مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 32

یہوواہ کی طرح لچک‌دار بنیں

یہوواہ کی طرح لچک‌دار بنیں

‏”‏آپ کی لچک‌داری سب لوگوں کو دِکھائی دے۔“‏‏—‏فل 4:‏5‏، فٹ‌نوٹ۔‏

گیت نمبر 89‏:‏ یہوواہ کی بات سنیں

مضمون پر ایک نظر a

آپ کس طرح کا درخت بننا چاہتے ہیں؟ (‏پیراگراف نمبر 1 کو دیکھیں۔)‏

1.‏ مسیحیوں کو کس لحاظ سے ایک درخت کی طرح ہونا چاہیے؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

 ایک کہاوت ہے کہ ”‏ایک لچک‌دار درخت کو تیز ہوا کوئی نقصان نہیں پہنچا پاتی۔“‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک درخت تیز ہوا کے باوجود بھی اُسی وقت قائم رہ سکتا ہے اگر وہ لچک‌دار ہوتا ہے۔ اگر ہم زند‌گی کی مشکلوں کے باوجود بھی خوشی سے یہوواہ کی خدمت کر‌تے رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی لچک‌دار بننا چاہیے۔ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ ہم سمجھ‌داری سے بدلتے حالات کے مطابق خود کو ڈھال سکتے ہیں اور دوسروں کے فیصلوں اور نظریوں کا احترام کر سکتے ہیں۔‏

2.‏ (‏الف)‏ کون سی خوبیاں ہماری مدد کر‌یں گی تاکہ ہم بدلتے حالات کے مطابق خود کو ڈھال سکیں؟ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کس بارے میں بات کر‌یں گے؟‏

2 ہم یہوواہ کے بندے ہیں اِس لیے ہمیں لچک‌دار ہونا چاہیے۔ ہم میں خاکساری اور رحم‌دلی کی خوبی بھی ہونی چاہیے۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ اِن خوبیوں کی وجہ سے ہمارے کچھ ہمایمان بدلتے حالات کے مطابق خود کو کیسے ڈھال پائے۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ یہ خوبیاں ہمارے کام کیسے آ سکتی ہیں۔ لیکن آئیے، سب سے پہلے یہوواہ اور یسوع کی مثال پر غور کر‌یں جو لچک‌داری کی سب سے اچھی مثال ہیں۔‏

یہوواہ اور یسوع لچک‌دار ہیں

3.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ لچک‌دار ہے؟‏

3 بائبل میں یہوواہ کو ”‏چٹان“‏ کہا گیا ہے کیونکہ وہ ثابت‌قدم اور ڈٹا رہتا ہے۔ (‏اِست 32:‏4‏)‏ لیکن وہ لچک‌دار بھی ہے۔ جیسے جیسے دُنیا کے حالات بدل رہے ہیں، یہوواہ اپنے مقصد کو پورا کر‌نے کے لیے لچک‌داری سے کام لے رہا ہے اور خود کو بدلتے حالات کے مطابق ڈھال رہا ہے۔ یہوواہ نے اِنسانوں کو اپنی صورت پر بنایا ہے اِس لیے ہم میں بھی خود کو بدلتے حالات کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت ہے۔ یہوواہ نے بائبل میں ایسے واضح اصول دیے ہیں جن کی مدد سے ہم مشکل حالات میں بھی اچھے فیصلے کر سکتے ہیں۔ یہوواہ اور بائبل میں دیے گئے اصول اِس بات کا ثبوت ہیں کہ یہوواہ ایک ”‏چٹان“‏ ہونے کے ساتھ ساتھ لچک‌دار بھی ہے۔‏

4.‏ ایک مثال دے کر بتائیں کہ یہوواہ لچک‌دار ہے۔ (‏احبار 5:‏7،‏ 11‏)‏

4 یہوواہ کی راہیں بالکل صحیح اور لچک‌دار ہیں۔ وہ اِنسانوں سے حد سے زیادہ کی توقع نہیں کر‌تا۔ ذرا سوچیں کہ یہوواہ نے بنی‌اِسرائیل کے ساتھ پیش آتے ہوئے کیسے ثابت کِیا کہ وہ لچک‌دار ہے۔ اُس نے یہ توقع نہیں کی کہ امیر اور غریب ایک جیسی قربانیاں چڑھائیں۔ کبھی کبھار تو اُس نے ہر شخص کو اپنے حالات کے مطابق قربانیاں چڑھانے کی اِجازت دی۔‏‏—‏احبار 5:‏7،‏ 11 کو پڑھیں۔‏

