مطالعے کا مضمون نمبر 31
”ثابتقدم اور ڈٹے رہیں“
”عزیز بھائیو، ثابتقدم اور ڈٹے رہیں۔“—1-کُر 15:58۔
گیت نمبر 122: سچائی کی راہ پر قائم رہیں
مضمون پر ایک نظر a
1-2. ایک مسیحی کس لحاظ سے ایک عمارت کی طرح ہے؟ (1-کُرنتھیوں 15:58)
سن 1978ء میں جاپان کے شہر ٹوکیو میں ایک بہت اُونچی عمارت بنائی گئی۔ لوگوں کے ذہن میں یہ بات چل رہی تھی کہ شہر میں تو اِتنے زیادہ زلزلے آتے ہیں، کیا یہ عمارت اُن زلزلوں کے سامنے ٹک پائے گی؟ اِس عمارت کو بنانے والے لوگوں نے کیا کِیا تاکہ یہ عمارت زلزلے کے جھٹکے برداشت کر پائے؟ اُنہوں نے اِسے اِس طرح بنایا کہ یہ مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ لچکدار بھی ہو۔ مسیحی بھی ایسی عمارت کی طرح ہی ہیں۔ لیکن کس لحاظ سے؟
2 ایک مسیحی کو ثابتقدم ہونے کے ساتھ ساتھ لچکدار بھی ہونا چاہیے۔ جب یہوواہ کے اصولوں اور معیاروں کی بات آتی ہے تو اُسے اِن پر قائم اور ڈٹے رہنا چاہیے۔ (1-کُرنتھیوں 15:58 کو پڑھیں۔) اُسے اِن پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے اور یہوواہ کا ”فرمانبردار“ رہنا چاہیے۔ صورتحال کے حساب سے اُسے ”سمجھدار“ یا لچکدار بھی ہونا چاہیے۔ (یعقو 3:17) جس مسیحی میں یہ دونوں باتیں ہوتی ہیں، وہ یہوواہ کے معیاروں کو لے کر نہ تو بہت زیادہ سخت ہوتا ہے اور نہ ہی حد سے زیادہ نرم۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم ڈٹے کیسے رہ سکتے ہیں۔ ہم شیطان کی پانچ ایسی چالوں پر بھی غور کریں گے جو وہ ثابتقدم رہنے کے ہمارے عزم کو توڑنے کے لیے اِستعمال کرتا ہے اور دیکھیں گے کہ ہم اُس کی اِن چالوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔
ہم ثابتقدم کیسے رہ سکتے ہیں؟
3. اعمال 15:28، 29 میں یہوواہ نے کون سے حکم دیے ہیں؟
3 یہوواہ کے پاس ہی قانون بنانے کا حق ہے۔ اور وہ ایسے قانون بناتا ہے جو واضح ہوتے ہیں اور آسانی سے سمجھ آ جاتے ہیں۔ (یسع 33:22) مثال کے طور پر پہلی صدی عیسوی کی گورننگ باڈی نے تین ایسے معاملوں کے بارے میں بتایا جن میں مسیحیوں کو اپنے ایمان پر ڈٹے رہنا چاہیے۔ وہ معاملے یہ تھے: (1) مسیحیوں کو بُتپرستی سے کنارہ کرنا چاہیے اور صرف یہوواہ کی عبادت کرنی چاہیے؛ (2) اُنہیں یہوواہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے خون کو پاک خیال کرنا چاہیے اور (3) اُنہیں بائبل کے حکم پر عمل کرتے ہوئے حرامکاری سے دُور رہنا چاہیے۔ (اعمال 15:28، 29 کو پڑھیں۔) مسیحی اِن تینوں معاملوں میں اپنے ایمان پر کیسے قائم رہ سکتے ہیں؟
4. ہم صرف یہوواہ کی بندگی کیسے کرتے ہیں؟ (مکاشفہ 4:11)
