مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 51

مستقبل کے حوالے سے آپ کی اُمید ضرور پوری ہوگی

مستقبل کے حوالے سے آپ کی اُمید ضرور پوری ہوگی

‏”‏ہو نہیں سکتا کہ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏ اُمید پوری نہ ہو۔“‏‏—‏روم 5:‏5‏۔‏

گیت نمبر 142‏:‏ ہماری شان‌دار اُمید

مضمون پر ایک نظر a

1.‏ اَبراہام اِس بات کی اُمید کیوں رکھ سکتے تھے کہ اُن کا ایک بیٹا پیدا ہو گا؟‏

 یہوواہ نے اپنے دوست اَبراہام سے وعدہ کِیا تھا کہ اُن کے ذریعے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی۔ (‏پید 15:‏5؛‏ 22:‏18‏)‏ چونکہ اَبراہام خدا پر مضبوط ایمان رکھتے تھے اِس لیے اُنہیں اِس بات کا پکا یقین تھا کہ اُس کا وعدہ پورا ہوگا۔ لیکن جب اَبراہام 100 کے تھے اور اُن کی بیوی 90 سال کی تھیں تو اُس وقت تک بھی اُن کے ہاں بیٹا نہیں ہوا تھا۔ (‏پید 21:‏1-‏7‏)‏ لیکن بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”‏اپنی اُمید کی بِنا پر[‏اَبراہام]‏کو پکا یقین تھا کہ وہ بہت سی قوموں کے باپ ہوں گے کیونکہ اُن سے کہا گیا تھا کہ ”‏تمہاری اولاد بے‌شمار ہوگی۔“‏“‏ (‏روم 4:‏18‏)‏ ہم جانتے ہیں کہ اَبراہام کی یہ اُمید پوری ہوئی۔ اُن کے ہاں اِضحاق پیدا ہوئے جن کے پیدا ہونے کی اُنہیں اُمید تھی۔ لیکن اَبراہام کو یہوواہ کے وعدوں پر اِتنا پکا یقین کیوں تھا؟‏

2.‏ اَبراہام کو اِس بات کا پکا یقین کیوں تھا کہ یہوواہ کا وعدہ پورا ہوگا؟‏

2 چونکہ اَبراہام کی یہوواہ کے ساتھ قریبی دوستی تھی اِس لیے اُنہیں ”‏پکا یقین تھا کہ خدا نے جو وعدہ کِیا ہے، وہ اِسے پورا بھی کرے گا۔“‏ (‏روم 4:‏21‏)‏ اَبراہام کے ایمان کی وجہ سے یہوواہ اُن سے خوش تھا اور اُس نے اُنہیں نیک ٹھہرایا۔ (‏یعقو 2:‏23‏)‏ جیسا کہ رومیوں 4:‏18 میں بتایا گیا ہے،اَبراہام کے ایمان اور اُن کی اُمید کا آپس میں گہرا تعلق تھا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ رومیوں 5 باب میں پولُس رسول نے اُمید کے بارے میں کیا کہا۔‏

3.‏ پولُس رسول نے اُمید کے بارے میں کیا کہا؟‏

3 پولُس رسول نے بتایا کہ ”‏ہو نہیں سکتا کہ .‏ .‏ .‏ اُمید پوری نہ ہو۔“‏ (‏روم 5:‏5‏)‏ اُنہوں نے اِس بات‌پر یقین رکھنے کی وجہ بھی بتائی۔ پولُس رسول نے ہماری یہ سمجھنے میں بھی مدد کی کہ مسیحیوں کی اُمید وقت کے ساتھ کیسے مضبوط ہو جاتی ہے۔جب ہم رومیوں 5:‏1-‏5 پر غور کرتے ہیں تو ذرا سوچیں کہ مستقبل کے حوالے سے آپ کی اُمید آہستہ آہستہ کیسے مضبوط ہوتی گئی ہے۔ اِن آیتوں پر بات کرتے ہوئے آپ یہ بھی جان پائیں گے کہ آپ اپنی اُمید کو اَور زیادہ مضبوط کیسے کر سکتے ہیں۔ آئیے سب سے پہلے اُس اُمید پر بات کرتے ہیں جس کے بارے میں پولُس نے کہا کہ یہ ضرور پوری ہو گی۔‏

