مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 35

گیت نمبر 123‏:‏ تابع‌دار ہوں

بزرگ اُن لوگوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں جنہیں کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے؟‏

بزرگ اُن لوگوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں جنہیں کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے؟‏

‏”‏99 ‏(‏ننانوے)‏ نیک لوگوں کے لیے جنہیں توبہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے،‏ آسمان میں اِتنی خوشی نہیں منائی جاتی جتنی کہ ایک گُناہ‌گار کے توبہ کرنے پر۔“‏‏—‏لُو 15:‏7‏۔‏

غور کریں کہ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏

کچھ لوگوں کو کلیسیا سے نکالنے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے اور بزرگ ایسے لوگوں کی توبہ کرنے اور پھر سے یہوواہ کے ساتھ دوستی کرنے میں مدد کیسے کر سکتے ہیں۔‏

1-‏2.‏ (‏الف)‏یہوواہ اُن لوگوں کو کیسا خیال کرتا ہے جو اپنے سنگین گُناہ سے توبہ نہیں کرتے؟ (‏ب)‏یہوواہ گُناہ کرنے والے لوگوں سے کس بات کی اُمید کرتا ہے؟‏

 یہوواہ خدا گُناہ کرنے کی چُھوٹ نہیں دیتا۔ وہ ہر طرح کے گُناہ سے نفرت کرتا ہے۔ (‏زبور 5:‏4-‏6‏)‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کے نیک معیاروں پر چلیں اور اِن کا احترام کریں۔ بے‌شک یہوواہ عیب‌دار اِنسانوں سے یہ توقع نہیں کرتا کہ اُن سے کبھی بھی اُس کے حکموں پر چلنے میں چُوک نہ ہو۔ (‏زبور 130:‏3، 4‏)‏ لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ اُن لوگوں کو برداشت کرے جو اُس کی ”‏عظیم رحمت کو بہانہ بنا کر ہٹ‌دھرمی سے غلط کام کرتے ہیں۔“‏ (‏یہوداہ 4‏)‏ دراصل بائبل میں تو بتایا گیا ہے کہ ہرمجِدّون کی جنگ میں خدا ”‏بُرے لوگوں کو تباہ“‏ کر دے گا۔—‏2-‏پطر 3:‏7؛‏ مُکا 16:‏16‏۔‏

2 لیکن یہوواہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص ہلاک ہو۔‏ جیسا کہ ہم نے مضامین کے اِس سلسلے میں دیکھا ہے، بائبل میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ یہوواہ ”‏چاہتا ہے کہ سب لوگ توبہ کریں۔“‏ (‏2-‏پطر 3:‏9‏)‏ یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے کلیسیا کے بزرگ صبر سے گُناہ کرنے والے شخص کی مدد کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ اپنی بُری روِش کو بدلے اور پھر سے یہوواہ کے ساتھ دوستی کر سکے۔ لیکن گُناہ کرنے والا ہر شخص توبہ نہیں کرتا۔ (‏یسع 6:‏9‏)‏ کچھ لوگ اپنی بُری روِش کو نہیں چھوڑتے حالانکہ بزرگ اُنہیں توبہ کی طرف مائل کرنے کی بار بار کوشش کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں بزرگوں کو کیا کرنا چاہیے؟‏

‏”‏بُرے شخص کو اپنے درمیان سے نکال دو“‏

3.‏ (‏الف)‏اگر ایک شخص اپنے گُناہ سے توبہ نہیں کرتا تو بائبل کے مطابق اُس کے ساتھ کیا کِیا جانا چاہیے؟ (‏ب)‏ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص اپنے گُناہ سے توبہ نہیں کرتا، ایک طرح سے اُس نے خود چُنا ہوتا ہے کہ اُسے کلیسیا سے نکال دیا جائے؟‏

