مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ‌بیتی

مَیں نے کبھی سیکھنا نہیں چھوڑا

مَیں نے کبھی سیکھنا نہیں چھوڑا

مَیں دل سے اِس بات کی قدر کرتا ہوں کہ مجھے اپنے ”‏عظیم اُستاد“‏ یہوواہ سے تعلیم پانے کا اعزاز ملا ہے۔ (‏یسع 30:‏20‏، ترجمہ نئی دُنیا‏)‏ یہوواہ اپنے بندوں کو اپنے کلام، اپنی بنائی ہوئی چیزوں اور اپنی تنظیم کے ذریعے تعلیم دیتا ہے۔ وہ ہمیں ہمارے ہم‌ایمانوں کے ذریعے سے بھی سکھاتا ہے۔ حالانکہ مَیں تقریباً 100 سال کا ہونے والا ہوں لیکن مَیں ابھی بھی یہوواہ سے تعلیم پا رہا ہوں۔ آئیے مَیں تفصیل سے آپ کو اِس بارے میں بتاتا ہوں۔‏

1948ء میں اپنے گھر والوں کے ساتھ

مَیں 1927ء میں امریکہ کی ریاست الینوائے کے شہر شکاگو کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا۔ ہم پانچ بہن بھائی تھے۔ سب سے پہلے نمبر پر میری بہن جیتھا تھیں۔ پھر مجھ سے بڑے میرے بھائی ڈون تھے۔ پھر مَیں تھا اور پھر میرے بعد میرا بھائی کارل اور میری بہن جوئے تھی۔ ہم سبھی بہن بھائیوں نے یہ عز م کِیا ہوا تھا کہ ہم دل‌وجان سے یہوواہ کی خدمت کریں گے۔ تو 1943ء میں میری بڑی بہن گلئیڈ سکول کی دوسری کلاس میں شامل ہوئیں۔ پھر 1944ء میں میرے بڑے بھائی ڈون اور 1947ء میں میرا بھائی کارل اور 1951ء میں میری بہن جوئے بروکلن بیت‌ایل میں خدمت کرنے کے لیے چلے گئے۔ اپنے امی ابو اور اپنے بہن بھائیوں کی اچھی مثال کو دیکھ کر میرے دل میں بھی بڑھ چڑھ کر یہوواہ کی خدمت کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔‏

میرے گھر والوں نے یہوواہ کے بارے میں کیسے سیکھا؟‏

میرے امی ابو خدا سے محبت کرتے تھے اور بڑے شوق سے بائبل پڑھتے تھے۔ اُنہوں نے ہمیں بھی خدا سے محبت کرنا سکھایا۔ لیکن جب ابو نے پہلی عالمی جنگ کے دوران ایک فوجی کے طور پر خدمت کی تو اِس کے بعد اُن کا دل چرچ سے اُٹھ گیا۔ مگر امی خدا کی بہت شکرگزار تھیں کہ ابو صحیح سلامت جنگ سے واپس آ گئے ہیں۔ اِس لیے اُنہوں نے ابو سے کہا:‏ ”‏وِلیم، چلیں چرچ چلتے ہیں جیسے ہم پہلے جاتے تھے۔“‏ لیکن ابو نے کہا:‏ ”‏مَیں آپ کے ساتھ وہاں تک پیدل تو چلا جاؤں گا مگر مَیں اندر نہیں جاؤں گا۔“‏ اِس پر امی نے پوچھا:‏ ”‏آپ اندر کیوں نہیں جائیں گے؟“‏ ابو نے جواب دیا:‏ ”‏جنگ کے دوران ایک ہی مذہب کے مذہبی رہنما اُن فوجیوں کے لیے دُعا کر رہے تھے جو ایک دوسرے کے خلاف لڑنے والے تھے۔ بھلا خدا اِن دو فوجوں میں سے کس کے ساتھ تھا؟“‏

