مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 39

گیت نمبر 125 رحم‌دل خوش رہتے ہیں

اُس خوشی کو محسوس کریں جو دوسروں کو دینے سے ملتی ہے

اُس خوشی کو محسوس کریں جو دوسروں کو دینے سے ملتی ہے

‏”‏لینے کی نسبت دینے میں زیادہ خوشی ہے۔“‏‏—‏اعما 20:‏35‏۔‏

غور کریں کہ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏

ہم کن طریقوں سے دوسروں کو دینے سے اپنی خوشی کو قائم رکھ سکتے ہیں اور اِسے اَور زیادہ بڑھا سکتے ہیں۔‏

1-‏2.‏ یہوواہ نے ہمیں اِس طرح سے کیوں بنایا ہے کہ ہمیں دوسروں کو دینے سے خوشی ملے؟‏

 جب ہم دوسروں کے لیے کچھ کرتے ہیں تو ہمیں بہت خوشی ملتی ہے۔ یہوواہ نے ہمیں بنایا ہی ایسے ہے کہ ہمیں لینے سے زیادہ دینے میں خوشی ملے۔ (‏اعما 20:‏35‏)‏ لیکن کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ جب دوسرے ہمیں کچھ دیتے ہیں تو اِس سے ہمیں کوئی خوشی نہیں ملتی؟ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب دوسرے ہمیں کوئی تحفہ دیتے ہیں تو ہمیں کتنا اچھا لگتا ہے۔ لیکن ہمیں اُس وقت اَور بھی زیادہ خوشی ملتی ہے جب ہم کسی کو کچھ دیتے ہیں۔ ہم یہوواہ کے بہت شکرگزار ہیں کہ اُس نے ہمیں اِس طرح سے بنایا ہے۔ کیوں؟‏

2 یہوواہ جانتا ہے کہ اِس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ دوسروں کے لیے محبت دِکھانے اور اُن کی مدد کرنے سے ہماری خوشی اَور زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ یہ کتنی زبردست بات ہے نا کہ یہوواہ نے ہم میں یہ صلاحیت ڈالی ہے کہ ہم اپنی خوشی کو بڑھا سکیں۔—‏زبور 139:‏14‏۔‏

3.‏ بائبل میں یہوواہ کو ”‏خوش‌دل خدا“‏ کیوں کہا گیا ہے؟‏

3 بائبل میں ہمیں یقین دِلایا گیا ہے کہ دوسروں کو دینے سے خوشی ملتی ہے۔ اِس لیے جب ہم اِس میں پڑھتے ہیں کہ یہوواہ ”‏خوش‌دل خدا“‏ ہے تو ہم صاف طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ اُس کے بارے میں یہ بات کیوں کہی گئی ہے۔ (‏1-‏تیم 1:‏11‏)‏ دراصل یہوواہ نے ہی سب سے پہلے دوسروں کو دیا اور جتنا زیادہ وہ دیتا ہے، اُتنا کوئی اَور دے ہی نہیں سکتا۔ ”‏اُسی کے ذریعے ہم زندہ ہیں اور چلتے پھرتے اور موجود ہیں۔“‏ (‏اعما 17:‏28‏)‏ بے‌شک ”‏ہر اچھی نعمت اور ہر کامل بخشش“‏ ہمیں یہوواہ کی طرف سے ہی ملتی ہے۔—‏یعقو 1:‏17‏۔‏

4.‏ کیا چیز اَور زیادہ خوشی حاصل کرنے میں ہماری مدد کرے گی؟‏

4 یقیناً ہم سبھی اُس خوشی کو محسوس کرنا چاہتے ہیں جو دوسروں کے لیے کچھ کرنے سے ملتی ہے۔ ہم یہوواہ کی طرح فراخ‌دل بننے سے اِس خوشی کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ (‏اِفِس 5:‏1‏)‏ اِس مضمون میں ہم غور کریں گے کہ یہوواہ نے دوسروں کو دینے کے معاملے میں زبردست مثال کیسے قائم کی ہے۔ ہم یہ بھی سیکھیں گے کہ ہم اُس وقت کیا کر سکتے ہیں جب ہم دوسروں کے لیے کچھ کرتے ہیں اور وہ اِس کے لیے شکرگزاری نہیں دِکھاتے۔ اِن باتوں پر غور کرنے سے ہم میں دوسروں کی مدد کرتے رہنے کا جذبہ پیدا ہوگا جس سے ہم اپنی خوشی کو بڑھا پائیں گے۔‏

