مطالعے کا مضمون نمبر 25
گیت نمبر 7 یہوواہ ہماری نجات ہے
کبھی نہ بھولیں کہ یہوواہ ”زندہ خدا“ ہے!
”یہوواہ زندہ خدا ہے!“—زبور 18:46۔
غور کریں کہ . . .
ہمیں یہ یاد رکھنے سے کیسے فائدہ ہو سکتا ہے کہ جس خدا کی ہم عبادت کرتے ہیں، وہ ”زندہ خدا“ ہے۔
1. کون سی بات یہوواہ کے بندوں کی مدد کرتی ہے تاکہ وہ مشکلوں کے باوجود اُس کی عبادت کرتے رہیں؟
بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ہم ایک ایسے دَور میں رہ رہے ہیں جس میں ہمیں ”مشکل وقت“ سے گزرنا پڑے گا۔ (2-تیم 3:1) یہوواہ کے بندوں کے طور پر ہمیں صرف اُنہی مشکلوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جن کا سامنا شیطان کی دُنیا کو کرنا پڑتا ہے۔ یہوواہ کی عبادت کرنے کی وجہ سے ہمیں مخالفت اور اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کون سی بات ہماری مدد کرتی ہے تاکہ ہم مشکلوں کے باوجود یہوواہ کی عبادت کرتے رہیں؟ یہ بات کہ یہوواہ ”زندہ خدا“ ہے اور وہ ہماری مدد کرتا ہے۔—یرم 10:10؛ 2-تیم 1:12۔
2. یہوواہ کس لحاظ سے زندہ خدا ہے؟
2 یہوواہ ایک حقیقی ہستی ہے۔ وہ دیکھ سکتا ہے کہ ہم کن مشکلوں سے گزر رہے ہیں اور وہ ہماری مدد کرنے کی دلی خواہش رکھتا ہے۔ (2-توا 16:9؛ زبور 23:4) جب ہم یہ یاد رکھتے ہیں کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے جو ہماری فکر کرتا ہے اور ہماری مدد کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے تو ہمیں ہر مشکل کو ثابتقدمی سے برداشت کرنے کی ہمت ملتی ہے۔ آئیے دیکھیں کہ بادشاہ داؤد کے معاملے میں یہ بات سچ کیسے ثابت ہوئی۔
3. داؤد کی اِس بات کا کیا مطلب تھا کہ ”یہوواہ زندہ خدا ہے“؟
3 داؤد یہوواہ کو اچھی طرح سے جانتے تھے اور اُس پر پورا بھروسا کرتے تھے۔ جب داؤد کے دُشمن اُن کی جان لینے پر تُلے ہوئے تھے جن میں بادشاہ ساؤل بھی شامل تھے تو داؤد نے مدد کے لیے یہوواہ سے دُعا کی۔ (زبور 18:6) جب یہوواہ نے داؤد کی دُعا کا جواب دیا اور اُنہیں اُن کے دُشمنوں کے ہاتھ سے بچایا تو داؤد نے کہا: ”یہوواہ زندہ خدا ہے!“ (زبور 18:46) اِس بات کا کیا مطلب تھا؟ یہ بات کہنے سے داؤد صرف یہ تسلیم نہیں کر رہے تھے کہ یہوواہ موجود ہے۔ زبور کی کتاب پر تبصرہ کرنے والی ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ داؤد یہوواہ کے بارے میں یہ بات یقین سے کہہ رہے تھے کہ ”وہ زندہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی مدد کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔“ واقعی داؤد نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ اُن کا سچا اور زندہ خدا جانتا ہے کہ اُن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور وہ اُن کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔ اِس یقین کی وجہ سے داؤد کا یہ عزم اَور پکا ہو گیا کہ وہ اپنے خدا کی عبادت اور اُس کی بڑائی کرتے رہیں گے۔—زبور 18:28، 29، 49۔
4. یہوواہ کو ایک زندہ خدا سمجھنے سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
