مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 37

گیت نمبر 118 ہمیں اَور ایمان دے

ایک ایسا خط جو آخر تک ثابت‌قدم رہنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے

ایک ایسا خط جو آخر تک ثابت‌قدم رہنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے

‏”‏ہم اُس اِعتماد کو آخر تک تھامے رکھیں گے جو شروع میں ہم میں تھا۔“‏‏—‏عبر 3:‏14‏۔‏

غور کریں کہ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏

عبرانیوں کے نام خط میں ایسی کون سی ہدایتیں اور نصیحتیں کی گئی ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم اِس دُنیا کے خاتمے تک ثابت‌قدم رہ سکتے ہیں۔‏

1-‏2.‏ (‏الف)‏جب پولُس رسول نے عبرانیوں کے نام خط لکھا تو اُس وقت یہودیہ میں صورتحال کیسی تھی؟ (‏ب)‏یہ خط عبرانی مسیحیوں کے لیے فائدہ‌مند کیسے ثابت ہوا؟‏

 یسوع مسیح کی موت کے بعد اُن عبرانی مسیحیوں کو بہت سی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا جو یروشلم اور یہودیہ میں رہ رہے تھے۔ مسیحی کلیسیا کے قائم ہونے کے تھوڑے ہی وقت بعد اُنہیں سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ (‏اعما 8:‏1‏)‏ پھر اِس کے تقریباً 20 سال بعد اُنہیں قحط اور غربت کا سامنا کرنا پڑا۔ (‏اعما 11:‏27-‏30‏)‏ لیکن تقریباً 61ء میں مسیحیوں کو کسی حد تک سکون ملا۔ اِس وقت کے دوران اُنہیں اُتنی اذیت نہیں دی گئی جتنی اذیت کا سامنا اُنہیں جلد ہونے والا تھا۔ اِسی عرصے کے دوران پولُس رسول نے یہوواہ کی پاک روح کی رہنمائی میں اِن مسیحیوں کو ایک خط لکھا۔اِس خط میں پولُس رسول نے اُنہیں جو ہدایتیں اور نصیحتیں کیں، اُن کی اِن مسیحیوں کو اُس وقت واقعی بہت ضرورت تھی۔ اِن ہدایتوں اور نصیحتوں پر دھیان دینے سے وہ خود کو آنے والے وقت کے لیے تیار کر سکتے تھے۔‏

2 عبرانی مسیحیوں کو بالکل ٹھیک وقت پر پولُس رسول کا خط ملا کیونکہ جس امن اور سکون کے دَور میں وہ رہ رہے تھے، وہ بہت جلد ختم ہونے والا تھا۔ اِس خط میں پولُس رسول نے اُنہیں ایسی ہدایتیں دیں جن کی مدد سے وہ مسیحی آنے والی مصیبت کا سامنا کرتے وقت ثابت‌قدم رہ سکتے تھے۔ یسوع مسیح نے یروشلم کی تباہی کے بارے میں جو پیش‌گوئی کی تھی، وہ بہت جلد پوری ہونے والی تھی۔ (‏لُو 21:‏20‏)‏ بے‌شک نہ ہی پولُس اور نہ ہی یہودیہ میں رہنے والے مسیحی یہ جانتے تھے کہ یہ تباہی ٹھیک کس وقت آئے گی۔ لیکن جب تک اِن مسیحیوں کے پاس وقت تھا، وہ اپنے اندر ثابت‌قدمی کی خوبی کو پیدا کر سکتے تھے اور اپنے ایمان کو اَور زیادہ مضبوط کر سکتے تھے۔—‏عبر 10:‏25؛‏ 12:‏1، 2‏۔‏

