مطالعے کا مضمون نمبر 29
کیا آپ بڑی مصیبت کے لیے تیار ہیں؟
”آپ . . . تیار رہیں۔“—متی 24:44۔
گیت نمبر 150: مخلصی کے لیے یہوواہ پر آس لگائیں
مضمون پر ایک نظر a
1. آفتوں کے لیے تیار رہنا سمجھداری کی بات کیوں ہوتی ہے؟
اگر ہم کسی چیز کے لیے پہلے سے تیار رہتے ہیں تو اِس سے ہماری زندگی بچ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر جو لوگ کسی آفت کے لیے پہلے سے تیار ہوتے ہیں، وہ اپنا بچاؤ کر پاتے ہیں اور دوسروں کی مدد بھی کر پاتے ہیں۔ یورپ میں لوگوں کی مدد کرنے والی ایک تنظیم نے کہا: ”اچھی تیاری زندگیاں بچا سکتی ہے۔“
2. ہمیں بڑی مصیبت کے لیے کیوں تیار رہنا چاہیے؟ (متی 24:44)
2 ”بڑی مصیبت“ اچانک شروع ہو جائے گی۔ (متی 24:21) لیکن یہ دوسری آفتوں سے اِس لحاظ سے فرق ہے کہ ہمیں پتہ ہے کہ یہ شروع ہونے والی ہے۔ تقریباً 2000 سال پہلے یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا تھا کہ اُنہیں خود کو اِس دن کے لیے تیار رکھنا چاہیے۔ (متی 24:44 کو پڑھیں۔) اگر ہم پہلے سے تیار رہیں گے تو ہمارے لیے اِس مشکل دَور میں ثابتقدم رہنا آسان ہوگا اور ہم دوسروں کی بھی ثابتقدم رہنے میں مدد کر پائیں گے۔—لُو 21:36۔
3. بڑی مصیبت کے لیے تیار ہونے میں ثابتقدمی، ہمدردی اور محبت ہمارے کام کیسے آئیں گی؟
3 ذرا تین ایسی خوبیوں پر غور کریں جو بڑی مصیبت کے لیے تیار ہونے میں ہماری مدد کریں گی۔ جب ہم سے کہا جائے گا کہ ہم لوگوں کو اَولوں جیسا سخت پیغام سنائیں اور وہ ہماری مخالفت کریں گے تو ہم کیا کریں گے؟ (مکا 16:21) ہمیں یہوواہ کا وفادار رہنے کے لیے ثابتقدم رہنا ہوگا اور اِس بات پر بھروسا رکھنا ہوگا کہ وہ ہماری حفاظت کرے گا۔ جب ہمارے بہن بھائیوں کے پاس ضرورت کی چیزیں نہیں ہوں گی یا اُن کا گھر بار چھن جائے گا تو ہم کیا کریں گے؟ (حبق 3:17، 18) اگر ہمیں اُن سے ہمدردی ہوگی تو ہم اِس مشکل وقت میں اُن کی مدد کریں گے۔ جب کچھ قومیں مل کر ہم پر حملہ کریں گی اور اِس وجہ سے ہمیں کچھ عرصے کے لیے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ایک جگہ رہنا ہوگا تو ہم کیا کریں گے؟ (حِز 38:10-12) اگر ہمارے دل میں اُن کے لیے گہری محبت ہوگی تو ہمیں یہ مشکل وقت بھی مشکل نہیں لگے گا۔
4. بائبل سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں اپنے اندر ثابتقدمی، ہمدردی اور محبت کی خوبی کو نکھارتے رہنا چاہیے؟
4 خدا کے کلام سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں اپنے اندر ثابتقدمی، ہمدردی اور محبت کی خوبی کو نکھارتے رہنا چاہیے۔ لُوقا 21:19 میں لکھا ہے: ”آپ ثابتقدم رہنے سے اپنی جان بچائیں گے۔“ کُلسّیوں 3:12 میں لکھا ہے: ”ہمدردی . . . کا لباس پہنیں۔“ اور 1-تھسلُنیکیوں 4:9، 10 میں لکھا ہے: ”خدا نے آپ کو سکھایا ہے کہ ایک دوسرے سے پیار کریں . . . لیکن بھائیو، ہم آپ سے اِلتجا کرتے ہیں کہ ایک دوسرے سے اَور زیادہ پیار کریں۔