متی 22:1-46
22 پھر یسوع نے اُنہیں کچھ اَور مثالیں دیں اور کہا:
2 ”آسمان کی بادشاہت ایک ایسے بادشاہ کی طرح ہے جس نے اپنے بیٹے کی شادی کے سلسلے میں دعوت کا اِنتظام کِیا۔
3 اُس نے اپنے غلاموں کو اُن لوگوں کو بلانے کے لیے بھیجا جنہیں شادی پر بلایا گیا تھا۔ لیکن اُنہوں نے آنے سے اِنکار کر دیا۔
4 پھر اُس نے کچھ اَور غلاموں کو بھیجا اور اُن سے کہا: ”جن لوگوں کو دعوت دی گئی ہے، اُن سے کہو: ”دیکھیں! مَیں نے بیل اور موٹے تازے جانور ذبح کرا کر کھانا پکوایا ہے۔ سب کچھ تیار ہے۔ دعوت پر آ جائیں۔“ “
5 لیکن اُن لوگوں نے غلاموں کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ ایک اپنے کھیت میں چلا گیا، دوسرا اپنے کاروبار پر
6 جبکہ باقیوں نے غلاموں کو پکڑ کر اُنہیں مارا پیٹا اور اُنہیں قتل کر دیا۔
7 اِس پر بادشاہ کو بہت غصہ آیا اور اُس نے اپنی فوجیں بھیج کر اُن قاتلوں کو ہلاک کر دیا اور اُن کا شہر جلا دیا۔
8 پھر اُس نے اپنے غلاموں سے کہا: ”شادی کا کھانا تیار ہے۔ لیکن جن لوگوں کو بلایا گیا تھا، وہ آنے کے لائق نہیں تھے۔
9 اِس لیے شہر سے باہر جانے والی سڑکوں پر جاؤ اور جو کوئی بھی ملے، اُسے شادی پر آنے کی دعوت دو۔“
10 اِس پر غلام سڑکوں پر گئے اور اچھے اور بُرے، ہر طرح کے لوگوں کو لے آئے۔ اور وہ کمرہ جہاں دعوت کا اِنتظام کِیا گیا تھا، مہمانوں سے بھر گیا۔
11 جب بادشاہ مہمانوں کو دیکھنے آیا تو اُس نے دیکھا کہ ایک آدمی نے شادی کے کپڑے نہیں پہنے ہیں۔
12 بادشاہ نے اُس سے کہا: ”بھائی، تُم شادی کے کپڑے پہنے بغیر اِس دعوت میں کیسے آ گئے؟“ وہ آدمی کوئی جواب نہ دے سکا۔
13 پھر بادشاہ نے اپنے خادموں سے کہا: ”اِس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اِسے باہر تاریکی میں پھینک دو۔ وہاں یہ روئے گا اور دانت پیسے گا۔“
14 کیونکہ بہت سے لوگوں کو دعوت دی گئی ہے لیکن کم ہی لوگوں کو چُنا گیا ہے۔“
15 پھر فریسی جا کر سازش کرنے لگے کہ یسوع کو اُن کی اپنی ہی باتوں میں کیسے پھنسایا جائے۔
16 لہٰذا اُنہوں نے اپنے شاگردوں اور ہیرودیس کے حامیوں کو یسوع کے پاس بھیجا۔ اُنہوں نے یسوع سے کہا: ”اُستاد، ہم جانتے ہیں کہ آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور خدا کی راہ کی صحیح تعلیم دیتے ہیں۔ آپ کو اِس بات کی فکر نہیں کہ لوگ آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور نہ ہی آپ کسی کے مرتبے سے متاثر ہوتے ہیں۔
17 اِس لیے ہمیں بتائیں کہ آپ کے خیال میں قیصر کو ٹیکس دینا جائز ہے یا نہیں؟“
18 یسوع نے اُن کی چالاکی جان کر کہا: ”ریاکارو، تُم میرا اِمتحان کیوں لے رہے ہو؟
19 مجھے وہ سکہ دِکھاؤ جو ٹیکس کے طور پر دیا جاتا ہے۔“ اُنہوں نے یسوع کو ایک دینار دیا۔
20 یسوع نے کہا: ”اِس پر کس کی تصویر اور نام نظر آ رہا ہے؟“
21 اُنہوں نے جواب دیا: ”قیصر کا۔“ اِس پر یسوع نے کہا: ”لہٰذا جو چیزیں قیصر کی ہیں، قیصر کو دو اور جو چیزیں خدا کی ہیں، خدا کو دو۔“