ہماری شان‌دار اُمید

4.‏ رومیوں 5:‏1، 2 میں کس بارے میں بات کی گئی ہے؟‏

4 رومیوں 5:‏1، 2 کو پڑھیں۔‏ پولُس نے یہ باتیں روم کی کلیسیا کو لکھیں۔ اِس کلیسیا کے بہن بھائیوں نے یہوواہ اور یسوع کے بارے میں سیکھا؛ یہ ثابت کِیا کہ اُن کا ایمان مضبوط ہے اور پھر وہ مسیحی بن گئے۔ اِس وجہ سے خدا نے ”‏[‏اُنہیں اُن کے]‏ایمان کی بِنا پر نیک قرار دیا“‏ اور اُنہیں پاک روح سے مسح کِیا۔ اب اُنہیں ایک شان‌دار اُمید مل گئی تھی۔‏

5.‏ مسح‌شُدہ مسیحی کیا اُمید رکھتے ہیں؟‏

5 پولُس نے بعد میں اِفسس میں رہنے والے مسح‌شُدہ مسیحیوں سے اُس اُمید کے بارے میں بات کی جو اُنہیں یہوواہ کی طرف سے ملی تھی۔ اُنہیں یہ اُمید تھی کہ خدا ”‏مُقدسوں کو .‏ .‏ .‏ وراثت عطا کرے گا۔“‏ (‏اِفِس 1:‏18‏)‏ پولُس نے کُلسّے میں رہنے والے مسیحیوں کو بتایا کہ اُن کی اُمید کہاں پوری ہوگی۔ اُنہوں نے اُنہیں بتایا کہ اُن کی اُمید ”‏آسمان پر رکھی گئی ہے۔“‏ (‏کُل 1:‏4، 5‏)‏ اُس وقت مسح‌شُدہ مسیحیوں کو یہ اُمید تھی کہ اُنہیں آسمان پر ہمیشہ کی زندگی ملے گی جہاں وہ مسیح کے ساتھ مل کر حکمرانی کریں گے۔—‏1-‏تھس 4:‏13-‏17؛‏ مُکا 20:‏6‏۔‏

بھائی فریڈرک فرینز نے بڑی اچھی طرح بتایا کہ مسح‌شُدہ مسیحیوں کو اپنی اُمید پورے ہونے کا کتنا پکا یقین ہے۔ (‏پیراگراف نمبر 6 کو دیکھیں۔)‏

6.‏ ایک مسح‌شُدہ بھائی نے اپنی اُمید کے بارے میں کیا کہا؟‏

6 مسح‌شُدہ مسیحی اُس اُمید کی بہت قدر کرتے ہیں جو یہوواہ نے اُنہیں دی ہے۔ اُن میں سے ایک بھائی فریڈرک فرینز تھے۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ہماری اُمید ضرور پوری ہوگی۔ یہوواہ نے اپنے 1 لاکھ 44 ہزار بندوں سے جو وعدہ کِیا ہے، وہ ضرور پورا ہوگا۔ ہماری یہ اُمید کسی بھی دوسری چیز سے بڑھ کر ہے۔“‏ کئی سالوں تک وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرنے کے بعد 1991ء میں بھائی نے کہا:‏ ”‏ہم اب بھی اپنی اُمید کی بہت قدر کرتے ہیں۔ جتنا زیادہ ہم اِس کا اِنتظار کرتے ہیں اُتنی ہی زیادہ ہمارے دل میں اِس کے لیے قدر بڑھتی جاتی ہے۔ ہم اِس کا اِنتظار کرنے کے لیے تیار ہیں، بھلے ہی اِسے پورا ہونے میں لاکھوں سال ہی کیوں نہ لگ جائیں۔ مَیں اپنی اُمید کی پہلے سے بھی زیادہ قدر کرتا ہوں۔“‏