4 ہم بُتپرستی سے کنارہ کرتے اور صرف یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں۔ یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ صرف اُس کی عبادت کریں۔ (اِست 5:6-10) اور جب شیطان نے یسوع کو آزمایا تھا تو یسوع نے صاف کہا تھا کہ ہمیں صرف یہوواہ اپنے خدا کی عبادت کرنی چاہیے۔ (متی 4:8-10) اِس لیے ہم بُتوں کی پرستش نہیں کرتے۔ ہم اِنسانوں کے پرستار بھی نہیں بنتے اور اُن کے ساتھ ایسے پیش نہیں آتے کہ جیسے وہ کوئی خدا ہوں پھر چاہے وہ کوئی مذہبی رہنما ہو، سیاستدان ہو، کھلاڑی ہو، اداکار ہو یا موسیقار۔ ہم صرف یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں جس نے ”سب چیزیں بنائی ہیں۔“—مکاشفہ 4:11 کو پڑھیں۔
5. ہم زندگی او خون کے پاک ہونے کے حوالے سے یہوواہ کے حکم کو کیوں مانتے ہیں؟
5 ہم زندگی او خون کے پاک ہونے کے حوالے سے یہوواہ کے حکم کو مانتے ہیں۔ لیکن کیوں؟ کیونکہ یہوواہ نے کہا ہے کہ خون زندگی کی علامت ہے۔ اور زندگی اُس کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ (احبا 17:14) جب یہوواہ نے اِنسانوں کو جانوروں کا گوشت کھانے کی اِجازت دی تھی تو اُس نے اُنہیں حکم دیا تھا کہ وہ گوشت کے ساتھ اُن کا خون نہ کھائیں۔ (پید 9:4) جب اُس نے بنیاِسرائیل کو شریعت دی تھی تو اُس نے اِس حکم کو دُہرایا۔ (احبا 17:10) اور اُس نے پہلی صدی عیسوی کی گورننگ باڈی کو ہدایت دی کہ وہ مسیحیوں سے کہیں کہ وہ ”خون . . . سے گریز کریں۔“ (اعما 15:28، 29) جب ہم علاج کے حوالے سے فیصلے لے رہے ہوتے ہیں تو ہم یہ پکا عزم کرتے ہیں کہ ہم یہوواہ کے اِس حکم پر عمل کریں گے۔ b
6. ہم یہوواہ کے اعلیٰ معیاروں کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے کیا کرتے ہیں؟
6 ہم یہوواہ کے اعلیٰ معیاروں کے مطابق زندگی گزارنے پر ڈٹے رہتے ہیں۔ (عبر 13:4) پولُس نے مسیحیوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے جسم کے اعضا کو ”مار ڈالیں۔“ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنے دل سے غلط خواہشوں کو نکال پھینکنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ ہم کوئی بھی ایسی چیز نہیں دیکھتے اور کوئی بھی ایسا کام نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم حرامکاری کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ (کُل 3:5؛ ایو 31:1) جب ہمیں کوئی غلط کام کرنے کی آزمائش کا سامنا ہوتا ہے تو ہم فوراً اپنے ذہن سے ایسی سوچ نکال دیتے ہیں اور ایسے کام کرنے سے اِنکار کرتے ہیں جن کی وجہ سے یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی ٹوٹ سکتی ہے۔
7. ہمیں کیا کرنے کا عزم کرنا چاہیے اور کیوں؟
7 یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم ”دل سے . . . فرمانبردار“ ہوں۔ (روم 6:17) وہ ہم سے جو بھی کرنے کو کہتا ہے، اُس میں ہمارا ہی بھلا ہوتا ہے۔ اور ہم اُس کے قانون اپنے حساب سے بدل نہیں سکتے۔ (یسع 48:17، 18؛ 1-کُر 6:9، 10) ہم یہوواہ کو خوش کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور ویسا ہی عزم کرتے ہیں جیسا زبور لکھنے والے ایک شخص نے کِیا تھا۔ اُس نے کہا تھا: ”مَیں نے ہمیشہ کے لئے آخر تک تیرے آئین ماننے پر دل لگایا ہے۔“ (زبور 119:112) لیکن شیطان ہمارے اِس عزم کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے وہ کون سی چالیں چلتا ہے؟