یہوواہ کی طرح فراخ‌دل بنیں

5.‏ یہوواہ نے ہمیں کون سی چیزیں دی ہیں؟‏

5 یہوواہ کن طریقوں سے فراخ‌دلی دِکھاتا ہے؟ اِس کی کچھ مثالوں پر غور کریں۔ یہوواہ ہمیں ضرورت کی چیزیں دیتا ہے۔‏ شاید ہمارے پاس دُنیا بھر کی آسائشیں نہ ہوں لیکن یہوواہ کا شکر ہے کہ ہم میں سے زیادہ‌تر کے پاس وہ چیزیں ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر یہوواہ ہمیشہ اِس بات کا خیال رکھتا ہے کہ ہمارے پاس کھانے پینے اور پہننے کو ہو اور سر ڈھانکنے کے لیے چھت ہو۔ (‏زبور 4:‏8؛‏ متی 6:‏31-‏33؛‏ 1-‏تیم 6:‏6-‏8‏)‏ کیا یہوواہ صرف فرض سمجھ کر ہماری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے؟ بالکل نہیں!‏ تو پھر وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟‏

6.‏ ہم متی 6:‏25، 26 سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

6 یہوواہ ہماری ضرورتوں کو اِس لیے پورا کرتا ہے کیونکہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے۔ ذرا متی 6:‏25، 26 میں لکھے یسوع کے الفاظ پر غور کریں۔ ‏(‏اِن آیتوں کو پڑھیں۔)‏ یسوع مسیح نے خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کی مثال دی۔ اُنہوں نے پرندوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏وہ نہ تو بیج بوتے ہیں، نہ فصل کاٹتے ہیں اور نہ ہی اِسے گودام میں جمع کرتے ہیں۔لیکن پھر بھی آپ کا آسمانی باپ اُن کو کھانا دیتا ہے۔“‏ اِس کے بعد یسوع مسیح نے یہ سوال کِیا:‏ ”‏کیا آپ پرندوں سے زیادہ اہم نہیں ہیں؟“‏ یسوع اِس مثال سے ہمیں کیا سکھانا چاہ رہے تھے؟ یہ کہ یہوواہ کی نظر میں اُس کے بندے جانوروں سے کہیں زیادہ بیش‌قیمت ہیں۔ اگر یہوواہ جانوروں کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے تو یقیناً وہ ہماری ضرورتوں کو بھی پورا کرے گا۔ جس طرح ایک شفیق باپ اپنے گھرانے کی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے اُسی طرح ہمارا باپ یہوواہ بڑے پیار سے اپنے گھرانے کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔—‏زبور 145:‏16؛‏ متی 6:‏32‏۔‏

7.‏ یہوواہ کی طرح فراخ‌دلی دِکھانے کا ایک طریقہ کیا ہے؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

7 یہوواہ کی طرح ہم بھی دوسروں سے محبت کرنے کی وجہ سے اُنہیں ضرورت کی چیزیں دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کیا آپ اپنے کسی ایسے ہم‌ایمان کو جانتے ہیں جسے کھانے پینے کی چیزوں یا کپڑوں کی ضرورت ہے؟ یہوواہ آپ کے ذریعے آپ کے اُس ہم‌ایمان کی مدد کر سکتا ہے۔ یہوواہ کے بندے خاص طور پر اِس بات کے لیے جانے جاتے ہیں کہ وہ مصیبت کے وقت دل کھول کر دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کورونا کی وبا کے دوران ہمارے بہن بھائیوں نے اپنے ضرورت‌مند بہن بھائیوں کو کھانا، کپڑے اور ضرورت کی کچھ اَور چیزیں دیں۔ بہت سے بہن بھائیوں نے دل کھول کر پوری دُنیا میں کیے جانے والے ہمارے کام کے لیے عطیات بھی دیے۔ اِن عطیات کے ذریعے پوری دُنیا میں اُن بہن بھائیوں کی مدد کی گئی جو آفت سے متاثر ہوئے۔ ہمارے اِن فراخ‌دل بہن بھائیوں نے عبرانیوں 13:‏16 میں لکھی اِس بات پر عمل کِیا:‏ ”‏بھلائی کرنا اور اپنی چیزیں دوسروں کے ساتھ بانٹنا نہ بھولیں کیونکہ خدا ایسی قربانیاں پسند کرتا ہے۔“‏