3 جب گُناہ کرنے والا شخص توبہ نہیں کرتا تو بزرگوں کے پاس اِس بات کے علاوہ اَور کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ 1-‏کُرنتھیوں 5:‏13 میں لکھی ہدایت کے مطابق ”‏اُس بُرے شخص کو اپنے درمیان سے نکال“‏ دیں۔ ‏(‏کیتھولک ترجمہ)‏ ایک طرح سے اُس شخص نے خود یہ چُنا ہوتا ہے کہ اُسے کلیسیا سے نکال دیا جائے۔ اُس نے a جو کچھ بویا تھا، وہ وہی کاٹ رہا ہے۔ (‏گل 6:‏7‏)‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟ کیونکہ بزرگوں نے تو اُسے توبہ کی طرف مائل کرنے کی بار بار کوشش کی لیکن وہی توبہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ (‏2-‏سلا 17:‏12-‏15‏)‏ اُس نے اپنے کاموں سے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ کے اصولوں پر نہیں چلنا چاہتا۔—‏اِست 30:‏19، 20‏۔‏

4.‏ جب گُناہ سے توبہ نہ کرنے والے شخص کو کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے تو اِس بات کا اِعلان کلیسیا میں کیوں کِیا جانا چاہیے؟‏

4 جب گُناہ سے توبہ نہ کرنے والے شخص کو کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے تو کلیسیا میں اِس بات کا اِعلان کِیا جاتا ہے کہ اب وہ شخص یہوواہ کا گواہ نہیں رہا۔‏ b یہ اِعلان اُس شخص کو شرمندہ کرنے کے لیے نہیں کِیا جاتا۔ دراصل اِس اِعلان کو کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کلیسیا کے بہن بھائی بائبل میں لکھی اِس نصیحت پر عمل کر سکیں کہ وہ اُس شخص کے ساتھ ”‏اُٹھنا بیٹھنا بالکل چھوڑ دیں اور اُس کے ساتھ کھانا تک نہ کھائیں۔“‏ (‏1-‏کُر 5:‏9-‏11‏)‏ یہوواہ کی طرف سے یہ ہدایت ہمارے فائدے کے لیے ہے۔ پولُس رسول نے کہا:‏ ”‏تھوڑا سا خمیر سارے گندھے ہوئے آٹے کو خمیر کر دیتا ہے۔“‏ (‏1-‏کُر 5:‏6‏)‏ اور واقعی اگر کلیسیا سے ایسے شخص کو نہیں نکالا جائے گا جو اپنے گُناہ سے توبہ نہیں کرتا تو جو بہن بھائی یہوواہ کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، اُن کا بھی یہ عزم کمزور پڑنے لگے گا کہ وہ صحیح کام کریں گے۔—‏اَمثا 13:‏20؛‏ 1-‏کُر 15:‏33‏۔‏

5.‏ ہمیں اُس شخص کو کیسا خیال کرنا چاہیے جسے کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے اور کیوں؟‏

5 ہمیں اپنے اُس ہم‌ایمان کو کیسا خیال کرنا چاہیے جسے کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے؟ بے‌شک ہم اُس بہن یا بھائی کے ساتھ میل جول نہیں رکھیں گے لیکن ہم یہ بھی نہیں سوچیں گے کہ اب اُس کے لوٹنے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ اِس کی بجائے ہم اُسے ایک ایسی بھیڑ خیال کریں گے جو بھٹک گئی ہے۔ جب ایک بھیڑ بھٹک جاتی ہے تو وہ اپنے گلّے میں واپس آ سکتی ہے۔ یاد رکھیں کہ اُس بہن یا بھائی نے اپنی زندگی یہوواہ کے نام کی تھی۔ بس افسوس یہ ہے کہ ابھی وہ اپنے اِس وعدے کو نہیں نبھا رہا یعنی وہ اپنی زندگی یہوواہ کی مرضی کے مطابق نہیں گزار رہا اور اِس وجہ سے وہ ہمیشہ کی زندگی کو پانے کا موقع کھو دینے کے خطرے میں ہے۔ (‏حِز 18:‏31‏)‏ لیکن جب تک یہوواہ اُس پر رحم کرنے کو تیار ہے، اُس کے لوٹنے کی اُمید باقی ہے۔ اِسی بات کی اُمید کلیسیا کے بزرگ اُس وقت بھی رکھتے ہیں جب توبہ نہ کرنے والے شخص کو کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے۔ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏

بزرگ اُن لوگوں کی مدد کیسے کرتے ہیں جنہیں کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے؟‏