5.‏ ایک مثال دے کر بتائیں کہ یہوواہ فروتن اور رحم‌دل ہے۔‏

5 فروتنی اور رحم‌دلی کی وجہ سے یہوواہ لچک‌دار ہے۔ مثال کے طور پر یہوواہ کی فروتنی اُس وقت صاف نظر آئی جب وہ سدوم کے بُرے لوگو‌ں کو تباہ کر‌نے والا تھا۔ یہوواہ نے اپنے فرشتوں کے ذریعے اپنے بندے لُوط سے کہا کہ وہ بھاگ کر پہاڑوں کی طرف چلے جائیں۔ لیکن لُوط وہاں جانے سے ڈر رہے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے یہوواہ سے درخواست کی کہ کیا وہ اور اُن کا گھرانہ چھوٹے سے قصبے ضغر میں پناہ لے سکتے ہیں جو کہ ایک ایسا قصبہ تھا جسے یہوواہ تباہ کر‌نے والا تھا۔ یہوواہ چاہتا تو وہ لُوط سے کہہ سکتا تھا کہ اُس نے اُنہیں جو کر‌نے کو کہا ہے، وہ وہی کر‌یں۔ لیکن یہوواہ نے ایسا نہیں کِیا حالانکہ اِس وجہ سے اُسے ضغر کو تباہ کر‌نے سے اپنا ہاتھ روکنا پڑا۔ (‏پید 19:‏18-‏22‏)‏ کئی صدیوں بعد یہوواہ نے شہر نینوہ کے لوگو‌ں کے لیے رحم‌دلی دِکھائی۔ اُس نے اپنے نبی یُوناہ کو اُن کے پاس بھیجا تاکہ وہ اِس شہر اور اِس کے بُرے لوگو‌ں کی تباہی کا اِعلان کر‌یں۔ لیکن جب لوگو‌ں نے دل سے توبہ کی تو یہوواہ نے اُن لوگو‌ں کے لیے رحم‌دلی دِکھاتے ہوئے اِس شہر کو بخش دیا۔—‏یُوناہ 3:‏1،‏ 10؛‏ 4:‏10، 11‏۔‏

6.‏ کچھ مثالیں دے کر بتائیں کہ یسوع نے یہوواہ کی طرح لچک‌داری کیسے دِکھائی۔‏

6 یسوع نے یہوواہ کی طرح لچک‌داری دِکھائی۔ یسوع مسیح زمین پر ”‏اِسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں“‏ میں مُنادی کر‌نے آئے تھے۔ لیکن اِس ذمےداری کو پورا کر‌تے ہوئے اُنہوں نے لچک‌داری سے کام لیا۔ مثال کے طور پر ایک بار ایک ایسی عورت یسوع کے پاس آئی جو غیرقوم سے تھی۔ اُس نے یسوع سے درخواست کی کہ وہ اُس کی بیٹی کو ٹھیک کر دیں جس پر ”‏ایک بُرے فرشتے کا سایہ“‏ تھا۔ یسوع نے رحم‌دلی کی وجہ سے اُس عورت کی بیٹی کو ٹھیک کر دیا۔ (‏متی 15:‏21-‏28‏)‏ ذرا ایک اَور مثال پر غور کر‌یں۔ جب یسوع نے زمین پر یہوواہ کی خدمت شروع کی تو اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جو شخص .‏ .‏ .‏ میرا اِنکار کر‌تا ہے، مَیں بھی .‏ .‏ .‏ اُس کا اِنکار کر‌وں گا۔“‏ (‏متی 10:‏33‏)‏ لیکن جب پطرس نے تین بار اُن کا اِنکار کِیا تو کیا یسوع نے اُن سے مُنہ موڑ لیا؟ جی نہیں۔ یسوع جانتے تھے کہ پطرس اپنی غلطی پر بہت شرمندہ ہیں اور وہ خدا کے وفادار ہیں۔ جب یسوع زند‌ہ ہوئے تو وہ پطرس سے ملے اور شاید اُنہوں نے پطرس کو اِس بات کا یقین دِلایا ہوگا کہ اُنہوں نے پطرس کو معاف کر دیا ہے اور وہ اب بھی اُن سے محبت کر‌تے ہیں۔—‏لُو 24:‏33، 34‏۔‏