شیطان ہمارے عزم کو توڑنے کی کوشش کیسے کرتا ہے؟
8. شیطان اذیت کے ذریعے ہمارے عزم کو کمزور کرنے کی کوشش کس طرح کرتا ہے؟
8 اذیت۔ شیطان تشدد اور ذہنی اذیت کے ذریعے خدا کے بندوں کے عزم کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اُس کا مقصد ہے کہ وہ ہمیں ’پھاڑ کھائے‘ یعنی یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی کو تباہ کر دے۔ (1-پطر 5:8) پہلی صدی عیسوی کے مسیحی اِس بات پر ڈٹے ہوئے تھے کہ وہ یہوواہ کے وفادار رہیں گے۔ اِس وجہ سے دُشمنوں نے اُنہیں ڈرایا دھمکایا، مارا پیٹا اور کچھ کو تو قتل بھی کر دیا۔ (اعما 5:27، 28، 40؛ 7:54-60) شیطان آج بھی اِسی طرح سے خدا کے بندوں کو اذیت دے رہا ہے۔ روس اور کئی اَور ملکوں میں ہمارے بہن بھائیوں پر جو اذیت ڈھائی جا رہی ہے، وہ اِس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اور تقریباً سبھی ملکوں میں مخالف ہمارے بہن بھائیوں کو کسی نہ کسی طریقے سے اذیت دے رہے ہیں۔
9. مثال دے کر بتائیں کہ ہمیں ایسے دباؤ سے خبردار کیوں رہنا چاہیے جو شیطان بڑی چالاکی سے ہم پر ڈالتا ہے۔
9 چالاکی سے دباؤ ڈالنا۔ شیطان ہم پر کھلمکُھلا حملے تو کرتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ہمارے خلاف بہت سی ’چالیں‘ بھی چلتا ہے۔ (اِفس 6:11) ذرا اِس سلسلے میں بھائی باب کی مثال پر غور کریں جنہیں ایک بڑے آپریشن کے لیے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ اُنہوں نے ڈاکٹروں کو بتا دیا تھا کہ وہ کسی بھی صورت خون نہیں لگوائیں گے۔ جس ڈاکٹر نے بھائی کا آپریشن کرنا تھا، اُس نے بھائی سے کہا کہ جیسا وہ چاہتے ہیں ویسا ہی ہوگا۔ لیکن جس دن بھائی کا آپریشن ہونا تھا اُس سے ایک دن پہلے کی رات کو جب بھائی کے گھر والے واپس چلے گئے تو وہ ڈاکٹر بھائی باب سے ملنے آیا جس نے اُنہیں آپریشن سے پہلے بےہوشی کا ٹیکہ لگانا تھا۔ اُس نے بھائی سے کہا کہ ڈاکٹر آپریشن کے دوران تو خون اِستعمال نہیں کریں گے لیکن وہ خون کا بندوبست ضرور کر کے رکھیں گے تاکہ وہ اِسے ضرورت پڑنے پر آپ کو لگا سکیں۔ شاید اُس ڈاکٹر کے ذہن میں تھا کہ جب بھائی کے گھر والے آسپاس نہیں ہوں گے تو بھائی اپنا فیصلہ بدل لیں گے۔ لیکن بھائی باب اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے اور اُنہوں نے ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ کسی بھی صورت میں خون نہیں لگوائیں گے۔
10. جو لوگ یہوواہ کے حکموں کا احترام نہیں کرتے، اُن کی سوچ خطرناک کیوں ہے؟ (1-کُرنتھیوں 3:19، 20)
