کیا آپ کی خوراک خطرناک ثابت ہو سکتی ہے؟
امیلی: ”مَیں نے فوراً کھانا چھوڑ دیا۔ مجھے ایک دم سے بہت بےچینی ہونے لگی۔ میرے مُنہ میں جلن ہونے لگی اور میری زبان سُوج گئی۔ میرا سر چکرانے لگا اور میری سانس اُکھڑنے لگی۔ میرے بازوؤں اور گردن پر دانے نکل آئے۔ لیکن مَیں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی پوری کوشش کی کیونکہ مَیں سمجھ گئی تھی کہ مجھے جلد از جلد ہسپتال پہنچنا ہوگا۔“
بہت سے لوگ کھانے پینے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔ لیکن بعض لوگ کچھ کھانوں سے پرہیز کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ امیلی کی طرح اُنہیں کھانے پینے کی کچھ چیزوں سے الرجی ہوتی ہے۔ امیلی کو جو الرجی ہوئی، وہ بہت شدید تھی۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ کھانے پینے کی زیادہتر چیزوں سے اِتنی شدید الرجی نہیں ہوتی۔
پچھلے کچھ سالوں میں ایسے لوگوں کی تعداد میں اِضافہ ہوا ہے جنہیں لگتا ہے کہ اُنہیں کھانے پینے کی کچھ چیزوں سے الرجی ہے یا اُن کا معدہ اِن چیزوں کو برداشت نہیں کر پاتا۔ لیکن تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اصل میں اِن میں سے صرف چند لوگوں کو الرجی ہوتی ہے۔
کچھ کھانوں سے الرجی کیوں ہوتی ہے؟
امریکہ کے ایک طبی رسالے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ”کھانے پینے کی چیزوں سے ہونے والی الرجی کے حوالے سے ماہرین فرق فرق رائے رکھتے ہیں۔“ لیکن زیادہتر ماہرین یہ مانتے ہیں کہ الرجی، مدافعتی نظام (بیماریوں کے خلاف لڑنے والا نظام) کی وجہ سے شروع ہوتی ہے۔
کھانے پینے کی کسی چیز سے ہونے والی الرجی کی وجہ اُس چیز میں موجود پروٹین ہوتی ہے۔ مدافعتی نظام غلطی سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ پروٹین جسم کے لیے نقصاندہ ہے۔ لہٰذا جب یہ پروٹین جسم کے اندر داخل ہوتی ہے تو مدافعتی نظام ایک اینٹیباڈی (ایک قسم کی پروٹین) بناتا ہے جسے امیونوگلوبلینE کہا جاتا ہے۔ یہ اینٹیباڈی جسم میں داخل ہونے والی پروٹین کے خلاف لڑتی ہے۔ پھر جب کوئی شخص دوبارہ وہ کھانا کھاتا ہے جس میں وہ پروٹین ہوتی ہے تو یہ اینٹیباڈی کچھ کیمیکل بناتی ہے جن میں ہسٹامین نامی کیمیکل بھی شامل ہوتا ہے۔
عام طور پر ہسٹامین، مدافعتی نظام میں ایک مفید کردار ادا کرتا ہے۔ اِس لیے ماہرین ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ امیونوگلوبلینE اور پھر ہسٹامین کے بننے کی وجہ سے لوگوں میں الرجی کی علامات کیوں ظاہر ہوتی ہیں۔
اِن معلومات سے واضح ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص پہلی بار کوئی کھانا کھاتا ہے تو شاید اُسے الرجی نہ ہو لیکن جب وہ وہی کھانا دوبارہ کھاتا ہے تو اُسے الرجی ہو جائے۔
معدہ کچھ کھانے برداشت کیوں نہیں کر پاتا؟
جس طرح بعض لوگوں کو کھانے پینے کی کچھ چیزوں سے الرجی ہوتی ہے اُسی طرح بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا معدہ کھانے پینے کی کچھ چیزوں کو برداشت نہیں کر پاتا۔ اِس مسئلے کا تعلق نظامِہضم سے ہوتا ہے، مدافعتی نظام سے نہیں اِس لیے اِس میں کوئی اینٹیباڈیز نہیں بنتیں۔ اصل میں کھانا ہضم نہ ہونے کی وجہ یا تو اینزائم (ایک کیمیائی مادہ) کی کمی ہو سکتی ہے یا پھر کھانے میں موجود کچھ خاص
کیمیکل جو معدے میں آسانی سے جذب نہیں ہوتے۔ اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ کچھ لوگ دودھ میں موجود شکر کو ہضم نہیں کر پاتے کیونکہ اُن کا معدہ وہ اینزائمز نہیں بناتا جو دودھ سے بنی چیزوں میں موجود شکر کو ہضم کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔چونکہ کھانا ہضم نہ ہونے کی صورت میں اینٹیباڈیز نہیں بنتیں اِس لیے اِس کی علامات اُسی وقت ظاہر ہو جاتی ہیں جب ایک شخص پہلی بار کوئی کھانا کھاتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ معدہ اُس کھانے کی تھوڑی بہت مقدار تو ہضم کر لیتا ہے لیکن اگر اِسے زیادہ مقدار میں کھایا جائے تو وہ اِسے برداشت نہیں کر پاتا۔ اِس کے برعکس جن لوگوں کو کھانے پینے کی کسی چیز سے الرجی ہوتی ہے، اُن کے لیے اِس کی تھوڑی سی مقدار بھی جانلیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