4 اگر ہم اِس بات پر پکا یقین رکھیں گے کہ یہوواہ زندہ خدا ہے تو ہم جوش سے اُس کی خدمت کر پائیں گے۔ اِس سے ہمیں مشکلوں کو ثابتقدمی سے برداشت کرنے کی طاقت ملے گی اور ہمارے دل میں لگن سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اِس کے علاوہ ہمارا یہ عزم بھی اَور مضبوط ہو جائے گا کہ ہم یہوواہ کے قریب رہیں۔
زندہ خدا آپ کو ہمت اور طاقت دے گا
5. کون سی بات ڈٹ کر مشکلوں کا سامنا کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟ (فِلپّیوں 4:13)
5 اگر ہم یاد رکھیں گے کہ یہوواہ زندہ خدا ہے اور وہ ہماری مدد کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو ہم ہر چھوٹی اور بڑی مشکل کو برداشت کر پائیں گے۔ ویسے بھی دُنیا کی کوئی مشکل ہمارے خدا سے بڑی نہیں۔ ہمارا خدا لامحدود قدرت کا مالک ہے اور وہ ہمیں ثابتقدم رہنے کی طاقت دے سکتا ہے۔ (فِلپّیوں 4:13 کو پڑھیں۔) تو ہمارے پاس ہر وہ وجہ موجود ہے جس کی بِنا پر ہم ڈٹ کر مشکلوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ جب ہم چھوٹی چھوٹی مشکلوں میں یہوواہ کی مدد کو محسوس کرتے ہیں تو اِس بات پر ہمارا یقین اَور بڑھ جاتا ہے کہ یہوواہ بڑی بڑی مشکلوں میں بھی ہماری مدد کرے گا۔
6. جب داؤد نوجوان تھے تو اُن کے ساتھ کیا ہوا جس کی وجہ سے یہوواہ پر اُن کا بھروسا اَور بڑھ گیا؟
6 آئیے داؤد کی زندگی کے دو ایسے واقعات پر غور کرتے ہیں جن کی وجہ سے یہوواہ پر اُن کا بھروسا اَور بڑھ گیا۔ جب داؤد چھوٹے تھے اور اپنے ابو کی بھیڑوں کا خیال رکھتے تھے تو ایک بار ایک ریچھ اُن کے ابو کی ایک بھیڑ کو اُٹھا کر لے گیا اور دوسری بار ایک شیر۔ دونوں ہی موقعوں پر داؤد بڑی دلیری سے اِن جنگلی جانوروں کے پیچھے گئے اور بھیڑوں کو اُن کے مُنہ سے چھڑایا۔ لیکن اُنہوں نے کامیابی کا سہرا اپنے سر نہیں لیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ یہوواہ کی طاقت سے ہی ایسا کر پائے۔ (1-سمو 17:34-37) داؤد اِن واقعات کو کبھی نہیں بھولے۔ اِن پر غور کرنے سے اُن کا اپنے زندہ خدا پر بھروسا بڑھا اور اُنہیں یقین ہو گیا کہ وہ آگے بھی اُن کی مدد کرے گا۔
7. داؤد نے کس بات پر دھیان دیا اور اِس وجہ سے وہ جولیت کا مقابلہ کیسے کر پائے؟
7 داؤد شاید اُس وقت نوجوان ہی تھے جب وہ اُس جگہ گئے جہاں اِسرائیلی فوج فِلسطینیوں سے جنگ لڑنے کے لیے جمع ہوئی تھی۔ اُنہوں نے دیکھا کہ اِسرائیلی فوجی ایک فِلسطینی سُورما سے بہت ڈرے ہوئے تھے۔ اُس سُورما کا نام جولیت تھا اور وہ ’اِسرائیل کی صفوں کو للکار رہا تھا۔‘ (1-سمو 17:10، 11) اِسرائیلی فوجی اِس لیے ڈرے ہوئے تھے کیونکہ وہ اِس بات پر دھیان دے رہے تھے کہ جولیت کتنا لمبا چوڑا ہے اور وہ اُنہیں کیا طعنے دے رہا ہے۔ (1-سمو 17:24، 25) لیکن داؤد صورتحال کو بالکل ہی فرق نظر سے دیکھ رہے تھے۔ داؤد کی نظر میں جولیت اِسرائیل کی فوج کو نہیں بلکہ ”زندہ خدا کی فوج“ کو چیلنج کر رہا تھا۔ (1-سمو 17:26) تو داؤد جولیت کے بارے میں نہیں بلکہ یہوواہ کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ داؤد کو اپنے خدا پر پورا بھروسا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ جس طرح اُن کے خدا نے اُس وقت اُن کی مدد کی جب وہ چرواہے تھے اُسی طرح وہ اِس صورتحال میں بھی اُن کی مدد کرے گا۔ داؤد نے اِس یقین کے ساتھ جولیت کا مقابلہ کِیا کہ یہوواہ اُن کے ساتھ ہے۔ بےشک داؤد نے تو جیتنا ہی تھا!—1-سمو 17:45-51۔
