آپبیتی
یہوواہ نے میری دُعاؤں کو سنا
جب مَیں دس سال کا تھا تو ایک رات مَیں آسمان پر چمکتے ستاروں کو دیکھ رہا تھا۔ مَیں فوراً گُھٹنوں کے بل بیٹھا اور دُعا کرنے لگا۔ حالانکہ مَیں نے ابھی ابھی یہوواہ کے بارے میں سیکھا تھا لیکن مَیں اُسے دل کھول کر اپنے احساسات بتانے لگا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ”دُعا کے سننے والے“ یعنی یہوواہ کے ساتھ میرا عمر بھر کا سفر شروع ہوا۔ (زبور 65:2) آئیے مَیں آپ کو بتاتا ہوں کہ مَیں نے اُس خدا سے کیوں دُعا کی جس کے بارے میں مَیں نے ابھی سیکھنا ہی شروع کِیا تھا۔
ایک ملاقات جس نے ہماری زندگی بدل دی
مَیں 22 دسمبر 1929ء کو بیلجیئم کے شہر باستون کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا۔ میرے بچپن کی یادیں بہت ہی خوبصورت ہیں۔ مَیں اپنے امی ابو کے ساتھ کھیت میں کام کرتا تھا۔ ہمارے پاس کچھ گائیں بھی تھیں۔ مَیں اور میرا چھوٹا بھائی رےمنڈ ہر روز اپنے ہاتھوں سے گائے کا دودھ نکالتے تھے۔ ہم فصلوں کی کٹائی میں بھی ہاتھ بٹاتے تھے۔ ہمارے چھوٹے سے گاؤں میں ہر کوئی ہی ایک دوسرے کی مدد کرتا تھا۔
میرے ابو کا نام ایمل تھا اور امی کا نام ایلس تھا۔ وہ دونوں ہی کیتھولک تھے۔ وہ ہر اِتوار کو ماس کے لیے چرچ جاتے تھے۔ لیکن پھر 1939ء کے لگ بھگ اِنگلینڈ سے کچھ بھائی ہمارے گاؤں آئے۔ وہ پہلکار تھے۔ اُنہوں نے میرے ابو کو رسالہ ”کونسولیشن“ لگوانے کی پیشکش کی (”کونسولیشن“ کو اب ”جاگو!“ کہا جاتا ہے)۔ اِن رسالوں کو پڑھ کر ابو فوراً ہی سمجھ گئے کہ جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں، وہ بالکل سچ ہے۔ اِس سے اُن کے دل میں بائبل پڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ جب ابو نے اِتوار کو ماس کے لیے چرچ جانا چھوڑ دیا تو ہمارے وہ پڑوسی ہمارے سخت مخالف بن گئے جو پہلے ہمارے بہت اچھے دوست ہوا کرتے تھے۔ وہ میرے ابو پر دباؤ ڈالنے لگے کہ وہ کیتھولک ہی رہیں۔ اِس بات کو لے کر اُن میں سخت بحثوتکرار ہو جاتی تھی۔
اپنے ابو کے ساتھ ایسا سلوک دیکھ کر میرا دل بہت دُکھتا تھا۔ اِسی وجہ سے مَیں یہوواہ سے دل کھول کر وہ دُعا کرنے لگا جس کا ذکر مَیں نے مضمون کے شروع میں کِیا تھا۔ جب ہمارے پڑوسیوں نے ابو کی مخالفت کرنا چھوڑ دی تو میرا دل خوشی سے بھر گیا۔ مجھے پکا یقین ہو گیا کہ یہوواہ ’دُعا کا سننے والا‘ ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران زندگی
10 مئی 1940ء کو جرمنی کی نازی حکومت نے بیلجیئم پر قبضہ کر لیا جس کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ملک کو چھوڑ دیا۔ ہم جنوبی فرانس بھاگ گئے۔ سفر کے دوران کبھی کبھار ہم ایسی جگہوں پر ہوتے تھے جہاں جرمنی اور فرانس کی فوجیں آپس میں لڑ رہی ہوتی تھیں۔
بعد میں جب ہم اپنے گاؤں واپس لوٹے تو ہم نے دیکھا کہ ہمارے کھیت سے زیادہتر چیزیں چوری ہو گئی تھیں۔ وہاں ہمیں صرف ہمارا کُتا بابی ہی صحیح سلامت ملا۔ اِن باتوں کو دیکھ کر مَیں سوچنے لگا کہ ”اِنسانوں کو جنگ اور مصیبتوں کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟“