6.‏ بزرگ اُن لوگوں کی مدد کرنے کے لیے کیا کریں گے جنہیں کلیسیا سے نکال دیا گیا ہے؟‏

6 جس شخص کو کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے، کیا اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے؟ کیا یہوواہ کی اِس بھٹکی ہوئی بھیڑ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ خود ہی راستہ تلاش کر کے اُس کے پاس لوٹ آئے؟ بالکل نہیں!‏ جب بزرگوں کی کمیٹی توبہ نہ کرنے والے شخص کو بتاتی ہے کہ اُسے کلیسیا سے نکالا جا رہا ہے تو وہ اُسے یہ بھی بتاتی ہے کہ وہ کلیسیا میں لوٹ آنے کے لیے کون سے قدم اُٹھا سکتا ہے۔ لیکن یہ بزرگ صرف اِتنا ہی نہیں کرتے۔ زیادہ‌تر صورتوں میں بزرگ توبہ نہ کرنے والے شخص کو بتاتے ہیں کہ وہ کچھ مہینوں بعد اُس سے دوبارہ ملنا چاہتے ہیں تاکہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ وہ توبہ کی طرف مائل ہوا ہے یا نہیں۔ اگر وہ شخص اُن سے دوبارہ ملنے کو تیار ہوتا ہے تو بزرگ اگلی ملاقات میں اُس کا حوصلہ بڑھائیں گے کہ وہ توبہ کرے اور یہوواہ کی طرف لوٹ آئے۔ اگر اُس شخص نے اُس وقت توبہ نہیں بھی کی ہوگی تو بزرگ اُس سے دوبارہ ملیں گے اور اُس کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کریں گے کہ وہ یہوواہ کی طرف لوٹ آئے۔‏

7.‏ بزرگ اُن لوگوں کے لیے یہوواہ جیسی شفقت کیسے دِکھا سکتے ہیں جنہیں کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے؟ (‏یرمیاہ 3:‏12‏)‏

7 بزرگ یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اُن لوگوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے ہیں جنہیں کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ماضی میں یہوواہ نے اِس بات کا اِنتظار نہیں کِیا کہ اُس کی باغی قوم پہلے توبہ کرے تو پھر وہ اُن کی مدد کرے گا۔ اِس کی بجائے اُس نے تو اُن کی مدد کرنے میں خود پہل کی، اُس وقت بھی جب اُن کے توبہ کرنے کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ جیسا کہ ہم نے مضامین کے اِس سلسلے کے دوسرے مضمون میں دیکھا تھا، یہوواہ نے اپنے نبی ہوسیع سے کہا کہ وہ اپنی بیوی کو معاف کر دیں اور اُسے پھر سے اپنے گھر لے آئیں حالانکہ وہ ابھی بھی بدکاری کر رہی تھی۔ یہوواہ نے ہوسیع سے جو کچھ کرنے کو کہا، اُس کے ذریعے اُس نے اپنے بندوں پر ثابت کِیا کہ وہ کتنا رحم‌دل ہے۔ (‏ہوس 3:‏1؛‏ ملا 3:‏7‏)‏ یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے بزرگ دل سے چاہیں گے کہ گُناہ کرنے والا شخص یہوواہ کی طرف لوٹ آئے۔ وہ کوئی بھی ایسا کام نہیں کریں گے جس کی وجہ سے اُس شخص کے لیے ایسا کرنا مشکل ہو جائے۔‏‏—‏یرمیاہ 3:‏12 کو پڑھیں۔‏

8.‏ یسوع مسیح نے بچھڑے ہوئے بیٹے کی جو مثال دی، اُس سے ہم یہوواہ کی شفقت اور رحم کی گہرائی کو کیسے سمجھ پاتے ہیں؟ (‏لُوقا 15:‏7‏)‏