بعد میں ایک دن جب امی چرچ میں تھیں تو دو یہوواہ کے گواہ ہمارے گھر پر آئے۔ اُنہوں نے ابو کو ایک کتاب دی جس کی دو جِلدیں تھیں۔ اِس کتاب کا نام ‏”‏لائٹ“‏ تھا۔ اِس میں مُکاشفہ کی کتاب پر بات کی گئی تھی۔ ابو کو یہ کتابیں بہت دلچسپ لگیں اور اُنہوں نے اِنہیں لے لیا۔ جب امی نے یہ کتابیں دیکھیں تو وہ اِنہیں پڑھنے لگیں۔ پھر ایک دن امی نے مقامی اخبار میں ایک اِشتہار دیکھا جس میں لوگوں کو کتاب ‏”‏لائٹ“‏ سے بائبل کورس کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ امی نے اُس جگہ جانے کا فیصلہ کِیا جہاں یہ بائبل کورس کرایا جا رہا تھا۔ جب امی اُس جگہ پہنچیں تو ایک عورت نے دروازہ کھولا۔ امی نے اُس عورت کو کتاب ‏”‏لائٹ“‏ کی ایک جِلد دِکھاتے ہوئے پوچھا:‏ ”‏کیا اِس کتاب سے کورس یہاں کرایا جاتا ہے؟“‏ اُس عورت نے جواب دیا:‏ ”‏جی جی، اندر آ جائیں۔“‏ پھر اگلے ہفتے امی ہم پانچوں بہن بھائیوں کو اپنے ساتھ لے کر وہاں گئیں اور اِس کے بعد ہم باقاعدگی سے وہاں جانے لگے۔‏

ایک اِجلاس کے دوران کورس کرانے والے بھائی نے مجھ سے زبور 144:‏15 پڑھنے کو کہا جہاں بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ خوش رہتے ہیں جو یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اِس آیت نے میرے دل پر گہرا اثر کِیا۔ مجھے دو اَور آیتیں بھی بہت اچھی لگیں۔ ایک تو 1-‏تیمُتھیُس 1:‏11 تھی جہاں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ ”‏خوش‌دل خدا“‏ ہے اور دوسری اِفِسیوں 5:‏1 تھی جہاں کہا گیا ہے کہ ہم ”‏خدا کی مثال پر عمل کریں۔“‏ مَیں سمجھ گیا کہ مجھے اپنے خالق کی عبادت کرنے سے خوشی حاصل کرنی چاہیے اور اِس اعزاز کے لیے اُس کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ یہ دو ایسی اہم سچائیاں تھیں جن کے مطابق مَیں نے ساری زندگی چلنے کی کوشش کی ہے۔‏

ہمارے سب سے قریب کی کلیسیا شکاگو سے 32 کلومیٹر (‏20 میل)‏ دُور تھی۔ لیکن ہم پھر بھی وہاں جاتے تھے۔ ایسا کرنے سے بائبل کے بارے میں میرا علم بڑھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ مطالعہ کرانے والے بھائی نے میری بڑی بہن سے جواب دینے کو کہا۔ جب اُس نے جواب دیا تو مَیں نے سوچا:‏ ”‏یہ بات تو مَیں بھی جانتا تھا۔ مَیں بھی اپنا ہاتھ کھڑا کر سکتا تھا۔“‏ پھر مَیں پہلے سے اِجلاس کی تیاری کرنے لگا اور خود سے جواب تیار کرنے لگا۔ سب سے بڑھ کر اپنے چاروں بہن بھائیوں کی طرح مَیں بھی یہوواہ کے اَور قریب جانے لگا اور 1941ء میں مَیں نے بپتسمہ لے لیا۔‏

