پاک صحیفوں کی روشنی میں | فکرمندی
فکرمندی
فکرمندی ایک ایسا احساس ہے جس کا فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ پاک کلام میں فکرمندی کے اِن دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کیا فکرمند ہونا کوئی عجیب بات ہے؟
حقیقت
یہ ہے کہ ایک فکرمند شخص بےچینی، گھبراہٹ اور خدشات کا شکار رہتا ہے۔ ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جہاں کب کیا ہو جائے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ اِس لیے ہم میں سے کوئی بھی کسی بھی وقت فکروں کے بھنور میں پھنس سکتا ہے۔
پاک صحیفوں کی تعلیم:
بادشاہ داؤد نے کہا: ”میری جان کب تک پریشانیوں میں مبتلا رہے، میرا دل کب تک روز بہ روز دُکھ اُٹھاتا رہے؟“ (زبور 13:2، اُردو جیو ورشن) داؤد اِس صورتحال سے کیسے نمٹے؟ اُنہوں نے خدا کے سامنے اپنا دل اُنڈیل دیا کیونکہ اُنہیں یقین تھا کہ خدا اُن سے محبت کرتا ہے۔ (زبور 13:5؛ 62:8) دراصل خدا خود ہمیں کہتا ہے کہ ہم اُس کے سامنے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکتے ہیں۔ اُس کے کلام میں لکھا ہے: ”اپنی ساری پریشانیاں اُس پر ڈال دیں کیونکہ اُس کو آپ کی فکر ہے۔“—1-پطرس 5:7۔
اکثر ہم کچھ عملی قدم اُٹھانے سے اپنی فکروں اور پریشانیوں کو دُور کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر یسوع مسیح کے پیروکار پولُس کو ”کلیسیاؤں (یعنی جماعتوں) کی فکر ستاتی رہتی“ تھی۔ (2-کُرنتھیوں 11:28) اِس لیے اُنہوں نے اُن جماعتوں کی حوصلہافزائی اور مدد کرنے کے لیے سخت محنت کی۔ اِس لحاظ سے پولُس کی فکرمندی بہت فائدہمند ثابت ہوئی کیونکہ اِس سے اُنہیں دوسروں کی مدد کرنے کی ترغیب ملی۔ اِسی طرح اگر ہم بھی دوسروں کی فکر کرتے ہیں تو ہمیں اُن کے لیے کچھ کرنے کی ترغیب ملے گی۔ لیکن اگر ہم بالکل بےحس یا لاپرواہ ہو جاتے ہیں تو اِس سے ظاہر ہوگا کہ ہمیں دوسروں میں کوئی دلچسپی نہیں۔—امثال 17:17۔
”صرف اپنے فائدے کا ہی نہیں بلکہ دوسروں کے فائدے کا بھی سوچیں۔“—فِلپّیوں 2:4۔
آپ حد سے زیادہ فکرمند ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
حقیقت
یہ ہے کہ لوگوں کو ماضی کی غلطیوں کی فکر، مستقبل کی فکر اور پیسے کی فکر ستاتی رہتی ہے۔ *
پاک صحیفوں کی تعلیم:
ماضی کی غلطیوں کی فکر۔ پہلی صدی عیسوی میں بہت سے لوگ یسوع مسیح کے پیروکار بننے سے پہلے شرابی، لُٹیرے، بدکار اور چور تھے۔ (1-کُرنتھیوں 6:9-11) لیکن اُنہوں نے اپنی زندگیوں کو بدل لیا۔ اُنہوں نے ماضی کے گُناہوں کے بارے میں فکرمند رہنے کی بجائے اِس بات پر بھروسا رکھا کہ خدا اُن پر رحم کرے گا۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”تجھ سے معافی حاصل ہوتی ہے تاکہ تیرا خوف مانا جائے۔“—زبور 130:4، اُردو جیو ورشن۔
