودیہ میں بلکہ گلیل سے لے کر یہاں تک، سب لوگوں کو اپنی تعلیم سے بھڑکا رہا ہے۔“‏ 6  یہ سُن کر پیلاطُس نے پوچھا کہ ”‏کیا یہ آدمی گلیلی ہے؟“‏ 7  جب اُس کو پتہ چلا کہ یسوع، بادشاہ ہیرودیس کے علاقے سے ہیں تو اُس نے اُن کو ہیرودیس کے پاس بھیج دیا جو اُس وقت یروشلیم میں تھا۔‏ 8  جب ہیرودیس نے یسوع کو دیکھا تو وہ بہت خوش ہوا کیونکہ اُس نے اُن کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا اور وہ بڑے عرصے سے اُن سے ملنا چاہتا تھا۔ دراصل وہ یسوع کو کوئی معجزہ کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔ 9  اِس لیے اُس نے یسوع سے سوال پر سوال پوچھے لیکن اُنہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 10  مگر اعلیٰ کاہنوں اور شریعت کے عالموں نے بار بار اُٹھ کر بڑے جوش سے یسوع پر اِلزام لگائے۔ 11  پھر ہیرودیس اور اُس کے سپاہیوں نے یسوع کی بے‌عزتی کی اور اُن کا مذاق اُڑانے کے لیے اُن کو شان‌دار کپڑے پہنائے اور اُنہیں واپس پیلاطُس کے پاس بھیج دیا۔ 12  اُس دن سے ہیرودیس اور پیلاطُس میں دوستی ہو گئی حالانکہ پہلے اُن میں دُشمنی تھی۔‏ 13  پیلاطُس نے اعلیٰ کاہنوں، پیشواؤں اور باقی لوگوں کو بلوایا 14  اور اُن سے کہا:‏ ”‏تُم اِس آدمی کو میرے پاس لائے اور اِس پر اِلزام لگایا کہ یہ لوگوں کو بغاوت پر اُکساتا ہے۔ لیکن جب مَیں نے تمہارے سامنے اِس سے پوچھ‌گچھ کی تو مَیں نے دیکھا کہ تمہارے اِلزام بے‌بنیاد ہیں۔ 15  اور ہیرودیس بھی اِسی نتیجے پر پہنچے کیونکہ اُنہوں نے اِسے ہمارے پاس واپس بھیج دیا ہے۔ دیکھو!‏ اِس نے کوئی ایسا کام نہیں کِیا جس کے لیے اِسے سزائے‌موت دی جائے۔ 16  اِس لیے مَیں اِس کو کوڑے لگواؤں گا اور پھر رِہا کر دوں گا۔“‏ 17  ‏—‏* 18  لیکن وہاں جمع سب لوگ چلّانے لگے کہ ”‏اِس کو مار ڈالیں*‏ اور برابا کو رِہا کر دیں۔“‏ 19  ‏(‏برابا ایک قیدی تھا جس نے قتل کِیا تھا اور شہر میں لوگوں کو بغاوت پر اُکسایا تھا۔)‏ 20  پیلاطُس، یسوع کو رِہا کرنا چاہتا تھا اِس لیے اُس نے لوگوں سے دوبارہ بات کرنے کی کوشش کی۔ 21  لیکن لوگ چلّانے لگے کہ ”‏اِسے سُولی*‏ دیں!‏ سُولی دیں!‏“‏ 22  پیلاطُس نے ایک بار پھر سے کہا:‏ ”‏مگر کیوں؟ اِس نے کون سا بُرا کام کِیا ہے؟ مجھے تو کوئی ایسی وجہ نہیں ملی جس کی بِنا پر اِسے سزائے‌موت دی جائے۔ اِس لیے مَیں اِسے کوڑے لگوا کر رِہا کر دوں گا۔“‏ 23  یہ سُن کر لوگ اَور بھی اُونچی آواز میں چلّانے لگے اور شدت سے اِصرار کرنے لگے کہ یسوع کو مار ڈالا جائے۔ اُنہوں نے اِتنا ہنگامہ مچایا کہ پیلاطُس نے اُن کی بات مان لی 24  اور فیصلہ کِیا کہ اُن کی درخواست پوری کی جائے۔ 25  اُس نے لوگوں کی درخواست کے مطابق اُس آدمی کو رِہا کر دیا جسے بغاوت اور قتل کے اِلزام میں قید کِیا گیا تھا اور یسوع کو سپاہیوں کے سپرد کر دیا تاکہ وہ اُنہیں مار ڈالیں۔‏ 26  جب سپاہی یسوع کو لے جا رہے تھے تو راستے میں اُنہوں نے شمعون کو پکڑ لیا جو کُرینے کے تھے اور دیہات سے شہر آ رہے تھے۔ اُنہوں نے یسوع کی سُولی شمعون کے کندھوں پر رکھ دی اور اُن کو یسوع کے پیچھے چلنے کو کہا۔ 27  یسوع کے پیچھے بہت سے لوگ آ رہے تھے۔ اُن میں کچھ عورتیں بھی تھیں جو غم کے مارے چھاتی پیٹ رہی تھیں اور ماتم کر رہی تھیں۔ 28  یسوع نے اُن کی طرف مُڑ کر کہا:‏ ”‏یروشلیم کی بیٹیو!‏ میرے لیے مت روؤ بلکہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے روؤ 29  کیونکہ وہ وقت آئے گا جب لوگ کہیں گے:‏ ”‏وہ عورتیں بابرکت ہیں جو بانجھ ہیں اور جن کی گود ہری نہیں ہوئی اور جنہوں نے بچوں کو دودھ نہیں پلایا!‏“‏ 30  پھر لوگ پہاڑوں سے کہیں گے کہ ”‏ہم پر گِر جاؤ!‏“‏ اور ٹیلوں سے کہیں گے کہ ”‏ہمیں چھپا لو!‏“‏ 31  اگر وہ اب یہ کام کر رہے ہیں جبکہ درخت ہرا ہے تو اُس وقت کیا ہوگا جب وہ سُوکھ جائے گا؟“‏ 32  سپاہی دو مُجرموں کو بھی لے جا رہے تھے جنہیں یسوع کے ساتھ سزائے‌موت دی جانی تھی۔ 33  جب وہ اُس جگہ پہنچے جسے کھوپڑی کہتے ہیں تو اُنہوں نے یسوع کو کیلوں کے ساتھ سُولی پر لٹکا دیا اور اُن کی دائیں اور بائیں طرف دونوں مُجرموں کو بھی سُولیوں پر لٹکا دیا۔ 34  لیکن یسوع دُعا کر رہے تھے کہ ”‏باپ، اُن کو معاف کر دے کیونکہ اُن کو پتہ نہیں کہ کیا کر رہے ہیں۔“‏ پھر سپاہیوں نے یسوع کے کپڑے آپس میں تقسیم کرنے کے لیے قُرعہ*‏ ڈالا۔ 35  لوگ وہاں کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے لیکن اُن کے پیشوا ناک چڑھا چڑھا کر کہہ رہے تھے:‏ ”‏اِس نے دوسروں کو بچایا۔ اگر یہ مسیح ہے اور خدا کا چُنا ہوا ہے تو اپنے آپ کو بھی بچائے۔“‏ 36  یہاں تک کہ سپاہیوں نے بھی یسوع کا مذاق اُڑایا۔ اُنہوں نے یسوع کے پاس جا کر اُنہیں کھٹی مے پیش کی 37  اور کہا:‏ ”‏اگر تُو یہودیوں کا بادشاہ ہے تو خود کو بچا لے۔“‏ 38  یسوع کے سر سے اُوپر ایک تختی بھی لگی تھی جس پر یہ لکھا تھا:‏ ”‏یہ یہودیوں کا بادشاہ ہے۔“‏ 39  جن دو مُجرموں کو سُولی دی گئی تھی، اُن میں سے ایک یسوع کو طعنے دینے لگا اور کہنے لگا:‏ ”‏کیا تُو مسیح نہیں؟ تو پھر خود کو بھی بچا اور ہمیں بھی۔“‏ 40  لیکن دوسرے مُجرم نے اُسے جھڑکا اور کہا:‏ ”‏کیا تجھے خدا کا کوئی خوف نہیں جبکہ تجھے وہی سزا ملی ہے جو اِس آدمی کو ملی ہے؟ 