چوتھا سبق
بچوں کو ذمےدار اِنسان بننا سکھائیں
ایک ذمےدار شخص ہونے کا کیا مطلب ہے؟
جو لوگ ذمےدار ہوتے ہیں، اُن پر بھروسا کِیا جا سکتا ہے۔ اگر اُنہیں کوئی کام دیا جائے تو وہ اُسے اچھی طرح سے اور وقت پر پورا کرتے ہیں۔
حالانکہ چھوٹے بچے کچھ زیادہ تو نہیں کر سکتے لیکن وہ پھر بھی ذمےدار بننا سیکھ سکتے ہیں۔ بچوں کی پرورش کے بارے میں ایک کتاب میں بتایا گیا: ”جب بچے 15 مہینے کے ہوتے ہیں تو وہ تب سے ہی ماں باپ کی بات ماننے کے قابل ہوتے ہیں۔ اور جب وہ 18 مہینے کے ہو جاتے ہیں تو اُن میں وہی کام کرنے کی خواہش ہوتی ہے جو اُن کے ماں باپ کر رہے ہوتے ہیں۔“ اِس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے: ”کئی ملکوں میں یہ دستور ہے کہ جب بچے پانچ سے سات سال کے ہو جاتے ہیں تو اُن کے ماں باپ اُنہیں گھر کے چھوٹے چھوٹے کام کرنا سکھانے لگتے ہیں۔ اور حالانکہ بچے چھوٹے ہی ہوتے ہیں پھر بھی وہ اچھے سے کام کر لیتے ہیں۔“
ایک ذمےدار شخص بننا کیوں ضروری ہے؟
کئی نوجوان اپنے دم پر زندگی گزارنے کے لیے اپنے گھر سے الگ رہنے لگتے ہیں۔ لیکن پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ اپنے ماں باپ کے گھر لوٹ آتے ہیں۔ کچھ نوجوان اِس لیے واپس لوٹ آتے ہیں کیونکہ اُن کے ماں باپ نے اُنہیں اُن کے بچپن میں پیسوں کا صحیح اِستعمال کرنا، گھر کے کامکاج کرنا اور اپنی ذمےداریاں نبھانا نہیں سکھایا تھا۔
اِسی لیے ماں باپ کو اپنے بچوں کی بچپن سے ہی تربیت کرنی چاہیے تاکہ وہ بڑے ہو کر اپنی ذمےداریاں پوری کر سکیں۔ اِس سلسلے میں ایک کتاب میں بتایا گیا: ”کچھ ماں باپ اپنے بچوں کے لیے سارے کام کرتے ہیں اور جب بچے 18 سال کے ہو جاتے ہیں تو وہ اُنہیں اپنی مرضی سے جینے کے لیے اُن کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔“
بچوں کو ایک ذمےدار شخص بننا کیسے سکھائیں؟
بچوں کو گھر کے کامکاج کرنے کو دیں۔
پاک کلام کا اصول: ”محنت مشقت کرنے میں ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے۔“—امثال 14:23، اُردو جیو ورشن۔
چھوٹے بچوں کو اپنے ماں باپ کے ساتھ کام کرنا اچھا لگتا ہے۔ لہٰذا اِس بات کا فائدہ اُٹھائیں اور اُنہیں گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنے کو کہیں۔
لیکن کچھ ماں باپ ایسا کرنے سے جھجکتے ہیں کیونکہ اُنہیں لگتا ہے کہ بچوں پر تو ویسے ہی پڑھائی کا اِتنا بوجھ ہے اِس لیے اُنہیں بچوں کو گھر کے کامکاج دینے سے اُن پر اَور بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔
مگر دیکھا گیا ہے کہ جو بچے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں، وہ پڑھائی بھی اچھی طرح سے کر پاتے ہیں۔ گھر کے کام کرنے سے وہ یہ سیکھتے ہیں کہ اُنہیں جو کام دیا گیا ہے، اُنہیں وہ پورا کرنا چاہیے۔ اِس حوالے سے ایک کتاب میں لکھا ہے: ”اگر ہم بچوں سے چھوٹی عمر میں ہاتھ بٹانے کے لیے نہیں کہتے جب اُن میں ایسا کرنے کی خواہش بھی ہوتی ہے تو اُنہیں لگے گا کہ دوسروں کی مدد کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ اُنہیں یہ بھی تاثر مل سکتا ہے کہ اُن کے سارے کام دوسروں کو کرنے چاہئیں۔“
اِس سے پتہ چلتا ہے کہ جب بچے گھر کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں تو وہ لوگوں کی مدد کرنا سیکھتے ہیں اور خودغرض نہیں بنتے۔ساتھ ہی ساتھ اُنہیں اِس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ گھر میں اُن کی بھی اہمیت ہے اور گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا اُن کا فرض ہے۔
بچوں کو سکھائیں کہ غلطیاں کرنے پر انجام بھگتنا پڑتا ہے۔
پاک کلام کا اصول: ”مشورت کو سُن اور اپنی اِصلاح کر، تاکہ آخرکار تُو دانشمند ہو جائے۔“—امثال 19:20، نیو اُردو بائبل ورشن۔
اپنے بچوں کی غلطیوں پر پردہ مت ڈالیں۔ غلطی کرنے پر جو دُکھ یا شرمندگی ہوتی ہے، اُس کا بچے سامنا کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا بچہ غلطی سے کسی کا کوئی نقصان کر دیتا ہے تو اُسے اُس شخص سے معافی مانگنے کے لیے کہیں اور اگر ہو سکے تو اُسے اُس نقصان کی بھرپائی کرنے کو بھی کہیں۔
اگر بچوں کو یہ احساس ہوگا کہ اپنی غلطی کے لیے وہی قصوروار ہیں تو وہ ...
-
اپنی غلطی چھپانے کی بجائے اِسے مانیں گے۔
-
اپنی غلطیوں کا اِلزام دوسروں پر نہیں ڈالیں گے۔
-
اپنی غلطی کے لیے بہانے پیش نہیں کریں گے۔
-
معافی مانگنے کے لیے تیار رہیں گے۔