8 مضامین کے اِس سلسلے کے دوسرے مضمون میں ہم نے بچھڑے ہوئے بیٹے کی مثال پر غور کِیا تھا۔ یسوع مسیح نے بتایا کہ جیسے ہی اُس کے باپ کی نظر اپنے بیٹے پر پڑی، ’‏وہ بھاگا بھاگا گیا اور اُسے گلے لگا لیا اور بڑے پیار سے چُومنے لگا۔‘‏ (‏لُو 15:‏20‏)‏ غور کریں کہ اُس باپ نے اِس بات کا اِنتظار نہیں کِیا کہ پہلے اُس کا بیٹا اُس سے رحم کی بھیک مانگے۔ اِس کی بجائے اُس نے خود آگے بڑھ کر پیار سے اُسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ یہوواہ بھی اُن لوگوں کے بارے میں بالکل ایسا ہی محسوس کرتا ہے جنہوں نے اُسے چھوڑ دیا ہے۔ یہوواہ کی طرح بزرگ بھی ایسے لوگوں کے ساتھ بہت شفقت اور رحم سے پیش آنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ دل سے چاہتے ہیں کہ یہوواہ کی وہ کھوئی ہوئی بھیڑ گلّے میں لوٹ آئے۔ (‏لُو 15:‏22-‏24،‏ 32‏)‏ تو جب ایک گُناہ‌گار شخص توبہ کرتا ہے اور یہوواہ کے پاس لوٹ آتا ہے تو جتنی خوشی آسمان پر ہوتی ہے اُتنی ہی خوشی زمین پر بھی ہوتی ہے۔‏‏—‏لُوقا 15:‏7 کو پڑھیں۔‏

9.‏ یہوواہ گُناہ کرنے والے شخص سے کس بات کی درخواست کرتا ہے؟‏

9 اب تک ہم نے جو کچھ سیکھا ہے، اُس سے یہ بات تو بالکل واضح ہو گئی ہے کہ یہوواہ ایسے لوگوں کو اپنی کلیسیا میں رہنے کی بالکل اِجازت نہیں دیتا جو اپنے سنگین گُناہ سے توبہ نہیں کرتے۔ لیکن اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ گُناہ کرنے والے شخص سے مُنہ پھیر لیتا ہے۔ وہ تو چاہتا ہے کہ وہ شخص اُس کے پاس لوٹ آئے۔ یہوواہ توبہ کرنے والے لوگوں کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے؟ ہوسیع 14:‏4 میں لکھا ہے:‏ ”‏مَیں اُن کی بے‌وفائی کے اثرات ختم کر کے اُنہیں شفا دوں گا، ہاں مَیں اُنہیں کُھلے دل سے پیار کروں گا، کیونکہ میرا اُن پر غضب ٹھنڈا ہو گیا ہے۔“‏ ‏(‏اُردو جیو ورشن)‏ یہوواہ کے اِن الفاظ پر غور کرنے سے بزرگوں میں یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسی تبدیلیوں پر دھیان دیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ گُناہ کرنے والا شخص توبہ کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ اور یہوواہ کے اِن الفاظ پر غور کرنے سے گُناہ کرنے والے شخص کے دل میں بھی دیر کیے بغیر یہوواہ کے پاس لوٹ آنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔‏

10-‏11.‏ بزرگ اُن لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کیسے کریں گے جنہیں بہت پہلے کلیسیا سے نکال دیا گیا تھا؟‏

10 ہم اُن لوگوں کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں جنہیں بہت سال پہلے کلیسیا سے نکال دیا گیا تھا؟ شاید اب وہ اُس گُناہ کو چھوڑ چُکے ہیں جس کی وجہ سے اُنہیں کلیسیا سے نکالا گیا تھا۔ کچھ کو تو شاید یہ یاد بھی نہ ہو کہ اُنہیں کلیسیا سے نکالا کیوں گیا تھا۔ چاہے اِن لوگوں کو کلیسیا سے نکالے ہوئے کتنے ہی سال کیوں نہ ہو گئے ہوں، بزرگ اِنہیں تلاش کرنے اور اِن سے ملاقات کرنے کی کوشش کریں گے۔ اِس دوران وہ اِن کے ساتھ مل کر دُعا کریں گے اور اِن کا حوصلہ بڑھائیں گے کہ وہ کلیسیا میں لوٹ آئیں۔ ظاہری بات ہے کہ اگر ایک شخص کو کلیسیا سے دُور ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں تو یہوواہ کے ساتھ اُس کی دوستی بہت کمزور پڑ چُکی ہوگی۔ لیکن اگر وہ شخص کہتا ہے کہ وہ کلیسیا میں لوٹ آنا چاہتا ہے تو بزرگ کسی بہن یا بھائی کا بندوبست کریں گے جو اُسے بائبل کورس کرائے بھلے ہی ابھی وہ کلیسیا میں بحال نہیں ہوا ہے۔ صرف بزرگ ہی کسی مبشر کا بندوبست کریں گے کہ وہ اُس شخص کو بائبل کورس کرائے۔‏