8. مشکلوں سے گزرتے وقت ہم یہوواہ کو اپنے ذہن میں کیسے رکھ سکتے ہیں؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
8 اگر ہم یہ بات یاد رکھیں گے کہ زندہ خدا یہوواہ مشکل وقت میں ہماری مدد کرنے کے لیے تیار ہے تو ہم مشکلوں کا کامیابی سے مقابلہ کر پائیں گے۔ (زبور 118:6) اِس بات پر اپنے بھروسے کو بڑھانے کے لیے بائبل سے ایسے واقعات پڑھیں جن سے آپ یہ یاد رکھ پائیں کہ یہوواہ نے ماضی میں اپنے بندوں کی کس کس طرح سے مدد کی۔ (یسع 37:17، 33-37) اِس کے علاوہ ہماری ویبسائٹ jw.org سے ایسی رپورٹس اور خبریں بھی پڑھیں جن میں دِکھایا جاتا ہے کہ یہوواہ آج ہمارے بہن بھائیوں کی کس طرح سے مدد کر رہا ہے۔ اُن لمحوں کو بھی یاد کریں جن میں یہوواہ نے آپ کی مدد کی تھی۔ شاید آپ کو لگے کہ یہوواہ نے آپ کے لیے اُتنے حیرتانگیز طریقے سے کچھ نہیں کِیا جتنا اُس نے اپنے کسی دوسرے بندے کے لیے کِیا تھا جیسے کہ اُس نے اپنے کسی بندے کو شیر یا ریچھ سے بچایا تھا۔ اگر آپ کو ایسا لگے تو پریشان نہ ہوں۔ دراصل یہوواہ نے آپ کے لیے بہت کچھ کِیا ہے۔ ذرا سوچیں کہ یہوواہ آپ کو اپنے قریب لایا ہے تاکہ آپ اُس سے دوستی کر سکیں۔ (یوح 6:44) اور اگر آپ ابھی بھی سچائی پر قائم ہیں تو یہ صرف یہوواہ کی ہی بدولت ہے۔ تو کیوں نہ یہوواہ سے مدد مانگیں کہ وہ آپ کو یاد دِلائے کہ اُس نے آپ کو آپ کی دُعا کا جواب کیسے دیا تھا؛ اُس وقت آپ کی مدد کیسے کی تھی جب آپ کو اِس کی واقعی ضرورت تھی یا مشکل وقت میں آپ کو کیسے سہارا دیا تھا؟ اِن باتوں پر غور کرنے سے آپ کا یہ یقین اَور بھی زیادہ بڑھ جائے گا کہ یہوواہ آگے بھی آپ کی مدد کرتا رہے گا۔
9. مشکلوں سے گزرتے وقت ہمیں کیا یاد رکھنے کی ضرورت ہے؟ (اَمثال 27:11)
9 اگر ہم یہوواہ کو ایک زندہ خدا سمجھیں گے تو ہم مشکلوں کے بارے میں صحیح سوچ اپنائیں گے۔ وہ کیسے؟ جب ہم پر مشکلیں آئیں گی تو ہم یہ یاد رکھ پائیں گے کہ ہماری مشکلیں کائنات میں چلنے والے سب سے بڑے مسئلے کا حصہ ہیں۔ یہ مسئلہ یہوواہ خدا اور شیطان کے بیچ چل رہا ہے۔ شیطان نے دعویٰ کِیا تھا کہ مشکلیں آنے پر ہم یہوواہ کو چھوڑ دیں گے۔ (ایو 1:10، 11؛ اَمثال 27:11 کو پڑھیں۔) جب ہم یہوواہ کے وفادار رہتے ہیں تو ہم شیطان کو جھوٹا اور یہوواہ کے لیے اپنی محبت ثابت کرتے ہیں۔ کیا آپ کو حکومت کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟ کیا آپ کو پیسوں کی تنگی ہے؟ کیا مُنادی کے دوران لوگ آپ کی بات نہیں سنتے؟یا کیا آپ کسی اَور طرح کی مشکل سے گزر رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یاد رکھیں کہ اِن صورتحال میں آپ کے پاس موقع ہے کہ آپ یہوواہ کے دل کو خوش کر سکیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ یہوواہ آپ کو کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑنے دے گا جو آپ کی برداشت سے باہر ہو۔ (1-کُر 10:13) وہ آپ کو طاقت دے گا تاکہ آپ مشکلوں میں بھی ثابتقدم رہ سکیں۔