“ یہ باتیں پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کے لیے لکھی گئی تھیں جو یہ ثابت کر چُکے تھے کہ وہ ثابتقدم ہیں؛ ایک دوسرے کے ہمدرد ہیں اور ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن اُنہیں اپنے اندر اِن خوبیوں کو نکھارتے رہنا تھا۔ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ لیکن ہم اپنے اندر اِن خوبیوں کو کیسے نکھار سکتے ہیں؟ ایسا کرنے کے لیے سب سے پہلے ہم دیکھیں گے کہ پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں نے کیسے ثابت کِیا کہ اُن کے اندر یہ خوبیاں ہیں۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ ہم اِن مسیحیوں کی طرح کیسے بن سکتے ہیں اور اِس طرح یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم بڑی مصیبت کے لیے تیار ہیں۔
ثابتقدمی کی خوبی کو نکھاریں
5. پہلی صدی عیسوی کے مسیحی مشکلوں کے باوجود بھی ثابتقدم کیسے رہے؟
5 پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کو ثابتقدم رہنا تھا۔ (عبر 10:36) اُنہیں ایسی مشکلوں کا سامنا تو تھا ہی جن کا سامنا سب لوگوں کو ہوتا ہے لیکن اُنہیں مسیحی ہونے کی وجہ سے بھی کچھ مشکلیں سہنی پڑیں۔ اُن میں سے بہت سے مسیحیوں کو نہ صرف یہودی مذہبی رہنماؤں اور رومی حکومت کی طرف سے اذیت سہنی پڑی بلکہ اپنے گھر والوں کی طرف سے بھی۔ (متی 10:21) اُنہیں اِس بات کا دھیان بھی رکھنا تھا کہ وہ ایسے لوگوں کی جھوٹی تعلیمات سے بچے رہیں جو یہوواہ سے دُور ہو گئے ہیں اور اپنی تعلیمات کے ذریعے کلیسیا میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (اعما 20:29، 30) اِس سب کے باوجود بھی یہ مسیحی ثابتقدم رہے۔ (مکا 2:3) لیکن وہ یہ کیسے کر پائے؟ اُنہوں نے پاک صحیفوں سے ایسے لوگوں کی مثال پر غور کِیا جو مشکلوں کے باوجود بھی ثابتقدم رہے جیسے کہ ایوب۔ (یعقو 5:10، 11) اُنہوں نے دُعا میں یہوواہ سے ہمت مانگی۔ (اعما 4:29-31) اور اُنہوں نے یہ بات یاد رکھی کہ اگر وہ ثابتقدم رہیں گے تو یہوواہ اُنہیں اجر دے گا۔—اعما 5:41۔
6. بہن میریٹا نے مخالفت کے باوجود ثابتقدم رہنے کے لیے جو کچھ کِیا، اُس سے آپ نے کیا سیکھا ہے؟
6 اگر ہم باقاعدگی سے خدا کے کلام اور ہماری کتابوں اور ویڈیوز سے خدا کے ایسے بندوں کی مثالوں پر سوچ بچار کریں گے جو مشکلوں کے باوجود ثابتقدم رہے تو ہم بھی ثابتقدم رہ پائیں گے۔ البانیہ میں رہنے والی میریٹا نام کی بہن نے بھی ایسا ہی کِیا اور اِس وجہ سے وہ اپنے گھر والوں کی طرف سے بہت سخت مخالفت کو برداشت کر پائیں۔ اُنہوں نے کہا: ”جب مَیں نے بائبل سے ایوب کے بارے میں پڑھا تو مجھے بہت حوصلہ ملا۔ ایوب نے بہت کچھ سہا اور اُنہیں نہیں پتہ تھا کہ اُن پر مشکلیں کس کی وجہ سے آ رہی ہیں۔ لیکن پھر بھی اُنہوں نے کہا: ”مَیں مرتے دم تک اپنی راستی کو ترک نہ کروں گا۔“ (ایو 27:5) مَیں سوچنے لگی کہ ایوب کی مشکلیں میری مشکلوں سے کہیں زیادہ بڑی تھیں۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ اُن کی مشکلوں کے پیچھے کون ہے۔ لیکن مَیں یہ جانتی ہوں۔“