22 جب اُنہوں نے یہ بات سنی تو وہ حیران رہ گئے اور وہاں سے چلے گئے۔
23 اُس دن صدوقی جو اِس بات کو نہیں مانتے کہ مُردے زندہ ہوں گے، یسوع کے پاس آئے اور اُن سے پوچھا:
24 ”اُستاد، موسیٰ نے کہا تھا کہ ”اگر کسی آدمی کی اولاد نہ ہو اور وہ مر جائے تو اُس کا بھائی اُس کی بیوی سے شادی کرے اور اپنے بھائی کے لیے اولاد پیدا کرے۔“
25 اب ہمارے ہاں سات بھائی تھے؛ پہلے نے شادی کی اور بےاولاد مر گیا۔ اِس لیے دوسرے نے اُس کی بیوی سے شادی کر لی۔
26 لیکن وہ اپنے بھائی کے لیے اولاد پیدا کیے بغیر مر گیا۔ تیسرے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اور یہ سلسلہ ساتویں بھائی تک جاری رہا۔
27 سب سے آخر میں وہ عورت بھی مر گئی۔
28 جب مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا تو وہ عورت کس کی بیوی ہوگی کیونکہ ساتوں بھائیوں نے اُس سے شادی کی تھی؟“
29 یسوع نے جواب دیا: ”آپ غلطی پر ہیں کیونکہ آپ کو نہ تو صحیفوں کا علم ہے اور نہ ہی خدا کی طاقت کا۔
30 جب مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا تو نہ آدمی شادی کریں گے اور نہ ہی عورتوں کی شادی کروائی جائے گی بلکہ وہ سب آسمان کے فرشتوں کی طرح ہوں گے۔
31 کیا آپ نے پڑھا نہیں کہ خدا نے مُردوں کو زندہ کرنے کے بارے میں کیا کہا؟ اُس نے کہا:
32 ”مَیں ابراہام کا خدا، اِضحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہوں۔“ وہ مُردوں کا نہیں بلکہ زندوں کا خدا ہے۔“
33 یسوع کی باتیں سُن کر لوگ حیران رہ گئے۔
34 جب فریسیوں نے سنا کہ یسوع نے صدوقیوں کی بولتی بند کر دی تو وہ اِکٹھے ہو کر یسوع کے پاس آئے
35 اور شریعت کے ایک ماہر نے یسوع کا اِمتحان لینے کے لیے پوچھا:
36 ”اُستاد، شریعت میں سب سے بڑا حکم کون سا ہے؟“
37 اُنہوں نے جواب دیا: ” ”یہوواہ* اپنے خدا سے اپنے سارے دل، اپنی ساری جان* اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھو۔“
38 یہ سب سے بڑا اور پہلا حکم ہے۔
39 اِس جیسا دوسرا حکم یہ ہے: ”اپنے پڑوسی سے اُسی طرح محبت کرو جس طرح تُم اپنے آپ سے کرتے ہو۔“
40 یہ دونوں حکم شریعت اور نبیوں کی تعلیم کی بنیاد ہیں۔“
41 ابھی فریسی وہیں تھے کہ یسوع نے اُن سے پوچھا:
42 ”آپ مسیح کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ وہ کس کا بیٹا ہے؟“ اُنہوں نے جواب دیا: ”داؤد کا۔“
43 یسوع نے کہا: ”تو پھر داؤد نے خدا کے اِلہام سے اُسے مالک کیوں کہا؟ یاد ہے کہ اُنہوں نے لکھا تھا:
44 ”یہوواہ* نے میرے مالک سے کہا کہ ”میری دائیں طرف بیٹھو جب تک کہ مَیں تمہارے دُشمنوں کو تمہارے پاؤں کے نیچے نہ کر دوں“ “؟
45 اگر داؤد اُسے مالک کہتے ہیں تو وہ اُن کا بیٹا کیسے ہو سکتا ہے؟“
46 کوئی بھی یسوع کی بات کا جواب نہیں دے سکا اور اُس دن کے بعد کسی کو اُن سے سوال پوچھنے کی جُرأت نہ ہوئی۔
فٹ نوٹس
^ ”الفاظ کی وضاحت“ کو دیکھیں۔
^ ”الفاظ کی وضاحت“ کو دیکھیں۔
^ ”الفاظ کی وضاحت“ کو دیکھیں۔