زندہ خدا آپ کو اجر دے گا
10. زندہ خدا اُن لوگوں کے لیے کیا کرے گا جو اُس کی عبادت کرتے ہیں؟
10 یہوواہ خدا ہمیشہ اُن لوگوں کو اجر دیتا ہے جو اُس کی عبادت کرتے ہیں۔ (عبر 11:6) وہ نہ صرف ہمیں ابھی دلی سکون اور اِطمینان دیتا ہے بلکہ مستقبل میں ہمیشہ کی زندگی بھی دے گا۔ ہم یہوواہ پر اُمید لگا سکتے ہیں اور اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمیں اجر دینے کی خواہش بھی رکھتا ہے اور طاقت بھی۔ اِس یقین کی وجہ سے ہمارے دل میں لگن سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہنے کا جذبہ پیدا ہوگا بالکل اُسی طرح جس طرح ماضی میں خدا کے بندوں کے دل میں ہوا تھا۔ یہ بات پہلی صدی عیسوی میں رہنے والے خدا کے ایک بندے کی مثال سے صاف پتہ چلتی ہے جس کا نام تیمُتھیُس تھا۔—عبر 6:10-12۔
11. تیمُتھیُس نے کلیسیا میں محنت سے کام کیوں کِیا؟ (1-تیمُتھیُس 4:10)
11 پہلا تیمُتھیُس 4:10 کو پڑھیں۔ تیمُتھیُس اِس بات پر مضبوط ایمان رکھتے تھے کہ زندہ خدا اُنہیں اجر دے گا۔ اِسی وجہ سے اُنہوں نے یہوواہ کے لیے سخت محنت کی اور دوسروں کی مدد کرنے کی پوری کوشش کی۔ اُنہوں نے ایسا کن طریقوں سے کِیا؟ پولُس رسول نے اُن کی حوصلہافزائی کی کہ وہ ایک بہتر اُستاد بنیں تاکہ وہ کلیسیا میں اور مُنادی کرتے وقت دوسروں کو اچھی طرح سے تعلیم دے سکیں۔ پولُس رسول نے تیمُتھیُس سے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے ہمایمانوں کے لیے یعنی جوانوں اور بوڑھوں دونوں کے لیے ہی اچھی مثال قائم کریں۔ تیمُتھیُس کو کچھ مشکل ذمےداریاں بھی دی گئی تھیں جن میں سے ایک بہن بھائیوں کی درستی کرنا تھی۔ اُنہیں صاف لفظوں میں مگر شفقت اور نرمی سے ایسا کرنا تھا۔ (1-تیم 4:11-16؛ 2-تیم 4:1-5) تیمُتھیُس اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے تھے کہ یہوواہ اُنہیں اُن کی محنت کا اجر ضرور دے گا بھلے ہی دوسرے اُن کی محنت کو نہ دیکھیں اور اِس کی قدر نہ کریں۔—روم 2:6، 7۔
12. بزرگ کلیسیا میں سخت محنت سے کام کیوں کرتے ہیں؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
12 آج کلیسیا کے بزرگ بھی اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ اُن کے اچھے کاموں کو دیکھ رہا ہے اور اِس کی بہت قدر کرتا ہے۔ بہت سے بزرگ بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھانے، تعلیم دینے اور مُنادی کرنے کے علاوہ تنظیم کے تعمیراتی کاموں میں بھی حصہ لیتے ہیں اور آفت سے متاثر بہن بھائیوں کی بھی مدد کرتے ہیں۔ کچھ بزرگ مریضوں سے ملاقات کرنے والے گروپ یا ہسپتال رابطہ کمیٹی کا بھی حصہ ہیں۔ جو بزرگ خوشی سے اِن کاموں کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کلیسیا یہوواہ کی ملکیت ہے نہ کہ کسی اِنسان کی۔ اِسی وجہ سے وہ دل لگا کر اپنی ذمےداریوں کو پورا کرتے ہیں اور اِس بات پر بھروسا رکھتے ہیں کہ یہوواہ اُنہیں اُن سب کاموں کا اجر دے گا جو وہ اُس کے لیے کر رہے ہیں۔—کُل 3:23، 24۔