اِسی دوران بھائی ایمل شرانٹس ہمارے گھر آنے لگے۔ اُن کی باتوں سے ہمیں بہت حوصلہ ملا۔ وہ ایک پہلکار تھے اور کلیسیا میں بزرگ کے طور پر خدمت کر رہے تھے۔ اُنہوں نے ہمیں بائبل سے دِکھایا کہ اِنسانوں کو مصیبتوں کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے۔ اُنہوں نے زندگی کے حوالے سے مجھے میرے کچھ اَور سوالوں کے بھی جواب دیے۔اِس طرح میری یہوواہ کے ساتھ پکی دوستی ہو گئی اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ ایک محبت کرنے والا خدا ہے۔
جنگ ختم ہونے سے پہلے ہی مَیں اور میرے گھر والے باقاعدگی سے دوسرے گواہوں سے ملنے جلنے لگے۔ اگست 1943ء کو بھائی حوسے نکولس مینے ہمارے کھیت میں تقریر کرنے کے لیے آئے۔ وہاں اُنہوں نے پوچھا: ”کون بپتسمہ لینا چاہتا ہے؟“ مَیں نے اور میرے ابو نے ہاتھ اُٹھایا۔ ہم نے ہمارے کھیت کے نزدیک ایک چھوٹے سے دریا میں بپتسمہ لیا۔
دسمبر 1944ء میں جرمنی کی فوج نے مغربی یورپ پر اپنے آخری بڑے حملے کی شروعات کی۔ ہم اُس جگہ کے قریب رہ رہے تھے جہاں یہ جنگ چل رہی تھی۔ تقریباً ایک مہینے تک ہمیں اپنے گھر کے تہخانے میں رہنا پڑا۔ ایک دن جب مَیں اپنے جانوروں کو کھانا کھلانے کے لیے باہر نکلا تو ہمارے کھیت پر ایک بم گِرا جس سے ہمارے گودام کی چھت اُڑ گئی۔ ہمارے اِصطبل کے قریب ایک امریکی فوجی تھا جو مجھے دیکھ کر کہنے لگا: ”لیٹ جاؤ!“ مَیں بھاگا اور اُس کے قریب جا کر لیٹ گیا۔ اُس نے میرے سر کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنا ہیلمٹ مجھے پہنا دیا۔
کچھ ایسے اچھے تجربات جو یہوواہ کے اَور قریب جانے سے ہوئے
جنگ کے بعد ہم باقاعدگی سے شہر لیئج میں واقع کلیسیا کے بہن بھائیوں کے ساتھ رابطے میں رہنے لگے۔ یہ کلیسیا ہمارے شمال سے تقریباً 90 کلومیٹر (56 میل) دُور تھی۔ کچھ وقت بعد باستون میں ایک چھوٹا سا گروپ قائم ہوا۔ پھر مَیں ٹیکس آفس میں کام کرنے لگا اور مجھے قانون کی پڑھائی کرنے کا موقع ملا۔ بعد میں مَیں ایک مقامی سرکاری دفتر میں کام کرنے لگا۔ 1951ء میں ہم نے باستون میں ایک حلقے کے اِجتماع کا بندوبست کِیا۔ تقریباً 100 لوگ اِس اِجتماع پر آئے جن میں ایک بہت ہی
جوشیلی پہلکار بھی شامل تھی۔ اُس کا نام ایلی روئٹر تھا۔ ایلی اپنی سائیکل پر 50 کلومیٹر (31 میل) کا سفر کر کے اِس اِجتماع پر آئیں۔ ہمیں ایک دوسرے سے محبت ہو گئی اور ہم نے منگنی کر لی۔ ایلی کو امریکہ میں گلئیڈ سکول میں جانے کی دعوت ملی تھی۔ اُنہوں نے مرکزی دفتر کو خط لکھا جس میں اُنہوں نے بتایا کہ وہ گلئیڈ سکول میں جانے کی دعوت کو کیوں قبول نہیں کر رہیں۔ اُس وقت بھائی نار یہوواہ کے گواہوں کے کام کی پیشوائی کر رہے تھے۔ اُنہوں نے ایلی کو جواب میں لکھا کہ ہو سکتا ہے کہ ایک دن وہ اپنے شوہر کے ساتھ گلئیڈ سکول آئیں۔ ہم نے فروری 1953ء میں شادی کر لی۔اِسی سال مَیں اور ایلی نیو یارک کے یانکی سٹیڈیم میں ہونے والے ایک اِجتماع پر گئے۔ وہاں میری ملاقات ایک بھائی سے ہوئی جس نے مجھے ایک اچھی نوکری کی پیشکش کی اور مجھ سے کہا کہ مَیں امریکہ شفٹ ہو جاؤں۔ ہم نے اِس معاملے کے بارے میں یہوواہ سے دُعا کی اور پھر فیصلہ کِیا کہ ہم یہ نوکری قبول نہیں کریں گے بلکہ بیلجیئم واپس جائیں گے اور باستون میں اُس چھوٹے گروپ کی مدد کریں گے جس میں تقریباً 10 مبشر تھے۔ اِس کے اگلے سال ہمیں یہوواہ کی طرف سے ایک برکت ملی۔ ہمارا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ہم نے سرج رکھا۔ افسوس کی بات ہے کہ سات مہینے بعد وہ بیمار ہوا اور فوت ہو گیا۔ ہم بہت ہی دُکھی تھے۔ ہم نے دُعا میں یہوواہ کو اپنے احساسات بتائے اور ہمیں مُردوں کے زندہ ہو جانے کی اُمید سے بہت تسلی ملی۔
کُلوقتی طور پر یہوواہ کی خدمت
اکتوبر 1961ء میں مجھے پارٹ ٹائم نوکری مل گئی جس سے مَیں پہلکار کے طور پر بھی خدمت کر سکتا تھا۔ لیکن اُسی دن مجھے بیلجیئم برانچ سے ایک بھائی کا فون آیا۔ اُس بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مَیں حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنا چاہوں گا؟ اِس پر مَیں نے اُس سے پوچھا: ”کیا یہ ذمےداری قبول کرنے سے پہلے ہم پہلکاروں کے طور پر خدمت کر سکتے ہیں؟“ اُس بھائی نے ہماری یہ درخواست مان لی۔ آٹھ مہینے پہلکاروں کے طور پر خدمت کرنے کے بعد ستمبر 1962ء میں مَیں حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے لگا۔
دو سال حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کے بعد ہمیں برسلز بیتایل میں بُلا لیا گیا۔ ہم نے وہاں اکتوبر 1964ء میں خدمت کرنا شروع کی۔ اِس نئی ذمےداری کو نبھاتے وقت ہمیں بہت سی برکتیں ملیں۔ 1965ء میں بھائی نار برسلز بیتایل آئے اور اِس کے تھوڑے ہی وقت بعد مجھے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ مجھے برانچ کے نگہبان کے طور پر مقرر کِیا گیا ہے۔ بعد میں مجھے اور ایلی کو گلئیڈ سکول کی 41ویں کلاس میں جانے کی دعوت ملی۔ بھائی نار نے جو بات ایلی سے کہی تھی، وہ 13 سال بعد پوری ہوئی۔ گلئیڈ سکول کی گریجویشن کے بعد ہم واپس بیلجیئم بیتایل لوٹ آئے۔
یہوواہ کے بندوں کے قانونی حقوق کا دِفاع
سالوں کے دوران مجھے یہ اعزاز ملا ہے کہ مَیں قانون کے بارے میں اپنے علم کو یہوواہ کے بندوں کا دِفاع کرنے کے لیے اِستعمال کروں تاکہ وہ آزادی سے یورپ اور دوسرے ملکوں میں یہوواہ کی عبادت کر سکیں۔ (فِل 1:7) اِس طرح مجھے اُن 55 سے زیادہ ملکوں کے افسروں سے بات کرنے کا موقع ملا جہاں ہمارے کام پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ اِن افسروں سے اپنا تعارف کراتے ہوئے مَیں کبھی بھی اِس بات پر زور نہیں دیتا تھا کہ مجھے قانونی معاملات کا کتنا تجربہ ہے بلکہ مَیں اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتا تھا، ”مَیں خدا کا بندہ ہوں۔“ مَیں ہمیشہ یہوواہ سے رہنمائی کے لیے دُعا کرتا تھا کیونکہ مَیں جانتا تھا کہ ’بادشاہ[یا جج]کا دل یہوواہ کے ہاتھ میں پانی کی ندی کی طرح ہے اور وہ اِسے جہاں چاہے موڑ سکتا ہے۔‘—اَمثا 21:1۔
رومیوں 13:4 دِکھائی۔ وہ ایک پروٹسٹنٹ تھا اِس لیے وہ بائبل میں لکھی بات کو دھیان سے سننے لگا۔ اِس کے بعد کیا ہوا؟ ہماری آدھے گھنٹے تک باتچیت چلتی رہی اور میری اُس سے ملاقات بہت کامیاب رہی! اُس نے تو یہ تک کہا کہ وہ یہوواہ کے گواہوں کے کام کی بہت قدر کرتا ہے۔