مستقبل کی فکر۔ یسوع مسیح نے کہا: ”اگلے دن کی فکر نہ کریں کیونکہ اگلے دن کے اپنے مسئلے ہوں گے۔“ (متی 6:25، 34) دراصل یسوع مسیح یہ بات سمجھا رہے تھے کہ ہمیں صرف آج کی فکر کرنی چاہیے۔ اگر ہم آج کے مسئلوں کے ساتھ آنے والے دن کے مسئلوں کے بارے میں بھی سوچنے لگیں گے تو ہماری پریشانی بڑھ جائے گی۔ اِس کی وجہ سے ہم معاملات کو صحیح طرح سمجھ نہیں پائیں گے اور جلدبازی میں فیصلے کریں گے۔ اِس کے علاوہ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہماری بہت ساری فکریں دراصل بےبنیاد ہوتی ہیں۔
پیسے کی فکر۔ ایک بار ایک دانشمند شخص نے خدا سے اِلتجا کی: ”مجھ کو نہ کنگال کر نہ دولتمند۔“ (امثال 30:8) اُس نے خدا سے ہر حال میں خوش رہنے کی توفیق مانگی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ خدا ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ عبرانیوں 13:5 میں لکھا ہے: ”آپ کی زندگی سے ظاہر ہو کہ آپ کو پیسے سے پیار نہیں ہے بلکہ آپ اُن چیزوں سے مطمئن ہیں جو آپ کے پاس ہیں۔ کیونکہ [خدا] نے کہا ہے کہ ”مَیں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ مَیں تمہیں کبھی ترک نہیں کروں گا۔““ دولت تو ہمارا ساتھ چھوڑ سکتی ہے مگر خدا ہمارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا بشرطیکہ ہم اُس پر بھروسا رکھیں اور سادہ زندگی گزاریں۔
”مَیں نے صادق کو بےکس اور اُس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا۔“—زبور 37:25۔
کیا ہماری فکریں کبھی ختم ہوں گی؟
لوگوں کی رائے:
2008ء میں ایک صحافی ہیرٹ گرین نے اخبار دی گارڈئین میں لکھا: ”ہم فکر و پریشانی کے ایک نئے دَور میں داخل ہو رہے ہیں۔“ 2014ء میں رپورٹر پیٹرک اوکونر نے رسالے دی وال سٹریٹ میں لکھا: ”امریکی لوگ جتنی پریشانیوں کا شکار اب ہیں، پہلے کبھی نہیں تھے۔“
پاک صحیفوں کی تعلیم:
”آدمی کا دل فکرمندی سے دب جاتا ہے لیکن اچھی بات سے خوش ہوتا ہے۔“ (امثال 12:25) سب سے اچھی بات تو خدا کی بادشاہت کی خوشخبری ہے۔ (متی 24:14) خدا کی بادشاہت جلد ہی وہ کر دِکھائے گی جو ہم کبھی نہیں کر سکتے۔ یہ ہر طرح کی فکر اور پریشانی کا نامونشان مٹا دے گی۔ کیسے؟ یہ بیماری، موت اور ایسے دوسرے مسئلوں کو ختم کر دے گی جو دراصل فکر اور پریشانی کی جڑ ہیں۔ ”[خدا ہمارے] سارے آنسو پونچھ دے گا اور نہ موت رہے گی، نہ ماتم، نہ رونا، نہ درد۔ جو کچھ پہلے ہوتا تھا، وہ سب ختم ہو گیا۔“—مکاشفہ 21:4۔
”خدا جو ہمیں اُمید بخشتا ہے، آپ کو خوشی اور اِطمینان عطا کرے . . . کیونکہ آپ اُس پر بھروسا کرتے ہیں۔“—رومیوں 15:13۔
^ پیراگراف 10 جو لوگ اکثر فکرمند اور پریشان رہنے کی وجہ سے بیمار ہو گئے ہیں، اُنہیں ڈاکٹر سے رُجوع کرنا چاہیے۔ جاگو! کے ناشرین ایسے لوگوں کو کوئی خاص علاج کروانے کا مشورہ نہیں دیتے۔