علامات
کھانے پینے کی چیزوں سے الرجی کی علامات یہ ہو سکتی ہیں: گلے، آنکھوں یا زبان کی سُوجن، جسم پر دانے، خارش، متلی، اُلٹیاں یا دست۔ جن لوگوں کو شدید الرجی ہوتی ہے، اُن کا بلڈپریشر بہت کم ہو سکتا ہے، اُنہیں چکر آ سکتے ہیں، وہ بےہوش ہو سکتے ہیں، یہاں تک کہ اُن کے دل کی دھڑکن بھی بند ہو سکتی ہے۔ الرجی کی یہ علامات بڑی جلدی شدت اِختیار کر سکتی ہیں اور جانلیوا بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔
الرجی کسی بھی کھانے کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ لیکن عام طور پر یہ اِن چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے: دودھ، انڈے، مچھلی، خولدار جانور (مثلاً جھینگے، کیکڑے)، مونگ پھلی، سویابین، میوہجات (مثلاً بادام، اخروٹ، پستہ، کاجو) اور گندم۔ ایک شخص کو الرجی کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اگر ماں یا باپ میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو کھانے پینے کی کسی چیز سے الرجی ہے تو بچے کو بھی یہ الرجی ہو سکتی ہے۔ مگر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو اُنہیں اُس چیز سے الرجی نہیں رہتی۔
جب معدہ کسی چیز کو برداشت نہیں کر پاتا تو اِس کی علامات عموماً الرجی کی علامات سے کم خطرناک ہوتی ہیں۔ اِس کی علامات یہ ہو سکتی ہیں: پیٹ میں درد ہونا، پیٹ پھول جانا، گیس ہونا، مروڑ پڑنا، سر درد ہونا، جِلد پر دانے ہونا یا تھکن اور بےچینی ہونا۔ لوگوں کا معدہ عام طور پر اِن چیزوں کو برداشت نہیں کر پاتا: دودھ، گندم، گلوٹین (گندم کے آٹے میں موجود پروٹین)، الکوحل اور خمیر۔
علاج
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو کھانے پینے کی کسی چیز سے الرجی ہے یا آپ کا معدہ اِسے برداشت نہیں کر پاتا تو کسی ماہر ڈاکٹر کو چیک کرائیں۔ اگر آپ ڈاکٹر کو چیک کرائے بغیر کچھ کھانوں سے پرہیز کرنا شروع کر دیتے ہیں تو یہ آپ کے لیے نقصاندہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اِس طرح آپ کے جسم کو کچھ ضروری اجزا جیسے کہ وٹامن اور پروٹین وغیرہ نہیں ملیں گے۔
جن لوگوں کو کھانے پینے کی چیزوں سے شدید الرجی ہے، اُن کے لیے کوئی خاص علاج نہیں ہے، سوائے اِس کے کہ وہ اُن چیزوں سے مکمل پرہیز کریں جو الرجی کا باعث بنتی ہیں۔ * مگر جن لوگوں کو زیادہ شدید الرجی نہیں ہے یا جن کا معدہ کھانوں کی تھوڑی بہت مقدار برداشت کر سکتا ہے، وہ اِن کھانوں کو کبھی کبھار اور تھوڑی مقدار میں اِستعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن بعض صورتوں میں ایک شخص کو مکمل طور پر یا کچھ عرصے کے لیے اُس کھانے سے پرہیز کرنا پڑتا ہے جسے اُس کا معدہ ہضم نہیں کر پاتا۔
لہٰذا اگر آپ کو کھانے پینے کی کسی چیز سے الرجی ہے یا آپ کا معدہ اِسے برداشت نہیں کر پاتا تو مایوس نہ ہوں کیونکہ اِس مسئلے سے دوچار بہت سے لوگوں نے دیکھا ہے کہ وہ کئی ایسے کھانوں سے لطف اُٹھا سکتے ہیں جو مزےدار بھی ہیں اور صحتبخش بھی۔
^ پیراگراف 19 ڈاکٹر شدید الرجی والے مریضوں کو اکثر یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ایڈرینالین کا ٹیکہ اپنے پاس رکھیں جسے ہنگامی صورتحال میں لگایا جا سکتا ہے۔ کچھ ڈاکٹر یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ جن بچوں کو الرجی ہے، وہ ہر وقت اپنے پاس کوئی ایسا کارڈ رکھیں یا اپنے ہاتھ میں کوئی ایسا بینڈ پہنیں جس پر لکھا ہو کہ اُنہیں کس چیز سے الرجی ہے۔