مَیں اپنی زندگی کا ایک واقعہ تو کبھی نہیں بھول سکتا۔ یہ وہ واقعہ تھا جب میری یورپی پارلیمان کے ایک رُکن سے باتچیت ہوئی تھی۔ مَیں نے کئی بار اُس سے ملنے کی درخواست کی تھی۔ اور آخرکار وہ مجھ سے ملنے کو راضی ہو گیا۔ اُس نے مجھ سے کہا: ”آپ کے پاس صرف پانچ منٹ ہیں۔ اِس سے ایک منٹ بھی زیادہ نہیں۔“ مَیں اپنا سر جھکا کر یہوواہ سے دُعا کرنے لگا۔ اِس پر وہ آدمی تھوڑا گھبراتے ہوئے مجھ سے پوچھنے لگا کہ مَیں کیا کر رہا ہوں۔ مَیں نے اپنا سر اُٹھایا اور کہا: ”مَیں خدا کا شکر ادا کر رہا ہوں کیونکہ آپ اُس کے ایک خادم ہیں۔“ اُس نے مجھ سے کہا: ”کیا مطلب؟“ مَیں نے اُسےگزرے سالوں کے دوران یہوواہ کے گواہوں نے یورپ میں بہت سے مُقدمے جیتے ہیں جیسے کہ یہ مُقدمے: مسیحیوں کا سیاسی معاملوں میں کسی کی طرفداری نہ کرنا، ٹیکس بھرنا، بچہ ماں یا باپ میں سے کس کے پاس رہے گا اور کچھ اَور مُقدمے۔ یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اِن میں سے بہت سے مُقدموں کو مَیں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے دیکھا۔ اور یہ دیکھا کہ یہوواہ نے کیسے ہمیں اِن میں کامیابی دی۔ یہوواہ کے گواہ اِنسانی حقوق کی یورپی عدالت میں 140 سے زیادہ مُقدمے جیت چُکے ہیں!
کیوبا میں آزادی سے یہوواہ کی خدمت
بعد میں مجھے ہمارے مرکزی دفتر سے بھائی فلپ برملی اور اِٹلی سے بھائی والٹر فارنٹی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ہم نے مل کر کیوبا میں رہنے والے اپنے بہن بھائیوں کے حقوق کا دِفاع کِیا تاکہ وہ آزادی سے یہوواہ کی عبادت کر سکیں۔ مَیں نے بیلجیئم میں کیوبا کے سفارتخانے کو خط لکھا اور پھر وہاں ایک افسر سے ملا جو ہمارے مُقدمے کو دیکھ رہا تھا۔ شروع کی کچھ ملاقاتوں میں ہم اُس غلطفہمی کو دُور نہیں کر پائے جو حکومت کو ہمارے کام کے حوالے سے تھیں اور جس کی وجہ سے اُنہوں نے ہمارے کام پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔
دُعا میں یہوواہ سے مدد مانگنے کے بعد ہم نے کیوبا میں 5000 بائبلیں بھیجنے کی اِجازت مانگی جو حکومت نے ہمیں دے دی۔ جب یہ بائبلیں بہن بھائیوں کے پاس پہنچ گئیں تو ہمیں یقین ہو گیا کہ یہوواہ ہماری محنت پر برکت ڈال رہا ہے۔ پھر ہم نے حکومت سے 27 ہزار 500 اَور بائبلیں بھیجنے کی اِجازت مانگی جو ہمیں مل گئی۔ اب کیوبا میں ہمارے بہن بھائیوں کے پاس اپنی بائبل تھی۔ اپنے اِن بہن بھائیوں کی اِس طرح سے مدد کر کے ہمیں بہت خوشی ملی۔
مَیں کئی بار کیوبا گیا تاکہ قانونی لحاظ سے ہمارے کام میں اَور زیادہ بہتری
آ سکے۔ اِس دوران میرے بہت سے سرکاری افسروں سے اچھے تعلقات قائم ہو گئے۔روانڈا میں اپنے بہن بھائیوں کا ساتھ دینا
1994ء میں روانڈا میں تتسی نسل کے خلاف ہونے والے تعصب میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بےرحمی سے قتل کر دیا گیا۔ افسوس کی بات ہے کہ اُس میں ہمارے کچھ بہن بھائی بھی مارے گئے۔ فوراً ہی بھائیوں کے ایک گروپ سے کہا گیا کہ وہ اُس ملک میں رہنے والے بہن بھائیوں کے لیے اِمداد کا بندوبست کریں۔