3.‏ عبرانیوں کے نام خط سے ہمیں فائدہ کیوں ہو سکتا ہے؟‏

3 بہت جلد ہم ایک ایسی بڑی مصیبت کا سامنا کرنے والے ہیں جو اُس مصیبت سے بھی بڑی ہوگی جس کا عبرانی مسیحیوں کو سامنا ہوا تھا۔ (‏متی 24:‏21؛‏ مُکا 16:‏14،‏ 16‏)‏ اِس لیے آئیے کچھ ایسی ہدایتوں اور نصیحتوں پر غور کرتے ہیں جو یہوواہ نے عبرانی مسیحیوں کی مدد کرنے کے لیے اُنہیں کیں اور جن پر غور کرنے سے آج ہمیں بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔‏

‏”‏پختگی کی طرف بڑھیں“‏

4.‏ جو یہودی، مسیحی بن گئے تھے، اُنہیں کن مسئلوں کا سامنا کرنا پڑا؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

4 پہلی صدی عیسوی میں اُن مسیحیوں کو ایک بہت بڑے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا جو پہلے یہودی ہوا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا جب یہودی یہوواہ کی چُنی ہوئی قوم تھے۔ کئی سالوں تک یروشلم کو ایک بہت خاص جگہ خیال کِیا جاتا تھا کیونکہ یہوواہ کی نمائندگی کرنے والے بادشاہ اِس جگہ سے حکمرانی کِیا کرتے تھے اور وہاں یہوواہ کی عبادت کرنے کے لیے ہیکل بھی تھی۔ وہ سبھی یہودی جو یہوواہ کے وفادار تھے، موسیٰ کی شریعت پر اور اُن حکموں پر عمل کرتے تھے جو اُن کے مذہبی رہنما اُنہیں سکھاتے تھے۔ جن حکموں پر یہودی عمل کرتے تھے، اُن میں کھانے پینے، ختنے اور غیرقوم کے لوگوں کے ساتھ پیش آنے کے حوالے سے حکم شامل تھے۔ لیکن اب یسوع مسیح کی موت کے بعد یہوواہ اُن قربانیوں کو قبول نہیں کر رہا تھا جو ہیکل میں چڑھائی جاتی تھیں۔ اور یہی بات اُن مسیحیوں کے لیے ایک مسئلہ تھی جو یہودی قوم سے تعلق رکھتے تھے اور شریعت پر عمل کِیا کرتے تھے۔ (‏عبر 10:‏1،‏ 4،‏ 10‏)‏ پُختہ مسیحیوں کو بھی جیسے کہ پطرس رسول کو بھی کچھ تبدیلیوں کے حساب سے خود کو ڈھالنا مشکل لگ رہا تھا۔ (‏اعما 10:‏9-‏14؛‏ گل 2:‏11-‏14‏)‏ تو یہودی مذہبی رہنما خاص طور پر اِن مسیحیوں کی اُن کے نئے عقیدوں کی وجہ سے بہت زیادہ مخالفت کر رہے تھے۔‏

مسیحیوں کو پاک کلام میں پائی جانے والی سچائیوں سے لپٹے رہنا تھا اور اُن جھوٹی باتوں کو رد کرنا تھا جو اُن کے مخالف یعنی یہودی مذہبی رہنما کر رہے تھے۔ (‏پیراگراف نمبر 4-‏5 کو دیکھیں۔)‏


5.‏ کون سے دو گروہ عبرانی مسیحیوں کی مخالفت کر رہے تھے؟‏

5 عبرانی مسیحیوں کو دو گروہوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ایک تو یہودی مذہبی رہنماؤں کی طرف سے جو اِس وجہ سے اُنہیں اذیت دے رہے تھے کیونکہ اِن مسیحیوں نے یہودی مذہب کو چھوڑ دیا تھا اور دوسرا کلیسیا میں موجود کچھ مسیحیوں کی طرف سے جو اِس بات پر زور دے رہے تھے کہ یسوع کے پیروکاروں کو موسیٰ کی شریعت پر عمل کرتے رہنا چاہیے۔ شاید یہ مسیحی ایسا اِس لیے کہہ رہے تھے تاکہ وہ اذیت سے بچ جائیں۔ (‏گل 6:‏12‏)‏ کس چیز نے عبرانی مسیحیوں کی یہوواہ کا وفادار رہنے میں مدد کی ہوگی؟‏

