مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 14

گیت نمبر 56‏:‏ سچائی کو تھام لیں

‏”‏پختگی کی طرف بڑھیں“‏

‏”‏پختگی کی طرف بڑھیں“‏

‏”‏آئیں،‏ پختگی کی طرف بڑھیں۔“‏‏—‏عبر 6:‏1‏۔‏

غور کریں کہ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏

ایک پُختہ مسیحی وہ ہوتا ہے جو ایسی سوچ رکھتا اور ایسے کام کرتا ہے جن سے یہوواہ خوش ہو۔ وہ سمجھ‌داری سے بھی فیصلے کرتا ہے۔‏

1.‏ یہوواہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟‏

 ایک شوہر اور بیوی کی زندگی میں وہ لمحہ بہت ہی خوشیوں بھرا ہوتا ہے جب وہ اپنے بچے کے پیدا ہونے پر اُسے اپنی گود میں لیتے ہیں۔ حالانکہ اُنہیں اپنا یہ ننھا بچہ بہت ہی معصوم اور پیارا لگتا ہے لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ وہ ساری عمر بچہ ہی رہے۔ اصل میں تو ماں باپ اُس وقت بڑے پریشان ہو جاتے ہیں اگر اُن کا بچہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑا نہیں ہوتا۔ اِسی طرح جب ہم یسوع کی مثال پر عمل کرنے کے لیے پہلا قدم اُٹھاتے ہیں تو ہمارا آسمانی باپ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں چاہتا کہ ہم ساری زندگی روحانی لحاظ سے بچے ہی رہیں۔ (‏1-‏کُر 3:‏1‏)‏ اِس کی بجائے وہ ہم سے کہتا ہے کہ ہم مسیحیوں کے طور پر ”‏بالغ“‏ بنیں۔—‏1-‏کُر 14:‏20‏۔‏

2.‏ اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

2 روحانی لحاظ سے بالغ بننے کا کیا مطلب ہے؟ ہم پُختہ مسیحی بننے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ یہوواہ کی طرف سے ملنے والی ٹھوس غذا پختگی حاصل کرنے میں کیا کردار ادا کرتی ہے؟ اور ہمیں یہ کیوں نہیں سوچنا چاہیے کہ اب ہمیں اَور زیادہ پختگی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ اِس مضمون میں ہم اِن سب سوالوں کے جواب حاصل کریں گے۔‏

پُختہ مسیحی بننے کا کیا مطلب ہے؟‏

3.‏ روحانی لحاظ سے بالغ بننے کا کیا مطلب ہے؟‏

3 بائبل میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏بالغ“‏ کِیا گیا ہے، اُس کا ترجمہ ”‏پُختہ،“‏ ”‏بے‌عیب“‏ اور ”‏مکمل“‏ بھی کِیا جا سکتا ہے۔‏ a (‏1-‏کُر 2:‏6‏)‏ جیسے جیسے یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی بڑھتی ہے، ہم مسیحیوں کے طور پر پُختہ یا بالغ ہوتے جاتے ہیں۔ لیکن چاہے ہم کتنے ہی پُختہ مسیحی کیوں نہ بن جائیں، ہمیں پختگی کی طرف بڑھتے رہنا چاہیے۔ (‏1-‏تیم 4:‏15‏)‏ ہم سبھی پُختہ مسیحی بن سکتے ہیں، یہاں تک کہ نوجوان اور بچے بھی۔ لیکن یہ کیسے پتہ چلتا ہے کہ ہم پُختہ مسیحی ہیں یا نہیں؟‏