مَیں نے علاقائی اِجتماعوں کے ذریعے یہوواہ سے تعلیم پائی

مَیں اُس علاقائی اِجتماع کو تو کبھی نہیں بھول سکتا جو 1942ء میں ریاست اوہائیو کے شہر کلیولینڈ میں ہوا تھا۔ اِس اِجتماع کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے 50 سے زیادہ شہروں میں فون کے ذریعے سنا گیا۔ مَیں اور میرے گھر والے بہت سے بہن بھائیوں کے ساتھ اِجتماع کی جگہ کے قریب ٹینٹ لگا کر رہ رہے تھے۔ اُس وقت دوسری عالمی جنگ زوروں پر تھی اور یہوواہ کے گواہوں کی مخالفت بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ شام کے وقت مَیں نے دیکھا کہ کچھ بھائی اپنی گاڑیوں کو کیمپ سے دُور کھڑا کرتے تھے اور اُن کی لائٹوں کا رُخ کیمپ کی مخالف سمت رکھتے تھے۔ سب نے طے کِیا تھا کہ پوری رات ہر گاڑی میں ایک شخص پہرا دے گا تاکہ اگر کوئی خطرہ نظر آئے تو پہرا دینے والے بھائی اپنی گاڑی کی ہیڈ لائٹوں کی تیز روشنی حملہ‌آوروں پر چمکائیں اور گاڑی کا ہارن بجائیں تاکہ دوسرے جلدی سے اُن کی مدد کو آئیں۔ مَیں نے سوچا:‏ ”‏یہوواہ کے بندے ہر چیز کے لیے کتنے اچھے سے تیار رہتے ہیں!‏“‏ یہ دیکھ کر مَیں پُرسکون ہو گیا اور بڑی اچھی نیند سو پایا۔ ہمیں کسی بھی طرح کے مسئلے کا سامنا نہیں ہوا۔‏

اِس واقعے کے کئی سالوں بعد بھی جب مَیں اِس اِجتماع کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ اِتنی خطرناک صورتحال میں بھی میری امی کتنی پُرسکون تھیں اور اُن کے چہرے پر ذرا بھی ڈر نہیں تھا۔ وہ یہوواہ اور اُس کی تنظیم پر مکمل بھروسا کرتی تھیں۔ مَیں اُن کی اِس اچھی مثال کو کبھی نہیں بھول سکتا۔‏

اُس علاقائی اِجتماع سے کچھ وقت پہلے ہی امی نے پہل‌کار کے طور پر خدمت شروع کی تھی۔ تو اُنہوں نے وہ تقریریں بڑے دھیان سے سنیں جو کُل‌وقتی خدمت کے حوالے سے کی گئیں۔ جب ہم گھر واپس جا رہے تھے تو امی نے کہا:‏ ”‏مَیں پہل‌کار کے طور پر خدمت جاری رکھنا چاہتی ہوں لیکن گھر کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ شاید ایسا کرنا بہت مشکل ہوگا۔“‏ پھر اُنہوں نے ہم بہن بھائیوں سے پوچھا کہ کیا ہم اِس حوالے سے اُن کی مدد کر سکتے ہیں۔ ہم نے اُن سے کہا کہ ہم ضرور ایسا کریں گے اِس لیے امی نے ہم میں سے ہر ایک کو ناشتے سے پہلے ایک یا دو کمرے صاف کرنے کی ذمے‌داری دی۔ پھر ہمارے سکول جانے کے بعد امی پورے گھر کو دیکھتی تھیں کہ یہ صاف اور سمٹا ہوا ہو اور بعد میں وہ مُنادی کرنے کے لیے چلی جاتی تھیں۔ حالانکہ امی بہت مصروف رہتی تھیں لیکن وہ ہم بہن بھائیوں کو پوری توجہ دیتی تھیں۔ جب سکول کے بعد ہم گھر آتے تھے اور دوپہر کا کھانا کھاتے تھے تو وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتی تھیں۔ سکول کے بعد کبھی کبھار ہم اُن کے ساتھ مُنادی کے لیے جاتے تھے جس سے ہم یہ دیکھ پائے کہ پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنا کیسا ہوتا ہے۔‏