6.‏ پولُس رسول نے اپنے ہم‌ایمانوں کو کیا کرنے کے لیے کہا؟ (‏عبرانیوں 5:‏14–‏6:‏1‏)‏

6 عبرانیوں کے نام خط میں پولُس رسول نے اپنے ہم‌ایمانوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ خدا کے کلام کا گہرائی سے مطالعہ کریں۔ ‏(‏عبرانیوں 5:‏14–‏6:‏1 کو پڑھیں۔)‏ پولُس رسول نے عبرانی صحیفوں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے ہم‌ایمانوں کو دلیلیں دیں کہ مسیحی جس طریقے سے یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں، وہ اُس طریقے سے کہیں بہتر ہے جس طریقے سے یہودی یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں۔‏ a پولُس رسول جانتے تھے کہ اگر اُن کے ہم‌ایمان یہوواہ کے بارے میں اپنے علم کو بڑھائیں گے اور پاک کلام کی سچائیوں کو گہرائی سے سمجھیں گے تو وہ اُن جھوٹی تعلیمات کو پہچان پائیں گے جو اُنہیں یہوواہ سے دُور کر سکتی ہیں۔‏

7.‏ آج ہمیں کن مسئلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟‏

7 عبرانی مسیحیوں کی طرح آج ہمیں بھی ایسی باتیں اور دلیلیں سننے کو ملتی ہیں جو یہوواہ کے معیاروں کے خلاف ہیں۔ کچھ لوگ یہوواہ کے گواہوں پر نکتہ‌چینی کرتے ہیں کیونکہ وہ سیکس کے حوالے سے بائبل کے حکموں پر عمل کرتے ہیں۔ آج لوگوں کی سوچ پہلے سے بھی کہیں زیادہ یہوواہ کی سوچ کے خلاف ہو گئی ہے۔ (‏اَمثا 17:‏15‏)‏ اِس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم غلط سوچ کو پہچانیں اور اِسے اپنانے سے بچیں۔ ہم اپنے کسی بھی مخالف کو اِس بات کی اِجازت نہیں دینا چاہتے کہ وہ ہمیں بے‌حوصلہ اور یہوواہ سے دُور کر دے۔—‏عبر 13:‏9‏۔‏

8.‏ کیا چیز پختگی کی طرف بڑھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏

8 پولُس رسول نے عبرانی مسیحیوں کو نصیحت کی تھی کہ وہ پختگی کی طرف بڑھیں۔ آج ہمیں بھی اِس نصیحت پر عمل کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے میں یہ شامل ہے کہ ہم پاک کلام کی سچائیوں کا گہرا علم حاصل کریں اور یہوواہ کی سوچ کو اپنائیں۔ یہ ایسا کام ہے جو ہمیں اپنی زندگی یہوواہ کے نام کرنے اور بپتسمہ لینے کے بعد بھی کرتے رہنا چاہیے۔ چاہے ہمیں یہوواہ کا گواہ بنے کتنے ہی سال کیوں نہ ہو گئے ہوں، ہم سبھی کو باقاعدگی سے خدا کے کلام کو پڑھنا اور اِس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ (‏زبور 1:‏2‏)‏ اگر ہم بائبل کا ذاتی مطالعہ کرنے کی اچھی عادت اپنائیں گے تو ہم اُس خوبی کو اَور زیادہ نکھار پائیں گے جس کا ذکر پولُس نے عبرانیوں کے نام خط میں کِیا۔ پولُس نے اِس خط میں کس خوبی پر زور دیا؟ ایمان کی خوبی پر۔—‏عبر 11:‏1،‏ 6‏۔‏