7.‏ فِلپّیوں 4:‏5 کے مطابق ہمیں کیسا شخص ہونا چاہیے؟‏

7 ہم نے دیکھ لیا ہے کہ یہوواہ اور یسوع بہت لچک‌دار ہیں۔ لیکن یہوواہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم بھی لچک‌دار ہوں۔ ‏(‏فِلپّیوں 4:‏5 کو پڑھیں۔)‏ ہمارے کاموں سے دوسروں کو صاف نظر آنا چاہیے کہ ہم ایک لچک‌دار شخص ہیں۔ ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں کہ ”‏کیا لوگ مجھے ایک ایسے شخص کے طور پر جانتے ہیں جو بہت لچک‌دار ہے اور جس میں بہت برداشت ہے یا کیا وہ مجھے ایک ایسے شخص کے طور پر جانتے ہیں جو بہت سخت ہے اور اپنی بات پر اَڑ جاتا ہے؟ کیا مَیں دوسروں کو مجبور کر‌تا ہوں کہ وہ کوئی کام ویسے ہی کر‌یں جیسے مَیں چاہتا ہوں یا کیا مَیں دوسروں کی بات سنتا ہوں اور جہاں تک ممکن ہو، اُن کی بات مانتا بھی ہوں؟“‏ جتنا زیادہ ہم لچک‌دار ہوں گے اُتنا ہی زیادہ ہم یہوواہ اور یسوع کی مثال پر عمل کر رہے ہوں گے۔ آئیے، دو ایسے معاملوں پر بات کر‌تے ہیں جن میں لچک‌دار ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ دو معاملے یہ ہیں:‏ (‏1)‏ جب ہمارے حالات بدل جاتے ہیں اور (‏2)‏ جب دوسروں کے نظریے اور فیصلے ہم سے فرق ہوتے ہیں۔‏

خود کو بدلتے حالات کے مطابق ڈھالیں

8.‏ کیا چیز ہماری مدد کر سکتی ہے تاکہ ہم بدلتے حالات کے مطابق خود کو ڈھال سکیں؟ (‏فٹ‌نوٹ کو بھی دیکھیں۔)‏

8 ہمیں اُس وقت بھی لچک‌دار بننا چاہیے جب حالات بدل جاتے ہیں۔ بدلتے حالات شاید ہماری زند‌گی میں ایسی مشکلیں کھڑی کر دیں جن کی ہم نے توقع بھی نہ کی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں صحت کا کوئی بڑا مسئلہ ہو جائے یا اُس وقت ہماری زند‌گی میں ہلچل مچ جائے جب ہمارے ملک کے مالی یا سیاسی حالات خراب ہو جائیں۔ (‏واعظ 9:‏11؛‏ 1-‏کُر 7:‏31‏)‏ شاید ہمیں اُس وقت بھی مشکل کا سامنا کر‌نا پڑے جب تنظیم میں ہماری ذمےداری بدل جائے۔ مشکل چاہے کوئی بھی ہو، ہم نئے حالات کے مطابق خود کو ڈھال سکتے ہیں۔ لیکن ایسا کر‌نے کے لیے ہمیں یہ چار قدم اُٹھانے چاہئیں:‏ (‏1)‏ حقیقت کو تسلیم کر‌نا چاہیے، (‏2)‏ اپنی نظر مستقبل پر رکھنی چاہیے، (‏3)‏ اپنا دھیان اچھی باتوں پر رکھنا چاہیے اور (‏4)‏ دوسروں کے کام آنا چاہیے۔‏ b آئیے، سب سے پہلے اپنے کچھ ایسے ہمایمانوں کی مثال پر غور کر‌تے ہیں جنہیں یہ چار قدم اُٹھانے سے بہت فائدہ ہوا۔‏

