گھریلو زندگی کو خوشگوار بنائیں | بچوں کی پرورش
اپنے بچے کو جوانی کے دَور کے لیے تیار کریں
مسئلہ
بچے کب بڑے ہو جاتے ہیں، پتہ ہی نہیں چلتا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ آپ کا ننھا منا بچہ آپ کی گود میں تھا۔ لیکن اب وہی بچہ جوانی میں قدم رکھنے والا ہے۔
اِس دَور میں داخل ہوتے ہی بچوں کے جسم میں کچھ تبدیلیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہ پریشان ہو سکتے ہیں۔ آپ اپنے بیٹے یا بیٹی کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ اِس دَور سے کامیابی سے گزر سکے؟
اِن باتوں کو ذہن میں رکھیں
جوانی کے آغاز کی عمر فرق فرق ہوتی ہے۔ کچھ بچوں میں جوانی کی نشانیاں 8 سال کی عمر میں ہی نظر آنے لگتی ہیں جبکہ بعض میں یہ نشانیاں 16 سال کی عمر تک بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔ بچوں کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کے متعلق ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ”ہر بچے میں جوانی کے آغاز کی عمر فرق ہوتی ہے۔“
خوداِعتمادی کم ہو سکتی ہے۔ جو بچے جوان ہو رہے ہوتے ہیں، اُنہیں ہر وقت یہ فکر رہتی ہے کہ وہ اچھے لگیں۔ اِس سلسلے میں جیرڈ * نے کہا: ”مَیں اِس بات کا بڑا خیال رکھتا تھا کہ مَیں کیسا دِکھ رہا ہوں۔ جب مَیں دوسروں کے ساتھ ہوتا تھا تو یہی سوچتا رہتا تھا کہ کہیں مَیں عجیب تو نہیں لگ رہا۔“ اور اگر چہرے پر کیل مہاسے نکل آئیں تو بچے کی خوداِعتمادی اَور کم ہو جاتی ہے۔ 17 سالہ کیلی نے کہا: ”مجھے لگتا تھا کہ کیل مہاسوں کی وجہ سے میرا چہرہ بالکل بدنما ہو گیا ہے۔ مَیں بہت روتی تھی اور خود کو بدصورت سمجھتی تھی۔“
جلدی جوان ہونے والے بچوں کو زیادہ مسئلوں کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ بات خصوصاً اُن لڑکیوں کے معاملے میں سچ ہے جن کی چھاتیاں چھوٹی عمر میں اُبھر آتی ہیں اور اِس وجہ سے اُنہیں چھیڑا جاتا ہے۔ نوجوانوں کی تربیت کے حوالے سے ایک کتاب میں بتایا گیا ہے: ”ایسی لڑکیاں اُن لڑکوں کی گندی نظروں کا بھی شکار ہوتی ہیں جو بالغ ہو چُکے ہوتے ہیں۔“
جوان ہونے کا مطلب سمجھدار ہونا نہیں ہے۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”حماقت لڑکے کے دل سے وابستہ ہے۔“ (امثال 22:15) بچوں کی پرورش کے حوالے سے ایک کتاب میں بتایا گیا ہے: ”ایک لڑکا یا لڑکی شاید دِکھنے میں تو جوان لگے مگر اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس میں اچھے فیصلے کرنے، ذمےداریاں اُٹھانے، اپنے نفس پر قابو رکھنے یا دیگر معاملات میں سمجھداری سے کام لینے کی صلاحیت بھی ہے۔“
آپ کیا کر سکتے ہیں؟