4.‏ ایک پُختہ مسیحی کی کیا پہچان ہے؟‏

4 ایک پُختہ مسیحی وہ ہوتا ہے جو یہوواہ کے سب حکموں کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ وہ کن اصولوں پر عمل کرے گا اور کن پر نہیں۔ بے‌شک عیب‌دار ہونے کی وجہ سے وہ غلطیاں بھی کرتا ہے۔ لیکن اُس کی زندگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کی سوچ اور اُس کے کام یہوواہ کی مرضی کے مطابق ہیں۔ اُس نے نئی شخصیت پہنی ہوتی ہے اور وہ اپنی سوچ کو یہوواہ کی سوچ کے مطابق ڈھالنے کی مسلسل کوشش کرتا ہے۔ (‏اِفِس 4:‏22-‏24‏)‏ وہ اچھے فیصلے کرتا ہے اور اِس کے لیے اُسے حکموں کی لمبی چوڑی فہرست کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اُس نے سیکھ لیا ہوتا ہے کہ وہ یہوواہ کے حکموں اور اصولوں کو ذہن میں رکھ کر کیا فیصلہ کرے گا۔ اور پھر جب وہ کوئی فیصلہ کرتا ہے تو وہ اِسے پورا کرنے کے لیے سخت محنت بھی کرتا ہے۔—‏1-‏کُر 9:‏26، 27‏۔‏

5.‏ جو مسیحی روحانی لحاظ سے پُختہ نہیں ہوتے، اُنہیں کن خطروں کا سامنا ہوتا ہے؟ (‏اِفِسیوں 4:‏14، 15‏)‏

5 جو مسیحی پختگی کی طرف نہیں بڑھتے، وہ بڑی آسانی سے اُن لوگوں کے دھوکے میں آ جاتے ہیں جو ”‏چالاکی سے بُرے منصوبے“‏ باندھتے ہیں۔ وہ خدا سے برگشتہ لوگوں کی اور میڈیا کی پھیلائی ہوئی جھوٹی باتوں پر فوراً یقین کر لیتے ہیں۔‏ b ‏(‏اِفِسیوں 4:‏14، 15 کو پڑھیں۔)‏ وہ دوسروں سے حسد کرتے ہیں، جھگڑا کرنے پر اُتر آتے ہیں، فوراً کسی بات پر ناراض ہو جاتے ہیں اور اکثر آزمائش کے آگے گُھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔—‏1-‏کُر 3:‏3‏۔‏

6.‏ ہم پختگی کی طرف بڑھنے کو کس مثال کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

6 جیسے کہ ہم نے پہلے دیکھا تھا، پاک کلام میں روحانی لحاظ سے پُختہ بننے کا موازنہ ایک بچے کے بڑے ہونے سے کِیا گیا ہے۔ ایک بچے میں اِتنی زیادہ سمجھ نہیں ہوتی۔ اِس لیے اُسے کسی بڑے کی ضرورت ہوتی ہے جو اُس کا خیال رکھے اور اُسے اچھے اور بُرے کے بارے میں بتائے۔ اِس بات کو سمجھنے کے لیے ذرا اِس مثال پر غور کریں۔ فرض کریں کہ ایک ماں اپنی بچی کے ساتھ سڑک پار کر رہی ہے۔ اِس دوران وہ اپنی بچی کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کرتی ہے۔ لیکن اب اُس کی بیٹی تھوڑی بڑی ہو گئی ہے اور وہ خود سے سڑک پار کر سکتی ہے۔ مگر پھر بھی اُس کی ماں اُسے یاد دِلاتی ہے کہ وہ سڑک پار کرتے ہوئے دائیں اور بائیں دونوں طرف دیکھے۔ جس طرح چھوٹے بچوں کو خطروں سے بچنے کے لیے کسی بڑے کی ضرورت ہوتی ہے اُسی طرح جو مسیحی پُختہ نہیں ہوتے، اُنہیں اکثر پُختہ مسیحیوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اچھے فیصلے کر سکیں اور ایسی باتوں سے دُور رہ سکیں جن کی وجہ سے یہوواہ کے ساتھ اُن کی دوستی ٹوٹ سکتی ہے۔ لیکن جب وہ خود پُختہ مسیحی بن جاتے ہیں تو کوئی فیصلہ کرتے وقت وہ ایک معاملے کے بارے میں یہوواہ کی سوچ کو جاننے کے لیے پاک کلام کے اصولوں پر سوچ بچار کرتے ہیں اور پھر اِنہی کے مطابق کام کرتے ہیں۔‏

