مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 31

گیت نمبر 12‏:‏ یہوواہ حمد کا حق‌دار ہے

یہوواہ نے اِنسانوں کو گُناہ اور موت سے نجات دِلانے کے لیے کیا کِیا؟‏

یہوواہ نے اِنسانوں کو گُناہ اور موت سے نجات دِلانے کے لیے کیا کِیا؟‏

‏”‏خدا کو دُنیا سے اِتنی محبت ہے کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا دے دیا۔“‏ —‏یوح 3:‏16‏۔‏

غور کریں کہ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏

یہوواہ نے ہم گُناہ‌گار اِنسانوں سے دوستی کرنے کے لیے پہلا قدم کیسے اُٹھایا اور اُس نے ہمارے لیے یہ کیسے ممکن بنایا کہ ہم گُناہ سے پاک ہو جائیں اور ہمیشہ تک زندہ رہیں۔‏

1-‏2.‏ (‏الف)‏گُناہ کیا ہے اور ہم اِس کے خلاف جنگ کیسے جیت سکتے ہیں؟ (‏”‏لفظ کی وضاحت“‏ کو بھی دیکھیں۔)‏ (‏ب)‏ہم اِس مضمون میں اور اِس شمارے کے باقی مضامین میں کس بارے میں بات کریں گے؟ (‏اِس شمارے میں ”‏قارئین کے لیے نوٹ‏“‏ کو بھی دیکھیں۔)‏

 کیا آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا آپ سے کتنی محبت کرتا ہے؟ اِس سوال کا جواب حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اِس بات کا مطالعہ کریں کہ یہوواہ نے ہمیں گُناہ اور موت سے بچانے کے لیے کیا کِیا ہے۔ گُناہ a ایک بھیانک دُشمن ہے جسے ہم اپنی طاقت سے نہیں ہرا سکتے۔ ہم سب گُناہ‌گار ہیں اور ہر روز گُناہ کرتے ہیں۔ اِس گُناہ کی وجہ سے ہم پر موت آتی ہے۔ (‏روم 5:‏12‏)‏ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ یہوواہ کی مدد سے ہم گُناہ اور موت سے جنگ جیت سکتے ہیں۔ اُس نے ہمیں اِن سے مکمل طور پر چھٹکارا دِلانے کی ضمانت دی ہے!‏

2 یہوواہ خدا تقریباً 6000 سال سے اِنسانوں کی مدد کرتا آیا ہے کہ وہ گُناہ کے خلاف لڑ سکیں۔ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ کیونکہ اُسے شروع سے ہی اِنسانوں سے محبت ہے۔ اُس نے گُناہ کے خلاف لڑنے میں ہم اِنسانوں کی مدد کرنے کے لیے اِتنا کچھ کِیا ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ خدا جانتا ہے کہ گُناہ کا انجام موت ہے اور وہ بالکل بھی نہیں چاہتا کہ ہم پر موت آئے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم ہمیشہ تک زندہ رہیں۔ (‏روم 6:‏23‏)‏ یہی اِنسانوں کے لیے اُس کی دلی خواہش ہے۔ اِس مضمون میں ہم اِن تین سوالوں پر غور کریں گے:‏ (‏1)‏یہوواہ نے گُناہ‌گار اِنسانوں کو کون سی اُمید دی ہے؟ (‏2)‏پُرانے زمانے میں گُناہ‌گار اِنسانوں نے یہوواہ کو خوش کرنے کے لیے کیا کِیا؟ (‏3)‏یسوع مسیح نے اِنسانوں کو گُناہ اور موت سے بچانے کے لیے کیا کِیا؟‏