11 اپنے رحم‌دل خدا یہوواہ کی طرح بزرگ اُن سب لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کریں گے جنہوں نے یہوواہ کو چھوڑ دیا ہے۔ وہ اُن کا حوصلہ بڑھائیں گے کہ وہ یہوواہ کے پاس لوٹ آئیں۔ جب گُناہ کرنے والا شخص ظاہر کرتا ہے کہ اُسے اپنے کیے پر شرمندگی ہے اور وہ اپنی بُری روِش کو بھی چھوڑ دیتا ہے تو بزرگ بغیر دیر کیے اُسے کلیسیا میں بحال کر سکتے ہیں۔—‏2-‏کُر 2:‏6-‏8‏۔‏

12.‏ (‏الف)‏کن صورتحال میں بزرگوں کو بہت ہی سوچ سمجھ کر کام لینے کی ضرورت پڑتی ہے؟ (‏ب)‏گُناہ کرنے والے کچھ لوگوں کے بارے میں ہمیں یہ کیوں نہیں سوچنا چاہیے کہ اُنہوں نے ایسا گُناہ کِیا ہے جس کی وجہ سے وہ یہوواہ کے رحم کے لائق نہیں رہے؟ (‏فٹ‌نوٹ کو بھی دیکھیں۔)‏

12 کچھ صورتحال ایسی ہوتی میں جن میں بزرگوں کو کسی شخص کو کلیسیا میں بحال کرتے وقت بہت سوچ سمجھ کر کام لینا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص نے کسی بچے کے ساتھ زیادتی کی تھی یا وہ برگشتہ تھا یا پھر اُس نے سازش کر کے مثلاً زِناکاری کر کے اپنی شادی توڑی تھی تو بزرگ اِس بات کا پکا یقین کر لیں گے کہ اُس نے واقعی دل سے توبہ کی ہے یا نہیں۔ (‏ملا 2:‏14؛‏ 2-‏تیم 3:‏6‏)‏ اُنہیں کلیسیا کے بہن بھائیوں کو محفوظ رکھنا چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب گُناہ کرنے والا شخص دل سے توبہ کرتا ہے اور بُرے کام سے باز آ جاتا ہے تو یہوواہ اُسے پھر سے قبول کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ تو بھلے ہی بزرگ اِس بات کا پکا یقین کر لینا چاہتے ہیں کہ دوسروں کو دھوکا دینے والے شخص نے دل سے توبہ کر لی ہے یا نہیں لیکن اُنہیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اُس شخص نے ایسا گُناہ کِیا ہے جس کی وجہ سے وہ یہوواہ کے رحم کے لائق نہیں رہا۔‏ c‏—‏1-‏پطر 2:‏10‏۔‏

کلیسیا کیا کر سکتی ہے؟‏

13.‏ جس طرح سے ہم ایک ایسے شخص کے ساتھ پیش آتے ہیں جس کی درستی کی گئی ہے اور جس طرح سے ہم اُس شخص کے ساتھ پیش آتے ہیں جسے کلیسیا سے نکال دیا گیا ہے، اُس میں کیا فرق ہے؟‏