9.‏ ایک مشنری میاں بیوی نے اُن مشکلوں کا سامنا کیسے کِیا جن کی اُنہوں نے توقع بھی نہیں کی تھی؟‏

9 حقیقت کو تسلیم کریں۔‏ بھائی عمانوایل اور اُن کی بیوی فران‌سسکا کو تنظیم نے کسی اَور ملک میں مشنری کے طور پر خدمت کر‌نے کے لیے بھیجا۔ ابھی اُنہوں نے اُس ملک کی زبان سیکھنا اور بہن بھائیوں کے ساتھ گھلنا ملنا شروع ہی کِیا تھا کہ کورونا کی وبا پھیل گئی۔ اِس وجہ سے وہ بہن بھائیوں سے آمنے سامنے نہیں مل سکتے تھے۔ پھر اچانک بہن فران‌سسکا کی امی فوت ہو گئیں۔ بہن اپنے گھر والوں کے پاس جانا چاہتی تھیں۔ لیکن وبا کی وجہ سے وہ سفر نہیں کر سکتی تھیں۔ اِن مشکلوں کا سامنا کر‌نے میں کس چیز نے اُن کی مدد کی؟ سب سے پہلا کام جو اُنہوں نے کِیا، وہ یہ تھا کہ اُنہوں نے ہر روز یہوواہ سے دانش‌مندی مانگی تاکہ وہ حد سے زیادہ پریشان نہ ہوں۔ یہوواہ نے بالکل صحیح وقت پر اپنی تنظیم کے ذریعے اُن کی دُعاؤں کا جواب دیا۔ مثال کے طور پر اُنہیں اُس بات سے بہت حوصلہ ملا جو ایک بھائی نے ایک ویڈیو میں کہی تھی۔ بھائی نے کہا تھا:‏ ”‏ہم جتنی جلدی حالات کو قبول کر‌تے ہیں، ہماری خوشی اُتنی جلدی لوٹتی ہے۔ اور اِس خوشی کے ساتھ ساتھ ہمیں نئے حالات میں یہوواہ کی خدمت کر‌نے کے موقعے بھی ملتے ہیں۔“‏ c اِس میاں بیوی نے جو دوسرا کام کِیا، وہ یہ تھا کہ اُنہوں نے فیصلہ کِیا کہ وہ فون کے ذریعے گو‌اہی دینے کی اپنی مہارتوں کو نکھاریں گے۔ اور اُنہوں نے ایک بائبل کورس بھی شروع کر‌ایا۔ تیسرا کام اُنہوں نے یہ کِیا کہ اُنہوں نے مقامی بہن بھائیوں کی طرف سے ملنے والی مدد کو قبول کِیا۔ ایک بہن پورا سال ہر روز اُنہیں میسج پر بائبل کی ایک آیت لکھ کر بھیجتی تھی۔ جب ہم نئے حالات کو قبول کر‌تے ہیں تو ہمیں اُن کاموں سے خوشی مل سکتی ہے جنہیں کر‌نا ہمارے بس میں ہے۔‏