یہوواہ نے گُناہ‌گار اِنسانوں کو کون سی اُمید دی ہے؟‏

3.‏ آدم اور حوّا گُناہ‌گار کیسے بن گئے؟‏

3 جب یہوواہ نے پہلے اِنسان آدم اور حوّا کو بنایا تو وہ چاہتا تھا کہ وہ خوش رہیں۔ اُس نے اُنہیں رہنے کے لیے ایک خوب‌صورت گھر دیا، اُنہیں شادی کے بندھن جیسی نعمت دی اور اُنہیں بہت ہی دلچسپ کام کرنے کے لیے دیا۔ اُس نے اُنہیں پوری زمین کو اپنی اولاد سے بھر دینے اور اِسے باغِ‌عدن کی طرح خوب‌صورت فردوس بنا دینے کا کام دیا۔ لیکن خدا نے اُنہیں بس ایک چھوٹا سا حکم ماننے کو کہا۔ اُس نے اُنہیں سمجھایا کہ اگر وہ اُس کا حکم توڑیں گے اور جان بُوجھ کر اُس کے خلاف جائیں گے تو وہ گُناہ کر رہے ہوں گے جس کی وجہ سے اُن پر موت آئے گی۔ آگے تو ہم جانتے ہیں کہ کیا ہوا۔ ایک بُرے فرشتے نے سارا معاملہ بگا‌ڑ دیا۔ وہ نہ تو یہوواہ سے پیار کرتا تھا اور نہ ہی اِنسانوں سے۔ اُس نے آدم اور حوّا کو یہوواہ کی نافرمانی کرنے پر اُکسایا۔ آدم اور حوّا اُس کی باتوں میں آ گئے۔ اُنہوں نے اپنے شفیق باپ کی باتوں پر بھروسا کرنے کی بجائے گُناہ کِیا۔ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وہی ہوا جو یہوواہ نے کہا تھا۔ یہوواہ سے نافرمانی کرنے کی وجہ سے آدم اور حوّا کو اپنی پوری زندگی مصیبتیں جھیلنی پڑیں۔ یہوواہ کے کہنے کے مطابق وہ بوڑھے اور بیمار ہونے لگے اور آخرکار مر گئے۔—‏پید 1:‏28، 29؛‏ 2:‏8، 9،‏ 16-‏18؛‏ 3:‏1-‏6،‏ 17-‏19،‏ 24؛‏ 5:‏5‏۔‏

4.‏ یہوواہ گُناہ سے اِتنی نفرت کیوں کرتا ہے اور وہ اِس سے لڑنے میں ہماری مدد کیوں کرتا ہے؟ (‏رومیوں 8:‏20، 21‏)‏

4 یہوواہ نے یہ افسوس‌ناک واقعہ اپنے کلام میں لکھوایا تاکہ ہم اِس سے ایک اہم بات سمجھ سکیں۔ اِس واقعے کو پڑھ کر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہوواہ گُناہ سے اِتنی نفرت کیوں کرتا ہے۔ گُناہ ہمیں یہوواہ سے دُور کر دیتا ہے اور موت کا باعث بنتا ہے۔ (‏یسع 59:‏2‏)‏ اِسی وجہ سے تو ساری مصیبتوں کی جڑ شیطان گُناہ کو اِتنا پسند کرتا ہے اور اِسے ہوا دیتا ہے۔ شیطان نے سوچا ہوگا کہ باغِ‌عدن میں سارا معاملہ بگا‌ڑ کر وہ جیت گیا ہے۔ لیکن وہ اِنسانوں کے لیے یہوواہ کے پیار کی گہرائی کو نہیں سمجھتا تھا۔ یہوواہ نے آدم اور حوّا کی اولاد کے لیے اپنے مقصد کو نہیں بدلا۔ وہ اِنسانوں سے بہت پیار کرتا ہے اِس لیے اُس نے اُنہیں فوراً اُمید دی۔ ‏(‏رومیوں 8:‏20، 21 کو پڑھیں۔)‏ یہوواہ جانتا تھا کہ آدم اور حوّا کی اولاد میں سے کچھ لوگ اُس سے محبت کریں گے اور گُناہ کے خلاف لڑنے کے لیے اُس پر آس لگائیں گے۔ یہوواہ نے اِس طرح کے لوگوں کے لیے یہ ممکن بنایا کہ وہ اُس کے قریب جا سکیں اور گُناہ اور موت سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔ لیکن یہوواہ نے یہ سب کچھ کرنے کے لیے کیا کرنا تھا؟‏

5.‏ یہوواہ نے اِنسانوں کو اُمید کی پہلی کِرن کب دِکھائی؟ وضاحت کریں۔ (‏پیدائش 3:‏15‏)‏

