متی 20:1-34
20 کیونکہ آسمان کی بادشاہت ایک زمیندار کی طرح ہے جو صبح سویرے اپنے انگوروں کے باغ کے لیے مزدور ڈھونڈنے نکلا۔
2 جب اُس کو مزدور ملے تو اُس نے اُن کے ساتھ طے کِیا کہ وہ اُن کو پورے دن کے لیے ایک دینار مزدوری دے گا۔ پھر اُس نے اُن کو اپنے انگور کے باغ میں بھیج دیا۔
3 جب زمیندار دن کے تیسرے گھنٹے* باہر گیا تو اُس نے دیکھا کہ بازار میں کچھ آدمی کھڑے ہیں جن کے پاس کام نہیں ہے۔
4 اُس نے اُن سے کہا: ”تُم بھی جا کر میرے انگوروں کے باغ میں کام کرو۔ مَیں تمہیں مناسب مزدوری دوں گا۔“
5 وہ آدمی جا کر کام کرنے لگے۔ زمیندار نے دن کے چھٹے اور نویں گھنٹے* بھی باہر جا کر ایسا ہی کِیا۔
6 تقریباً گیارہویں گھنٹے* وہ پھر باہر گیا اور اُس نے دیکھا کہ کچھ اَور لوگ فارغ کھڑے ہیں۔ اُس نے پوچھا: ”تُم دن بھر فارغ کیوں کھڑے رہے؟“
7 اُنہوں نے جواب دیا: ”کیونکہ کسی نے ہمیں کام پر نہیں لگایا۔“ زمیندار نے کہا: ”تُم بھی جا کر میرے انگوروں کے باغ میں کام کرو۔“
8 جب شام ہوئی تو زمیندار نے اُس آدمی کو بلایا جو کام کی نگرانی کر رہا تھا اور اُس سے کہا: ”مزدوروں کو بلا کر مزدوری دے دو۔ سب سے پہلے اُن کو مزدوری دو جو آخر میں آئے تھے اور سب سے آخر میں اُن کو جو پہلے آئے تھے۔“
9 جب گیارہویں گھنٹے والے مزدور آئے تو اُن کو ایک ایک دینار مزدوری ملی۔
10 اِس لیے سب سے پہلے والے مزدوروں نے سوچا کہ اُن کو زیادہ مزدوری ملے گی۔ لیکن اُن کو بھی ایک دینار ملا۔
11 یہ دیکھ کر وہ زمیندار کے خلاف بڑبڑانے لگے
12 اور کہنے لگے: ”جو آخر میں آئے تھے، اُنہوں نے بس ایک گھنٹہ کام کِیا۔ پھر بھی آپ نے اُن کو اُتنی ہی مزدوری دی جتنی ہمیں دی حالانکہ ہم نے سارا دن تپتی دھوپ میں کام کِیا۔“
13 لیکن زمیندار نے اُن میں سے ایک سے کہا: ”دیکھو بھائی، مَیں تمہارے ساتھ نااِنصافی نہیں کر رہا۔ کیا ہم نے ایک دینار طے نہیں کِیا تھا؟
14 اپنی مزدوری لو اور جاؤ۔ مَیں آخر میں آنے والے کو بھی اُتنی ہی مزدوری دینا چاہتا ہوں جتنی مَیں نے تمہیں دی ہے۔
15 کیا مجھے حق نہیں کہ مَیں اپنی چیزوں کے ساتھ جو چاہے، کروں؟ یا کیا تُم جلتے ہو* کیونکہ مَیں اچھا* ہوں؟“
16 اِسی طرح جو لوگ پہلے ہیں، وہ آخری ہو جائیں گے اور جو آخری ہیں، وہ پہلے ہو جائیں گے۔“
17 جب وہ یروشلیم جا رہے تھے تو یسوع نے 12 شاگردوں سے اکیلے میں کہا:
18 ”دیکھیں! ہم یروشلیم جا رہے ہیں۔ وہاں اِنسان کے بیٹے* کو اعلیٰ کاہنوں اور شریعت کے عالموں کے حوالے کِیا جائے گا اور وہ اُس کو سزائےموت سنائیں گے
19 اور اُسے غیریہودیوں کے حوالے کریں گے جو اُس کا مذاق اُڑائیں گے، اُسے کوڑے لگوائیں گے اور سُولی* پر چڑھائیں گے۔ لیکن تیسرے دن اُسے زندہ کِیا جائے گا۔“