10.‏ ایک بہن نے اپنی زند‌گی میں ہونے والی تبدیلی کے مطابق خود کو کیسے ڈھالا؟‏

10 اپنی نظر مستقبل پر اور اپنا دھیان اچھی باتوں پر رکھیں۔‏ رومانیہ سے تعلق رکھنے والی کر‌س‌ٹینا نام کی بہن جاپان میں رہتی ہیں۔ وہ اُس وقت بہت بےحوصلہ ہو گئی تھیں جب انگریزی زبان والی اُس کلیسیا کو ختم کر دیا گیا جس میں وہ جا رہی تھیں۔ لیکن جو کچھ ہو گیا تھا، وہ اُس کے بارے میں نہیں سوچتی رہیں۔ اِس کی بجائے وہ جاپانی زبان والی کلیسیا میں جانے لگیں اور اُنہوں نے فیصلہ کِیا کہ وہ لگن سے اِس زبان میں مُنادی کر‌یں گی۔ جس عورت کے ساتھ وہ پہلے کام کر‌تی تھیں، اُس سے بہن نے پوچھا کہ کیا وہ بائبل اور کتاب ‏”‏اب اور ہمیشہ تک خوشیوں بھری زندگی!‏“‏ کے ذریعے اُنہیں جاپانی زبان اَور اچھی طرح بولنا سکھا سکتی ہے۔ وہ عورت مان گئی۔اِس سب کی وجہ سے نہ صرف بہن کر‌س‌ٹینا جاپانی زبان اَور اچھی طرح بولنا سیکھ گئیں بلکہ وہ عورت بائبل کی تعلیم حاصل کر‌نے میں دلچسپی دِکھانے لگی۔ جب ہم مستقبل میں ہونے والی اچھی باتوں پر اپنا دھیان رکھتے ہیں تو اچانک ہونے والی تبدیلیاں بھی ایسی برکتوں میں بدل سکتی ہیں جن کی ہم نے توقع بھی نہیں کی ہوتی۔‏

11.‏ جب ایک میاں بیوی کو پیسوں کی تنگی کا سامنا ہوا تو کس چیز نے اُن کی مدد کی؟‏

11 دوسروں کے کام آئیں۔‏ ایک میاں بیوی ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ہمارے کام پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ جب ملک کے مالی حالات بگڑ گئے تو اُنہیں پیسوں کی تنگی ہونے لگی۔ اُنہوں نے خود کو اِس تبدیلی کے مطابق کیسے ڈھالا؟ سب سے پہلے تو اُنہوں نے اپنے خرچے کم کر‌نے کی کوشش کی۔ پھر اُنہوں نے فیصلہ کِیا کہ وہ اپنی مشکلوں کے بارے میں سوچتے رہنے کی بجائے دوسروں کی مدد کر‌نے کے لیے مُنادی کر‌نے میں مصروف رہیں گے۔ (‏اعما 20:‏35‏)‏ بھائی نے کہا:‏ ”‏ہم مُنادی کر‌نے میں بہت مصروف تھے اِس لیے ہمارے پاس اپنی پریشانیوں کے بارے میں سوچنے کا زیادہ وقت نہیں ہوتا تھا۔ اور ہمارا دھیان اُس کام پر رہتا تھا جو یہوواہ ہمیں کر‌نے کو کہتا ہے۔“‏ جب ہمارے حالات بدل جاتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دوسروں کی مدد کر‌نا بہت ضروری ہے۔ ایسا کر‌نے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم لوگو‌ں میں مُنادی کر‌یں۔‏

12.‏ ہم پولُس رسول کی طرح گو‌اہی دینے کے کام میں لچک‌دار کیسے بن سکتے ہیں؟‏

12 گو‌اہی دینے کے کام میں لچک‌دار ہونا بہت ضروری ہے۔ ہم جن لوگو‌ں میں مُنادی کر‌تے ہیں، اُن کی خدا کے بارے میں فرق فرق رائے ہوتی ہے اور اُن کا تعلق فرق فرق جگہوں سے ہوتا ہے۔ پولُس رسول بہت لچک‌دار تھے اور ہم اُن کی مثال سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یسوع نے اُنہیں ”‏غیریہودیوں کا رسول“‏ مقرر کِیا تھا۔ (‏روم 11:‏13‏)‏ اِس وجہ سے پولُس نے یہودیوں، یونانیوں، پڑھے لکھے لوگو‌ں، عام لوگو‌ں، حکومتی اہلکاروں اور بادشاہوں کو گو‌اہی دی۔ اِتنے فرق فرق لوگو‌ں کے دلوں تک پہنچنے کے لیے پولُس ’‏ہر طرح کے لوگو‌ں کی خاطر سب کچھ بنے۔‘‏ (‏1-‏کُر 9:‏19-‏23‏)‏ اُنہوں نے گہرائی سے اِس بارے میں سوچا کہ جن لوگو‌ں سے وہ بات کر‌یں گے اُن کا تعلق کس جگہ سے ہے اور وہ کیا مانتے ہیں۔ اِس طرح وہ لچک‌دار بن پائے اور ہر شخص سے اِس طرح بات کر پائے کہ وہ خدا کی طرف کھنچا چلا آئے۔ جب ہم بھی لچک‌دار بنتے ہیں اور اپنے پیغام کو لوگو‌ں کی ضرورت کے مطابق ڈھالتے ہیں تو ہم گو‌اہی دینے کی اپنی مہارتوں کو نکھار رہے ہوتے ہیں۔‏