5 پیدائش 3:‏15 کو پڑھیں۔‏ یہوواہ نے اِنسانوں کو اُمید کی پہلی کِرن تب دِکھائی جب اُس نے شیطان کے خلاف سزا سنائی۔ یہوواہ نے یہ پیش‌گوئی کی کہ ایک ”‏نسل“‏ آئے گی جو اِنسانوں کو نجات دِلائے گی۔ نسل کا سب سے اہم حصہ شیطان کے سر کو کچلے گا اور اُس ساری بُرائی کو ختم کرے گا جو شیطان نے باغِ‌عدن میں شروع کی تھی۔ (‏1-‏یوح 3:‏8‏)‏ لیکن اِس سب کے دوران نسل کے اُس حصے کو کچھ تکلیف بھی سہنی پڑے گی۔ شیطان اُس پر حملہ کرے گا اور اُسے مار ڈالے گا۔ اِس سے یہوواہ کو شدید تکلیف پہنچے گی۔ لیکن یہوواہ کا اِس تکلیف سے گزرنا بے‌فائدہ نہیں جائے گا۔ اِس سے تمام اِنسانوں کو گُناہ اور موت سے نجات ملے گی۔‏

پُرانے زمانے میں گُناہ‌گار اِنسانوں نے یہوواہ کو خوش کرنے کے لیے کیا کِیا؟‏

6.‏ ہابل اور نوح جیسے یہوواہ کے وفادار بندوں نے اُس کے قریب جانے کے لیے کیا کِیا؟‏

6 اِنسانی تاریخ کے شروع سے ہی یہوواہ آہستہ آہستہ عیب‌دار اِنسانوں پر یہ واضح کرتا گیا کہ وہ اُس کے قریب کیسے جا سکتے ہیں۔ آدم اور حوّا کے دوسرے بیٹے یعنی ہابل وہ پہلے اِنسان تھے جنہوں نے باغِ‌عدن میں ہونے والی بغاوت کے بعد یہوواہ پر ایمان ظاہر کِیا۔ ہابل یہوواہ سے پیار کرتے تھے، اُسے خوش کرنا چاہتے تھے اور اُس کے قریب ہونا چاہتے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے یہوواہ کے حضور قربانی پیش کی۔ ہابل ایک چرواہے تھے اِس لیے اُنہوں نے اپنے گلّے میں سے کچھ پہلوٹھے میمنے یہوواہ کے لیے قربان کیے۔ یہ دیکھ کر یہوواہ کو کیسا لگا؟ وہ ”‏ہابل سے اور اُن کے نذرانے سے خوش ہوا۔“‏ (‏پید 4:‏4‏)‏ بعد میں جب کچھ اَور لوگوں نے بھی یہوواہ کے حضور قربانیاں پیش کیں جیسے کہ نوح نے تو یہوواہ اُن کی بھی قربانیوں سے خوش ہوا۔ (‏پید 8:‏20، 21‏)‏ کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ بھی یہوواہ سے پیار کرتے تھے اور اُس پر بھروسا کرتے تھے۔ اِن قربانیوں کو قبول کرنے سے یہوواہ نے ظاہر کِیا کہ گُناہ‌گار اِنسان اُس کے قریب جا سکتے ہیں اور اُسے خوش کر سکتے ہیں۔‏ b

7.‏ اَبراہام یہوواہ کی خاطر اپنے بیٹے کو قربان کرنے کو تیار تھے۔ اُن کی اِس مثال سے ہمیں کون سی اہم سچائی پتہ چلتی ہے؟‏

7 اَبراہام بہت ہی مضبوط ایمان کے مالک تھے۔ ایک دن یہوواہ نے اُنہیں ایک بہت ہی مشکل کام کرنے کو کہا۔ اُس نے اَبراہام سے کہا کہ وہ اپنے بیٹے اِضحاق کو اُس کے حضور قربان کر دیں۔ بے‌شک اَبراہام کو یہ اپنی زندگی کا سب سے تکلیف‌دہ کام لگا ہوگا۔ لیکن پھر بھی وہ یہوواہ کا حکم ماننے کو تیار تھے۔ جب اَبراہام اپنے بیٹے کو قربان کرنے ہی والے تھے تو یہوواہ نے اُنہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ لیکن یہوواہ نے اَبراہام کی مثال سے ہمیں ایک اہم سچائی بتائی۔ اُس نے ظاہر کِیا کہ وہ مستقبل میں ہماری خاطر کیا کرنے والا ہے۔ وہ اپنے عزیز بیٹے کو ہمارے لیے قربان کرنے کو تیار تھا۔ اِس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہوواہ اِنسانوں سے کتنا پیار کرتا ہے۔—‏پید 22:‏1-‏18‏۔‏

8.‏ بنی‌اِسرائیل یہوواہ کے حضور جو قربانیاں پیش کرتے تھے، وہ کس قربانی کی طرف اِشارہ کرتی تھیں؟ (‏احبار 4:‏27-‏29؛‏ 17:‏11‏)‏

