مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 39

نرم‌مزاجی کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے

نرم‌مزاجی کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے

‏”‏ہمارے مالک کے غلام کو لڑائی جھگڑا نہیں کرنا چاہیے بلکہ سب کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے۔“‏‏—‏2-‏تیم 2:‏24‏۔‏

گیت نمبر 120‏:‏ یسوع کی طرح نرم‌مزاج اور خاکسار بنیں

مضمون پر ایک نظر a

1.‏ ہمارے کام کی جگہ پر یا سکول میں شاید لوگ ہم سے کس بارے میں سوال پوچھیں؟‏

 جب کام کی جگہ پر یا سکول میں آپ سے آپ کے عقیدوں کے بارے میں سوال کیے جاتے ہیں تو آپ کو کیسا لگتا ہے؟ کیا آپ گھبرا جاتے ہیں؟ ہم میں سے زیادہ‌تر گھبرا جاتے ہیں۔ لیکن ایسے سوالوں کی وجہ سے ہم دوسروں کی سوچ اور عقیدے جان پاتے ہیں اور اِس طرح ہمیں یہ موقع مل جاتا ہے کہ ہم اُن کو خوش‌خبری کا پیغام دیں۔ کبھی کبھار کوئی شخص ہم سے اِس لیے سوال پوچھتا ہے کیونکہ وہ ہم سے بحث کرنا چاہتا ہے۔ ایسا اکثر اِس لیے ہوتا ہے کیونکہ لوگوں کو ہمارے عقیدوں کے بارے میں غلط معلومات ملی ہوتی ہیں۔ (‏اعما 28:‏22‏)‏ اِس کے علاوہ ہم ”‏آخری زمانے“‏ میں رہ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا وقت ہے جس میں زیادہ‌تر لوگ”‏ضدی“‏ یہاں تک کہ ”‏وحشی“‏ ہیں۔—‏2-‏تیم 3:‏1،‏ 3‏۔‏

2.‏ ہمیں نرمی سے کیوں کام لینا چاہیے؟‏

2 شاید آپ سوچیں:‏ ”‏جب لوگ بائبل کے حوالے سے میرے عقیدوں کو لے کر مجھ سے بحث کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو مَیں اُس وقت بھی پُرسکون کیسے رہ سکتا ہوں اور سمجھ‌داری سے کیسے کام لے سکتا ہوں؟“‏ ایسا کرنے میں نرم‌مزاجی کی خوبی آپ کے بہت کام آئے گی۔ جو شخص نرم‌مزاج ہوتا ہے، وہ فوراً غصے میں نہیں آ جاتا بلکہ وہ اُس وقت بھی پُرسکون رہتا ہے جب لوگ اُسے اُکساتے ہیں یا اُسے پتہ نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں کے سوالوں کا جواب کیسے دے گا۔ (‏اَمثا 16:‏32‏)‏ شاید آپ سوچیں کہ یہ کہنا تو بہت آسان ہے لیکن کرنا مشکل۔ تو پھر آپ اپنے اندر نرم‌مزاجی کی خوبی کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ آپ اُس وقت بھی نرم‌مزاجی سے کیسے کام لے سکتے ہیں جب دوسرے آپ کے عقیدوں کو لے کر آپ سے بحث کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اور اگر آپ والدین ہیں تو آپ اپنے بچوں کو یہ کیسے سکھا سکتے ہیں کہ وہ اپنے ایمان کا دِفاع نرم‌مزاجی سے کریں؟ آئیے اِن سوالوں پر بات کرتے ہیں۔‏

آپ اپنے اندر نرم‌مزاجی کی خوبی کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏

3.‏ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ نرم‌مزاجی کوئی کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے؟ (‏2-‏تیمُتھیُس 2:‏24، 25‏)‏