13 جیسا کہ ہم نے پچھلے مضمون میں دیکھا تھا، کبھی کبھار کلیسیا میں یہ اِعلان کِیا جاتا ہے کہ ایک شخص کی درستی کی گئی ہے۔ ایسی صورت میں ہم اُس شخص کے ساتھ میل جول رکھ سکتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اُس نے اپنے گُناہ سے توبہ کی ہے اور اپنی بُری روِش چھوڑ دی ہے۔ (‏1-‏تیم 5:‏20‏)‏ وہ ابھی بھی کلیسیا کا حصہ ہے اور اُسے حوصلہ پانے کے لیے اپنے ہم‌ایمانوں کے ساتھ کی ضرورت ہے۔ (‏عبر 10:‏24، 25‏)‏ لیکن جس شخص کو کلیسیا سے نکال دیا جاتا ہے، اُس کی صورتحال فرق ہوتی ہے۔ ایسے شخص کے ساتھ ہم ”‏اُٹھنا بیٹھنا بالکل چھوڑ“‏ دیتے ہیں اور ’‏اُس کے ساتھ کھانا تک نہیں کھاتے۔‘‏—‏1-‏کُر 5:‏11‏۔‏

14.‏ ایک مسیحی بائبل سے اپنے تربیت‌یافتہ ضمیر کے مطابق اُس شخص کے ساتھ کیسے پیش آ سکتا ہے جسے کلیسیا سے نکال دیا گیا ہے؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

14 کیا 1-‏کُرنتھیوں 5:‏11 میں لکھی نصیحت کا یہ مطلب ہے کہ ہم کلیسیا سے نکال دیے جانے والے کسی شخص کو عبادت میں آنے کی دعوت نہیں دے سکتے یا جب وہ خود عبادت پر آتا ہے تو ہم اُسے بالکل سلام نہیں کر سکتے؟ نہیں۔ بے‌شک ہم اُس کے ساتھ کوئی میل جول نہیں رکھیں گے۔ لیکن ہر مسیحی بائبل سے اپنے تربیت‌یافتہ ضمیر کے مطابق یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کلیسیا سے نکال دیے جانے والے شخص کو عبادت میں آنے کی دعوت دے گا یا نہیں۔ شاید وہ شخص اُس کا رشتے‌دار تھا یا کبھی اُس کا دوست ہوا کرتا تھا۔ اگر وہ عبادت کے لیے آتا ہے تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ماضی میں ہم ایسے شخص کو سلام نہیں کِیا کرتے تھے۔ لیکن اِس صورت میں بھی ہر مسیحی بائبل سے اپنے تربیت‌یافتہ ضمیر کے مطابق خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کیا کرے گا۔ شاید کچھ مسیحی اُس شخص سے مختصر سی سلام دُعا کرنا یا عبادت میں اُس کا خیرمقدم کرنا چاہیں۔ لیکن ہم اُس شخص سے لمبی چوڑی بات نہیں کریں گے اور اُس سے میل جول نہیں رکھیں گے۔‏

ایک مسیحی بائبل سے اپنے تربیت‌یافتہ ضمیر کے مطابق یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کو عبادت میں آنے کی دعوت دے گا جسے کلیسیا سے نکال دیا گیا ہے یا اُسے سلام کرے گا۔ (‏پیراگراف نمبر 14 کو دیکھیں۔)‏


15.‏ دوسرا یوحنا 9-‏11 میں کس طرح کے گُناہ‌گاروں کی بات کی گئی ہے؟ (‏بکس ”‏ کیا یوحنا اور پولُس ایک ہی طرح کے گُناہ کی بات کر رہے تھے؟‏‏“‏ کو بھی دیکھیں۔)‏

15 شاید کچھ لوگ کہیں:‏ ”‏کیا بائبل میں یہ نہیں کہا گیا کہ ہمیں اُن لوگوں کو سلام تک نہیں کرنا چاہیے جنہیں کلیسیا سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم اُن کے گُناہ میں شریک ہوں گے؟“‏ ‏(‏2-‏یوحنا 9-‏11 کو پڑھیں۔)‏ لیکن 2-‏یوحنا 9-‏11 کے سیاق‌وسباق پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں ایسے لوگوں کی بات کی جا رہی ہے جو خدا سے برگشتہ ہو گئے ہیں یا جو بُرے کاموں کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ (‏مُکا 2:‏20‏)‏ تو اگر کلیسیا سے نکال دیا جانے والا شخص یہوواہ سے برگشتہ ہو گیا ہے یا پھر وہ بُرے کاموں کو بڑھاوا دینے میں لگا ہوا ہے تو بزرگ اُس سے ملنے نہیں جائیں گے۔ بے‌شک ہم اِس بات کی اُمید کرنا نہیں چھوڑیں گے کہ کبھی نہ کبھی وہ اپنے ہوش میں آ جائے گا۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، ہم نہ تو ایسے شخص کو سلام کریں گے اور نہ ہی اُسے ہماری عبادتوں میں آنے کو کہیں گے۔‏