ہم سبھی یہوواہ کی طرح فراخ‌دل بن سکتے ہیں۔ (‏پیراگراف نمبر 7 کو دیکھیں۔)‏


8.‏ یہوواہ ہمیں کیا کرنے کی طاقت دیتا ہے؟ (‏فِلپّیوں 2:‏13‏)‏

8 یہوواہ ہمیں طاقت دیتا ہے۔‏ یہوواہ لامحدود طاقت کا مالک ہے اور وہ خوشی سے اپنے بندوں کو اپنی طاقت دیتا ہے۔ ‏(‏فِلپّیوں 2:‏13 کو پڑھیں۔)‏ کیا آپ نے کبھی یہوواہ سے کسی آزمائش سے لڑنے یا کسی مشکل کا سامنا کرنے کے لیے طاقت مانگی؟ شاید آپ نے یہوواہ سے صرف یہ درخواست کی ہو کہ وہ آپ کو دن کے دوران ہونے والے کاموں کو کرنے کی طاقت دے۔ جب ہم یہوواہ سے طاقت مانگتے ہیں اور وہ ہماری دُعا کا جواب دیتا ہے تو ہم بھی پولُس کی طرح کہہ سکتے ہیں:‏ ”‏جو مجھے طاقت دیتا ہے، اُس کے ذریعے مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔“‏—‏فِل 4:‏13‏۔‏

9.‏ کچھ ایسے طریقے کیا ہیں جن میں ہم یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اپنی طاقت اِستعمال کر سکتے ہیں؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

9 سچ ہے کہ یہوواہ کی طرح ہمارے پاس لامحدود طاقت نہیں ہے اور نہ ہی ہم اِسے اُس طرح سے دوسروں کو دے سکتے ہیں جس طرح سے یہوواہ دیتا ہے۔ لیکن ہم پھر بھی یہوواہ کی طرح بن سکتے ہیں۔ ہم اپنی طاقت کو دوسروں کی مدد کرنے کے لیے اِستعمال کر سکتے ہیں جیسے کہ ہم کسی بیمار یا بوڑھے بہن بھائی کے گھر کے کام‌کاج کرنے میں اُس کی مدد کر سکتے ہیں یا دُکان سے اُس کے لیے چیزیں لا سکتے ہیں۔ اگر ہمارے حالات اِجازت دیتے ہیں تو ہم اپنی عبادت‌گاہ کی صفائی کرنے اور اِس کی دیکھ‌بھال کرنے کے کام میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اِس طرح کے کاموں میں اپنی طاقت لگانے سے ہم اپنے بہن بھائیوں کو فائدہ پہنچا رہے ہوں گے۔‏

ہم اپنی طاقت کو دوسروں کی مدد کرنے کے لیے اِستعمال کر سکتے ہیں۔ (‏پیراگراف نمبر 9 کو دیکھیں۔)‏


10.‏ ہم اپنی باتوں سے دوسروں کی ہمت کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏

10 کبھی نہ بھولیں کہ ہماری باتوں میں بھی بہت طاقت ہے۔ کیا آپ کسی ایسے بھائی یا بہن کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جس کے کاموں کے لیے آپ دل سے اُس کی تعریف کر سکتے ہیں؟ یا کیا آپ کسی ایسے بھائی یا بہن کو جانتے ہیں جسے تسلی کی ضرورت ہے؟ اگر ہاں تو کیوں نہ اُسے بتائیں کہ آپ اُس کی کتنی قدر کرتے ہیں؟ آپ اُس سے مل کر یا اُسے فون کر کے یا اُسے کارڈ، میسج یا ای‌میل بھیج کر یہ بات بتا سکتے ہیں۔ یہ سوچ کر پریشان نہ ہوں کہ آپ اُس سے کیا کہیں گے۔ دل سے کہے جانے والے چند الفاظ ہی آپ کے بہن بھائیوں کے لیے کافی ہو سکتے ہیں۔ شاید اِنہی الفاظ کو سننے کی اُنہیں ضرورت ہے تاکہ وہ مشکلوں میں یہوواہ کے وفادار اور پُراُمید رہ سکیں۔—‏اَمثا 12:‏25؛‏ اِفِس 4:‏29‏۔‏