10 ایسے لوگوں کی سوچ جو یہوواہ کے حکموں کا احترام نہیں کرتے۔ اگر ہم ایسے لوگوں کی سوچ اپنا لیں گے جو یہوواہ کے حکموں کا احترام نہیں کرتے تو شاید ہم یہوواہ اور اُس کے معیاروں کو نظرانداز کر دیں۔ (1-کُرنتھیوں 3:19، 20 کو پڑھیں۔) ”دُنیا کی دانشمندی“ کی وجہ سے اکثر لوگ یہوواہ کی نافرمانی کرتے ہیں۔ پرگمن اور تھواتیرہ کے کچھ مسیحیوں نے اپنے شہر کے اُن لوگوں کی سوچ اپنا لی جو بدچلن تھے اور بُتوں کی پوجا کرتے تھے۔ یسوع مسیح نے اِن دونوں کلیسیاؤں کی سختی سے درستی کی کیونکہ اُنہوں نے بدچلنی کی چُھوٹ دی ہوئی تھی۔ (مکا 2:14، 20) آج بھی لوگ ہم پر غلط سوچ اپنانے کا دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ ہمارے رشتےدار اور جان پہچان کے لوگ شاید ہم سے کہیں کہ ہم اپنی خواہشوں کو پورا کریں اور یہوواہ کے حکموں کو توڑ دیں۔ مثال کے طور پر شاید وہ ہم سے کہیں کہ بائبل میں اپنے چالچلن کو پاک رکھنے کے حوالے سے جو معیار دیے گئے ہیں، وہ پُرانے زمانے کے لوگوں کے لیے تھے؛ آج اُن معیاروں کے مطابق زندگی گزارنا ضروری نہیں ہے۔
11. جب ہم اپنے عزم پر ڈٹے ہوتے ہیں تو ہمیں کیا کرنے سے بچنا چاہیے؟
11 کبھی کبھار شاید ہم یہ سوچنے لگیں کہ یہوواہ نے ہمیں جو ہدایت دی ہے، وہ اِتنی واضح نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم ”لکھی ہوئی باتوں سے آگے“ بڑھنے لگیں۔ (1-کُر 4:6) یسوع کے زمانے کے مذہبی رہنما بھی ایسا ہی کر رہے تھے۔ وہ شریعت میں اپنے بنائے ہوئے کچھ قانون شامل کر رہے تھے اور عام لوگوں کے لیے اِن قوانین پر عمل کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ (متی 23:4) یہوواہ اپنے کلام اور اپنی تنظیم کے ذریعے ہمیں واضح ہدایتیں دیتا ہے۔ اِس لیے ہمارے پاس اِن ہدایتوں میں اپنی مرضی سے کچھ شامل کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ (امثا 3:5-7) ہم کبھی بھی لکھی ہوئی باتوں سے آگے نہیں بڑھتے یا ایسی باتوں کے بارے میں اپنے ہمایمانوں کے لیے قانون نہیں بناتے جن کے بارے میں بائبل میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
12. شیطان ہمارے عزم کو توڑنے کے لیے ”فضول باتوں“ کو کیسے اِستعمال کرتا ہے؟
12 فضول باتیں۔ شیطان ”فضول باتوں“ اور ”دُنیا کے بنیادی اصولوں“ کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے اور اُن میں پھوٹ ڈالنا چاہتا ہے۔ (کُل 2:8) پہلی صدی عیسوی میں شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اِنسانی نظریات پر مبنی فلسفوں، یہودیوں کی ایسی تعلیمات کو جو صحیفوں سے ہٹ کر تھیں اور اِس تعلیم کو اِستعمال کِیا کہ مسیحیوں کو شریعت پر لازمی عمل کرنا چاہیے۔ اِن جھوٹی باتوں کی وجہ سے لوگوں کا یہوواہ پر سے دھیان ہٹ گیا جو کہ سچی دانشمندی کا سر چشمہ ہے۔ آج شیطان سیاسی رہنماؤں کو اِستعمال کر کے خبروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلا رہا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران ہم نے ایسا ہوتے دیکھا۔ c جن لوگوں نے جھوٹی باتوں پر یقین کِیا، وہ حد سے زیادہ پریشان ہو گئے۔ لیکن یہوواہ کے گواہ یہوواہ کی تنظیم کی طرف سے ملنے والی ہدایت پر چلے اِس لیے وہ پُر سکون رہے۔—متی 24:45۔