مَیں نے پہل‌کار کے طور پر خدمت شروع کی

جب مَیں 16 سال کا تھا تو مَیں پہل‌کار بن گیا۔ حالانکہ میرے ابو اُس وقت یہوواہ کے گواہ نہیں بنے تھے لیکن وہ ہمیشہ مجھ سے پوچھا کرتے تھے کہ میری خدمت کیسی جا رہی ہے۔ ایک شام مَیں نے اُنہیں بتایا کہ مَیں بہت کوشش کر رہا ہوں کہ مَیں کسی شخص کو بائبل کورس کراؤں لیکن ابھی تک مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو بائبل کورس کرنا چاہے۔ پھر تھوڑی دیر رُک کر مَیں نے اُن سے پوچھا:‏ ”‏کیا آپ بائبل کورس کرنا چاہیں گے؟“‏ ابو تھوڑی دیر کے لیے سوچ میں پڑ گئے اور پھر اُنہوں نے کہا:‏ ”‏میرے پاس اِنکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔“‏ تو میرے پہلے طالبِ‌علم میرے ابو تھے۔ مَیں بتا نہیں سکتا کہ یہ میرے لیے کتنا بڑا اعزاز تھا!‏

مَیں نے ابو کو کتاب ‏”‏دی ٹروتھ شیل میک یو فری“‏ سے بائبل کورس کرایا۔ جیسے جیسے کورس آگے بڑھا، مجھے احساس ہوا کہ دراصل ابو میری مدد کر رہے ہیں کہ مَیں ایک اچھا طالبِ‌علم اور اُستاد بنوں۔ مثال کے طور پر ایک شام جب مَیں اُنہیں بائبل کورس کرا رہا تھا تو ایک پیراگراف پڑھنے کے بعد ابو نے مجھ سے پوچھا:‏ ”‏مَیں جانتا ہوں کہ کتاب میں یہ لکھا ہے۔ لیکن آپ کو کیسے پتہ کہ کتاب میں جو کچھ لکھا ہے، وہ صحیح ہے؟“‏ اُنہوں نے اچانک سے یہ سوال پوچھا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ مَیں اُنہیں کیا جواب دوں۔ اِس لیے مَیں نے اُن سے کہا:‏ ”‏مَیں ابھی تو یہ بات ثابت نہیں کر سکتا لیکن اگلی بار جب ہم بائبل کورس کریں گے تو مَیں آپ کو اِس کا جواب ضرور دوں گا۔“‏ اور مَیں نے ایسا ہی کِیا۔ مَیں نے بائبل سے کچھ آیتیں ڈھونڈیں جن سے مَیں اُن کے سوال کا جواب دے پایا۔ اِس سے مَیں نے سیکھا کہ مَیں پہلے سے تحقیق کروں تاکہ مَیں اچھی طرح سے بائبل کورس کرا سکوں۔ اِس طرح نہ صرف مَیں بائبل کا اچھا طالبِ‌علم بن پایا بلکہ میرے ابو بھی۔ ابو اُن باتوں پر عمل کرنے لگے جو وہ سیکھ رہے تھے اور پھر 1952ء میں اُنہوں نے بپتسمہ لے لیا۔‏

مَیں نے بیت‌ایل میں بھی سیکھنا جاری رکھا

جب مَیں 17 سال کا ہوا تو مَیں اپنے امی ابو کے گھر سے چلا گیا۔ میری بڑی بہن جیتھا a مشنری کے طور پر خدمت کرنے لگیں اور میرے بڑے بھائی ڈون بیت‌ایل میں خدمت کرنے لگے۔ اُن دونوں کو ہی یہوواہ کی خدمت کر کے بہت اچھا لگ رہا تھا جسے دیکھ کر میرا بہت حوصلہ بڑھا۔ اِس لیے مَیں نے بیت‌ایل میں خدمت کرنے کی بھی درخواست ڈالی اور گلئیڈ سکول جانے کی بھی۔ اِس کے بعد مَیں نے معاملہ یہوواہ کے ہاتھ میں چھوڑ دیا۔ 1946ء میں مجھے بیت‌ایل بُلایا گیا۔‏