3 نرم‌مزاجی کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے۔ مشکل صورتحال میں پُرسکون رہنے کے لیے بڑی ہمت دِکھانی پڑتی ہے۔ نرم‌مزاجی ’‏روح کے پھل‘‏ کا ایک پہلو ہے۔ (‏گل 5:‏22، 23‏)‏ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏نرم‌مزاجی“‏ کِیا گیا ہے، وہ کبھی کبھار ایسے جنگلی گھوڑے کے لیے اِستعمال ہوا ہے جسے سدھایا گیا ہو۔ ذرا ایک ایسے جنگلی گھوڑے کے بارے میں سوچیں جو پہلے بہت بے‌قابو تھا لیکن پھر وہ پُرسکون ہو گیا ہے۔ پھر بھی اُس کی طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ہم اپنے اندر نرم‌مزاجی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط کیسے بنے رہ سکتے ہیں؟ ہم یہ اپنے بل‌بوتے پر نہیں کر سکتے۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں دُعا میں خدا سے اُس کی پاک روح اور مدد مانگنی چاہیے تاکہ ہم اپنے اندر اِس خوبی کو پیدا کر سکیں۔ بہت سے لوگ نرم‌مزاج بن گئے ہیں۔ ہمارے بہت سے ہم‌ایمانوں نے اُس وقت نرم‌مزاجی سے کام لیا جب لوگوں نے اُن کے عقیدوں کو لے کر اُن سے بحث کرنے کی کوشش کی۔ اُن کی نرم‌مزاجی دیکھ کر دوسروں کا یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں نظریہ بدل گیا۔ ‏(‏2-‏تیمُتھیُس 2:‏24، 25 کو پڑھیں۔)‏ آپ نرم‌مزاجی کو اپنی طاقت کیسے بنا سکتے ہیں؟‏

4.‏ ہم اِضحاق سے نرم‌مزاجی کے حوالے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

4 ذرا اِضحاق کی مثال پر غور کریں۔ جب وہ فلسطینِ کے علاقے جرار میں رہ رہے تھے تو اُن کے پڑوسی اُن سے حسد کرنے لگے اور اُنہوں نے اُن کنوؤں کو بند کر دیا جو اِضحاق کے والد کے نوکروں نے کھودے تھے۔ اپنے حق کے لیے لڑنے کی بجائے اِضحاق اُس جگہ سے تھوڑی دُور چلے گئے اور وہاں جا کر دوسرے کنوئیں کھودے۔ (‏پید 26:‏12-‏18‏)‏ لیکن فِلسطینی یہ دعویٰ کرنے لگے کہ اِس جگہ کے کنوؤں کا پانی بھی اُن کا ہے۔ اِس سب کے باوجود بھی اِضحاق نے صلح صفائی سے کام لیا۔ (‏پید 26:‏19-‏25‏)‏ کس چیز نے اُن کی مدد کی کہ وہ اُس وقت بھی نرمی سے کام لیں جب دوسرے اُنہیں غصہ دِلا رہے تھے؟ بے‌شک اُنہوں نے دیکھا ہوگا کہ اِس طرح کی صورتحال میں اُن کے والدین نے کیا کِیا تھا۔ اُنہوں نے دیکھا ہوگا کہ ابراہام کتنی صلح صفائی سے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے سارہ کے ”‏پُرسکون اور نرم رویے“‏ سے بھی بہت کچھ سیکھا ہوگا۔—‏1-‏پطر 3:‏4-‏6؛‏ پید 21:‏22-‏34‏۔‏

5.‏ کس مثال سے پتہ چلتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو سکھا سکتے ہیں کہ نرم‌مزاجی سے کام لینا کتنا ضروری ہے؟‏

5 والدین!‏ اِس بات کا یقین رکھیں کہ آپ اپنے بچوں کو سکھا سکتے ہیں کہ نرم‌مزاجی سے کام لینا کتنا ضروری ہے۔ ذرا میکس کی مثال پر غور کریں جن کی عمر 17 سال ہے۔ اُنہیں سکول میں اور مُنادی کرتے ہوئے کچھ ایسے لوگ ملتے تھے جو بہت غصیلے ہوتے تھے۔ میکس کے امی ابو نے اُنہیں بڑے پیار اور صبر سے یہ سکھایا کہ وہ اپنے اندر نرم‌مزاجی کیسے پیدا کر سکتے ہیں۔ اُن کے امی ابو نے کہا:‏ ”‏میکس اب یہ بات سمجھ گیا ہے کہ کسی کو غصے سے جواب دینا بہت آسان ہے لیکن اصل طاقت اِس بات میں ہے کہ ایک شخص خود پر قابو رکھے اور پُرسکون رہے۔“‏ خوشی کی بات ہے کہ میکس نے اب نرم‌مزاجی سے کام لینا سیکھ لیا ہے۔‏