13. ہم دلوجان سے یہوواہ کے لیے جو کچھ کرتے ہیں، وہ اُس کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے؟
13 سچ ہے کہ ہم سب کلیسیا کے بزرگوں کے طور پر خدمت نہیں کر سکتے۔ لیکن ہم سب کے پاس ہی یہوواہ کو دینے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ جب ہم دل لگا کر اپنے خدا کی خدمت کرتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتا ہے۔ جب ہم یہوواہ کی خدمت میں ہونے والے کاموں کے لیے عطیات ڈالتے ہیں تو یہوواہ اِنہیں دیکھتا اور اِن کی قدر کرتا ہے پھر چاہے یہ کتنے ہی تھوڑے کیوں نہ ہوں۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ ہم شرمیلے ہونے کے باوجود عبادت میں جواب دینے کے لیے ہاتھ اُٹھاتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتا ہے۔ اور جب ہم دوسروں کی غلطیوں کو نظرانداز کرتے اور اُنہیں معاف کر دیتے ہیں تو اُس کا دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ یہوواہ کے لیے اُتنا نہیں کر پا رہے جتنا آپ کرنا چاہتے ہیں تو بھی اِس بات پر بھروسا رکھیں کہ آپ دلوجان سے اُس کے لیے جو کچھ کر رہے ہیں، وہ اِس کی بہت قدر کرتا ہے۔ وہ آپ سے بہت محبت کرتا ہے اور آپ کو اجر دے گا۔—لُو 21:1-4۔
زندہ خدا کے قریب رہیں
14. یہوواہ کے قریب رہنے سے ہم اُس کے وفادار کیسے رہ پائیں گے؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
14 اگر ہم یہوواہ کو ایک حقیقی ہستی سمجھیں گے تو ہمارے لیے اُس کا وفادار رہنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔ یہ بات یوسف کی مثال سے صاف نظر آتی ہے۔ یوسف کسی بھی صورت میں یہوواہ کو ناراض کرنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اُن کے کاموں کا یہوواہ پر گہرا اثر پڑے گا۔ اِسی لیے اُنہوں نے حرامکاری کرنے سے صاف اِنکار کر دیا۔ (پید 39:9) اگر ہم بھی چاہتے ہیں کہ یہوواہ ہمارے لیے ایک حقیقی ہستی بن جائے تو ہمیں اُس سے دُعا کرنے اور اُس کے کلام کا مطالعہ کرنے کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔ اِس طرح ہماری یہوواہ کے ساتھ دوستی اَور زیادہ بڑھ جائے گی۔ اگر یوسف کی طرح ہم بھی یہوواہ کے قریب رہیں گے تو ہم کوئی بھی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے یہوواہ کا دل دُکھ سکتا ہے۔—یعقو 4:8۔
15. بنیاِسرائیل نے ویرانے میں جو کچھ کِیا، اُس سے ہم کون سا سبق سیکھتے ہیں؟ (عبرانیوں 3:12)