11.‏ یہوواہ اپنی دانش‌مندی دوسروں کے ساتھ کیسے بانٹتا ہے؟‏

11 یہوواہ ہمیں دانش‌مندی دیتا ہے۔‏ یسوع مسیح کے شاگرد یعقوب نے لکھا:‏ ”‏اگر آپ میں سے کسی شخص میں دانش‌مندی کی کمی ہو تو وہ بار بار خدا سے مانگے اور یہ اُس کو دی جائے گی کیونکہ خدا بغیر نکتہ‌چینی کیے بڑی فیاضی سے سب کو دیتا ہے۔“‏ (‏یعقو 1:‏5‏، فٹ‌نوٹ)‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ اپنی دانش‌مندی کو صرف اپنے تک ہی نہیں رکھتا بلکہ وہ فراخ‌دلی سے اِسے دوسروں کو بھی دیتا ہے۔ غور کریں کہ یہوواہ”‏بغیر نکتہ‌چینی کیے“‏ یا ”‏بغیر ڈانٹے“‏ دوسروں کو دانش‌مندی دیتا ہے۔ جب بھی ہم اُس سے رہنمائی مانگتے ہیں تو وہ کبھی ہمیں یہ احساس نہیں دِلاتا کہ ہم میں دانش‌مندی کی کمی ہے۔ اِس کی بجائے وہ خود ہمارا حوصلہ بڑھاتا ہے کہ ہم اُس سے دانش‌مندی مانگیں۔—‏اَمثا 2:‏1-‏6‏۔‏

12.‏ ہمارے پاس دوسروں کو اپنی دانش‌مندی سے فائدہ پہنچانے کے کون سے موقعے ہوتے ہیں؟‏

12 کیا یہوواہ کی طرح ہم بھی اپنی دانش‌مندی سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں؟ (‏زبور 32:‏8‏)‏ یہوواہ کے بندوں کے پاس دوسروں کو وہ باتیں بتانے کے بہت سے موقعے ہوتے ہیں جو اُنہوں نے سیکھی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم اکثر مُنادی کرنے کے لیے اُن لوگوں کو ٹریننگ دیتے ہیں جنہوں نے ایسا کرنا شروع کِیا ہے۔ کلیسیا کے بزرگ بڑے صبر سے خادموں اور بپتسمہ‌یافتہ بھائیوں کو کلیسیا میں اپنی ذمے‌داریوں کو پورا کرنا سکھاتے ہیں۔ اور تعمیرومرمت کے کام میں ماہر بہن بھائی تنظیم کی عمارتوں کو بنانے اور اِن کی دیکھ‌بھال کرنے میں دوسرے بہن بھائیوں کو ٹریننگ دیتے ہیں۔‏

13.‏ جس طریقے سے یہوواہ دوسروں کے ساتھ اپنی دانش‌مندی بانٹتا ہے، آپ اُس طریقے پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کو ٹریننگ کیسے دے سکتے ہیں؟‏

13 اگر آپ کسی کو ٹریننگ دیتے ہیں تو اُسے اپنی دانش‌مندی سے ویسے ہی فائدہ پہنچائیں جیسے یہوواہ پہنچاتا ہے۔ یاد رکھیں کہ یہوواہ فیاضی سے دوسروں کو دانش‌مندی دیتا ہے۔ ہمیں بھی اُن لوگوں کے ساتھ کُھل کر اپنا علم بانٹنا چاہیے جو ابھی سیکھ رہے ہیں۔ ہمیں یہ سوچ کر دوسروں کے ساتھ اپنا علم بانٹنے سے نہیں ڈرنا چاہیے کہ آگے چل کر وہ ہماری جگہ لے لیں گے۔ ہمیں یہ بھی نہیں سوچنا چاہیے:‏ ”‏مجھے کسی نے ٹریننگ نہیں دی تھی!‏ یہ شخص بھی خود ہی سیکھ جائے گا۔“‏ یہوواہ کے بندوں کی زندگی میں ایسی سوچ کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ جن بہن بھائیوں کو ہم ٹریننگ دیتے ہیں، ہم نہ صرف خوشی سے اُن کے ساتھ اپنا علم بانٹتے ہیں بلکہ اُنہیں ”‏اپنی زندگیوں میں شامل کرنے کے لیے بھی“‏ تیار رہتے ہیں۔ (‏1-‏تھس 2:‏8‏)‏ ہم چاہتے ہیں کہ آگے چل کر وہ بھی ”‏دوسروں کو تعلیم دینے کے لائق“‏ بن جائیں۔ (‏2-‏تیم 2:‏1، 2‏)‏ اگر ہم سب کُھل کر ایک دوسرے کو اپنی دانش‌مندی سے فائدہ پہنچائیں گے تو نہ صرف ہم بلکہ دوسرے بھی زیادہ دانش‌مند بن جائیں گے اور زیادہ خوش رہ پائیں گے۔‏