7-‏8.‏ زیادہ‌تر مسیحیوں کی کیا اُمید ہے؟ (‏رومیوں 8:‏20، 21‏)‏

7 زیادہ‌تر مسیحیوں کی اُمید بالکل فرق ہے۔ اُنہیں یہوواہ نے وہی اُمید دی ہے جو اُس نے اَبراہام کو دی تھی یعنی زمین پر خدا کی بادشاہت میں ہمیشہ تک زندگی۔ (‏عبر 11:‏8-‏10،‏ 13‏)‏ پولُس نے اِسی اُمید کے بارے میں بات کی۔ ‏(‏رومیوں 8:‏20، 21 کو پڑھیں۔)‏ جب آپ کو پہلی بار بائبل سے مستقبل کے حوالے سے خدا کے وعدے کے بارے میں پتہ چلا تھا تو آپ کو سب سے اچھی بات کیا لگی تھی؟ کیا آپ کو یہ اچھا لگا تھا کہ ایک دن آئے گا کہ آپ گُناہ‌گار نہیں رہیں گے اور بے‌عیب ہو جائیں گے؟ یا جب آپ کو پتہ چلا کہ آپ کے عزیز زمین پر فردوس میں زندہ ہو جائیں گے تو کیا آپ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے تھے؟ اِس ”‏اُمید“‏ کی وجہ سے آپ نے مستقبل میں ہونے والے شان‌دار کاموں کا بڑی شدت سے اِنتظار کرنا شروع کر دیا ہوگا۔‏

8 چاہے ہم آسمان پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھتے ہوں یا زمین پر،یہ اُمید ہمیں خوشی دیتی ہے۔ ہماری یہ اُمید اَور مضبوط ہو سکتی ہے۔ پولُس نے آگے جو بات کہی، اُس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری اُمید اَور مضبوط کیسے ہو سکتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اُنہوں نے ہماری اُمید کے بارے میں کیا کہا۔ ایسا کرنے سے ہم اِس بات پر پکا یقین رکھ پائیں گے کہ ہماری اُمید مضبوط ہو سکتی ہے اور یہ ضرور پوری ہو گی۔‏

ہماری اُمید کیسے مضبوط ہو سکتی ہے؟‏

سب مسیحیوں پر کسی نہ کسی طرح کی مصیبت آ سکتی ہے۔ (‏پیراگراف نمبر 9-‏10 کو دیکھیں۔)‏

9-‏10.‏ پولُس نے جو بات بتائی، اُس کی وجہ سے مسیحی کس بات کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ (‏رومیوں 5:‏3‏)‏ (‏تصویروں کو بھی دیکھیں۔)‏

9 رومیوں 5:‏3 کو پڑھیں۔‏ پولُس رسول نے بتایا کہ جب ہم پر مصیبتیں آتی ہیں تو ہماری اُمید اَور مضبوط ہو جاتی ہے۔ شاید ہمیں یہ بات تھوڑی عجیب لگے۔ لیکن اصل میں مسیح کے سب پیروکاروں پر مصیبتیں آ سکتی ہیں۔ ذرا پولُس کی مثال پر غور کریں۔ اُنہوں نے تھسلُنیکے کے مسیحیوں سے کہا:‏ ”‏جب ہم آپ کے ساتھ تھے تو ہم آپ کو بتایا کرتے تھے کہ ہمیں اذیتیں اُٹھانی پڑیں گی۔ اور ایسا ہوا بھی ہے جیسا کہ آپ کو معلوم ہے۔“‏ (‏1-‏تھس 3:‏4‏)‏ اور اُنہوں نے کُرنتھس میں رہنے والے مسیحیوں سے کہا:‏ ”‏بھائیو، ہم چاہتے ہیں کہ آپ[‏ہماری]‏مشکلات کے بارے میں جانیں .‏ .‏ .‏ ہمیں اپنی جان کا خطرہ تھا۔“‏—‏2-‏کُر 1:‏8؛‏ 11:‏23-‏27‏۔‏

10 آج بھی مسیحیوں کو فرق فرق مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ (‏2-‏تیم 3:‏12‏)‏ ذرا اپنے بارے میں سوچیں۔ جب آپ یسوع پر ایمان لائے اور آپ نے اُن کی پیروی کرنی شروع کی تو کیا آپ کو بھی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا؟ شاید آپ کے رشتے‌داروں اور گھر والوں نے آپ کا مذاق اُڑایا۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے آپ کے ساتھ بہت بُرا سلوک کِیا ہو۔ کیا ایمان‌داری سے کام کرنے کی وجہ سے آپ کو کام کی جگہ پر مشکل اُٹھانی پڑی؟ (‏عبر 13:‏18‏)‏ کیا دوسروں کو اپنی اُمید کے بارے میں بتانے کی وجہ سے آپ کو حکومت کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا؟ پولُس رسول نے بتایا تھا کہ چاہے ہمیں جیسی بھی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے، ہم خوش رہ سکتے ہیں۔ لیکن کیوں؟‏