8 کئی صدیوں بعد یہوواہ نے بنی‌اِسرائیل کو شریعت دی جس میں اُس نے اُنہیں بتایا کہ وہ اپنے گُناہوں سے معافی حاصل کرنے کے لیے اُس کے حضور جانوروں کی قربانیاں پیش کریں۔ ‏(‏احبار 4:‏27-‏29؛‏ 17:‏11 کو پڑھیں۔)‏ یہ قربانیاں ایک عظیم قربانی کی طرف اِشارہ کرتی تھیں۔ اِس عظیم قربانی کے ذریعے اِنسانوں کو گُناہ سے مکمل طور پر نجات ملنی تھی۔ خدا نے اپنے نبیوں کے ذریعے بتایا کہ جس نسل کا اُس نے وعدہ کِیا ہے، اُسے تکلیف سہنی پڑے گی اور اُسے موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے گا۔ اُسے قربانی کے ایک میمنے کی طرح ذبح کِیا جائے گا۔ یہ نسل دراصل خدا کا اپنا بیٹا ثابت ہوا۔ (‏یسع 53:‏1-‏12‏)‏ ذرا سوچیں کہ یہوواہ نے تمام اِنسانوں کو جس میں آپ بھی شامل ہیں،گُناہ اور موت سے نجات دِلانے کے لیے اپنا پیارا بیٹا قربان کر دیا!‏

یسوع مسیح نے اِنسانوں کو نجات دِلانے کے لیے کیا کِیا؟‏

9.‏ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے یسوع کے بارے میں کیا بتایا؟ (‏عبرانیوں 9:‏22؛‏ 10:‏1-‏4،‏ 12‏)‏

9 یہ 29ء کی بات تھی۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے ناصرت سے تعلق رکھنے والے یسوع کو اپنی طرف آتے دیکھا اور کہا:‏ ”‏یہ خدا کا میمنا ہے جو دُنیا کے گُناہ دُور کر دیتا ہے۔“‏ (‏یوح 1:‏29‏)‏ اِس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یسوع ہی وہ نسل تھے جس کے آنے کا وعدہ بہت صدیوں پہلے کِیا گیا تھا۔ یسوع نے ہی وہ قربانی پیش کرنی تھی جس کے بارے میں نبیوں نے پیش‌گوئی کی تھی۔ اب تو گُناہ‌گار اِنسانوں کی یہ اُمید پہلے سے بھی زیادہ پکی ہو گئی ہے کہ وہ گُناہ اور موت سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔‏‏—‏عبرانیوں 9:‏22؛‏ 10:‏1-‏4،‏ 12 کو پڑھیں۔‏

10.‏ یسوع نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ ’‏گُناہ‌گاروں کو بُلانے‘‏ آئے ہیں؟‏

10 یسوع مسیح نے اُن لوگوں کو خاص توجہ دی جو خود کو گُناہ کے بوجھ تلے دبا محسوس کرتے تھے۔ اُنہوں نے ایسے لوگوں کو دعوت دی کہ وہ اُن کے پیروکار بنیں۔ وہ جانتے تھے کہ گُناہ ساری مصیبتوں کی جڑ ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے خاص طور پر ایسے لوگوں کی مدد کی جنہیں بہت گُناہ‌گار سمجھا جاتا تھا۔ اِس حوالے سے یسوع مسیح نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏تندرست لوگوں کو حکیم کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بیمار لوگوں کو۔“‏ پھر اُنہوں نے آگے کہا:‏ ”‏مَیں دین‌داروں کو بلا‌نے نہیں آیا بلکہ گُناہ‌گاروں کو۔“‏ (‏متی 9:‏12، 13‏)‏ یسوع مسیح نے جو کہا، وہ کِیا بھی۔ وہ اُس عورت کے ساتھ بہت پیار سے پیش آئے جس نے اپنے آنسوؤں سے اُن کے پاؤں دھوئے۔ اُنہوں نے اُس عورت کے گُناہ معاف کر دیے۔ (‏لُو 7:‏37-‏50‏)‏ اِس کے علاوہ یسوع نے کنوئیں پر سامری عورت کو بہت سی اہم سچائیاں سکھائیں حالانکہ وہ جانتے تھے کہ وہ ایک بدچلن عورت ہے۔ (‏یوح 4:‏7،‏ 17-‏19،‏ 25، 26‏)‏ یہوواہ نے تو یسوع مسیح کو موت کو بھی ختم کرنے کا اِختیار دیا ہے جو گُناہ کی وجہ سے ہم پر آتی ہے۔ وہ کیسے؟ جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُنہوں نے مُردوں کو زندہ کِیا جن میں آدمی، عورتیں اور بچے شامل تھے۔—‏متی 11:‏5‏۔‏