 

یہوواہ کی طرح شفقت اور رحم دِکھائیں

16-‏17.‏ (‏الف)‏یہوواہ گُناہ‌گاروں کے لیے کیا چاہتا ہے؟ (‏حِزقی‌ایل 18:‏32‏)‏ (‏ب)‏بزرگ کس طرح سے یہوواہ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں؟‏

16 ہم نے مضامین کے اِس سلسلے کے پانچوں مضامین سے کیا سیکھا ہے؟ ہم نے سیکھا ہے کہ یہوواہ یہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص ہلاک ہو!‏ ‏(‏حِزقی‌ایل 18:‏32 کو فٹ‌نوٹ سے پڑھیں۔‏ d‏)‏ وہ چاہتا ہے کہ گُناہ کرنے والا شخص اُس سے صلح کر لے۔ (‏2-‏کُر 5:‏20‏)‏ اِسی وجہ سے تو پوری اِنسانی تاریخ کے دوران یہوواہ نے بار بار اپنی باغی قوم سے، یہاں تک کہ ہر باغی شخص سے کہا کہ وہ توبہ کرے اور اُس کی طرف لوٹ آئے۔ کلیسیا کے بزرگوں کے لیے یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہ یہوواہ کے ساتھ مل کر گُناہ‌گاروں کی مدد کرتے ہیں کہ وہ توبہ کریں۔—‏روم 2:‏4؛‏ 1-‏کُر 3:‏9‏۔‏

17 ذرا اُس خوشی کا تصور کرنے کی کوشش کریں جو آسمان پر اُس وقت ہوتی ہے جب کوئی گُناہ‌گار شخص توبہ کرتا ہے!‏ ہر بار جب ہمارے آسمانی باپ یہوواہ کی کھوئی ہوئی بھیڑ اُس کے پاس لوٹ آتی ہے تو اُس کا دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ جب جب ہم اپنے باپ یہوواہ کی محبت، رحم‌دلی اور شفقت پر غور کرتے ہیں تو ہمارے دل میں اُس کے لیے محبت اَور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔—‏لُو 1:‏78‏۔‏

گیت نمبر 111‏:‏ ہماری خوشی کی وجوہات

a حالانکہ اِس مضمون میں گُناہ کرنے والے شخص کا حوالہ ایک آدمی کے طور پر کِیا گیا ہے لیکن اِس میں بتائے گئے اصول عورتوں کے لیے بھی ہیں۔‏

b اب سے ہم ایسے لوگوں کو خارج‌شُدہ نہیں کہیں گے۔ یہ بات پہلا کُرنتھیوں میں لکھی پولُس کی بات کے مطابق ہے جہاں اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اُس بُرے شخص کو اپنے درمیان سے نکال دو۔“‏ تو اب سے جو شخص کلیسیا کا حصہ نہیں رہے گا، اُس کے بارے میں ہم یہ کہیں کہ اُسے کلیسیا سے نکال دیا گیا ہے۔—‏1-‏کُر 5:‏13‏، کیتھولک ترجمہ۔‏

c بائبل میں بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگوں کو اُن کے گُناہوں کی معافی نہیں مل سکتی۔ یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے فیصلہ کِیا ہے کہ وہ ہمیشہ خدا کی مخالفت کریں گے۔ صرف یہوواہ اور یسوع مسیح ہی اِس بات کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ایسے شخص کو اُس کے گُناہ کی معافی ملنی چاہیے یا نہیں۔—‏مر 3:‏29؛‏ عبر 10:‏26، 27‏۔‏

d حِزقی‌ایل 18:‏32‏؛ نیو اُردو بائبل ورشن:‏ ”‏کیونکہ مجھے کسی کی موت سے خوشی نہیں ہوتی،[‏یہوواہ]‏خدا فرماتا ہے۔ اِس لیے توبہ کرو اور زندہ رہو۔“‏