41  اور ہمیں تو سزا ملنی بھی چاہیے کیونکہ ہم نے بُرے کام کیے ہیں مگر اِس آدمی نے کوئی بُرا کام نہیں کِیا۔“‏ 42  پھر اُس نے یسوع سے کہا:‏ ”‏یسوع، جب آپ بادشاہ بن جائیں گے*‏ تو مجھے یاد فرمائیں۔“‏ 43  اِس پر یسوع نے اُس سے کہا:‏ ”‏مَیں آج آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ فردوس میں ہوں گے۔“‏ 44  اب دن کا چھٹا گھنٹہ*‏ تھا۔ اچانک سارے ملک میں اندھیرا چھا گیا اور نویں گھنٹے*‏ تک چھایا رہا 45  کیونکہ سورج کی روشنی نہیں رہی۔ پھر مُقدس مقام کا پردہ اُوپر سے نیچے تک پھٹ گیا۔ 46  اور یسوع نے اُونچی آواز میں کہا:‏ ”‏باپ، مَیں اپنا دم*‏ تیرے سپرد کرتا ہوں۔“‏ یہ کہہ کر وہ فوت ہو گئے۔‏* 47  جب وہاں کھڑے فوجی افسر نے یہ سب کچھ دیکھا تو وہ خدا کی بڑائی کرنے لگا اور کہنے لگا:‏ ”‏بے‌شک یہ آدمی نیک تھا۔“‏ 48  اور جب اُن لوگوں نے جو وہاں تماشا دیکھنے آئے تھے، یہ سب کچھ دیکھا تو وہ اپنی چھاتی پیٹتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ 49  یسوع کے جاننے والے کچھ فاصلے پر کھڑے تھے۔ اُنہوں نے بھی یہ سب کچھ دیکھا۔ اُن میں ایسی عورتیں بھی شامل تھیں جو یسوع کے ساتھ گلیل سے آئی تھیں۔‏ 50  اور دیکھو!‏ وہاں ایک آدمی تھا جو یہودیوں کی سب سے بڑی عدالت کا رُکن تھا۔ اُس کا نام یوسف تھا اور وہ بڑا اچھا اور نیک اِنسان تھا۔ 51  ‏(‏یوسف نے عدالت کی اِس سازش اور حرکت کی حمایت کرنے سے اِنکار کر دیا تھا۔)‏ وہ یہودیہ کے شہر ارمتیاہ کے تھے اور خدا کی بادشاہت کا اِنتظار کر رہے تھے۔ 52  وہ پیلاطُس کے پاس گئے اور یسوع کی لاش مانگی۔ 53  پھر اُنہوں نے جا کر لاش اُتاری، اِسے اعلیٰ قسم کے لینن میں لپیٹا اور ایک قبر میں رکھ دیا جو چٹان میں بنوائی گئی تھی۔ اِس سے پہلے اِس قبر میں کسی لاش کو نہیں رکھا گیا تھا۔ 54  اب سبت کی تیاری کا دن تھا اور سبت شروع ہونے والا تھا۔ 55  جو عورتیں یسوع کے ساتھ گلیل سے آئی تھیں، وہ بھی قبر پر گئیں اور دیکھا کہ یسوع کی لاش کو کیسے رکھا گیا ہے۔ 56  پھر وہ مصالحے اور خوشبودار تیل تیار کرنے گئیں۔ لیکن ظاہر سی بات ہے کہ اُنہوں نے شریعت کے حکم کے مطابق سبت کے دن آرام کِیا۔‏

فٹ‌ نوٹس

متی 17:‏21 کے فٹ‌نوٹ کو دیکھیں۔‏
یونانی میں:‏ ”‏اِس کو لے جائیں“‏
‏”‏الفاظ کی وضاحت‏“‏ کو دیکھیں۔‏
‏”‏الفاظ کی وضاحت‏“‏ کو دیکھیں۔‏
یونانی میں:‏ ”‏جب آپ اپنی بادشاہت میں آئیں گے“‏
تقریباً دوپہر بارہ بجے
تقریباً دوپہر تین بجے
یونانی میں:‏ ”‏روح“‏
یا ”‏اُنہوں نے دم توڑ دیا۔“‏