6.‏ نرم‌مزاجی سے کام لینے میں دُعا ہماری مدد کیسے کرتی ہے؟‏

6 ہم اُس وقت کیا کر سکتے ہیں جب لوگ ہمیں غصہ دِلانے کے لیے یہوواہ اور بائبل کے بارے میں بُرا بھلا کہتے ہیں؟ ہم یہوواہ سے اُس کی پاک روح اور سمجھ‌داری مانگ سکتے ہیں تاکہ ہم نرم‌مزاجی سے کام لے سکیں۔ لیکن ہم اُس وقت کیا کر سکتے ہیں جب ہمیں بعد میں یہ احساس ہو کہ ہم نے کسی شخص کو ویسے جواب نہیں دیا جیسے ہمیں دینا چاہیے تھا؟ ہم پھر سے یہوواہ سے اِس معاملے پر دُعا کر سکتے ہیں اور سوچ سکتے ہیں کہ ہم اگلی بار کسی کو بہتر طریقے سے کیسے جواب دے سکتے ہیں۔ پھر یہوواہ ہمیں اپنی پاک روح دے گا تاکہ ہم اپنے غصے کو قابو میں رکھ سکیں اور نرم‌مزاجی سے کام لے سکیں۔‏

7.‏ اگر ہم کچھ آیتیں زبانی یاد کر لیں گے تو یہ مشکل وقت میں ہمارے کام کیسے آئیں گی؟ (‏اَمثال 15:‏1،‏ 18‏)‏

7 بائبل کی کچھ آیتیں مشکل صورتحال میں دوسروں سے نرمی سے بات کرنے میں ہماری بہت مدد کر سکتی ہیں۔ جب ہم اِن آیتوں کو یاد کر لیتے ہیں تو مشکل وقت میں پاک روح کی وجہ سے یہ آیتیں ہمارے ذہن میں آ سکتی ہیں۔ (‏یوح 14:‏26‏)‏ مثال کے طور پر اَمثال کی کتاب میں لکھے اصول نرم‌مزاجی سے کام لینے میں ہماری بہت مدد کر سکتے ہیں۔ ‏(‏اَمثال 15:‏1،‏ 18 کو پڑھیں۔)‏ اِس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر ہم مشکل صورتحال میں پُرسکون رہتے ہیں تو اِس سے کیا فائدے ہوتے ہیں۔—‏اَمثا 10:‏19؛‏ 17:‏27؛‏ 21:‏23؛‏ 25:‏15‏۔‏

دوسروں کی صورتحال سمجھنے سے ہم نرم‌مزاجی سے کیسے کام لے پاتے ہیں؟‏

8.‏ ہمیں اِس بات پر کیوں غور کرنا چاہیے کہ ایک شخص نے فلاں سوال کیوں اُٹھایا ہے؟‏

8 کسی صورتحال کا پوری طرح سے جائزہ لینے سے بھی ہمیں بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ (‏اَمثا 19:‏11‏)‏ جو شخص پوری صورتحال کا جائزہ لیتا ہے، وہ اُس وقت بھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھتا ہے جب دوسرے اُس کے عقیدوں پر سوال اُٹھاتے ہیں۔ کبھی کبھار جب لوگ ہم سے کوئی سوال پوچھتے ہیں تو وہ ہمیں یہ سوال پوچھنے کی وجہ نہیں بتاتے۔ اِس لیے کسی سوال کا جواب دینے سے پہلے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمیں اِس سوال کے پیچھے چھپی وجہ کا نہیں پتہ۔—‏اَمثا 16:‏23‏۔‏