7. اگر ہم ابھی کسی سخت مشکل کا سامنا نہیں کر رہے تو بھی ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
7 باقاعدگی سے یہوواہ سے دُعا کرنے اور دل کھول کر اُسے اپنے احساسات بتانے سے بھی ہم اپنے اندر ثابتقدمی کی خوبی نکھار سکتے ہیں۔ (فل 4:6؛ 1-تھس 5:17) ہو سکتا ہے کہ آپ ابھی کسی سخت مشکل کا سامنا نہیں کر رہے۔ لیکن جب بھی آپ پریشان ہوتے ہیں یا اُلجھن میں ہوتے ہیں تو کیا آپ یہوواہ سے دُعا میں رہنمائی مانگتے ہیں؟ اگر آپ ابھی چھوٹے چھوٹے مسئلوں سے نمٹنے کے لیے باقاعدگی سے یہوواہ سے دُعا کریں گے تو مستقبل میں جب آپ کو بڑی مشکلوں کا سامنا ہوگا تو آپ ایسا کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائیں گے۔ آپ کو اِس بات کا پکا یقین ہوگا کہ یہوواہ یہ بہتر جانتا ہے کہ آپ کی مدد کرنے کا صحیح وقت اور صحیح طریقہ کیا ہے۔—زبور 27:1، 3۔
8. بہن میرا کی مثال سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ اگر ہم آج اپنی مشکلوں میں ثابتقدم رہتے ہیں تو ہم مستقبل میں بھی ثابتقدم رہیں گے؟ (یعقوب 1:2-4) (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
8 اگر ہم آج ثابتقدم رہیں گے تو شاید ہم اُس وقت بھی ثابتقدم رہیں جب بڑی مصیبت شروع ہوگی۔ (روم 5:3) ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟ ہمارے بہت سے بہن بھائیوں نے دیکھا ہے کہ ثابتقدمی کا ہر اِمتحان اُنہیں آنے والی مشکل کو برداشت کرنے کے لیے تیار کر دیتا ہے۔ ثابتقدمی اُنہیں اَور نکھار دیتی ہے اور اِس بات پر اُن کا ایمان مضبوط کرتی ہے کہ یہوواہ اُن کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔ اور یہوواہ پر مضبوط ایمان ہونے کی وجہ سے وہ اپنی اگلی مشکل میں ثابتقدم رہ پاتے ہیں۔ (یعقوب 1:2-4 کو پڑھیں۔) میرا نام کی ایک بہن البانیہ میں پہلکار ہیں۔ اُنہوں نے دیکھا ہے کہ اپنی مشکلوں میں ثابتقدم رہنے کی وجہ سے وہ اُن مشکلوں کو بھی برداشت کر پا رہی ہیں جن کا سامنا وہ آج کر رہی ہیں۔ وہ یہ بات مانتی ہیں کہ کبھی کبھار اُنہیں محسوس ہوتا ہے کہ صرف اُن پر ہی اِتنی مشکلیں آ رہی ہیں۔ لیکن پھر وہ سوچتی ہیں کہ یہوواہ نے پچھلے 20 سالوں میں کس کس طرح سے اُن کی مدد کی ہے اور وہ خود سے کہتی ہیں: ”یہوواہ نے اِتنی ساری مشکلوں میں ثابتقدم رہنے میں میری مدد کی ہے اِس لیے اب مَیں کسی قیمت پر اُس کی خدمت کرنا نہیں چھوڑوں گی۔“ آپ بھی اِس بارے میں سوچ سکتے ہیں کہ یہوواہ نے اب تک مشکلوں کو برداشت کرنے میں کس کس طرح سے آپ کی مدد کی ہے۔ اِس بات کا یقین رکھیں کہ ہر بار جب آپ کسی مشکل میں ثابتقدم رہتے ہیں تو یہوواہ یہ دیکھ رہا ہوتا ہے اور وہ اِس کے لیے آپ کو اجر دے گا۔ (متی 5:10-12) پھر جب بڑی مصیبت شروع ہوگی تو آپ یہ جانتے ہوں گے کہ مشکلوں میں ثابتقدم کیسے رہنا ہے اور آپ ثابتقدم رہنے کے اپنے عزم پر قائم رہ پائیں گے۔
ہمدرد بنیں
9. سُوریہ کے شہر انطاکیہ کی کلیسیا نے اپنے بہن بھائیوں کے لیے ہمدردی کیسے دِکھائی؟