20 پھر زبدی کی بیوی اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ یسوع کے پاس آئی اور جھک کر اُن کی تعظیم کرنے لگی۔ دراصل وہ یسوع سے ایک درخواست کرنا چاہتی تھی۔
21 یسوع نے اُس سے پوچھا: ”آپ کیا چاہتی ہیں؟“ اُس نے کہا: ”وعدہ کریں کہ میرے یہ بیٹے آپ کی بادشاہت میں آپ کی دائیں اور بائیں طرف بیٹھیں گے۔“
22 اِس پر یسوع نے اُن دونوں بھائیوں سے کہا: ”آپ نہیں جانتے کہ آپ کیا مانگ رہے ہیں۔ کیا آپ وہ پیالہ پی سکتے ہیں جو مَیں پینے والا ہوں؟“ اُنہوں نے جواب دیا: ”جی، ہم پی سکتے ہیں۔“
23 یسوع نے اُن سے کہا: ”آپ وہ پیالہ ضرور پئیں گے جو مَیں پینے والا ہوں۔ لیکن یہ میرے ہاتھ میں نہیں کہ کون میری دائیں اور بائیں طرف بیٹھے گا بلکہ میرا باپ اِس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کون کہاں بیٹھے گا۔“
24 جب باقی دس شاگردوں نے یہ سنا تو وہ اُن دونوں بھائیوں پر غصہ کرنے لگے۔
25 لیکن یسوع نے اُن سب کو پاس بلا کر کہا: ”آپ جانتے ہیں کہ دُنیا کے حکمران لوگوں پر حکم چلاتے ہیں اور بڑے آدمی دوسروں پر اِختیار جتاتے ہیں۔
26 مگر آپ کے درمیان ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جو آپ میں بڑا بننا چاہتا ہے، وہ آپ کا خادم بنے
27 اور جو آپ میں اوّل ہونا چاہتا ہے، وہ آپ کا غلام بنے،
28 بالکل ویسے ہی جیسے اِنسان کا بیٹا لوگوں سے خدمت لینے نہیں آیا بلکہ اِس لیے آیا کہ خدمت کرے اور بہت سے لوگوں کے لیے اپنی جان فدیے کے طور پر دے۔“
29 جب وہ یریحو سے نکل رہے تھے تو بہت سے لوگ یسوع کے پیچھے پیچھے آنے لگے۔
30 اور دیکھو! دو اندھے آدمی سڑک کے کنارے بیٹھے تھے۔ جب اُنہوں نے سنا کہ یسوع یہاں سے گزر رہے ہیں تو وہ چلّانے لگے: ”مالک! داؤد کے بیٹے! ہم پر رحم کریں۔“
31 لیکن لوگوں نے اُنہیں ٹوکا اور کہا: ”چپ رہو!“ اِس پر وہ آدمی اَور بھی اُونچی آواز میں چلّانے لگے: ”مالک! داؤد کے بیٹے! ہم پر رحم کریں۔“
32 یسوع رُک گئے اور اُن آدمیوں کو پاس بلا کر کہنے لگے: ”آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟“
33 اُنہوں نے کہا: ”مالک، ہماری آنکھوں کو ٹھیک کر دیں۔“
34 یسوع کو اُن پر بڑا ترس آیا اور اُنہوں نے اُن کی آنکھوں کو چُھوا۔ اور فوراً ہی اُن دونوں کو پھر سے دِکھائی دینے لگا اور وہ یسوع کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔
فٹ نوٹس
^ تقریباً صبح نو بجے
^ تقریباً دوپہر بارہ بجے اور تین بجے
^ تقریباً شام پانچ بجے
^ یونانی میں: ”کیا تمہاری آنکھ بُری ہے“
^ یا ”فیاض“
^ ”الفاظ کی وضاحت“ کو دیکھیں۔
^ ”الفاظ کی وضاحت“ کو دیکھیں۔