بیت‌ایل میں مجھے فرق فرق کام کرنے کی ذمے‌داری دی گئی جس کی وجہ سے مجھے بہت سی نئی باتیں سیکھنے کا موقع ملا۔ مَیں 75 سال سے بیت‌ایل میں ہوں۔ اِس دوران مَیں نے ہماری کتابوں کی چھپائی کرنا اور اکاؤنٹ کے شعبے میں کام کرنا بھی سیکھا۔ مَیں نے بیت‌ایل کے برآمدات اور درآمدات کے شعبے میں بھی کام کرنا سیکھا۔ سب سے بڑھ کر مَیں نے اُس تعلیم سے بہت فائدہ حاصل کِیا جو بیت‌ایل میں صبح کی عبادت اور تقریروں کے ذریعے دی جاتی ہے۔‏

کلیسیا کے بزرگوں کی ایک کلاس کو تربیت دیتے ہوئے

مَیں نے اپنے چھوٹے بھائی کارل سے بھی بہت کچھ سیکھا جو 1947ء میں بیت‌ایل میں خدمت کرنے کے لیے آیا۔ وہ نہ صرف بائبل کا بہت اچھا طالبِ‌علم تھا بلکہ ایک بہت زبردست اُستاد بھی تھا۔ ایک دفعہ مَیں نے اُس سے ایک تقریر کے حوالے سے مدد مانگی۔ مَیں نے کارل کو بتایا کہ مَیں نے بہت زیادہ تحقیق کی ہے لیکن اب مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ مَیں اِس ساری معلومات کو اِستعمال کیسے کروں۔ اُس نے صرف مجھ سے ایک سوال پوچھا:‏ ”‏آپ کی تقریر کا موضوع کِیا ہے؟“‏ مجھے فوراً سمجھ آ گیا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔ مجھے صرف وہ معلومات اِستعمال کرنی تھیں جو اُس تقریر کے موضوع کے حساب سے تھیں۔ مَیں اِس اہم سبق کو کبھی نہیں بھولا۔‏

بیت‌ایل میں خوشی سے یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم بڑھ چڑھ کر خوش‌خبری سنانے میں حصہ لیں۔ ایسا کرنے سے ہمیں ایسی باتوں کا تجربہ ہوگا جن سے ہمارا حوصلہ بڑھے گا۔ ایک واقعہ تو مجھے آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے۔ ایک دن ہم شہر نیو یارک کے علاقے برونکس میں مُنادی کر رہے تھے۔ جب شام ہونے والی تھی تو مَیں اور ایک اَور بھائی اُس عورت سے ملنے گئے جس نے پہلے ہم سے ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ اور ‏”‏جاگو!‏“‏ کے رسالے لیے تھے۔ ہم نے بات کی شروعات اِس طرح سے کی:‏ ”‏آج شام ہم لوگوں کو بائبل سے کچھ ایسی باتیں بتا رہے ہیں جن سے اُن کا بہت حوصلہ بڑھے گا۔“‏ اُس عورت نے کہا:‏ ”‏اگر آپ بائبل کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو اندر آ جائیں۔“‏ ہم نے بائبل سے خدا کی بادشاہت اور نئی دُنیا کے بارے میں کئی آیتیں پڑھیں اور اِن پر اُس کے ساتھ بات بھی کی۔ اِن آیتوں کا اُس عورت پر بہت گہرا اثر ہوا کیونکہ جب اگلے ہفتے ہم اُس سے ملنے گئے تو اُس نے اپنے کئی دوستوں کو گھر پر بُلایا ہوا تھا۔ بعد میں وہ عورت اور اُس کا شوہر وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرنے لگے۔‏

مَیں نے اپنے جیون ساتھی سے سیکھا

مَیں نے شادی کرنے کا فیصلہ کِیا۔ لیکن تقریباً 10 سال تک مجھے کوئی مناسب جیون ساتھی نہیں ملا۔ مَیں ایک اچھا جیون ساتھی ڈھونڈنے کے لیے یہوواہ سے دُعا کر کے اِس سوال پر سوچ بچار کرتا تھا کہ شادی کے بعد مَیں اور میری بیوی اپنی زندگی کیسے گزاریں گے؟ اور پھر میری ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی۔‏