9 غور کریں کہ اُس وقت کیا ہوا جب یہودیہ میں رہنے والے مسیحیوں کو سخت قحط کا سامنا کرنا پڑا۔ جب سُوریہ کے شہر انطاکیہ کی کلیسیا کو اِس قحط کے بارے میں پتہ چلا تو بےشک اُنہوں نے یہودیہ میں رہنے والے اپنے بہن بھائیوں کے لیے ہمدردی محسوس کی۔ لیکن اُنہوں نے ہمدردی صرف محسوس ہی نہیں کی بلکہ اپنے کاموں سے ثابت کِیا کہ اُنہیں اپنے بہن بھائیوں سے ہمدردی ہے۔ اُنہوں نے ”یہ فیصلہ کِیا کہ ہر ایک اپنی اپنی مالی حیثیت کے مطابق کچھ دے تاکہ یہودیہ میں رہنے والے بھائیوں کے لیے اِمداد بھیجی جا سکے۔“ (اعما 11:27-30) حالانکہ قحط کا سامنا کرنے والے بہن بھائی اِن مسیحیوں سے بہت دُور رہتے تھے لیکن پھر بھی انطاکیہ میں رہنے والے مسیحی اپنے اِن بہن بھائیوں کی مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے۔—1-یوح 3:17، 18۔
10. جب ہمارے ہمایمانوں کو کسی آفت کا سامنا ہوتا ہے تو ہم کن طریقوں سے اُن کے لیے ہمدردی دِکھا سکتے ہیں؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
10 جب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہمایمانوں کو کسی آفت کا سامنا ہوا ہے تو ہم بھی اُن کے لیے ہمدردی دِکھا سکتے ہیں۔ ہم اُن کی مدد کے لیے تیار رہ سکتے ہیں۔ شاید ہم اپنی کلیسیا کے بزرگوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا ہم اِن بہن بھائیوں کی مدد کے لیے بنائے گئے کسی منصوبے میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ ہم عالمگیر کام کے لیے عطیات دے سکتے ہیں یا آفت سے متاثر ہونے والوں کے لیے دُعا کر سکتے ہیں۔ b (امثا 17:17) مثال کے طور پر 2020ء میں 950 سے بھی زیادہ اِمدادی کمیٹیاں بنائی گئیں تاکہ اُن بہن بھائیوں کی مدد کی جا سکے جو کورونا کی وبا کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔ جن بہن بھائیوں نے اِن کمیٹیوں میں کام کِیا ہے، ہم اُن کی دل سے قدر کرتے ہیں۔ اپنے ہمایمانوں سے ہمدردی کی وجہ سے اِن بہن بھائیوں نے اُن تک ضرورت کی چیزیں پہنچائی ہیں، یہوواہ کے قریب رہنے میں اُن کی مدد کی ہے اور کچھ صورتحال میں بہن بھائیوں کے گھروں یا عبادتگاہوں کی تعمیر یا مرمت کی ہے۔—2-کُرنتھیوں 8:1-4 پر غور کریں۔
11. جب ہم دوسروں کے لیے ہمدردی ظاہر کرتے ہیں تو اِس سے ہمارے آسمانی باپ کی بڑائی کیسے ہوتی ہے؟
11 جب ہم کسی آفت کے بعد ہمدردی کی وجہ سے دوسروں کے لیے کوئی کام کرتے ہیں تو لوگ اِن کاموں کو نوٹ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2019ء میں جزیرہ بہاماس میں ڈورین نام کے ایک طوفان کی وجہ سے ہماری عبادتگاہ تباہ ہو گئی۔ جب ہمارے بہن بھائی اِس عبادتگاہ کو دوبارہ تعمیر کر رہے تھے تو اُنہوں نے ایک ٹھیکےدار سے پوچھا کہ اِس سارے کام میں کتنا خرچہ آئے گا۔ اُس ٹھیکےدار نے کہا: ”مَیں کچھ سامان، کام کرنے کے لیے کچھ مزدور اور تعمیر میں اِستعمال ہونے والا میٹریل آپ لوگوں کو عطیے کے طور پر دینا چاہتا ہوں۔ مَیں یہ صرف آپ کی تنظیم کے لیے ہی کر سکتا ہوں کیونکہ مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے کہ آپ لوگ ایک دوسرے کے لیے کتنی فکر دِکھاتے ہیں۔“ دُنیا کے زیادہتر لوگ یہوواہ کو نہیں جانتے۔ لیکن وہ یہوواہ کے گواہوں کو دیکھتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ہم دوسروں سے ہمدردی ظاہر کرنے کے لیے جو چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہیں، اُنہیں دیکھ کر لوگ ہمارے آسمانی باپ کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں جو ”بڑا رحیم ہے۔“—اِفس 2:4۔
12. اگر ہم ابھی اپنے اندر ہمدردی کی خوبی نکھاریں گے تو اِس سے ہم بڑی مصیبت کے لیے کیسے تیار ہو پائیں گے؟ (مکاشفہ 13:16، 17)
12 ہمیں بڑی مصیبت کے دوران ہمدردی کیوں ظاہر کرنی ہوگی؟ بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ اِس دُنیا کی حکومتوں کا ساتھ نہیں دیں گے، اُنہیں نہ صرف آج بلکہ بڑی مصیبت کے دوران بھی مشکلوں کا سامنا ہوگا۔ (مکاشفہ 13:16، 17 کو پڑھیں۔) شاید ہمارے بہن بھائی ضرورت کی بنیادی چیزوں سے بھی محروم ہو جائیں اور اُنہیں اِس سلسلے میں ہماری مدد چاہیے ہو۔ ہماری خواہش ہے کہ جب ہمارے بادشاہ یسوع مسیح لوگوں کی عدالت کریں تو وہ ہمیں دوسروں کے لیے ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے دیکھیں اور ہمیں ”بادشاہت کو ورثے میں حاصل“ کرنے کی دعوت دیں۔—متی 25:34-40۔
محبت کی خوبی کو نکھاریں
13. رومیوں 15:7 کے مطابق پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں نے ایک دوسرے کے لیے اپنی محبت کو کیسے بڑھایا؟
13 ہر کوئی جانتا تھا کہ پہلی صدی عیسوی کے مسیحی ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں۔ لیکن کیا ایک دوسرے کے لیے محبت دِکھانا اُن کے لیے آسان رہا ہوگا؟ ذرا غور کریں کہ روم کی کلیسیا میں کتنے فرق فرق بہن بھائی تھے۔ اُن میں صرف یہودی نہیں تھے جن کی پرورش موسیٰ کو ملنے والی شریعت کے مطابق ہوئی تھی بلکہ غیریہودی بھی تھے جن کی پرورش بالکل فرق ماحول میں ہوئی تھی۔ کچھ مسیحی غلام تھے اور کچھ آزاد اور کچھ تو غلاموں کے مالک بھی تھے۔ ایک دوسرے سے اِتنا فرق ہونے کے باوجود بھی اُنہوں نے ایک دوسرے کے لیے اپنی محبت کو کیسے بڑھایا؟ پولُس رسول نے اُن سے کہا کہ وہ ”ایک دوسرے کو قبول کریں۔“ (رومیوں 15:7 کو پڑھیں۔) اُن کی اِس بات کا کیا مطلب تھا؟ جس لفظ کا ترجمہ ”قبول“ کِیا گیا ہے، اُس کا مطلب کسی کے ساتھ دوستی کرنا یا اُس کی مہماننوازی کرنا ہے۔ مثال کے طور پر پولُس نے فلیمون سے کہا کہ وہ ”خوشی سے [اُنیسمس] کا خیرمقدم“ کریں جو کہ ایک بھاگے ہوئے غلام تھے۔ (فلیمون 17) اور اکوِلہ اور پرِسکِلّہ نے خوشی سے اپلّوس کو ”اپنے ساتھ لے“ جانے سے اُنہیں قبول کِیا حالانکہ اپلّوس کو مسیح کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں پتہ تھا۔ (اعما 18:26) یہ مسیحی ایک دوسرے سے فرق ہونے کی وجہ سے بٹ نہیں گئے بلکہ اُنہوں نے ایک دوسرے کو قبول کِیا۔
14. بہن اینا اور اُن کے شوہر نے بہن بھائیوں کے لیے محبت کیسے دِکھائی؟