‏”‏ایمان رکھیں اور اپنی جان بچائیں“‏

9.‏ عبرانی مسیحیوں کے لیے اپنے ایمان کو مضبوط کرنا اِتنا ضروری کیوں تھا؟‏

9 عبرانی مسیحیوں کو اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کی ضرورت تھی تاکہ وہ یہودیہ پر آنے والی مصیبت کے دوران اپنی جان بچا سکیں۔ (‏عبر 10:‏37-‏39‏)‏ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو آگاہ کِیا تھا کہ جب وہ یروشلم کو فوجوں سے گِھرا ہوا دیکھیں تو وہ پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔ یسوع مسیح کی اِس آگاہی پر سبھی مسیحیوں کو عمل کرنا تھا پھر چاہے وہ شہر یروشلم میں رہ رہے ہوتے یا یہودیہ کے دیہات میں۔ (‏لُو 21:‏20-‏24‏)‏ اُس زمانے میں جب لوگوں کو دُشمن فوج کی طرف سے خطرے کا سامنا ہوتا تھا تو عام طور پر دیہات میں رہنے والے لوگ شہر میں بھاگ جاتے تھے کیونکہ شہر کے اِردگِرد دیواریں بنی ہوتی تھیں جو اُنہیں دُشمن سے محفوظ رکھ سکتی تھیں۔ تو شہر یروشلم میں رہنے کی بجائے پہاڑوں کی طرف بھاگ جانے کا خیال شاید کچھ مسیحیوں کو عجیب لگ رہا ہو۔ اِسی لیے اُنہیں یسوع مسیح کے حکم پر عمل کرنے کے لیے بہت مضبوط ایمان کی ضرورت تھی۔‏

10.‏ مضبوط ایمان کی وجہ سے مسیحیوں میں کیا کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ہوگا؟ (‏عبرانیوں 13:‏17‏)‏

10 عبرانی مسیحیوں کو اُن لوگوں پر بھی اپنے بھروسے کو مضبوط کرنے کی ضرورت تھی جن کے ذریعے یسوع مسیح کلیسیا کی رہنمائی کر رہے تھے۔ جو لوگ کلیسیا میں پیشوائی کر رہے تھے، اُنہوں نے یقیناً مسیحیوں کو یہ ہدایتیں دی ہوں گی کہ اُنہیں یسوع کی آگاہی کے مطابق کب بھاگنا ہے اور ایسا کیسے کرنا ہے۔ ‏(‏عبرانیوں 13:‏17 کو پڑھیں۔)‏ پولُس رسول نے اپنے ہم‌ایمانوں سے کہا کہ وہ ’‏اُن لوگوں کے فرمانبردار ہوں جو اُن کی پیشوائی‘‏ کر رہے ہیں۔ پولُس کی اِس بات کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اُن کے ہم‌ایمان پیشوائی کرنے والے بھائیوں کے اِس لیے فرمانبردار ہوں کیونکہ اُنہیں ایسا کرنا چاہیے۔ اِس کی بجائے پولُس یہ کہنا چاہتے تھے کہ اُن کے ہم‌ایمان اِس لیے اُن بھائیوں کے فرمانبردار ہوں کیونکہ وہ اُن پر بھروسا کرتے ہیں۔ تو عبرانی مسیحیوں کو مصیبت کے آنے سے پہلے کلیسیا میں پیشوائی کرنے والے بھائیوں پر اپنے بھروسے کو بڑھانا تھا کیونکہ اگر وہ بہتر حالات میں بزرگوں کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں کو مانتے تو اُن کے لیے مشکل حالات میں بھی اِن بزرگوں کی ہدایتوں کو ماننا زیادہ آسان ہو جانا تھا۔‏