جب ہمارا گروپ روانڈا کے دارالحکومت کیگالی پہنچا تو ہم نے دیکھا کہ ہماری کتابوں اور رسالوں کے سٹور اور ترجمے کے دفتر کی دیواروں پر جگہ جگہ گولیوں کے نشان تھے۔ وہاں ہمیں یہ دردناک واقعات سننے کو ملے کہ ہمارے کچھ بہن بھائیوں کو کس طرح سے چاقو سے قتل کر دیا گیا تھا۔ لیکن ہم نے ایسے واقعات بھی سنے جن میں ہمارے بہن بھائیوں نے ایک دوسرے کے لیے بےاِنتہا محبت دِکھائی تھی۔ مثال کے طور پر ہم ایک تتسی بھائی سے ملے جنہیں ھوتو گھرانے نے اپنے گھر کی زمین میں ایک کھڈا کھود کر 28 دن تک چھپا کر رکھا۔ شہر کیگالی میں ہم نے عبادت کے دوران 900 سے زیادہ بہن بھائیوں کو تسلی دی اور اُن کا حوصلہ بڑھایا۔
پھر ہم بارڈر پار کر کے زائر گئے (اب یہ کانگو، عوامی جمہوریہ ہے) تاکہ ہم روانڈا سے تعلق رکھنے والے اپنے اُن سب بہن بھائیوں کو ڈھونڈ سکیں جو قریب ہی شہر گوما میں کیمپوں میں پناہ کےلیے بھاگ گئے تھے۔ لیکن ہم اُنہیں ڈھونڈ نہیں پائے اِس لیے ہم نے یہوواہ سے دُعا کی کہ وہ ہماری مدد کرے۔ پھر ہم نے ایک شخص کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ ہم نے اُس سے پوچھا کہ کیا وہ کسی یہوواہ کے گواہ کو جانتا ہے؟ اُس نے کہا: ”ہاں، مَیں بھی ایک یہوواہ کا گواہ ہوں۔ مَیں آپ کو اِمدادی کمیٹی کے پاس لے جاتا ہوں۔“ اِمدادی کمیٹی سے ملنے کے بعد ہم تقریباً 1600 پناہگزین بہن بھائیوں سے ملے تاکہ اُنہیں تسلی اور حوصلہ دے سکیں۔ ہم نے اُن بہن بھائیوں کو وہ خط پڑھ کر بھی سنایا جو گورننگ باڈی کی طرف سے تھا۔ اِس خط میں لکھے الفاظ نے بہن بھائیوں کا دل چُھو لیا۔ خط میں لکھا تھا: ”ہم مسلسل آپ کے لیے دُعا کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ آپ کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔“ گورننگ باڈی کے بھائیوں کے یہ الفاظ کتنے سچ ثابت ہوئے! آج روانڈا میں 30 ہزار سے بھی زیادہ یہوواہ کے گواہ ہیں۔
یہوواہ کا وفادار رہنے کا میرا عزم
شادی کے تقریباً 58 سال بعد 2011ء میں میری جیون ساتھی فوت ہو گئی۔ جب مَیں نے دُعا میں یہوواہ کو بتایا کہ مَیں کتنا دُکھی ہوں تو اُس نے مجھے تسلی دی۔ مجھے لوگوں کو بادشاہت کی خوشخبری سنانے سے بھی بہت تسلی ملی۔
حالانکہ اب میری عمر 90 سال سے زیادہ ہو گئی ہے لیکن مَیں اب بھی ہر ہفتے مُنادی کرتا ہوں۔ مَیں بہت خوش ہوں کہ مَیں بیلجیئم برانچ میں قانونی معاملات کی نگرانی کرنے والے شعبے کی مدد کرتا ہوں؛ اپنی زندگی میں ہونے والے تجربات کے بارے میں دوسروں کو بتاتا ہوں اور بیتایل میں جوان بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھاتا ہوں۔
تقریباً 84 سال پہلے مَیں نے یہوواہ سے پہلی بار دُعا کی تھی۔ وہ یہوواہ کے ساتھ میرے اُس سفر کی شروعات تھی جس سے مَیں اُس کے بہت قریب ہو گیا۔ مَیں یہوواہ کا بہت شکرگزار ہوں کہ اُس نے میری پوری زندگی میری دُعاؤں کو سنا۔—زبور 66:19۔ a
a جب یہ مضمون تیار کِیا جا رہا تھا تو بھائی مارسیل 4 فروری 2023ء کو فوت ہو گئے۔