9.‏ جدعون نے اِفرائیمی آدمیوں کو جواب دیتے ہوئے کیسے ثابت کِیا کہ وہ اُن کی صورتحال کو سمجھتے ہیں اور نرم‌مزاج ہیں؟‏

9 ذرا غور کریں کہ جدعون نے اِفرائیمی آدمیوں کو کیسے جواب دیا۔ اِفرائیمیوں نے بہت غصے سے جدعون سے پوچھا کہ جب وہ بنی‌اِسرائیل کے دُشمنوں سے جنگ لڑنے جا رہے تھے تو اُنہوں نے اُنہیں اپنے ساتھ کیوں نہیں بُلایا۔ اُن کے اِس غصے کے پیچھے کیا وجہ تھی؟ شاید اُنہیں یہ بات بُری لگی تھی کہ جدعون نے اُنہیں اپنے ساتھ چلنے کو نہیں کہا۔ اُن کے غصے کی وجہ چاہے جو بھی ہو، جدعون نے اُن کے احساسات کا خیال رکھا اور اُنہیں بہت نرمی سے جواب دیا۔ اِس کا کیا فائدہ ہوا؟ ”‏اُن کا غصہ[‏جدعون]‏کی طرف سے دھیما ہو گیا۔“‏—‏قُضا 8:‏1-‏3‏۔‏

10.‏ کیا چیز یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرے گی کہ ہم اُن لوگوں کو کیسے جواب دے سکتے ہیں جو ہمارے عقیدوں کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں؟ (‏1-‏پطرس 3:‏15‏)‏

10 شاید کام کی جگہ پر یا سکول میں کوئی ہم سے پوچھے کہ ہم بائبل کے معیاروں پر کیوں چلتے ہیں۔ ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اُنہیں بتائیں کہ ہماری نظر میں بائبل کے معیار سب سے بہترین کیوں ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم اُس شخص کو یہ بھی دِکھاتے ہیں کہ ہم اُس کے نظریے کا احترام کرتے ہیں۔ ‏(‏1-‏پطرس 3:‏15 کو پڑھیں۔)‏ یہ سوچنے کی بجائے کہ ایک شخص ہمارے عقیدوں پر اِعتراض کر رہا ہے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اُس کے سوال سے ہمیں اُس کی سوچ جاننے کا موقع مل رہا ہے۔ چاہے کوئی ہمارے عقیدوں پر کسی بھی وجہ سے سوال اُٹھائے، ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اُسے نرمی اور احترام سے جواب دیں۔ شاید ہمارے جواب کی وجہ سے وہ اپنے نظریے پر پھر سے سوچنے لگے۔ اگر وہ شخص ہم سے بُری طرح بھی پیش آتا ہے تو ہمارا رویہ ہمیشہ نرم ہونا چاہیے۔—‏روم 12:‏17‏۔‏

اگر ہم پہلے سے اِس بارے میں غور کریں گے کہ کسی شخص نے ہمیں سالگرہ کی تقریب میں آنے کی دعوت کیوں دی ہے تو ہم اُسے اچھی طرح اپنے عقیدے کے بارے میں بتا پائیں گے۔ (‏پیراگراف نمبر 11-‏12 کو دیکھیں۔)‏

11-‏12.‏ (‏الف)‏کسی مشکل سوال کا جواب دینے سے پہلے ہمیں کس بات پر غور کرنا چاہیے؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏ (‏ب)‏مثال دے کر بتائیں کہ کسی شخص کے سوال کی وجہ سے ہمارے لیے اُس سے بات کرنا آسان کیوں ہو جاتا ہے۔‏

11 اگر ہمارے ساتھ کام کرنے والا شخص ہم سے پوچھتا ہے کہ ہم سالگرہ کیوں نہیں مناتے تو ذرا اِس بات پر غور کریں:‏ ”‏کہیں وہ یہ تو نہیں سوچ رہا کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ تفریح کرنے کی اِجازت نہیں ہے؟ یا کہیں اُسے یہ تو نہیں لگ رہا کہ اگر ہم سالگرہ نہیں منائیں گے تو ہم کام کی جگہ کا ماحول خراب کر دیں۔“‏ سب سے پہلے ہم اُس کی اِس بات کی تعریف کر سکتے ہیں کہ اُسے اپنے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کی بہت فکر ہے۔ پھر ہم اُسے اِس بات کا یقین دِلا سکتے ہیں کہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ کام کی جگہ کا ماحول اچھا رہے۔ اِس طرح ہم بحث میں پڑنے کی بجائے اُسے کُھل کر بتا پائیں گے کہ بائبل میں سالگرہ کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے۔‏