جب دوسرے ہماری مدد کے لیے قدر ظاہر نہیں کرتے

14.‏ جب ہم دوسروں کے لیے کچھ کرتے ہیں تو عام طور پر وہ کیا کرتے ہیں؟‏

14 جب ہم دوسروں کے لیے اور خاص طور پر اپنے ہم‌ایمانوں کے لیے کچھ کرتے ہیں تو اکثر وہ اِس کے لیے ہمارے شکرگزار ہوتے ہیں۔ شاید وہ ایک کارڈ دے کر یا کسی اَور طرح سے ہمارا شکریہ ادا کریں۔ (‏کُل 3:‏15‏)‏ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو ہمیں اِس بات سے اَور زیادہ خوشی ملتی ہے کہ ہم نے اُن کے لیے کچھ کِیا۔‏

15.‏ جب دوسرے ہماری طرف سے ملنے والی مدد کے لیے قدر نہیں دِکھاتے تو ہمیں کیا یاد رکھنا چاہیے؟‏

15 لیکن کبھی کبھار لوگ ہمارا شکریہ ادا نہیں کرتے۔ شاید ہمیں لگے کہ دوسروں کو اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم نے اُن کی مدد کرنے کے لیے اپنا کتنا وقت، طاقت اور پیسہ لگایا ہے۔ ایسی صورت میں ہم اپنی خوشی کھونے اور غصے میں آنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ اِس مضمون کی مرکزی آیت کو یعنی اعمال 20:‏35 کو یاد رکھیں۔ دوسروں کو دینے سے ملنے والی خوشی اِس بات پر نہیں ٹکی کہ دوسرے اِس کی قدر کرتے ہیں یا نہیں۔ ہم تب بھی خوشی سے دوسروں کو دینے کا فیصلہ کر سکتے ہیں جب وہ اِس کے لیے قدر نہیں دِکھاتے۔ لیکن کیا چیز ایسا کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟ آئیے کچھ طریقوں پر غور کرتے ہیں۔‏

16.‏ جب ہم دوسروں کو کچھ دیتے ہیں تو ہمیں کس بات پر اپنا دھیان رکھنا چاہیے؟‏

16 یاد رکھیں کہ دوسروں کو دینے سے آپ یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔‏ یہوواہ سب لوگوں کو اچھی چیزیں دیتا ہے پھر چاہے وہ اِس کے لیے قدر دِکھائیں یا نہ دِکھائیں۔ (‏متی 5:‏43-‏48‏)‏ یہوواہ نے وعدہ کِیا ہے کہ اگر ہم دوسروں کو دیتے وقت ’‏یہ اُمید نہیں رکھیں گے کہ ہمیں کچھ واپس ملے گا‘‏ تو وہ ہمیں ”‏بڑا اجر“‏ دے گا۔ (‏لُو 6:‏35‏)‏ لفظ ”‏کچھ“‏ میں یہ بھی شامل ہے کہ کوئی ہمارا شکریہ ادا کرے۔ چاہے ہمیں دوسروں سے بدلے میں کچھ ملے یا نہ ملے، یہوواہ ہمیشہ ہمیں ہماری ”‏خوش‌دلی“‏ کا اور اُس اچھائی کا بدلہ دے گا جو ہم نے دوسروں کے لیے دِکھائی ہوگی۔—‏اَمثا 19:‏17؛‏ 2-‏کُر 9:‏7‏۔‏