11.‏ گُناہ‌گار لوگ یسوع کے پاس آنے سے کیوں نہیں ہچکچاتے تھے؟‏

11 یسوع مسیح جس طرح سے گُناہ‌گاروں کے ساتھ پیش آئے، اُس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ گُناہ کی دَلدل میں پھنسے لوگ اُن کے پاس آنے سے کیوں نہیں ہچکچاتے تھے۔ یسوع ایسے لوگوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ اِن لوگوں کو یسوع مسیح کے پاس آ کر بہت سکون ملتا تھا۔ (‏لُو 15:‏1، 2‏)‏ یسوع مسیح بھی اِن لوگوں کا حوصلہ بڑھاتے تھے کیونکہ یہ لوگ اُن پر ایمان ظاہر کر رہے تھے۔ (‏لُو 19:‏1-‏10‏)‏ رحم ظاہر کرنے کے معاملے میں یسوع بالکل اپنے باپ کی طرح تھے۔ (‏یوح 14:‏9‏)‏ یسوع نے اپنی باتوں اور کاموں سے ظاہر کِیا کہ اُن کا رحم‌دل باپ یہوواہ اِنسانوں سے محبت کرتا ہے اور گُناہ کے خلاف لڑنے میں اُن کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ یسوع مسیح نے گُناہ‌گار لوگوں کی مدد کی تاکہ وہ اپنی بُری روِش کو بدلیں اور اُن کے پیروکار بنیں۔—‏لُو 5:‏27، 28‏۔‏

12.‏ یسوع مسیح نے اپنی موت کے حوالے سے کون سی بات بتائی؟‏

12 یسوع مسیح کو پتہ تھا کہ اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اُنہوں نے کئی بار اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ اُنہیں دھوکے سے دُشمنوں کے حوالے کِیا جائے گا اور سُولی دی جائے گی۔ (‏متی 17:‏22؛‏ 20:‏18، 19‏)‏ یسوع کو پتہ تھا کہ اُن کی قربانی کی وجہ سے دُنیا کے گُناہ دُور ہو جائیں گے جیسا کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اور خدا کے نبیوں نے بھی پیش‌گوئی کی تھی۔ یسوع نے یہ بھی بتایا کہ اپنی جان قربان کرنے کے بعد وہ ’‏ہر طرح کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچیں گے۔‘‏ (‏یوح 12:‏32‏)‏ گُناہ‌گار اِنسان یسوع کو اپنا مالک تسلیم کر کے اور اُن کے نقشِ‌قدم پر چل کر یہوواہ کو خوش کر سکتے تھے۔ ایسا کرنے سے وہ آخرکار ”‏گُناہ سے آزاد“‏ ہو جائیں گے۔ (‏روم 6:‏14،‏ 18،‏ 22؛‏ یوح 8:‏32‏)‏ تو یسوع مسیح نے ہمیں نجات دِلانے کے لیے بڑی دلیری سے دردناک موت سہی۔—‏یوح 10:‏17، 18‏۔‏

13.‏ یسوع مسیح کو کس طرح کی موت سہنی پڑی اور اِس سے ہمیں یہوواہ کے بارے میں کون سی بات پتہ چلتی ہے؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

13 یسوع مسیح کو دھوکا دیا گیا؛ اُنہیں گِرفتار کِیا گیا؛ اُن کی بے‌عزتی کی گئی؛ اُن پر جھوٹے اِلزام لگائے گئے؛ اُنہیں قصوروار ٹھہرایا گیا، یہاں تک کہ اُنہیں بُری طرح سے مارا پیٹا گیا۔ اِس کے بعد فوجی یسوع کو اپنے ساتھ لے گئے اور اُنہوں نے یسوع کے ہاتھوں اور پیروں میں کیل ٹھونک کر اُنہیں سُولی دے دی۔ جب یسوع مسیح شدید تکلیف سہہ رہے تھے تو اُنہیں تکلیف میں دیکھ کر ایک اَور ہستی کو اُن سے بھی زیادہ تکلیف پہنچ رہی تھی۔ یہ ہستی یہوواہ خدا تھا۔ اگر یہوواہ چاہتا تو وہ اپنی بے‌پناہ طاقت کو اِستعمال کر کے اپنے بیٹے کو اِس تکلیف سے بچا سکتا تھا لیکن اُس نے ایسا نہیں کِیا۔ مگر کیوں، اِتنا شفیق باپ ہونے کے باوجود یہوواہ نے اپنے بیٹے کو اِتنی تکلیف کیوں سہنے دی؟ ہم سے محبت کرنے کی وجہ سے۔ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏خدا کو دُنیا سے اِتنی محبت ہے کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا دے دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان ظاہر کرے، وہ ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“‏—‏یوح 3:‏16‏۔‏