12 ایسا ہی کچھ ہم اُس وقت کر سکتے ہیں جب کوئی شخص ہم سے کوئی مشکل سوال پوچھتا ہے۔ مثال کے طور پر شاید سکول میں کوئی ہم سے اِس بارے میں بحث کرے کہ یہوواہ کے گواہوں کو ہم‌جنس‌پرستوں کے حوالے سے اپنے نظریے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ شاید وہ شخص ایسا اِس لیے کہہ رہا ہے کیونکہ وہ صحیح طرح نہیں جانتا کہ یہوواہ کے گواہ ہم‌جنس‌پرستی کے بارے میں کیا مانتے ہیں یا شاید وہ ایسا اِس لیے کہہ رہا ہے کیونکہ اُس کے دوستوں یا رشتے‌داروں میں سے کوئی ہم‌جنس‌پرست ہے۔ کیا اُسے یہ لگتا ہے کہ ہم ہم‌جنس‌پرستوں سے نفرت کرتے ہیں؟ شاید ہمیں اُسے اِس بات کا یقین دِلانا ہو کہ ہم سب لوگوں سے پیار کرتے ہیں اور ہم یہ بات مانتے ہیں کہ ہر شخص کو اپنے لیے فیصلہ کرنے کا حق ہے۔‏ b (‏1-‏پطر 2:‏17‏)‏ ایسا کرنے سے شاید ہمارے لیے اُس کو یہ بتانا آسان ہو کہ بائبل میں لکھے اصولوں پر چلنے سے ہمیں بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔‏

13.‏ ہم کسی ایسے شخص کی مدد کیسے کر سکتے ہیں جو خدا پر ایمان رکھنے کے عقیدے کا مذاق اُڑاتا ہے؟‏

13 اگر کوئی شخص ہمارے کسی نظریے سے اِتفاق نہیں کرتا تو ہمیں فوراً یہ نہیں سوچ لینا چاہیے کہ ہمیں پتہ ہے کہ وہ کیا مانتا ہے۔ (‏طط 3:‏2‏)‏ مثال کے طور پر اگر سکول میں کوئی خدا پر ایمان رکھنے کی وجہ سے آپ کا مذاق اُڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بے‌وقوفی ہے تو کیا آپ کو یہ مان لینا چاہیے کہ وہ اِرتقا پر ایمان رکھتا ہے اور وہ اِس کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے؟ شاید وہ آپ سے بس وہی باتیں کر رہا ہے جو اُس نے دوسروں سے سنی ہیں۔ اِرتقا کے نظریے پر بحث کرنے کی بجائے آپ کوئی ایسی بات کہہ سکتے ہیں جس پر اُسے بعد میں سوچنے کا موقع ملے۔ شاید آپ اُسے jw.org سے تخلیق کے بارے میں کوئی معلومات دِکھا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بعد میں کسی مضمون یا ویڈیو پر آپ سے بات کرنا چاہے۔ جب ہم دوسروں کے نظریے کا احترام کرتے ہوئے اُن سے بات کرتے ہیں تو شاید وہ بائبل سے اَور باتیں سیکھنا چاہیں۔‏

14.‏ نیل نے اپنی کلاس کے ایک بچے کو ہماری ویب‌سائٹ کے ذریعے کیسے دِکھایا کہ لوگ یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں جو سوچتے ہیں، وہ سچ نہیں ہے؟‏