جو مسیحی پُختہ نہیں ہوتے، اُنہیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ بائبل کے اصولوں کے مطابق اچھے فیصلے کیسے کر سکتے ہیں۔ (‏پیراگراف نمبر 6 کو دیکھیں۔)‏


7.‏ کیا پُختہ مسیحیوں کو بھی دوسروں سے مدد لینے کی ضرورت پڑتی ہے؟‏

7 اگر ایک شخص پُختہ مسیحی ہے تو کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ اُسے کبھی کسی سے مدد لینے کی ضرورت نہیں پڑتی؟ ایسا بالکل نہیں ہے۔ کبھی کبھار اُسے بھی دوسروں سے مدد لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو شخص پُختہ مسیحی نہیں ہوتا شاید وہ دوسروں سے یہ توقع کرے کہ وہ اُسے بتائیں کہ اُسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ یا وہ اُس کے لیے ایسے فیصلے کریں جو صرف اُسے ہی کرنے چاہئیں۔ لیکن ایک پُختہ مسیحی دوسروں کی دانش‌مندی اور تجربے سے سیکھتا تو ہے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ اِس بات کو بھی یاد رکھتا ہے کہ یہوواہ اُس سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ ”‏اپنی ذمے‌داری کا بوجھ اُٹھائے۔“‏—‏گل 6:‏5‏۔‏

8.‏ پُختہ مسیحی کس لحاظ سے ایک دوسرے سے فرق ہو سکتے ہیں؟‏

8 جس طرح بالغ ایک دوسرے سے فرق دِکھتے ہیں اُسی طرح پُختہ مسیحیوں میں فرق فرق خوبیاں ہوتی ہیں جیسے کہ دانش‌مندی، دلیری، فراخ‌دلی اور ہمدردی۔ اِس کے علاوہ جب دو پُختہ مسیحیوں کو ایک جیسی صورتحال میں کوئی فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو وہ بائبل کے اصولوں کو ذہن میں رکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ شاید اُن کا فیصلہ تو ایک دوسرے سے فرق ہو لیکن دونوں ہی فیصلے ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ ایسا خاص طور پر اُس وقت ہوتا ہے جب بات ضمیر کی آتی ہے۔ اِسی بات کو یاد رکھتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے فیصلے پر نکتہ‌چینی نہیں کرتے۔ اِس کی بجائے وہ اپنا دھیان اِس بات پر رکھتے ہیں کہ اُن کے بیچ اِتحاد برقرار رہے۔—‏روم 14:‏10؛‏ 1-‏کُر 1:‏10‏۔‏

ہم پُختہ مسیحی بننے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‏

9.‏ کیا ایک شخص خودبخود پُختہ مسیحی بن جاتا ہے؟ وضاحت کریں۔‏

9 ایک بچہ تو خودبخود بڑا ہو جاتا ہے لیکن مسیحیوں میں پختگی خودبخود نہیں آ جاتی۔ مثال کے طور پر کُرنتھس میں رہنے والے مسیحیوں نے خوش‌خبری کو قبول کِیا، بپتسمہ لیا، اُنہیں یہوواہ کی طرف سے پاک روح ملی اور اُنہیں پولُس رسول سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ (‏اعما 18:‏8-‏11‏)‏ لیکن بپتسمہ لینے کے کچھ سال بعد اُن میں سے بہت سے مسیحی ابھی بھی روحانی لحاظ سے بچے تھے۔ (‏1-‏کُر 3:‏2‏)‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے ساتھ ایسا نہ ہو؟‏

10.‏ ہمیں پختگی کی طرف بڑھنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟ (‏یہوداہ 20‏)‏