11.‏ ہمیں مشکلوں کو برداشت کرنے کا عزم کیوں کرنا چاہیے؟‏

11 ہم مشکلوں کے باوجود بھی خوش رہ سکتے ہیں کیونکہ جب ہم مشکلوں کو برداشت کرتے ہیں تو ہمارے اندر ایک بہت خاص خوبی پیدا ہوتی ہے۔ رومیوں 5:‏3 میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏مصیبت سے ثابت‌قدمی پیدا ہوتی ہے۔“‏ سب مسیحیوں کو ہی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اِس لیے سب مسیحیوں کو ثابت‌قدمی سے کام لینا چاہیے۔ ہمیں اِس بات کا عزم کرنا چاہیے کہ چاہے ہمارے سامنے کوئی بھی مشکل آ جائے، ہم ثابت‌قدم رہیں گے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہی ہم اپنی اُمید کو پورا ہوتے دیکھ پائیں گے۔ ہم اُن لوگوں کی طرح نہیں بننا چاہتے جو اُس وقت اُن کے ذہن میں تھے جب اُنہوں نے ایک ایسے بیج کی بات کی جو پتھریلی زمین پر گِرا تھا۔ شروع میں تو اُنہوں نے بڑی خوشی خوشی خدا کے کلام کو قبول کِیا لیکن جب اُن پر ”‏مصیبت یا اذیت“‏ آئی تو اُنہوں نے فوراً اِسے ترک کر دیا۔ (‏متی 13:‏5، 6،‏ 20، 21‏)‏ سچ ہے کہ اذیت اور مشکلیں سہنا آسان نہیں ہوتا لیکن جب ہم ثابت‌قدم رہتے ہیں تو اِس سے ہمیں بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔ کس لحاظ سے؟‏

12.‏ جب ہم مصیبتوں میں ثابت‌قدم رہتے ہیں تو ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

12 یعقوب نے اُن فائدوں کے بارے میں بتایا جو مصیبتوں میں ثابت‌قدم رہنے سے ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ثابت‌قدمی کو اپنا کام پورا کرنے دیں تاکہ آپ کامل ہوں اور ہر لحاظ سے بے‌عیب ہوں یعنی آپ میں کوئی کمی نہ ہو۔“‏ (‏یعقو 1:‏2-‏4‏)‏ یعقوب نے کہا کہ ثابت‌قدمی کا ایک خاص کام ہے۔ اُس کا ایک خاص مقصد ہے۔ یہ ہماری مدد کرتی ہے کہ ہم اپنے اندر اَور زیادہ صبر پیدا کر سکیں، اپنے ایمان کو مضبوط کر سکیں اور خدا پر اَور زیادہ بھروسا رکھ سکیں۔ لیکن مصیبتوں میں ثابت‌قدم رہنے کا ایک اَور فائدہ بھی ہے۔‏

13-‏14.‏ ثابت‌قدم رہنے کا ایک اَور فائدہ کیا ہے اور اِس کا ہماری اُمید سے کیا تعلق ہے؟ (‏رومیوں 5:‏4‏)‏

13 رومیوں 5:‏4 کو پڑھیں۔‏ پولُس نے بتایا کہ ”‏ثابت‌قدمی سے خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔“‏ یہوواہ آپ کی ثابت‌قدمی دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہوواہ اِس بات سے خوش ہے کہ آپ کو مصیبتوں اور مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔خدا آپ سے خوش ہوتا ہے۔ یہ کتنی بڑی برکت ہے!‏—‏زبور 5:‏12‏۔‏