17.‏ دوسروں کو دینے کی سب سے اہم وجہ کیا ہے؟ (‏لُوقا 14:‏12-‏14‏)‏

17 جب ہم دوسروں کے لیے کچھ کرتے ہیں تو یہوواہ کی طرح ہم ایک اَور کام بھی کر سکتے ہیں۔ ہم لُوقا 14:‏12-‏14 میں پائے جانے والے اصول پر عمل کر سکتے ہیں۔ ‏(‏اِن آیتوں کو پڑھیں۔)‏ بے‌شک اُن لوگوں کی مہمان‌نوازی کرنا یا اُن کے لیے فراخ‌دلی دِکھانا غلط نہیں ہے جو بدلے میں ہمارے لیے بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم اکثر اِس لیے دوسروں کے لیے کچھ کرتے ہیں کیونکہ ہم اُن سے بدلے میں کچھ پانا چاہتے ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم اُس مشورے پر عمل کر سکتے ہیں جو یسوع نے ہمیں دیا۔ ہم اُن لوگوں کے لیے مہمان‌نوازی اور فراخ‌دلی دِکھا سکتے ہیں جن کے لیے بدلے میں ایسا کرنا مشکل ہوگا۔ اِس طرح ہمیں خوشی ملے گی کیونکہ ہم یہوواہ کی مثال پر عمل کر رہے ہوں گے۔ جب ہم دوسروں سے بدلے میں کچھ نہیں چاہیں گے تو ہم تب بھی خوش رہ پائیں گے جب وہ ہمارا شکریہ ادا نہیں کریں گے۔‏

18.‏ ہمیں کیا نہیں کرنا چاہیے اور کیوں؟‏

18 دوسروں کی نیت پر شک نہ کریں۔‏ (‏1-‏کُر 13:‏7‏)‏ اگر دوسرے ہماری محبت اور مدد کے لیے ہمارا شکریہ ادا نہیں کرتے تو ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں:‏”‏کیا وہ واقعی ناشکرے ہیں یا وہ صرف ہمیں شکریہ کہنا بھول گئے ہیں؟“‏ اَور بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی بِنا پر شاید دوسرے اُس طرح سے ہمارا شکریہ ادا نہ کر پائیں جس کی ہم توقع کر رہے ہوں۔ کچھ لوگ دوسروں کی طرف سے ملنے والی مدد کی دل سے قدر کرتے ہیں لیکن شاید اُنہیں اِسے لفظوں میں بتانا مشکل لگتا ہے۔ شاید کچھ کو دوسروں سے مدد لے کر شرمندگی محسوس ہوتی ہے کیونکہ پہلے وہ دوسروں کی مدد کِیا کرتے تھے لیکن اب اُنہیں اِس کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو، اگر ہم دل سے اپنے بہن بھائیوں سے محبت کرتے ہیں تو ہم اُن کے بارے میں بُرا نہیں سوچیں گے اور خوشی سے اُن کی مدد کرتے رہیں گے۔—‏اِفِس 4:‏2‏۔‏

19-‏20.‏ اَور کون سی چیز خوشی سے دوسروں کو دینے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

19 صبر سے کام لیں۔‏ فراخ‌دلی کے حوالے سے دانش‌مند بادشاہ سلیمان نے لکھا:‏ ”‏اپنی روٹی پانی میں پھینک دو کیونکہ بہت دنوں بعد وہ آپ کو دوبارہ مل جائے گی۔“‏ (‏واعظ 11:‏1‏)‏ اِس سے ہم سیکھتے ہیں کہ کبھی کبھار لوگ شاید ”‏بہت دنوں بعد“‏ ہماری فراخ‌دلی کے لیے ہمارا شکریہ ادا کریں۔ ایسا ہی کچھ ہماری ایک بہن کے ساتھ ہوا۔‏