10 پُختہ مسیحی بننے کے لیے سب سے پہلے تو ہمیں اپنے دل میں ایسا کرنے کی خواہش پیدا کرنی ہوگی۔ جو لوگ ”‏ناتجربہ‌کاری سے محبت کرتے“‏ ہیں، وہ روحانی لحاظ سے ننھے بچے ہی رہنا چاہتے ہیں اور کبھی پختگی کی طرف نہیں بڑھنا چاہتے۔ (‏اَمثا 1:‏22‏، ترجمہ نئی دُنیا‏)‏ ہم کبھی بھی اُن لوگوں کی طرح نہیں بننا چاہتے جو قد سے تو بڑے ہو جاتے ہیں لیکن ابھی بھی یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے ماں باپ اُن کے لیے فیصلے کریں۔ اِس کی بجائے ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری ذمے‌داری ہے کہ ہم یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو اَور مضبوط کرتے جائیں۔ ‏(‏یہوداہ 20 کو پڑھیں۔)‏ اگر آپ ابھی بھی پختگی کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہوواہ سے دُعا کریں کہ وہ آپ میں ایسا کرنے کی ”‏خواہش اور طاقت پیدا“‏ کرے۔—‏فِل 2:‏13‏۔‏

11.‏ یہوواہ پُختہ مسیحی بننے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟ (‏اِفِسیوں 4:‏11-‏13‏)‏

11 یہوواہ ہم سے یہ توقع نہیں کرتا کہ ہم خود ہی پُختہ مسیحی بن جائیں۔ اُس نے ہمیں کلیسیا میں ایسے نگہبان اور اُستاد دیے ہیں جو ہماری مدد کرتے ہیں تاکہ ہم ”‏مسیح کی طرح مکمل طور پر پُختہ“‏ بن جائیں۔ ‏(‏اِفِسیوں 4:‏11-‏13 کو پڑھیں۔)‏ اِس کے علاوہ یہوواہ نے ہمیں اپنی پاک روح دی ہے جس کی مدد سے ہم ”‏مسیح کی سوچ“‏ اپنا سکتے ہیں۔ (‏1-‏کُر 2:‏14-‏16‏)‏ اُس نے اپنی پاک روح کے ذریعے چار اِنجیلیں لکھوائی ہیں جن سے ہم یسوع مسیح کی سوچ، اُن کی باتوں اور اُن کے کاموں کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ اگر آپ یسوع مسیح کی طرح سوچیں گے اور وہ کام کریں گے جو یسوع مسیح نے کیے تو آپ پختگی کی طرف بڑھ پائیں گے۔‏

یہوواہ کی طرف سے ملنے والی ٹھوس غذا کا کردار

12.‏ ”‏مسیح کے متعلق اِبتدائی تعلیمات“‏ کیا ہیں؟‏

12 پختگی کی طرف بڑھنے کے لیے ہمیں ”‏مسیح کے متعلق اِبتدائی تعلیمات سے آگے“‏ بڑھنا ہوگا یعنی اُن تعلیمات سے جو ہم نے شروع شروع میں سیکھی تھیں۔ (‏عبر 6:‏1، 2‏)‏ اِن اِبتدائی تعلیمات میں سے کچھ یہ ہیں:‏ بُرے کاموں سے توبہ کرنا، خدا پر ایمان لانا، بپتسمہ لینا اور مُردوں کا زندہ ہو جانا۔ یہ باتیں ہماری تعلیمات کی بنیاد ہیں۔ اِسی لیے تو پطرس رسول نے پنتِکُست پر لوگوں کو مُنادی کرتے وقت اِن تعلیمات کا ذکر کِیا تھا۔ (‏اعما 2:‏32-‏35،‏ 38‏)‏ مسیح کا شاگرد بننے کے لیے ہمیں اِن بنیادی تعلیمات کو قبول کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر پولُس رسول نے بتایا کہ اگر ایک شخص مُردوں کے زندہ ہو جانے پر ایمان نہیں رکھتا تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مسیح کا شاگرد ہے۔ (‏1-‏کُر 15:‏12-‏14‏)‏ لیکن ہمیں صرف اِن بنیادی سچائیوں کو سیکھ کر ہی مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے۔‏

13.‏ عبرانیوں 5:‏14 میں جس ٹھوس غذا کا ذکر ہوا ہے، اُس سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