13. ہمیں ایسی چیزوں سے کیوں بچنا چاہیے جو اہم باتوں سے ہمارا دھیان ہٹا سکتی ہیں؟
13 اہم باتوں سے دھیان ہٹانے والی چیزیں۔ ہمیں ایسی باتوں پر اپنا دھیان رکھنا چاہیے جو ”زیادہ اہم ہیں۔“ (فل 1:9، 10) اگر ہمارا دھیان اہم باتوں سے ہٹ جائے گا تو ہم اپنا بہت سا وقت اور طاقت ضائع کر دیں گے۔ کھانا پینا، تفریح اور نوکری جیسے روزمرہ کے کام بھی ہمارا دھیان اہم باتوں سے ہٹا سکتے ہیں۔ (لُو 21:34، 35) اِس کے ساتھ ساتھ ہر روز ہی ہمیں احتجاجوں اور سیاسی مسئلوں کی خبریں ملتی ہیں۔ ہمیں اِن معاملوں میں اُلجھنے سے بچنا چاہیے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو شاید ہم اندر ہی اندر کسی کی طرفداری کرنے لگیں۔ شیطان اِن سارے طریقوں کو اِس لیے اِستعمال کرتا ہے تاکہ وہ صحیح کام کرنے کے ہمارے عزم کو کمزور کر سکے۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ ہم اُس کی چالوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں اور اپنے عزم پر کیسے ڈٹے رہ سکتے ہیں۔
ہم اپنے عزم پر کیسے ڈٹے رہ سکتے ہیں؟
14. کیا چیز ہماری مدد کر سکتی ہے تاکہ ہم یہوواہ کی طرف رہنے کے اپنے عزم پر قائم رہیں؟
14 سوچیں کہ آپ نے اپنی زندگی یہوواہ کے نام کیوں کی اور بپتسمہ کیوں لیا۔ آپ نے یہ قدم اِس لیے اُٹھائے تھے تاکہ آپ ثابت کر سکیں کہ آپ یہوواہ کی طرف ہیں۔ ذرا سوچیں کہ کس چیز نے آپ کی مدد کی تاکہ آپ کو اِس بات پر یقین ہو جائے کہ آپ کو سچی تعلیم مل گئی ہے۔ آپ یہوواہ کو جاننے لگے اور اُسے اپنا آسمانی باپ مان کر اُس کی عزت اور اُس سے محبت کرنے لگے۔ آپ ایمان لے آئے اور آپ نے اپنے گُناہوں سے توبہ کی۔ آپ نے ایسے کام چھوڑ دیے جن سے یہوواہ کو نفرت ہے اور پھر آپ ایسے کام کرنے لگے جن سے یہوواہ کو خوشی ملتی ہے۔ جب آپ سمجھ گئے کہ یہوواہ نے آپ کو معاف کِیا ہے تو آپ کو ذہنی سکون ملا۔ (زبور 32:1، 2) آپ عبادتوں پر آنے لگے اور وہ باتیں دوسروں کو بتانے لگے جو آپ نے پاک کلام سے سیکھی تھیں۔ اب آپ ایک بپتسمہیافتہ یہوواہ کے گواہ کے طور پر اُس راہ پر چل رہے ہیں جو زندگی کی طرف لے جاتی ہے اور آپ نے پکا عزم کِیا ہوا ہے کہ آپ اِس راہ پر چلتے رہیں گے۔—متی 7:13، 14۔
15. خدا کے کلام کو پڑھنے اور اِس پر سوچ بچار کرنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟
15 خدا کے کلام کو پڑھیں اور اِس پر سوچ بچار کریں۔ ایک درخت اُسی وقت مضبوطی سے کھڑا رہ سکتا ہے جب اُس کی جڑیں گہری ہوتی ہیں۔ اِسی طرح اگر یہوواہ پر ہمارا ایمان مضبوط ہوگا تو ہم اُس کے وفادار رہنے کے اپنے عزم پر ڈٹے رہیں گے۔ جب ایک درخت بڑھتا ہے تو اُس کی جڑیں گہری ہوتی جاتی اور پھیلتی جاتی ہیں۔ جب ہم خدا کے کلام کو پڑھتے اور اِس پر سوچ بچار کرتے ہیں تو ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور اِس بات پر ہمارا یقین اَور پکا ہو جاتا ہے کہ یہوواہ کی بات ماننے میں ہی ہمارا بھلا ہے۔ (کُل 2:6، 7) اِس بات پر غور کریں کہ ماضی میں یہوواہ کی ہدایتوں اور مشوروں سے اُس کے بندوں کو کیسے فائدہ ہوا۔ مثال کے طور پر حِزقیایل نے اِس بات پر بہت غور کِیا کہ ایک فرشتہ اُس ہیکل کی پیمائش کتنے دھیان سے کر رہا ہے جو حِزقیایل ایک رُویا میں دیکھ رہے تھے۔ اِس رُویا کی وجہ سے حِزقیایل کا ایمان مضبوط ہوا۔ اِس سے ہم سیکھتے ہیں کہ ہم یہوواہ کی عبادت کے حوالے سے اُس کے اعلیٰ معیاروں پر کیسے پورا اُتر سکتے ہیں۔ (حِز 40:1-4؛ 43:10-12) جب ہم بھی خدا کے کلام کی گہری باتوں کو پڑھتے اور اِن پر سوچ بچار کرتے ہیں تو اِس سے ہمیں بھی بہت فائدہ ہوتا ہے۔
16. ثابتقدم دل کی وجہ سے بھائی باب کو کیسے فائدہ ہوا؟ (زبور 112:7)
16 اپنے دل کو ثابتقدم کریں۔ بادشاہ داؤد نے ایک زبور میں اِس بات کا اِظہار کِیا کہ وہ اپنے دل سے یہوواہ کے لیے محبت کو کبھی بھی ختم نہیں ہونے دیں گے۔ اُنہوں نے کہا: ”اَے خدا! میرا دل قائم ہے۔“ (زبور 57:7) ہم بھی یہوواہ پر پورا بھروسا رکھ کر اپنے دل کو قائم رکھ سکتے ہیں یعنی ثابتقدم رہ سکتے ہیں۔ (زبور 112:7 کو پڑھیں۔) غور کریں کہ اِس چیز نے بھائی باب کی مدد کیسے کی۔ جب ڈاکٹر نے اُنہیں بتایا کہ وہ اُن کے آپریشن کے دوران خون کا بندوبست کر کے رکھیں گے تاکہ ضرورت پڑنے پر اُنہیں خون لگایا جا سکے تو بھائی نے اُنہیں فوراً جواب دیا کہ اگر ڈاکٹروں نے اُنہیں خون لگانے کے بارے میں سوچا بھی تو وہ فوراً ہسپتال سے چلے جائیں گے۔ بعد میں بھائی باب نے کہا: ”مجھے اچھی طرح پتہ تھا کہ مَیں نے کیا کرنا ہے اور مَیں اِس وجہ سے پریشان نہیں تھا کہ آگے کیا ہوگا۔“
17. ہم بھائی باب سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
17 بھائی باب اِس لیے ثابتقدم رہ پائے کیونکہ اُنہوں نے ہسپتال جانے سے پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہیں گے۔ سب سے پہلے تو اُنہوں نے اپنے دل میں یہوواہ کو خوش کرنے کی خواہش پیدا کی۔ پھر اُنہوں نے بائبل اور ہماری کتابوں اور ویڈیوز کے ذریعے سے اِس بات پر تحقیق کی کہ اِن میں زندگی اور خون کے پاک ہونے کے بارے میں کیا لکھا ہے۔ اِس کے بعد اُنہوں نے اِس بات پر اپنے ایمان کو مضبوط کِیا کہ اگر وہ یہوواہ کے حکموں کو ماننے کا فیصلہ کریں گے تو یہوواہ اُنہیں اِس کا اجر ضرور دے گا۔ بھائی باب کی طرح ہم بھی کسی بھی طرح کی مشکل کا سامنا کرتے وقت ثابتقدم رہ سکتے ہیں۔