14 بہن بھائیوں سے دوستی کرنے سے ہم بھی اُن کے لیے محبت دِکھا سکتے ہیں۔ اِس طرح اُن کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوگی کہ وہ ہمارے لیے محبت دِکھائیں۔ (2-کُر 6:11-13) غور کریں کہ بہن اینا اور اُن کے شوہر کے ساتھ کیا ہوا۔ جب تنظیم نے اُنہیں مشنریوں کے طور پر مغربی افریقہ بھیجا تو اِس کے کچھ وقت بعد ہی کورونا کی وبا شروع ہو گئی۔ وہ ابھی اِس جگہ نئے نئے ہی آئے تھے اور وبا کی وجہ سے وہ بہن بھائیوں سے آمنے سامنے نہیں مل پائے۔ اِس لیے اُن کے لیے بہن بھائیوں کو اچھی طرح جاننا آسان نہیں تھا۔ اِس میاں بیوی نے بہن بھائیوں کے لیے محبت کیسے دِکھائی؟ وہ اکثر بہن بھائیوں کو ویڈیو کال کرتے تھے اور اُنہیں بتاتے تھے کہ وہ اُنہیں اَور اچھی طرح جاننا چاہتے ہیں۔ کلیسیا کے کچھ گھرانوں کو یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ یہ مشنری اُن کے لیے اِتنی محبت دِکھاتے ہیں۔ اِس وجہ سے وہ بھی اُنہیں اکثر کال یا میسج کرنے لگے۔ بہن اینا اور اُن کے شوہر نے بہن بھائیوں کو اچھی طرح جاننے کی کوشش کیوں کی؟ بہن نے کہا: ”مَیں اُس محبت کو آج تک نہیں بھولی جو اچھے بُرے وقت میں بہن بھائیوں نے میرے اور میرے گھر والوں کے لیے دِکھائی۔ اِس وجہ سے میرے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں دوسروں کے لیے محبت دِکھاؤں۔“
15. سب بہن بھائیوں سے محبت کرنے کے حوالے سے آپ نے بہن ونیسا سے کیا سیکھا ہے؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
15 ہم میں سے زیادہتر ایسی کلیسیاؤں میں جاتے ہیں جہاں بہن بھائیوں کی شخصیت ایک دوسرے سے بہت فرق ہے؛ وہ فرق فرق علاقوں سے ہیں اور فرق فرق ماحول میں پلے بڑھے ہیں۔ جب ہم اپنا دھیان بہن بھائیوں کی خوبیوں پر رکھتے ہیں تو ہم اُن کے لیے اپنی محبت بڑھا پاتے ہیں۔ نیو زیلینڈ میں رہنے والی بہن ونیسا کو کچھ بہن بھائیوں کی شخصیت کی وجہ سے اُن کے ساتھ گھلنا ملنا مشکل لگ رہا تھا۔ لیکن پھر اُنہوں نے سوچا کہ ایسے بہن بھائیوں سے دُور ہو جانے کی بجائے وہ اُن کے ساتھ اَور زیادہ وقت گزاریں گی۔ ایسا کرنے سے وہ یہ دیکھ پائیں کہ یہوواہ اِن بہن بھائیوں سے کیوں محبت کرتا ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”میرے شوہر حلقے کے نگہبان ہیں۔ اِس لیے ہمیں بہت سے ایسے بہن بھائیوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے جن کی شخصیت ہم سے بالکل فرق ہے۔ اب مجھے اُن کے ساتھ گھلنا ملنا آسان لگتا ہے۔ مجھے فرق فرق شخصیت کے بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند ہے۔ یہوواہ بھی یہ نہیں چاہتا کہ سب لوگ ایک جیسے ہوں اِسی لیے تو اُس نے اِتنے فرق فرق لوگوں کو اُس کی عبادت کرنے کا موقع دیا ہے۔“ جب ہم دوسروں کو یہوواہ کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم ثابت کرتے ہیں کہ ہم اُن سے محبت کرتے ہیں۔—2-کُر 8:24۔
16. بڑی مصیبت کے دوران اپنے بہن بھائیوں کے لیے محبت دِکھانا کیوں ضروری ہوگا؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