13 بنیادی تعلیمات کے برعکس ٹھوس غذا میں صرف خدا کے حکم ہی شامل نہیں ہے بلکہ اِس میں خدا کے اصول بھی شامل ہیں جن سے ہم اُس کی سوچ کو سمجھ سکتے ہیں۔ اِس غذا سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں بائبل کا مطالعہ کرنا چاہیے، اِس میں لکھی باتوں پر گہرائی سے سوچنا چاہیے اور پھر اِن باتوں پر عمل بھی کرنا چاہیے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم سیکھ پائیں گے کہ ہم ایسے فیصلے کیسے کر سکتے ہیں جن سے یہوواہ خدا خوش ہو۔‏ c‏—‏عبرانیوں 5:‏14 کو پڑھیں۔‏

یہوواہ کی طرف سے ملنے والی ٹھوس غذا کے ذریعے ہم ایسے فیصلے کرنا سیکھ جاتے ہیں جن سے یہوواہ خوش ہوتا ہے۔ (‏پیراگراف نمبر 13 کو دیکھیں۔)‏ d


14.‏ پولُس رسول نے اُن مسیحیوں کی پختگی کی طرف بڑھنے میں مدد کیسے کی جو کُرنتھس میں رہتے تھے؟‏

14 جو مسیحی پُختہ نہیں ہوتے، اُنہیں اُس وقت فیصلے کرتے ہوئے بہت مشکل ہوتی ہے جب اُنہیں بائبل میں کوئی واضح حکم نہیں ملتا۔ ایسی صورت میں وہ سوچنے لگ سکتے ہیں کہ وہ جو چاہیں، کر سکتے ہیں۔ اور کچھ تو دوسروں سے کسی معاملے کے بارے میں ایسے قانون بنانے کو کہتے ہیں جن میں ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر کُرنتھس میں رہنے والے مسیحیوں نے پولُس رسول سے پوچھا کہ کیا وہ بُتوں کے آگے چڑھائی گئی قربانی کا گوشت کھا سکتے ہیں۔ ایک طرح سے وہ پولُس سے کہہ رہے تھے کہ وہ اُن کے لیے ایک قانون بنائیں۔ پولُس جانتے تھے کہ ہر شخص اپنے ضمیر کے مطابق ”‏اِنتخاب کا حق“‏رکھتا ہے۔ (‏1-‏کُر 8:‏4،‏ 7-‏9‏)‏ اِس لیے اُنہوں نے اُن مسیحیوں کو یہ نہیں بتایا کہ اُنہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ اِس کی بجائے پولُس نے اُنہیں بائبل سے کچھ ایسے اصول بتائے جن کی بِنا پر ایک مسیحی ایسا فیصلہ کر سکتا تھا جس سے اُس کا ضمیر بھی صاف رہے اور دوسروں کو ٹھیس بھی نہ لگے۔ اِس طرح پولُس رسول نے اُن مسیحیوں کی مدد کی تاکہ وہ اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو اِستعمال کر کے خود فیصلہ کریں نہ کہ دوسرے اُن کے لیے کوئی قانون بنائیں۔‏