18. برق نے یہوواہ پر بھروسا کرنے کے حوالے سے ہمارے لیے اچھی مثال کیسے قائم کی؟ (سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔)
18 یہوواہ پر بھروسا کریں۔ ذرا برق کی مثال پر غور کریں جنہیں یہوواہ کی ہدایتوں پر بھروسا کرنے سے فائدہ ہوا۔ برق کے زمانے میں بنیاِسرائیل جنگ کے لیے تیار نہیں تھے؛ اُن کے پاس تو ہتھیار تک نہیں تھے۔ لیکن یہوواہ نے برق سے کہا کہ وہ کنعانی فوج کے سپہسالار سیسرا اور اُس کی فوج سے لڑنے جائیں جن کے پاس ڈھیروں ڈھیر ہتھیار تھے۔ (قضا 5:8) دبورہ نبِیّہ نے برق سے کہا کہ وہ پہاڑوں سے اُتر کر ہموار زمین پر سیسرا اور اُس کے 900 رتھوں کا مقابلہ کریں۔ بنیاِسرائیل کے لیے ہموار زمین پر تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے رتھوں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ اور برق یہ بات جانتے تھے۔ اِس کے باوجود اُنہوں نے اُس ہدایت پر عمل کِیا جو یہوواہ نے دبورہ نبِیّہ کے ذریعے اُنہیں دی۔ جیسے ہی برق اور اُن کی فوج کوہِتبور سے نیچے اُتری، یہوواہ نے بہت تیز بارش برسائی۔ سیسرا کے رتھ گارے میں پھنس گئے۔ اور یہوواہ نے برق کو جنگ جتوا دی۔ (قضا 4:1-7، 10، 13-16) اِسی طرح جب ہم بھی یہوواہ اور اُس کی تنظیم کی ہدایتوں پر بھروسا کریں گے تو وہ ہمیں بھی کامیابی عطا کرے گا۔—اِست 31:6۔
اپنے عزم پر ڈٹے رہیں
19. آپ ثابتقدم کیوں رہنا چاہتے ہیں؟
19 جب تک ہم شیطان کی اِس دُنیا میں رہ رہیں ہیں، ہمیں ثابتقدم رہنے کی اپنی کوشش جاری رکھنی ہوگی۔ (1-تیم 6:11، 12؛ 2-پطر 3:17) دُعا ہے کہ ہم کبھی بھی اذیت، چالاکی سے ڈالے گئے دباؤ، اِنسانی سوچ، فضول باتوں یا ایسی چیزوں کی وجہ سے اپنے عزم سے نہ ہٹیں جو اہم باتوں سے ہمارا دھیان ہٹا سکتی ہیں۔ (اِفس 4:14) اِس کی بجائے آئیے، ثابتقدم رہیں؛ یہوواہ سے محبت کرتے رہیں اور اُس کے حکموں کو مانتے رہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں سمجھدار اور لچکدار بھی ہونا چاہیے۔ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ یہوواہ اور یسوع نے اِس حوالے سے ہمارے لیے اچھی مثال کیسے قائم کی ہے۔
گیت نمبر 129: ہم ثابتقدم رہیں گے
a آدم اور حوا کے زمانے سے شیطان لوگوں کو اِس بات پر یقین دِلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اُنہیں خود اِس بات کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم یہوواہ کے اصولوں پر چلنے اور اُس کی تنظیم کی ہدایتوں کو ماننے کی بجائے اپنی منمانی کریں۔ یہ مضمون ہماری مدد کرے گا تاکہ ہم پر شیطان کی دُنیا کی سوچ کا اثر نہ ہو اور ہم اِس بات کا پکا عزم کر سکیں کہ ہم ہمیشہ یہوواہ کی بات مانیں گے۔
b اِس بارے میں جاننے کے لیے کہ ایک مسیحی خون کے حوالے سے خدا کے حکم پر عمل کیسے کر سکتا ہے، کتاب ”اب اور ہمیشہ تک خوشیوں بھری زندگی!“ کے سبق نمبر 39 کو دیکھیں۔
c jw.org پر ویڈیو ”غلط معلومات سے بچیں“ کو دیکھیں۔