16 بڑی مصیبت کے دوران اپنے ہمایمانوں کے لیے محبت دِکھانا بہت ضروری ہوگا۔ جب بڑی مصیبت شروع ہوگی تو یہوواہ ہماری حفاظت کیسے کرے گا؟ غور کریں کہ یہوواہ نے اُس وقت اپنے بندوں کو کیا ہدایت دی جب بابل پر حملہ ہوا۔ یہوواہ نے کہا: ”اَے میرے لوگو! اپنے خلوتخانوں [یعنی اندرونی کمروں] میں داخل ہو اور اپنے پیچھے دروازے بند کر لو اور اپنے آپ کو تھوڑی دیر تک چھپا رکھو جب تک کہ غضب ٹل نہ جائے۔“ (یسع 26:20) شاید بڑی مصیبت کے دوران ہمیں بھی اِس ہدایت پر عمل کرنا پڑے۔ یہ ’خلوتخانے‘ یا اندرونی کمرے شاید ہماری کلیسیا کی طرف اِشارہ کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے ہمایمانوں کے ساتھ متحد رہیں گے تو تبھی یہوواہ بڑی مصیبت کے دوران ہماری حفاظت کرے گا۔ اِس لیے ہمیں ابھی سے اپنے بہن بھائیوں کے لیے اپنے دل میں محبت پیدا کرنے کی سخت کوشش کرنی ہوگی۔ بڑی مصیبت کے دوران محفوظ رہنے کا یہی طریقہ ہے!
ابھی سے تیاری کریں
17. اگر ہم ابھی سے تیاری کریں گے تو بڑی مصیبت کے دوران ہم کیا کر پائیں گے؟
17 ”[یہوواہ] کا روزِعظیم“ اِنسانوں کے لیے بہت مشکل وقت ہوگا۔ (صفن 1:14، 15) یہوواہ کے بندوں کو بھی کچھ مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر ہم ابھی سے تیاری کریں گے تو ہم پُرسکون رہ پائیں گے اور دوسروں کی مدد کر پائیں گے۔ جب ہمیں مشکلوں کا سامنا ہوگا تو ہم ثابتقدم رہ پائیں گے۔ جب ہمارے ہمایمانوں کو مشکلوں کا سامنا ہوگا تو ہم ہمدردی دِکھانے اور اُن کی ضرورتیں پوری کرنے سے اُن کی مدد کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ اور اگر ہمارے دل میں ابھی سے اپنے بہن بھائیوں کے لیے محبت ہوگی تو ہم مستقبل میں بھی اُن کے لیے محبت دِکھائیں گے۔ پھر یہوواہ ہمیں ایک ایسی دُنیا میں اِنعام کے طور پر ہمیشہ کی زندگی دے گا جہاں آفتیں اور مصیبتیں ہمارے خیال میں بھی نہ آئیں گی۔—یسع 65:17۔
گیت نمبر 144: اِس اُمید کو تھام لیں
a بڑی مصیبت بہت جلد شروع ہونے والی ہے۔ اگر ہم تاریخ کے سب سے مشکل دَور کے لیے تیار رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر ثابتقدمی، ہمدردی اور محبت جیسی خوبیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ دیکھیں کہ پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں نے اپنے اندر یہ خوبیاں کیسے پیدا کیں؛ آج ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں اور یہ خوبیاں ہمیں بڑی مصیبت کے لیے کیسے تیار کر سکتی ہیں۔
b جو بہن بھائی اِمدادی کمیٹی کے کسی منصوبے میں ہاتھ بٹانا چاہتے ہیں، اُنہیں سب سے پہلے ”لوکل ڈیزائن/کنسٹرکشن میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے کیلئے درخواست“ (DC-50) یا ”رضاکارانہ خدمت کرنے کے لیے درخواست“ (A-19) والا فارم پُر کرنا چاہیے اور پھر تب تک اِنتظار کرنا چاہیے جب تک اُنہیں کسی منصوبے میں ہاتھ بٹانے کے لیے بُلایا نہیں جاتا۔