11.‏ آج مسیحیوں کے لیے اپنے ایمان کو مضبوط کرنا اِتنا اہم کیوں ہے؟‏

11 عبرانی مسیحیوں کی طرح ہمیں بھی اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ایک ایسے دَور میں رہ رہے ہیں جس میں زیادہ‌تر لوگ اِس بات پر یقین نہیں کرتے کہ بہت جلد بُری دُنیا ختم ہونے والی ہے۔ یہ لوگ تو ہمارا مذاق اُڑاتے ہیں کہ ہم اِس بات پر یقین کرتے ہیں۔ (‏2-‏پطر 3:‏3، 4‏)‏ سچ ہے کہ بائبل میں اِس حوالے سے کچھ معلومات دی گئی ہیں کہ بڑی مصیبت کے دوران کیا کچھ ہوگا لیکن ہمیں بہت سی باتوں کے بارے میں نہیں پتہ۔ اِس لیے ہمیں اِس بات پر اپنے ایمان کو مضبوط کرنا چاہیے کہ یہوواہ بالکل ٹھیک وقت پر اِس بُری دُنیا کو ختم کر دے گا اور مصیبت کی اُس گھڑی میں ہمارا خیال رکھے گا۔—‏حبق 2:‏3‏۔‏

12.‏ کیا چیز بڑی مصیبت سے بچ نکلنے میں ہماری مدد کرے گی؟‏

12 آج ہمیں بھی اُن بھائیوں پر اپنے بھروسے کو بڑھانا چاہیے جن کے ذریعے یہوواہ ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔ آج یہوواہ ”‏وفادار اور سمجھ‌دار غلام“‏ کے ذریعے ہماری رہنمائی کرتا اور ہمیں ہدایتیں دیتا ہے۔ (‏متی 24:‏45‏)‏ جب رومی فوج نے یروشلم کو گھیر لیا تھا تو عبرانی مسیحیوں کو شاید ایسی ہدایتیں ملی ہوں گی جن کے ذریعے وہ اپنی جان بچا سکتے تھے۔ اِسی طرح جب بڑی مصیبت شروع ہوگی تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں بھی ایسی ہدایتیں ملیں جن پر عمل کرنے سے ہم اپنی زندگی بچا سکیں گے۔ اِس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم اُن ہدایتوں پر اپنے بھروسے اور یقین کو مضبوط کریں جو ہمیں یہوواہ کی تنظیم میں پیشوائی کرنے والے بھائیوں کی طرف سے ملتی ہیں۔ اگر ہم ابھی اُن کی ہدایتوں پر بھروسا نہیں کریں گے تو بڑی مصیبت کے دوران ہمارے لیے اُن کی ہدایتوں پر عمل کرنا اَور بھی مشکل ہو جائے گا۔‏

13.‏ عبرانی مسیحیوں کے لیے عبرانیوں 13:‏5 میں لکھی نصیحت اِتنی فائدہ‌مند کیوں تھی؟‏

13 جب عبرانی مسیحی اپنے شہر یا دیہات سے بھاگ جانے کی ہدایت ملنے کا اِنتظار کر رہے تھے تو اِس دوران اُنہیں اپنی زندگی کو سادہ رکھنا تھا اور اِس بات کا بھی خیال رکھنا تھا کہ وہ ”‏پیسے سے پیار“‏ نہ کرنے لگیں۔ ‏(‏عبرانیوں 13:‏5 کو پڑھیں۔)‏ کچھ عبرانی مسیحی قحط اور غربت کا سامنا کر چُکے تھے۔ (‏عبر 10:‏32-‏34‏)‏ بے‌شک پہلے وہ خوش‌خبری کی خاطر مصیبت سہنے کو تیار تھے لیکن اب اُن میں سے شاید کچھ یہ سوچنے لگے تھے کہ غربت اور بُرے وقت سے بچنے کے لیے اُن کے پاس زیادہ پیسہ ہونا چاہیے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ جب یروشلم نے تباہ ہونا تھا تو پیسہ اُن کے کام نہیں آنا تھا۔ (‏یعقو 5:‏3‏)‏ دراصل جو بھی مسیحی پیسے اور چیزوں سے پیار کرتا ہوگا، اُس کے لیے اپنے گھر اور چیزوں کو چھوڑ کر بھاگنا بہت مشکل رہا ہوگا۔‏