20 بہت سال پہلے ایک حلقے کے نگہبان کی بیوی نے سینڈرا نام کی بہن کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اُسے ایک خط لکھا۔ بہن سینڈرا نے ابھی ابھی بپتسمہ لیا تھا۔ خط میں حلقے کے نگہبان کی بیوی نے اِس بات کو نمایاں کِیا کہ یہوواہ کا وفادار رہنا کتنا ضروری ہے۔ اِس کے تقریباً آٹھ سال بعد بہن سینڈرا نے خط کا جواب دیا۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏آپ نہیں جانتیں کہ پچھلے کچھ سالوں کے دوران آپ کی اُن باتوں سے میرا کتنا حوصلہ بڑھا جو آپ نے مجھے خط میں لکھی تھیں۔“‏ اُنہوں نے آگے لکھا:‏ ”‏آپ کے شفقت بھرے الفاظ سے مجھے بہت ہمت ملی اور اُس آیت کو تو مَیں کبھی نہیں بھول سکتی جس کا آپ نے خط میں ذکر کِیا تھا۔“‏ a خط میں بہن سینڈرا نے اُن مسئلوں کا ذکر کِیا جن کا وہ سامنا کر رہی تھیں اور پھر اِس کے بعد اُنہوں نے لکھا:‏”‏کبھی کبھار میرا دل چاہتا تھا کہ مَیں سب کچھ چھوڑ دوں؛ یہوواہ کو چھوڑ دوں؛ اپنی ساری ذمے‌داریوں کو چھوڑ دوں۔ لیکن پھر مَیں خط میں لکھی آیت کو یاد کرتی تھی۔ اِسے پڑھ کر میرے اندر یہوواہ کا وفادار رہنے کی ہمت پیدا ہوتی تھی۔“‏ اُنہوں نے آگے لکھا:‏ ”‏پچھلے آٹھ سالوں کے دوران مجھے کسی بھی بات سے اِتنا حوصلہ نہیں ملا جتنا آپ کے خط میں لکھی باتوں اور اُس آیت سے ملا۔“‏ ذرا سوچیں کہ اِتنے سالوں بعد بہن سینڈرا کی طرف سے ملنے والے خط کو پڑھ کر اُس حلقے کے نگہبان کی بیوی کو کتنی زیادہ خوشی ہوئی ہوگی!‏ ہمیں بھی اُس وقت بہت خوشی مل سکتی ہے جب ہم کسی کے لیے کچھ کرتے ہیں اور وہ ”‏بہت دنوں بعد“‏ یعنی بہت وقت گزر جانے کے بعد اِس کے لیے ہمارا شکریہ ادا کرتا ہے۔‏

ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بہت وقت گزر جانے کے بعد ہماری طرف سے ملنے والی مدد کے لیے ہمارا شکریہ ادا کرے۔ (‏پیراگراف نمبر 20 کو دیکھیں۔)‏ b


21.‏ آپ نے یہوواہ کی طرح فراخ‌دلی دِکھاتے رہنے کا عزم کیوں کِیا ہے؟‏

21 جیسے کہ ہم نے دیکھا، یہوواہ نے ہمیں بناتے وقت ہم میں ایک خاص صلاحیت ڈالی۔ سچ ہے کہ ہمیں اُس وقت بہت خوشی ملتی ہے جب کوئی ہمارے لیے کچھ کرتا ہے لیکن جب ہم کسی کے لیے کچھ کرتے ہیں تو ہمیں اَور بھی زیادہ خوشی ملتی ہے۔ ہمیں اُس وقت بہت اچھا لگتا ہے جب ہم کسی نہ کسی طرح سے اپنے بہن بھائیوں کی مدد کرتے ہیں۔ اور جب وہ اِس کے لیے ہماری قدر کرتے ہیں تو ہمیں بہت خوشی ملتی ہے۔ لیکن چاہے کوئی ہمارا شکرگزار ہو یا نہ ہو، ہم اِس بات سے خوش ہو سکتے ہیں کہ ہم نے صحیح کام کِیا۔ کبھی نہ بھولیں کہ جو کچھ آپ دوسروں کو دیتے ہیں، ’‏یہوواہ آپ کو اِس سے بہت زیادہ دے سکتا ہے۔‘‏ (‏2-‏توا 25:‏9‏)‏ ہم تو دوسروں کو اُتنا دے بھی نہیں سکتے جتنا یہوواہ اُس کے بدلے میں ہمیں دیتا ہے!‏ بھلا ہمارے لیے اِس سے زیادہ خوشی کی بات اَور کیا ہو سکتی ہے کہ یہوواہ ہمیں ہماری اچھائی کا صلہ دے!‏ آئیے یہ عزم کریں کہ آپ اپنے آسمانی باپ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے فراخ‌دلی دِکھاتے رہیں گے۔‏

گیت نمبر 17 مدد کرنے کو تیار

a حلقے کے نگہبان کی بیوی نے اُس بہن کو خط میں جو آیت لکھی تھی، وہ 2-‏یوحنا 8 تھی جہاں لکھا ہے:‏ ”‏خبردار رہیں کہ آپ اُن چیزوں کو کھو نہ بیٹھیں جن کے لیے ہم نے محنت کی تھی بلکہ آپ کو پورا پورا اجر ملے۔“‏

b تصویر کی وضاحت‏:‏ اصلی واقعے پر مبنی منظر میں دِکھایا گیا ہے کہ حلقے کے نگہبان کی بیوی ایک بہن کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اُسے خط لکھ رہی ہے۔ بہت سالوں بعد وہ بہن اُس حلقے کے نگہبان کی بیوی کا شکریہ ادا کرتی ہے۔‏