15 جو لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہوواہ ایک زندہ خدا ہے، وہ بڑی آسانی سے اُس سے دُور ہو سکتے ہیں۔ غور کریں کہ جب بنیاِسرائیل ویرانے میں تھے تو اُن کے ساتھ کیا ہوا۔ وہ یہ جانتے تھے کہ یہوواہ موجود ہے لیکن وہ اِس بات پر شک کرنے لگے کہ یہوواہ اُن کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔ وہ تو یہ تک کہنے لگے: ”[یہوواہ]ہمارے بیچ میں ہے یا نہیں۔“ (خر 17:2، 7) اِس شک کی وجہ سے اُنہوں نے یہوواہ سے بغاوت کی۔بےشک ہمیں اُن کی بُری مثال سے سبق سیکھنا چاہیے اور اُن کی طرح نافرمان نہیں بننا چاہیے۔—عبرانیوں 3:12 کو پڑھیں۔
16. ہمارے ایمان کا اِمتحان کیسے ہو سکتا ہے؟
16 یہ دُنیا ہمارے لیے یہوواہ کے قریب رہنا مشکل بناتی ہے۔ بہت سے لوگ خدا کے وجود کو ماننے سے اِنکار کرتے ہیں۔ خدا کے حکموں کو ٹھکرانے والے لوگ اکثر بڑی ہی اچھی زندگی گزارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور جب ہم ایسا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمارے ایمان کا اِمتحان ہو سکتا ہے۔ سچ ہے کہ شاید ہم اِس بات سے تو اِنکار نہ کریں کہ خدا موجود ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ہم اِس بات پر شک کرنے لگیں کہ وہ ہماری مدد کرے گا یا نہیں۔ ایسی ہی سوچ زبور 73 کو لکھنے والے شخص کے ذہن میں بھی آئی تھی۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ اُس کے اِردگِرد کے لوگ خدا کے حکموں کو ٹھکرا رہے ہیں اور پھر بھی بڑے مزے کی زندگی جی رہے ہیں۔ اِس وجہ سے وہ یہ سوچنے لگا کہ کیا خدا کی خدمت کرنے کا واقعی کوئی فائدہ ہے؟—زبور 73:11-13۔
17. کیا چیز یہوواہ کے قریب رہنے میں ہماری مدد کرے گی؟
17 کس چیز نے زبور 73 کو لکھنے والے شخص کی مدد کی تاکہ وہ اپنی سوچ کو ٹھیک کر سکے؟ اُس نے اِس بات پر غور کِیا کہ اُن لوگوں کا کیا انجام ہوتا ہے جو یہوواہ کو بھول جاتے ہیں۔ (زبور 73:18، 19، 27) اُس نے اُن فائدوں کے بارے میں بھی سوچا جو یہوواہ کی خدمت کرنے سے ملتے ہیں۔ (زبور 73:24) ہم بھی اُن برکتوں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جو یہوواہ ہمیں دے رہا ہے۔ ذرا سوچیں کہ اگر ہم یہوواہ کی خدمت نہ کر رہے ہوتے تو ہماری زندگی کیسی ہوتی! اِس بات پر سوچ بچار کرنے سے ہم وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہیں گے اور زبور 73 کو لکھنے والے کی طرح کہہ سکیں گے: ”میرے لیے اچھا ہے کہ مَیں خدا کے قریب جاؤں۔“—زبور 73:28۔
18. ہم پورے اِعتماد سے مستقبل میں آنے والی مشکلوں کا سامنا کیوں کر سکتے ہیں؟
18 اِس آخری زمانے میں ہم کسی بھی مشکل کا ڈٹ کر سامنا کر سکتے ہیں کیونکہ ہم ”زندہ اور سچے خدا کے غلام“ہیں۔ (1-تھس 1:9) ہمارا خدا ایک حقیقی ہستی ہے جو اپنے بندوں کی مدد کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ اُس نے ثابت کِیا ہے کہ وہ ماضی میں بھی اپنے بندوں کے ساتھ تھا اور آج بھی اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔ بہت جلد ہم ایک ایسی بڑی مصیبت کا سامنا کرنے والے ہیں جو زمین پر پہلے کبھی نہیں آئی۔ (یسع 41:10) دُعا ہے کہ ہم سب پورے اِعتماد سے یہ کہہ سکیں: ”یہوواہ میرا مددگار ہے۔ مَیں نہیں ڈروں گا۔“—عبر 13:5، 6۔
گیت نمبر 3 یہوواہ، ہمارا سہارا اور آسرا