14.‏ اگر ہمارا ایمان مضبوط ہوگا تو ہم ابھی پیسے اور چیزوں کے حوالے سے کیسے فیصلے کریں گے؟‏

14 اگر ہمارا ایمان اِس بات پر مضبوط ہوگا کہ یہوواہ بہت جلد اِس بُری دُنیا کو تباہ کر دے گا تو ہم اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ پیسہ اور چیزیں حاصل کرنے کو اہمیت نہیں دیں گے۔ بڑی مصیبت کے دوران پیسہ لوگوں کے کسی کام نہیں آئے گا۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ لوگ ”‏اپنی چاندی سڑکوں پر پھینک دیں گے۔“‏ کیوں؟ کیونکہ اُنہیں احساس ہو جائے گا کہ ’‏یہوواہ کے غضب کے دن اُن کا سونا چاندی اُن کو نہیں بچا سکے گا۔‘‏ (‏حِز 7:‏19‏)‏ تو ہمیں زیادہ سے زیادہ پیسہ جمع کرنے پر دھیان دینے کی بجائے ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جن سے ہم اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ یہوواہ کی خدمت کو زیادہ اہمیت دے سکیں۔ سمجھ‌داری سے فیصلے کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم بِلاوجہ قرضہ نہ اُٹھائیں اور اپنا بہت سا وقت اپنی چیزوں کا دھیان رکھنے میں نہ لگائیں۔ ہمیں اِس بات سے بھی محتاط رہنا چاہیے کہ ہمیں اُن چیزوں سے حد سے زیادہ لگاؤ نہ ہو جو ہمارے پاس ہیں۔ (‏متی 6:‏19،‏ 24‏)‏ جیسے جیسے اِس بُری دُنیا کا خاتمہ قریب آ رہا ہے، اِس بات کے لیے ہمارے ایمان کا اِمتحان ہو سکتا ہے کہ ہم یہوواہ پر بھروسا کریں گے یا اپنے پیسے اور چیزوں پر۔‏

‏”‏آپ کو ثابت‌قدمی کی ضرورت ہے“‏

15.‏ خاص طور پر عبرانی مسیحیوں کو ثابت‌قدم رہنے کی ضرورت کیوں تھی؟‏

15 جیسے جیسے یہودیہ میں حالات بگڑتے جا رہے تھے، عبرانی مسیحیوں کے ایمان کا اِمتحان ہو رہا تھا جس کے لیے اُنہیں ثابت‌قدمی کی ضرورت تھی۔ (‏عبر 10:‏36‏)‏ حالانکہ کچھ عبرانی مسیحیوں نے پہلے سخت اذیت کا سامنا کِیا تھا لیکن اُن میں سے بہت سے اُس وقت مسیحی بنے تھے جب یسوع کے پیروکاروں کو کسی حد تک اذیت سے نجات ملی تھی۔ پولُس رسول نے اپنے اِن بہن بھائیوں سے کہا کہ بھلے ہی وہ ایمان کے سخت اِمتحان سے گزرے ہیں لیکن وہ اِس سے بھی زیادہ اذیت سہنے اور یسوع مسیح کی طرح مرتے دم تک یہوواہ کا وفادار رہنے کو تیار رہیں۔ (‏عبر 12:‏4‏)‏ بہت سے یہودی، مسیحی بن رہے تھے جس کی وجہ سے دوسرے یہودی سخت غصے میں تھے اور مسیحیوں پر تشدد کرنے لگے تھے۔ اِس کے کچھ ہی سال پہلے جب پولُس رسول یروشلم میں مُنادی کر رہے تھے تو لوگوں کی بِھیڑ نے اُن پر حملہ کر دیا تھا۔ 40 سے زیادہ یہودی‌آدمیوں نے یہ قسم کھائی تھی کہ ’‏جب تک وہ پولُس کو قتل نہ کر لیں، وہ کچھ نہیں کھائیں گے۔‘‏ (‏اعما 22:‏22؛‏ 23:‏12-‏14‏)‏ لوگوں کی سخت نفرت اور اذیت کے باوجود اُن مسیحیوں کو عبادت کے لیے ایک ساتھ جمع ہونا، مُنادی کرنا اور اپنے ایمان کو مضبوط رکھنا تھا۔‏