دوسروں کی رائے کا احترام کر‌یں

اگر ہم لچک‌دار ہوں گے تو ہم دوسروں کی رائے کا احترام کر‌یں گے۔ (‏پیراگراف نمبر 13 کو دیکھیں۔)‏

13.‏ دوسروں کی رائے کا احترام کر‌نے کے لیے ہمیں 1-‏کُرنتھیوں 8:‏9 کے مطابق کیا کر‌نے سے بچنا چاہیے؟‏

13 اگر ہم لچک‌دار ہوتے ہیں تو ہم دوسروں کی رائے کا احترام کر‌تے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری کچھ بہنوں کو میک‌اپ کر‌نا پسند ہے اور کچھ کو نہیں۔ کچھ مسیحیوں کو حد میں رہ کر شراب پینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن کچھ نے فیصلہ کِیا ہے کہ وہ بالکل شراب نہیں پئیں گے۔ ہم سب ہی چاہتے ہیں کہ ہماری صحت اچھی رہے لیکن ہم اپنی صحت کا خیال رکھنے کے لیے فرق فرق طریقے اپناتے ہیں۔ اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہم جو کر رہے ہیں، وہی صحیح ہے اور ہم اپنی رائے دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کر‌تے ہیں تو ہم دوسروں کو گمراہ کر رہے ہوں گے اور کلیسیا میں پھوٹ ڈال رہے ہوں گے۔ بےشک ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کر‌نا چاہتا۔ ‏(‏1-‏کُرنتھیوں 8:‏9 کو پڑھیں؛‏ 10:‏23، 24‏)‏ آئیے، دو ایسی مثالوں پر غور کر‌تے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بائبل کے اصولوں پر چلنے سے ہم صحیح سوچ اور کلیسیا میں امن کیسے برقرار رکھ پائیں گے۔‏

اگر ہم لچک‌دار ہوں گے تو ہم دوسروں کی رائے کا احترام کر‌یں گے۔ (‏پیراگراف نمبر 14 کو دیکھیں۔)‏

14.‏ جب ہم کپڑوں اور بالوں کے سٹائل کے حوالے سے فیصلے لے رہے ہوتے ہیں تو ہمیں بائبل کے کون سے اصول ذہن میں رکھنے چاہئیں؟‏

14 کپڑوں اور بالوں کا سٹائل۔‏ یہوواہ نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ ہمیں کیا پہننا چاہیے اور کیا نہیں۔ لیکن اُس نے اِس حوالے سے کچھ اصول دیے ہیں۔ کپڑوں کے حوالے سے فیصلہ لیتے وقت ہمیں ”‏سمجھ‌داری“‏ سے کام لینا چاہیے۔ ہمیں ایسے کپڑے پہننے چاہئیں جو خدا کے بندوں کے لیے مناسب ہوں اور جو حیادار ہوں۔ (‏1-‏تیم 2:‏9، 10؛‏ 1-‏پطر 3:‏3‏)‏ ہمیں اِس طرح کے کپڑے نہیں پہننے چاہئیں جن کی وجہ سے لوگو‌ں کی توجہ ہم پر جائے۔ بائبل کے اصول بزرگو‌ں کی بھی مدد کر‌تے ہیں کہ وہ کپڑوں اور بالوں کے سٹائل کے حوالے سے اپنے قانون نہ بنائیں۔مثال کے طور پر ایک کلیسیا کے کچھ بزرگ کچھ ایسے نوجوان بھائیوں کی مدد کر‌نا چاہتے تھے جو دُنیا کے نوجوانوں جیسے چھوٹے اور بکھرے بالوں کے سٹائل بنانے لگ گئے تھے۔ بزرگ کوئی قانون بنائے بغیر اِن بھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے تھے؟ ایک حلقے کے نگہبان نے بھائیوں سے کہا کہ وہ اِن نوجوانوں سے کہیں:‏ ”‏اگر آپ سٹیج پر اپنا کوئی حصہ کر رہے ہوتے ہیں اور بہن بھائیوں کی توجہ آپ کی بات کی بجائے آپ پر جا رہی ہوتی ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ آپ کے کپڑوں یا بالوں کا سٹائل صحیح نہیں ہے۔“‏ اِس چھوٹی سی بات کی وجہ سے وہ نوجوان سمجھ پائے کہ اُنہیں کیا کر‌نا چاہیے اور بزرگ کوئی قانون بنانے سے بچ گئے۔‏ d