بچے کو پہلے سے ہی جسمانی تبدیلیوں کے بارے میں بتائیں۔ بچے کے ساتھ جوانی سے وابستہ تبدیلیوں کے متعلق بات کریں، مثلاً لڑکیوں کو ماہواری اور لڑکوں کو احتلام کے متعلق بتائیں۔ بچے کے جسم میں آہستہ آہستہ بہت سی تبدیلیاں ہوتی ہیں لیکن یہ دو تبدیلیاں اچانک ہوتی ہیں۔ اِس لیے بچہ پریشان، یہاں تک کہ خوفزدہ بھی ہو سکتا ہے۔ اِن تبدیلیوں کے بارے میں بات کرتے وقت اُسے سمجھائیں کہ اُسے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اِن سے گزر کر ہی ایک شخص بالغ ہوتا ہے۔—پاک کلام کا اصول: زبور 139:14۔
کُھل کر بات کریں۔ جان نامی لڑکے نے کہا: ”میرے والدین نے مجھے یہ تو بتایا کہ میرے جسم میں کون سی تبدیلیاں ہوں گی مگر اُنہوں نے کُھل کر بات نہیں کی۔ کاش وہ ایسا کرتے!“ 17 سالہ ایلانا نے بھی کہا: ”کاش میری امی نے جسمانی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ جذباتی تبدیلیوں کو سمجھنے میں بھی میری مدد کی ہوتی!“ لہٰذا اپنے بچوں کے ساتھ اِس موضوع پر کُھل کر بات کریں، چاہے یہ مشکل ہی کیوں نہ ہو۔—پاک کلام کا اصول: اعمال 20:20۔
بات شروع کرنے کے لیے سوال پوچھیں۔ اپنے بچے کے ساتھ اِس معاملے پر بات شروع کرنے کے لیے اُن نوجوانوں کے بارے میں بات کریں جو اِسی دَور سے گزر رہے ہیں۔ مثلاً آپ اپنی بیٹی سے پوچھ سکتے ہیں: ”کیا آپ کی کلاس میں کسی لڑکی نے آپ کو یہ بتایا ہے کہ اُسے ماہواری شروع ہو گئی ہے؟ کیا سکول میں بچے اُن لڑکیوں کا مذاق اُڑاتے ہیں جن کے جسم میں کچھ خاص تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں؟“ آپ اپنے بیٹے سے پوچھ سکتے ہیں: ”کیا بچے اُن لڑکوں کا مذاق اُڑاتے ہیں جن کی جسمانی نشوونما سُست ہے؟“ جب بچے آپ کے ساتھ یہ بات کرنے لگتے ہیں کہ دوسرے بچوں کو جوانی میں کن تبدیلیوں سے گزرنا پڑ رہا ہے تو شاید اُنہیں اپنے احساسات کے بارے میں بات کرنا زیادہ آسان لگے۔ مگر جب وہ آپ کے ساتھ بات کریں تو پاک کلام کی اِس نصیحت کو یاد رکھیں: ”ہر ایک سننے میں جلدی کرے لیکن بولنے میں جلدی نہ کرے۔“—یعقوب 1:19۔
اپنے بچے کو سمجھداری سے کام لینا سکھائیں۔ (امثال 3:21) جوانی میں بچہ نہ صرف جسمانی اور جذباتی تبدیلیوں سے گزرتا ہے بلکہ اُس کی سمجھ بُوجھ بھی بڑھتی ہے اور وہ آگے چل کر اہم فیصلے کر پاتا ہے۔ لہٰذا اِس عرصے میں آپ اپنے بچے کو اچھے بُرے میں تمیز کرنا سکھائیں۔—پاک کلام کا اصول: عبرانیوں 5:14۔
بات کرنے سے نہ ہچکچائیں۔ جب بچے جوانی میں داخل ہوتے ہیں تو اُنہیں اکثر اپنے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں والدین سے بات کرنا مشکل لگتا ہے۔ لیکن آپ کو اُن سے بات کرنے سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔ ایک کتاب میں بتایا گیا ہے: ”بچے شاید یہ تاثر دیں کہ اُنہیں والدین کی بات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے یا اُنہیں اُن کی باتیں اچھی نہیں لگ رہیں۔ مگر اصل میں وہ اُن کی باتیں اپنے ذہن میں بٹھا رہے ہوتے ہیں۔“
^ پیراگراف 8 اِس مضمون میں فرضی نام اِستعمال کیے گئے ہیں۔