16.‏ عبرانیوں کے نام خط پر غور کرنے سے ہم اذیت کے بارے میں صحیح سوچ کیسے اپنا سکتے ہیں؟ (‏عبرانیوں 12:‏7‏)‏

16 کس چیز نے مخالفت کے باوجود ثابت‌قدم رہنے میں عبرانی مسیحیوں کی مدد کی ہوگی؟ پولُس رسول جانتے تھے کہ اُن کے ہم‌ایمانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ثابت‌قدم رہنے کے کتنے فائدے ہیں۔ اِس لیے اُنہوں نے بتایا کہ جب ایک مسیحی کے ایمان کا اِمتحان ہوتا ہے تو اُس وقت یہوواہ اُس کی بڑے زبردست طریقے سے ٹریننگ کرتا ہے۔ ‏(‏عبرانیوں 12:‏7 کو پڑھیں۔)‏ اِس ٹریننگ کی وجہ سے وہ مسیحی اپنی خوبیوں کو نکھار پاتا ہے اور یہوواہ کو خوش کرتا ہے۔ تو اِس بات پر اپنا دھیان رکھنے سے کہ مشکلوں میں ثابت‌قدم رہنے کے کتنے اچھے نتیجے نکلتے ہیں، اُن عبرانی مسیحیوں کے لیے مشکلوں کو برداشت کرنا آسان ہو گیا ہوگا۔—‏عبر 12:‏11‏۔‏

17.‏ پولُس رسول نے اذیت سہنے کے حوالے سے کیا سیکھ لیا تھا؟‏

17 پولُس رسول نے عبرانی مسیحیوں کا حوصلہ بڑھایا کہ وہ ڈٹ کر مشکلوں کا سامنا کریں اور ہمت نہ ہاریں۔ پولُس بِلاجھجک اُن سے یہ بات کر سکتے تھے اور اُنہیں اِس حوالے سے اچھا مشورہ بھی دے سکتے تھے۔ کیوں؟ کیونکہ یسوع کا پیروکار بننے سے پہلے پولُس خود بھی مسیحیوں کو اذیت دیا کرتے تھے اور یہ جانتے تھے کہ مسیحیوں کے ساتھ کتنی بدسلوکی کی جاتی تھی۔ پولُس کو یہ بھی پتہ تھا کہ اذیت کو کیسے برداشت کِیا جا سکتا ہے کیونکہ مسیحی بننے کے بعد اُنہیں خود بھی طرح طرح کی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ (‏2-‏کُر 11:‏23-‏25‏)‏ تو پولُس اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ثابت‌قدم رہنے کے لیے کیا ضروری ہے۔ اُنہوں نے عبرانی مسیحیوں کو یاد دِلایا کہ اذیت سہتے وقت اُنہیں خود پر بھروسا کرنے کی بجائے یہوواہ پر بھروسا کرنا چاہیے۔ پولُس رسول دلیری سے یہ کہہ سکتے تھے:‏ ”‏یہوواہ میرا مددگار ہے۔ مَیں نہیں ڈروں گا۔“‏—‏عبر 13:‏6‏۔‏