اگر ہم لچک‌دار ہوں گے تو ہم دوسروں کی رائے کا احترام کر‌یں گے۔ (‏پیراگراف نمبر 15 کو دیکھیں۔)‏

15.‏ جب ہم اپنی صحت کا خیال رکھنے کے حوالے سے فیصلے لے رہے ہوتے ہیں تو بائبل کے کون سے حکم اور اصول ہمارے کام آ سکتے ہیں؟ (‏رومیوں 14:‏5‏)‏

15 اپنی صحت کا خیال۔‏ ہر مسیحی کو یہ فیصلہ کر‌نا چاہیے کہ وہ اپنی صحت کا خیال کیسے رکھے گا۔ (‏گل 6:‏5‏)‏ جب وہ فیصلہ لے رہا ہوتا ہے کہ وہ علاج کا کون سا طریقہ اپنائے گا تو اُسے بائبل کے حکم پر عمل کر‌تے ہوئے خون لینے اور جادوٹونے کے ذریعے علاج کر‌انے سے بالکل دُور رہنا چاہیے۔ (‏اعما 15:‏20؛‏ گل 5:‏19، 20‏)‏ لیکن علاج کے حوالے سے دوسرے معاملوں میں وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کر سکتا ہے۔ کچھ مسیحی علاج کے سلسلے میں صرف ڈاکٹروں سے مدد لیتے ہیں لیکن کچھ علاج کے دوسرے طریقے اپناتے ہیں۔ چاہے ہمیں علاج کے کسی طریقے کے فائدہ‌مند ہونے یا نقصان‌دہ ہونے کا کتنا ہی یقین کیوں نہ ہو، جب ہمارے بہن بھائی علاج کے سلسلے میں کوئی فیصلہ لیتے ہیں تو ہمیں اُن کے فیصلے کا احترام کر‌نا چاہیے۔ اِس حوالے سے ہمیں اِن باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے:‏ (‏1)‏ صرف خدا کی بادشاہت ہی سب بیماریوں کو مکمل طور پر اور ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتی ہے۔ (‏یسع 33:‏24‏)‏ (‏2)‏ ہر مسیحی کو ”‏پورا یقین“‏ ہونا چاہیے کہ علاج کا کون سا طریقہ اُس کے لیے بہترین ہے۔ ‏(‏رومیوں 14:‏5 کو پڑھیں۔)‏ (‏3)‏ ہمیں اپنے بہن بھائیوں پر تنقید نہیں کر‌نی چاہیے۔ (‏روم 14:‏13‏)‏ (‏4)‏ ہمیں اپنے بہن بھائیوں کے لیے محبت دِکھانی چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ کلیسیا کا اِتحاد ہماری رائے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ (‏روم 14:‏15،‏ 19، 20‏)‏ اگر ہم اِن باتوں کو اپنے ذہن میں رکھیں گے تو اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ہماری دوستی قائم رہے گی اور کلیسیا کا امن برقرار رہے گا۔‏

اگر ہم لچک‌دار ہوں گے تو ہم دوسروں کی رائے کا احترام کر‌یں گے۔ (‏پیراگراف نمبر 16 کو دیکھیں۔)‏