حلقے کے نگہبان کے طور پر میرَی کے ساتھ خدمت کرتے ہوئے

1953ء میں یانکی سٹیڈیم میں ہونے والے علاقائی اِجتماع کے بعد میری ملاقات میرَی انی‌یول نام کی بہن سے ہوئی۔ میرَی بھی گلئیڈ سکول کی اُسی کلاس میں تھیں جس میں میری بڑی بہن تھیں اور وہ دونوں مل کر مشنری کے طور پر خدمت کر رہی تھیں۔ میرَی کئی سالوں سے کیریبیئن میں مشنری تھیں اور وہ بڑے جوش سے مجھے بتاتی تھیں کہ وہاں اُن کی خدمت کیسی چل رہی ہے۔ وہ اُن لوگوں کے بارے میں بھی بات کرتی تھیں جنہیں وہ بائبل کورس کرا رہی تھیں۔ جیسے جیسے ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے گئے، ہمیں محسوس ہوا کہ کُل‌وقتی طور پر خدمت کرنے کے حوالے سے ہمارے منصوبے ایک جیسے ہیں۔ ہمارے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت بڑھتی گئی اور اپریل 1955ء میں ہم نے شادی کر لی۔ میرَی واقعی میرے لیے یہوواہ کی طرف سے ایک تحفہ ثابت ہوئیں۔ وہ ہر طرح سے یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے تیار رہتی تھیں۔ وہ بہت محنتی تھیں، دوسروں کا خیال رکھتی تھیں اور یہوواہ کی بادشاہت کو پہلا درجہ دیتی تھیں۔ (‏متی 6:‏33‏)‏ مَیں نے تین سال تک حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کی جس میں میرَی نے میرا پورا ساتھ دیا اور پھر 1958ء میں ہمیں بیت‌ایل میں خدمت کرنے کی دعوت ملی۔‏

مَیں نے میرَی سے بہت کچھ سیکھا۔ مثال کے طور پر جب ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی تو ہم نے فیصلہ کِیا کہ ہم مل کر ہر روز بائبل کی تقریباً 15 آیتیں پڑھیں گے۔ ہم میں سے ایک آیتوں کو پڑھتا تھا۔ پھر ہم اِن پر بات‌چیت کرتے تھے اور سوچتے تھے کہ ہم اِن پر کیسے عمل کریں گے۔ میرَی اکثر مجھے وہ باتیں بتاتی تھیں جو اُنہوں نے گلئیڈ سکول سے اور مشنری کے طور پر خدمت کرتے وقت سیکھی تھیں۔ مَیں نے اُن سے جو کچھ سیکھا، اُس سے مَیں اپنی تقریروں میں بہتری لا پایا اور یہ سیکھ پایا کہ مَیں بہنوں کا حوصلہ کیسے بڑھا سکتا ہوں۔—‏اَمثا 25:‏11‏۔‏

2013ء میں میرَی فوت ہو گئیں۔ مَیں بڑی شدت سے نئی دُنیا میں اُن سے ملنے کا اِنتظار کر رہا ہوں۔ لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا، مَیں نے عزم کِیا ہے کہ مَیں یہوواہ سے سیکھتا رہوں گا اور سارے دل سے اُس پر بھروسا کرتا رہوں گا۔ (‏اَمثا 3:‏5، 6‏)‏ مَیں یہ سوچ کر بہت خوش ہوتا ہوں کہ نئی دُنیا میں یہوواہ کے بندے کیا کچھ کریں گے۔ بے‌شک اُس وقت ہم اپنے عظیم اُستاد یہوواہ سے بہت کچھ سیکھیں گے اور اُس کے بارے میں بہت سی باتیں جان پائیں گے!‏ یہوواہ نے اب تک مجھے جو کچھ سکھایا ہے اور مجھ پر جتنی مہربانیاں کی ہیں، اُن کے لیے مَیں اُس کا جتنا بھی شکریہ ادا کروں، کم ہے۔‏

a ‏”‏مینارِنگہبانی،“‏ 1 مارچ 2003ء، ص.‏ 23-‏29 پر بہن جیتھا سونال کی آپ‌بیتی دیکھیں۔‏