15.‏ پولُس رسول نے عبرانی مسیحیوں کی پُختہ مسیحی بننے میں کیسے مدد کی؟‏

15 پولُس رسول نے عبرانیوں کے نام خط میں جو باتیں لکھیں، اُن سے ہم ایک اَور اہم سبق بھی سیکھ سکتے ہیں۔ کچھ عبرانی مسیحی روحانی لحاظ سے آگے نہیں بڑھ رہے تھے۔ دراصل وہ تو ”‏ٹھوس[‏روحانی]‏غذا کھانے کی بجائے دوبارہ سے دودھ پینے“‏لگے تھے۔ (‏عبر 5:‏12‏)‏ وہ اُن تعلیمات کو قبول نہیں کر رہے تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہوواہ کلیسیا کے ذریعے اُنہیں سکھا رہا تھا۔ (‏اَمثا 4:‏18‏)‏ مثال کے طور پر مسیحی مذہب اپنانے والے بہت سے یہودی ابھی بھی موسیٰ کی شریعت میں لکھی باتوں پر زور دے رہے تھے حالانکہ یسوع مسیح کی قربانی کے بعد شریعت کو ختم ہوئے تقریباً 30 سال ہو چُکے تھے۔ (‏روم 10:‏4؛‏ طِط 1:‏10‏)‏ بے‌شک یہ 30 سال اُن مسیحیوں کے لیے کافی لمبا عرصہ تھا کہ وہ اپنی سوچ کو درست کر لیتے۔ لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کِیا۔ اِسی لیے پولُس رسول اُن کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ پاک کلام کی اُن گہری سچائیوں کو قبول کر لیں۔ اِنہی سچائیوں کی مدد سے یہ مسیحی اپنا ایمان مضبوط کر سکتے تھے۔ اِن سچائیوں کی مدد سے یہ مسیحی سمجھ گئے کہ یہوواہ نے یسوع مسیح کے ذریعے عبادت کا جو نیا بندوبست قائم کِیا ہے، وہ پہلے والے بندوبست سے بہت بہتر ہے۔ اِن سچائیوں کی مدد سے وہ یہودیوں کی مخالفت کے باوجود دلیری سے مُنادی بھی کر پائے۔—‏عبر 10:‏19-‏23‏۔‏

ہمیں پختگی کی طرف کیوں بڑھتے رہنا چاہیے؟‏

16.‏ ہمیں پختگی کی طرف بڑھنے کے علاوہ اَور کیا کرنا چاہیے؟‏

16 ہمیں صرف پختگی کی طرف بڑھنے کے لیے ہی سخت کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ اِسے برقرار رکھنے کے لیے بھی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ایسا کرنے کے لیے ہمیں اِس سوچ سے بچنا چاہیے کہ اب ہمیں اَور زیادہ پختگی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ (‏1-‏کُر 10:‏12‏)‏ ہمیں ”‏اپنا جائزہ لیتے“‏ رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ ہم پختگی کی طرف بڑھ رہے ہیں یا نہیں۔—‏2-‏کُر 13:‏5‏۔‏

17.‏ پولُس رسول نے کُلسّے میں رہنے والے مسیحیوں کے نام جو خط لکھا، اُس سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں پُختہ مسیحی بنے رہنے کی ضرورت ہے؟‏

17 پولُس رسول نے کُلسّے کے مسیحیوں کو جو خط لکھا، اُس میں اُنہوں نے دوبارہ اِس بات پر زور دیا کہ ہمیں پُختہ مسیحی بنے رہنے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ اِس کلیسیا کے مسیحی روحانی لحاظ سے پُختہ بن چُکے تھے لیکن پھر بھی پولُس نے اُنہیں خبردار کِیا کہ وہ دُنیا کے لوگوں کی سوچ کا شکار نہ ہو جائیں۔ (‏کُل 2:‏6-‏10‏)‏ اور اِپَفراس جو اِس کلیسیا کے بہن بھائیوں کو اچھی طرح سے جانتے تھے اور اُن کی بہت فکر رکھتے تھے، اُن کے لیے یہ دُعا کرتے رہتے تھے کہ وہ ”‏آخر تک پُختہ رہیں۔“‏ (‏کُل 4:‏12‏)‏ اِس سے ہمیں کیا پتہ چلتا ہے؟ یہ کہ پولُس اور اِپَفراس دونوں ہی اِس بات کو جانتے تھے کہ پُختہ مسیحی بنے رہنے کے لیے ہمیں سخت کوشش کرنے اور یہوواہ کی مدد کی ضرورت ہے۔ وہ دونوں ہی یہ چاہتے تھے کہ کُلسّے میں رہنے والے مسیحی روحانی لحاظ سے بالغ یا پُختہ مسیحی بنے رہیں۔‏

18.‏ ایک پُختہ مسیحی کے ساتھ بھی کیا ہو سکتا ہے؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