16.‏ کلیسیا کا ایک بزرگ دوسرے بزرگو‌ں کے ساتھ پیش آتے وقت کیسے ثابت کر سکتا ہے کہ وہ لچک‌دار ہے؟ (‏تصویروں کو بھی دیکھیں۔)‏

16 بزرگو‌ں کو لچک‌دار ہونے کے حوالے سے اچھی مثال ہونا چاہیے۔ (‏1-‏تیم 3:‏2، 3‏)‏ مثال کے طور پر ایک بزرگ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ چونکہ وہ باقی بزرگو‌ں سے عمر میں بڑا ہے اِس لیے ہر بار اُسی کی رائے مانی جائے۔ وہ اِس بات کو سمجھے گا کہ یہوواہ کی پاک روح کسی بھی بزرگ کے ذریعے ایک اچھا فیصلہ لینے میں بزرگو‌ں کی جماعت کی مدد کر سکتی ہے۔ اگر زیادہ‌تر بزرگ ایک فیصلے پر متفق ہوں اور بائبل کا کوئی اصول بھی نہ ٹوٹ رہا ہو تو ایک بزرگ کو لچک‌داری دِکھاتے ہوئے اُس فیصلے کی حمایت کر‌نی چاہیے۔ اُسے تب بھی ایسا کر‌نا چاہیے جب اُس کی رائے باقی بزرگو‌ں سے فرق ہو۔‏

لچک‌دار ہونے کے فائدے

17.‏ جو مسیحی لچک‌دار ہوتے ہیں اُنہیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

17 مسیحیوں کو اُس وقت بہت فائدہ ہوتا ہے جب وہ لچک‌دار ہوتے ہیں۔ ہمارا اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ایک اچھا رشتہ رہتا ہے اور کلیسیا کا امن برقرار رہتا ہے۔ یہوواہ کے بندوں کی شخصیت ایک دوسرے سے بہت فرق ہے اور وہ فرق فرق ثقافتوں سے ہیں۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ بھلے ہی ہم ایک دوسرے سے بہت فرق ہیں لیکن ہم ایک ہو کر یہوواہ کی عبادت کر‌تے ہیں۔ سب سے بڑی خوشی ہمیں اِس بات سے ملتی ہے کہ ہم اپنے خدا یہوواہ کی مثال پر عمل کر رہے ہیں جو خود بھی بہت لچک‌دار ہے۔‏

گیت نمبر 90‏:‏ ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھائیں

a یہوواہ اور یسوع بہت لچک‌دار ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم بھی اپنے اند‌ر اِس خوبی کو پیدا کر‌یں۔ اگر ہم لچک‌دار ہوتے ہیں تو ہم بدلتے حالات کے مطابق آسانی سے خود کو ڈھال پاتے ہیں جیسے کہ اگر ہمیں پیسوں کی تنگی ہونے لگے یا اگر ہمیں صحت کا کوئی مسئلہ شروع ہو جائے۔ جب ہم لچک‌دار بننے کی کوشش کر‌تے ہیں تو ہم کلیسیا کا امن‌واِتحاد بھی قائم رکھتے ہیں۔‏

b ‏”‏جاگو!‏“‏ نمبر 4 2016ء میں مضمون ”‏زند‌گی میں آنے والی تبدیلیوں کا سامنا کیسے کِیا جا سکتا ہے؟‏‏“‏ کو دیکھیں۔‏

c ویڈیو ‏”‏بھائی دیمیتری میہیلوف کا اِنٹرویو‏“‏ کو دیکھیں جو مارچ-‏اپریل 2021ء کے ‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت—‏اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے مضمون ”‏یہوواہ نے اذیت کو گو‌اہی دینے کا موقع بنا دیا‏“‏ میں آئی تھی۔‏

d کپڑوں اور بالوں کے سٹائل کے حوالے سے اَور جاننے کے لیے کتاب ‏”‏اب اور ہمیشہ تک خوشیوں بھری زندگی!‏“‏ کے سبق نمبر 52 کو دیکھیں۔‏