18.‏ مستقبل میں ہم سب کے ساتھ کیا ہوگا اور ہمیں ابھی کیا کرنا چاہیے؟‏

18 ہمارے بہت سے بہن بھائی ابھی اذیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم اُن کے لیے دُعا کرنے سے اُن کا ساتھ دے سکتے ہیں اور کبھی کبھار اُنہیں وہ چیزیں دے سکتے ہیں جن کی اُنہیں ضرورت ہے۔ (‏عبر 10:‏33‏)‏ بائبل میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ ”‏اُن سب کو اذیت دی جائے گی جو مسیح یسوع کے پیروکاروں کے طور پر خدا کی بندگی کرنا چاہتے ہیں۔“‏ (‏2-‏تیم 3:‏12‏)‏ اِس لیے ہم سبھی کو خود کو اُس مشکل وقت کے لیے تیار کرنا چاہیے جو ہم پر آنے والا ہے۔ آئیے ہم ہمیشہ یہوواہ پر بھروسا کرتے رہیں اور اِس بات پر اپنے یقین کو مضبوط کریں کہ یہوواہ ہر مشکل سے نکلنے میں ہماری مدد کرے گا۔ وقت آنے پر یہوواہ اپنے اُن تمام بندوں کو مصیبتوں سے آرام دے گا جو اُس کے وفادار ہیں۔—‏2-‏تھس 1:‏7، 8‏۔‏

19.‏ ہم خود کو بڑی مصیبت کے لیے تیار کیسے کر سکتے ہیں؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

19 بے‌شک پولُس رسول نے عبرانی مسیحیوں کے نام جو خط لکھا، اُس کی مدد سے وہ مسیحی خود کو اُس مصیبت کے لیے تیار کر پائے ہوں گے جس کا وہ بہت جلد سامنا کرنے والے تھے۔ پولُس نے اپنے ہم‌ایمانوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ صحیفوں کا گہرا علم حاصل کریں اور اِنہیں اچھی طرح سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایسا کرنے سے وہ اُن تعلیمات کو پہچان پائیں گے جو اُن کے ایمان کو کمزور کر سکتی ہیں۔ اُنہوں نے اپنے ہم‌ایمانوں کی یہ حوصلہ‌افزائی بھی کی کہ وہ اپنے ایمان کو اَور مضبوط کریں تاکہ وہ یسوع مسیح اور کلیسیا میں پیشوائی کرنے والے بھائیوں کی ہدایتوں پر فوراً عمل کر سکیں۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے مسیحیوں کو سمجھایا کہ وہ مشکلوں کے بارے میں صحیح سوچ اپنانے سے ثابت‌قدم رہیں اور اِن مشکلوں کو اپنے شفیق باپ یہوواہ کی طرف سے تربیت پانے کا موقع خیال کریں۔ دُعا ہے کہ ہم بھی خدا کی پاک روح کی رہنمائی میں لکھی گئی اِن ہدایتوں پر عمل کریں۔ پھر ہم آخر تک ثابت‌قدم رہ پائیں گے۔—‏عبر 3:‏14‏۔‏

جو مسیحی یہوواہ کے وفادار رہے، اُنہیں اُن کی ثابت‌قدمی کی وجہ سے برکت ملی۔ جب وہ یہودیہ سے بھاگ گئے تو اِس کے بعد بھی وہ ایک دوسرے سے ملتے رہے۔ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ (‏پیراگراف نمبر 19 کو دیکھیں۔)‏

گیت نمبر 126 آخر تک قائم رہیں!‏

a خط کے پہلے باب میں ہی پولُس رسول نے عبرانی صحیفوں سے کم از کم سات آیتوں کا حوالہ دیا تاکہ وہ یہ ثابت کر سکیں کہ مسیحیوں کے عبادت کرنے کا طریقہ یہودیوں کے عبادت کرنے کے طریقے سے بہتر ہے۔—‏عبر 1:‏5-‏13‏۔‏