14 نیل نام کے ایک نوجوان نے ہماری ویب‌سائٹ کے ذریعے دوسروں کو دِکھایا کہ لوگ یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں جو سوچتے ہیں، وہ صحیح نہیں ہے۔ نیل نے کہا:‏ ”‏میری کلاس میں ایک لڑکا اکثر مجھ سے یہ کہتا تھا کہ تُم سائنس پر یقین رکھنے کی بجائے بائبل پر بھروسا کرتے ہو جو صرف قصے کہانیوں کی کتاب ہے۔“‏ جب نیل نے اُس لڑکے کو اپنے عقیدوں کے بارے میں بتانے کی کوشش کی اور اُس نے منع کر دیا تو نیل نے اُسے ہماری ویب‌سائٹ jw.org پر حصہ ”‏سائنس اور بائبل‏“‏ دِکھایا۔ بعد میں نیل نے دیکھا کہ اُس لڑکے نے اُس حصے میں دی گئی معلومات پڑھی تھی اور اب وہ اِس بارے میں بات کرنے کے لیے تیار تھا کہ زندگی کی شروعات کیسے ہوئی۔ جب آپ ہماری ویب‌سائٹ کو اِستعمال کرتے ہیں تو آپ کو بھی ایسے نتیجے مل سکتے ہیں۔‏

ایک خاندان کے طور پر مل کر تیاری کریں

15.‏ والدین اپنے بچوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ اُس وقت نرمی سے کام لیں جب اُن کے سکول میں کوئی اُن کے عقیدوں پر سوال اُٹھاتا ہے؟‏

15 والدین اپنے بچوں کو اچھی طرح سکھا سکتے ہیں کہ وہ اُس وقت نرمی سے کیسے کام لے سکتے ہیں جب دوسرے اُن کے عقیدوں پر سوال اُٹھاتے ہیں۔ (‏یعقو 3:‏13‏)‏ کچھ والدین خاندانی عبادت میں اپنے بچوں کے ساتھ مل کر ایسی صورتحال سے نمٹنے کی پریکٹس کرتے ہیں۔ وہ ایسے عقیدوں پر بات کرتے ہیں جن پر اکثر سکول میں سوال اُٹھایا جاتا ہے اور اپنے بچوں کے ساتھ مل کر پریکٹس کرتے ہیں کہ وہ دوسروں کے سوالوں کا جواب نرمی اور سمجھ‌داری سے کیسے دے سکتے ہیں۔—‏بکس ”‏ پریکٹس کرنے سے آپ کے گھر والوں کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے‏“‏ کو دیکھیں۔‏

16-‏17.‏ اپنے عقیدوں کا دِفاع کرنے کی پریکٹس کرنے سے بچوں کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

16 اپنے عقیدوں کا دِفاع کرنے کی پریکٹس کرنے سے بچوں کا اپنے عقیدوں پر ایمان اَور مضبوط ہوتا ہے اور وہ دوسروں کو اِن کے بارے میں اچھی طرح بتا پاتے ہیں۔ jw.org پر سلسلہ‌وار مضامین ”‏نوجوانوں کے سوال‏“‏ میں ایسے بہت سے مضمون دیے گئے ہیں جن کی مدد سے نوجوان اپنے عقیدوں پر اپنے ایمان کو اَور پکا کر سکتے ہیں اور دوسروں کو جواب دینے کے لیے تیاری کر سکتے ہیں۔ گھر والوں کے ساتھ مل کر اِن مضامین پر بات کرنے سے سب گھر والے سیکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے ایمان کا دِفاع نرمی سے کیسے کر سکتے ہیں۔‏

17 میتھیو نام کے ایک نوجوان نے بتایا کہ اپنے عقیدوں کا دِفاع کرنے کی پریکٹس کرنے سے اُنہیں کیا فائدہ ہوا ہے۔ میتھیو اور اُن کے امی ابو خاندانی عبادت کے دوران مل کر ایسے موضوعات پر تحقیق کرتے ہیں جن پر شاید میتھیو کی کلاس میں بات کی جائے۔ میتھیو نے کہا:‏ ”‏ہم ایسے سوالوں کے بارے میں سوچنے کی کوشش کرتے ہیں جو سکول میں مجھ سے پوچھے جا سکتے ہیں۔ پھر ہم پریکٹس کرتے ہیں کہ ہم نے جو تحقیق کی ہے، ہم اُس کے ذریعے دوسروں کو کیسے جواب دے سکتے ہیں۔ جب میرے ذہن میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارے کسی عقیدے کی وجہ کیا ہے تو مَیں زیادہ پُراِعتماد ہوتا ہوں اور میرے لیے دوسروں کے ساتھ نرمی سے بات کرنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔“‏