18 پولُس رسول نے عبرانی مسیحیوں سے کہا تھا کہ اگر ایک شخص پُختہ مسیحی بنے رہنے کی کوشش چھوڑ دیتا ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کھو سکتا ہے۔ ایسا مسیحی یہوواہ کی بات سننے سے اِنکار کر دیتا ہے۔ اُس کا دل اِتنا سخت ہو سکتا ہے کہ وہ توبہ نہیں کرنا چاہتا اور اِس طرح اُسے یہوواہ کی طرف سے معافی نہیں ملتی۔ لیکن خوشی کی بات ہے کہ عبرانی مسیحیوں کی صورتحال اِس حد تک نہیں بگڑی تھی۔ (‏عبر 6:‏4-‏9‏)‏ مگر ہم اُن لوگوں کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں جو عبادتوں پر آنا چھوڑ دیتے ہیں یا جنہیں کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے لیکن بعد میں وہ توبہ کر لیتے ہیں؟ اگر وہ دل سے توبہ کرتے ہیں تو اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی طرح نہیں ہیں جن کا پولُس نے ذکر کِیا تھا۔ بے‌شک جب کوئی شخص یہوواہ کی طرف لوٹ آتا ہے تو اُسے اُس مدد کی ضرورت ہوتی ہے جس کا بندوبست یہوواہ نے کِیا ہے۔ (‏حِز 34:‏15، 16‏)‏ اِس کے لیے شاید کلیسیا کے بزرگ کسی پُختہ مسیحی سے بات کریں جو یہوواہ کے ساتھ پھر سے دوستی کرنے میں اُس شخص کی مدد کر سکتا ہے۔‏

یہوواہ اُن لوگوں کی مدد کرتا ہے جنہیں اُس کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ (‏پیراگراف نمبر 18 کو دیکھیں۔)‏


19.‏ ہمارا کیا عزم ہونا چاہیے؟‏

19 اگر آپ نے پختگی کی طرف بڑھنے کا عزم کِیا ہے اور آپ ایسا کر بھی رہے ہیں تو آپ اِس میں ضرور کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ٹھوس غذا یعنی پاک کلام کی گہری سچائیوں کے بارے میں سیکھتے رہیں اور اپنی سوچ کو اَور زیادہ یہوواہ کی سوچ کے مطابق ڈھالیں۔ اور اگر آپ نے پختگی حاصل کر لی ہے تو اِسے برقرار رکھنے کی پوری کوشش کریں۔‏

آپ اِن سوالوں کے کیا جواب دیں گے:‏

  • پُختہ مسیحی بننے کا کیا مطلب ہے؟‏

  • ہم پختگی کی طرف کیسے بڑھ سکتے ہیں؟‏

  • ہمیں یہ کیوں نہیں سوچنا چاہیے کہ ہمیں اَور زیادہ پختگی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟‏

گیت نمبر 65‏:‏ آگے بڑھتے رہیں!‏

a حالانکہ عبرانی صحیفوں میں لفظ ”‏پُختہ“‏ یا ”‏نا پُختہ“‏ اِستعمال نہیں ہوا ہے لیکن اِن میں اِن الفاظ کا خیال ضرور پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اَمثال کی کتاب میں ایک ”‏نوجوان“‏ اور ”‏ناتجربہ‌کار“‏ شخص کا موازنہ ایک ”‏دانش‌مند“‏ اور ”‏سمجھ‌دار“‏ شخص سے کِیا گیا ہے۔—‏اَمثا 1:‏4، 5‏، ترجمہ نئی دُنیا۔‏

b ‏”‏مینارِنگہبانی،“‏ 15 اکتوبر 2015ء میں مضمون ”‏نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے‏“‏ کو دیکھیں۔‏

c اِس شمارے میں حصہ ”‏مطالعہ کرنے کے لیے موضوع‏“‏ کو دیکھیں۔‏

d تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک بھائی تفریح کا اِنتخاب کرتے وقت اُن اصولوں پر عمل کر رہا ہے جو اُس نے خدا کے کلام سے سیکھے ہیں۔‏