14 آپ کو یاد ہوگا کہ اَبراہام نے ثابت‌قدمی سے مشکلوں کو برداشت کِیا اور اِس وجہ سے یہوواہ اُن سے خوش تھا۔ یہوواہ نے اُنہیں اپنا دوست کہا اور اُنہیں نیک قرار دیا۔ (‏پید 15:‏6؛‏ روم 4:‏13،‏ 22‏)‏ یہوواہ ہمارے بارے میں بھی ایسا ہی سوچ سکتا ہے۔خدا کی خوشنودی ہمیں اِس وجہ سے نہیں ملتی کہ ہم اُس کی خدمت میں بہت کچھ کر رہے ہیں یا ہمارے پاس بہت سے اعزاز ہیں۔ وہ ہماری ثابت‌قدمی کی وجہ سے ہم سے خوش ہوتا ہے۔چاہے ہماری عمر، حالات یا صلاحیتیں جو بھی ہوں، ہم سب ثابت‌قدم رہ سکتے ہیں۔کیا آپ ابھی کسی مشکل کا ثابت‌قدمی سے سامنا کر رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو اِس بات کا یقین رکھیں کہ خدا آپ سے بہت خوش ہے۔ جب ہم یہ جان جاتے ہیں کہ خدا ہم سے خوش ہے تو اِس سے ہماری اُمید اَور مضبوط ہو جاتی ہے۔‏

ایک پکی اُمید

15.‏ رومیوں 5:‏4، 5 میں پولُس نے کیا کہا اور اِس وجہ سے کچھ لوگ اُلجھن میں کیوں پڑ جاتے ہیں؟‏

15 پولُس نے بتایا کہ جب ہم ثابت‌قدمی سے اپنی مشکلوں کو برداشت کرتے ہیں تو یہوواہ ہم سے خوش ہوتا ہے۔ اُنہوں نے آگے کہا:‏ ”‏خدا کی خوشنودی سے اُمید ملتی ہے اور ہو نہیں سکتا کہ یہ اُمید پوری نہ ہو۔“‏ (‏روم 5:‏4، 5‏)‏ مگر رومیوں 5:‏2 میں پولُس پہلے ہی ایک اُمید کا ذکر کر چُکے تھے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ جو مسیحی روم میں رہ رہے تھے، اُن کو ’‏شان‌دار رُتبے‘‏ کی اُمید تھی۔ شاید اِس وجہ سے کچھ لوگ اُلجھن میں پڑ کر یہ سوچیں کہ ”‏اگر اُن مسیحیوں کو پہلے ہی ایک چیز کی اُمید تھی تو پولُس نے بعد میں بھی اُمید کا ذکر کیوں کِیا؟“‏

وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں اِس بات کا پکا یقین ہو گیا کہ ہماری اُمید پوری ہوگی۔ اب ہم اِس کے پورے ہونے کا اَور بھی شدت سے اِنتظار کر رہے ہیں اور اِس کی پہلے سے بھی زیادہ قدر کرتے ہیں۔ (‏پیراگراف نمبر 16-‏17 کو دیکھیں۔)‏

16.‏ ایک شخص کی اُمید کیسے مضبوط ہوتی جاتی ہے؟ (‏تصویروں کو بھی دیکھیں۔)‏

16 پولُس کی بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اِس بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اُمید ایک ایسی چیز ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ ذرا اِس مثال پر غور کریں:‏ کیا آپ کو وہ وقت یاد ہے جب آپ نے خدا کے کلام میں لکھی اُمید کے بارے میں پہلی بار سنا تھا؟ شاید اُس وقت آپ کو زمین پر فردوس میں ہمیشہ کی زندگی کا خیال تو بہت اچھا لگا ہو لیکن شاید آپ کو اِس بات پر پوری طرح یقین نہیں تھا کہ یہ اُمید واقعی پوری ہوگی۔ لیکن جیسے جیسے آپ یہوواہ اور اُس کے وعدوں کے بارے میں اَور زیادہ جانتے گئے، آپ کو اِس بات کا پکا یقین ہو گیا کہ یہ اُمید ضرور پوری ہو گی۔‏

17.‏ اپنی زندگی یہوواہ کے نام کرنے اور بپتسمہ لینے کے بعد آپ کی اُمید کیسے مضبوط ہوتی جاتی ہے؟‏