یہوواہ نے اِنسانوں کو گُناہ اور موت سے نجات دِلانے کے لیے اپنے بیٹے کو قربان کر دیا۔ اپنے بیٹے کو تکلیف‌دہ موت سہتے ہوئے دیکھ کر یہوواہ کو اِتنی تکلیف ہوئی جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ (‏پیراگراف نمبر 13 کو دیکھیں۔)‏


14.‏ یسوع مسیح کی قربانی سے ہمیں کون سی بات پتہ چلتی ہے؟‏

14 یسوع مسیح کی موت اِس بات کا واضح ثبوت تھی کہ یہوواہ آدم اور حوّا کی اولاد سے کتنا پیار کرتا ہے۔ دراصل اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہوواہ آپ سے کتنا پیار کرتا ہے۔ اُس نے آپ کو گُناہ اور موت سے نجات دِلانے کی خاطر اِس حد تک تکلیف سہی ہے جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ (‏1-‏یوح 4:‏9، 10‏)‏ بے‌شک وہ ہم میں سے ہر ایک کی مدد کرنا چاہتا ہے کہ ہم گُناہ سے لڑیں۔ وہ تو مستقبل میں ہمیں مکمل طور پر اِس سے نجات دِلا دے گا۔‏

15.‏ یسوع مسیح کی قربانی سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‏

15 خدا کے اِکلوتے بیٹے کی قربانی ہمارے لیے ایک نعمت ہے۔ اِس نعمت کی وجہ سے ہمارے لیے اپنے گُناہوں سے معافی حاصل کرنا ممکن ہوا۔ لیکن یہوواہ سے معافی پانے کے لیے ہمیں بھی کچھ کرنا ہوگا۔ ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ اِس حوالے سے یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اور خود یسوع مسیح نے بھی کہا:‏ ”‏توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہت نزدیک ہے۔“‏ (‏متی 3:‏1، 2؛‏ 4:‏17‏)‏ تو اگر ہم واقعی اپنے گُناہوں سے لڑنا چاہتے ہیں اور اپنے شفیق آسمانی باپ کے قریب جانا چاہتے ہیں تو توبہ کرنا لازمی ہے۔ لیکن توبہ کرنے میں کیا کچھ شامل ہے اور توبہ کرنے سے گُناہ کے خلاف لڑنے میں ہماری مدد کیسے ہوتی ہے؟ اگلے مضمون میں اِس بارے میں بات کی جائے گی۔‏

گیت نمبر 18‏:‏ فدیے کے لیے شکرگزار

a لفظ کی وضاحت:‏ بائبل میں لفظ ‏”‏گُناہ“‏ بُرے کاموں کی طرف اِشارہ کرتا ہے یعنی جب ہم خدا کے معیاروں کے مطابق زندگی گزارنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ لیکن لفظ ”‏گُناہ“‏ تمام اِنسانوں کے عیب‌دار ہونے کی طرف بھی اِشارہ کرتا ہے یعنی گُناہ کی حالت کی طرف جو ہمیں آدم سے ورثے میں ملی ہے۔ اِس گُناہ کی وجہ سے ہی ہم سب پر موت آتی ہے۔‏

b پُرانے زمانے میں یہوواہ کے بندے اُس کے حضور جو قربانیاں پیش کرتے تھے، اِنہیں یہوواہ نے اُس قربانی کی بِنا پر قبول کِیا جو یسوع مسیح نے مستقبل میں دینی تھی۔ یہوواہ جانتا تھا کہ اُس کے بیٹے کی قربانی کے ذریعے اِنسانوں کو مکمل طور پر گُناہ اور موت سے نجات ملے گی۔—‏روم 3:‏25‏۔‏