18.‏ کُلسّیوں 4:‏6 سے ہمیں کس بات کی اہمیت پتہ چلتی ہے؟‏

18 چاہے ہم لوگوں کو اچھی طرح اپنی بات سمجھانے کی جتنی بھی کوشش کر لیں، شاید کچھ لوگ اِسے سننے اور قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ لیکن اگر ہم دوسروں کے ساتھ سمجھ‌داری اور نرمی سے بات کرتے ہیں تو اِس کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ‏(‏کُلسّیوں 4:‏6 کو پڑھیں۔)‏ دوسروں کے ساتھ اپنے عقیدوں پر بات کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم اُس کی طرف کوئی گیند پھینک رہے ہوں۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم وہ گیند آرام سے پھینکے گے یا بہت زور سے۔ اگر ہم گیند آرام سے پھینکیں گے تو سامنے والے شخص کے لیے اِسے پکڑنا آسان ہوگا اور کھیل چلتا رہے گا۔ اِسی طرح اگر ہم سمجھ‌داری اور نرمی سے بات کریں گے تو لوگ ہماری بات سنیں گے اور بات‌چیت جاری رہے گی۔ لیکن اگر کوئی شخص ہم سے بحث میں جیتنا چاہتا ہے یا وہ ہمارے عقیدوں کا مذاق اُڑاتا ہے تو اُس کے ساتھ بات‌چیت جاری رکھنا ضروری نہیں ہے۔ (‏اَمثا 26:‏4‏)‏ پر ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں؛ بہت سے لوگ ہماری بات سنتے ہیں۔‏

19.‏ کیا چیز ہمیں ترغیب دے گی کہ ہم اپنے عقیدوں کا دِفاع کرتے وقت نرمی سے کام لیں؟‏

19 یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اگر ہم نرم‌مزاجی سے کام لینا سیکھتے ہیں تو اِس کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ یہوواہ سے دُعا میں ہمت مانگیں تاکہ آپ اُس وقت نرمی سے کام لے سکیں جب دوسرے آپ کے عقیدوں پر سوال اُٹھاتے ہیں یا آپ پر نکتہ‌چینی کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اگر آپ دوسروں کو نرمی اور احترام سے جواب دیں گے تو بات‌چیت بحث میں بدلنے سے بچ جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ لوگوں کا بائبل اور ہمارے بارے میں نظریہ بھی بدل جائے۔ لوگوں کو اپنے عقیدے کے بارے میں ”‏جواب دینے کے لیے ہر وقت تیار رہیں .‏ .‏ .‏ لیکن ایسا کرتے وقت نرم‌مزاجی سے کام لیں اور گہرا احترام ظاہر کریں۔“‏ (‏1-‏پطر 3:‏15‏)‏ یہ کبھی نہ بھولیں کہ نرم‌مزاجی کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے۔‏

گیت نمبر 88‏:‏ ”‏اپنی راہیں مجھے دِکھا“‏

a اِس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ہم اُس وقت نرم‌مزاجی سے اپنے عقیدوں کا دِفاع کیسے کر سکتے ہیں جب لوگ ہمیں غصہ دِلاتے یا ہم سے بحث کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏

b اِس حوالے سے کچھ اَور مشوروں کے لیے jw.org پر مضمون ”‏پاک کلام میں ہم‌جنس‌پرستی کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟‏‏“‏ کو دیکھیں۔‏

c اِس حوالے سے کچھ فائدہ‌مند مشورے آپ کو jw.org پر سلسلہ‌وار مضامین ”‏نوجوانوں کے سوال‏“‏ اور ”‏یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں اکثر پوچھے جانے والے سوال‏“‏ میں مل سکتے ہیں۔‏