17 بپتسمہ لینے کے بعد بھی آپ یہوواہ کے بارے میں اَور زیادہ جانتے گئے اور اُس سے اَور زیادہ محبت کرنے لگے۔ پھر آپ کو اِس بات کا یقین ہو گیا کہ آپ جن باتوں کی اُمید کرتے ہیں، وہ ضرور پوری ہوں گی۔ (‏عبر 5:‏13–‏6:‏1‏)‏ شاید آپ نے اُن باتوں کا تجربہ کِیا ہو جو رومیوں 5:‏2-‏4 میں لکھی ہیں۔ آپ کے سامنے بہت سی مشکلیں کھڑی ہوئیں لیکن آپ نے اِنہیں برداشت کِیا اور آپ کو یہ نظر آنے لگا کہ یہوواہ آپ سے خوش ہے۔ آپ کو اِس بات کا یقین ہو گیا کہ یہوواہ آپ سے محبت کرتا ہے اور آپ سے خوش ہے۔ اِس لیے اب آپ کے پاس خدا کے وعدے پورے ہونے کی اُمید رکھنے کی اَور بھی بڑی وجہ ہے۔ آپ کی اُمید پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔ اب یہ کوئی خواب نہیں رہی بلکہ یہ ایک حقیقت بن چُکی ہے۔ اب یہ آپ کے دل پر اَور بھی گہرا اثر کرتی ہے۔ ایک طرح سے یہ آپ کی زندگی کے ہر پہلو پر اثر ڈالتی ہے اور آپ کی مدد کرتی ہے کہ آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آئیں، اچھے فیصلے کریں اور اپنے وقت کا صحیح اِستعمال کریں۔‏

18.‏ یہوواہ نے ہمیں کس بات کی ضمانت دی ہے؟‏

18 پولُس نے اُس اُمید کے بارے میں بات کرتے ہوئے بہت خاص بات بتائی جو ہمیں اُس وقت ملتی ہے جب خدا ہم سے خوش ہوتا ہے۔ خدا نے ہمیں اِس بات کا یقین دِلایا ہے کہ ہماری اُمید ضرور پوری ہوگی۔‏ ہم اِس بات پر اِتنا پکا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں؟ پولُس رسول نے مسیحیوں کو خدا کی طرف سے ملنے والی ضمانت کے بارے میں بتایا۔اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ہو نہیں سکتا کہ یہ اُمید پوری نہ ہو۔ اِس لیے بھی خوش ہوں کیونکہ جو پاک روح ہمیں دی گئی ہے، اُس کے ذریعے ہمارے دل خدا کی محبت سے معمور ہو گئے ہیں۔“‏ (‏روم 5:‏5‏)‏ ہمارے پاس اپنی اُمید پوری ہونے پر یقین رکھنے کی بہت ٹھوس وجوہات ہیں۔‏

19.‏ آپ اپنی اُمید کے حوالے سے کس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

19 اُس وعدے پر سوچ بچار کریں جو یہوواہ نے اَبراہام سے کِیا اور اِس بارے میں بھی سوچیں کہ خدا اُن سے خوش کیوں تھا اور اُس نے اُنہیں اپنا دوست کیوں کہا۔ اَبراہام کی اُمید پوری ہوئی۔ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏اَبراہام نے کچھ عرصے کے لیے صبر کِیا پھر اُن سے یہ وعدہ کِیا گیا۔“‏ (‏عبر 6:‏15؛‏ 11:‏9،‏ 18؛‏ روم 4:‏20-‏22‏)‏ اَبراہام مایوس نہیں ہوئے۔ آپ بھی اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ اگر آپ یہوواہ کے وفادار رہیں گے تو آپ کی اُمید پوری ہوگی۔ آپ کی اُمید کوئی خواب نہیں ہے۔ یہ آپ کو خوشی دیتی ہے، مایوسی نہیں۔ (‏روم 12:‏12‏)‏ پولُس رسول نے کہا:‏ ”‏ہاں، خدا جو ہمیں اُمید بخشتا ہے، آپ کو خوشی اور اِطمینان عطا کرے تاکہ پاک روح کی طاقت سے آپ کی اُمید اَور مضبوط ہو جائے کیونکہ آپ اُس پر بھروسا کرتے ہیں۔“‏—‏روم 15:‏13‏۔‏

گیت نمبر 139‏:‏ خود کو نئی دُنیا میں تصور کریں

a اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ مستقبل کے حوالے سے مسیحیوں کی کیا اُمید ہے اور ہم اِس بات کا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہ اُمید ضرور پوری ہوگی۔ رومیوں 5 باب کی مدد سے ہم دیکھیں گے کہ اب ہمیں جو اُمید ہے، وہ اُس اُمید سے فرق کیوں ہے جو ہمیں اُس وقت ملی تھی جب ہم نے یہوواہ خدا کے بارے میں جاننا شروع کِیا تھا۔‏