مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ‌بیتی

یہوواہ کے ساتھ میرا خوشیوں بھرا سفر

یہوواہ کے ساتھ میرا خوشیوں بھرا سفر

1951ء میں مَیں کینیڈا کے صوبے کیوبیک کے ایک چھوٹے سے شہر روین پہنچا اور مَیں نے اُس گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا جس کا پتہ مجھے دیا گیا تھا۔ دروازہ مارسل فل‌ٹیو a نام کے مشنری نے کھولا جنہوں نے گلئیڈ سکول سے تربیت حاصل کی تھی۔ مارسل 23 سال کے تھے اور بہت لمبے قد کے تھے۔ مَیں 16 سال کا تھا اور قد میں اُن سے بہت چھوٹا تھا۔ مَیں نے اُنہیں وہ خط دِکھایا جس میں بتایا گیا تھا کہ مجھے وہاں پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اُنہوں نے وہ خط پڑھا، مجھے دیکھا اور کہا:‏”‏کیا آپ کی امی کو معلوم ہے کہ آپ یہاں ہو؟“‏

میرا گھرانہ

مَیں 1934ء میں پیدا ہوا۔ میرے امی ابو کا تعلق سوئٹزرلینڈ سے تھا اور وہ کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے شہر ٹیمینس میں شفٹ ہو گئے تھے۔ تقریباً 1939ء میں میری امی رسالہ ‏”‏واچ‌ٹاور“‏ پڑھنے لگیں اور یہوواہ کے گواہوں کی عبادتوں میں جانے لگیں۔ وہ مجھے اور میرے چھ اَور بہن بھائیوں کو اپنے ساتھ اِن عبادتوں پر لے کر جاتی تھیں۔ جلد ہی وہ یہوواہ کی ایک گواہ بن گئیں۔‏

میرے ابو میری امی کے اِس فیصلے سے بالکل خوش نہیں تھے۔ لیکن امی پاک کلام کی سچائیوں سے بہت محبت کرتی تھیں اور اُنہوں نے یہوواہ کی وفادار رہنے کا پکا عزم کِیا ہوا تھا۔ وہ تب بھی یہوواہ سے لپٹی رہیں جب 1940ء کے دہے کے شروع میں کینیڈا میں یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی لگ گئی تھی۔ ابو، امی کی بہت بے‌عزتی کرتے تھے لیکن امی پھر بھی ابو کی عزت کرتی تھیں اور اُن سے بہت پیار اور نرمی سے بات کرتی تھیں۔ اُن کی اچھی مثال کو دیکھ کر میرے اور میرے بہن بھائیوں کے دل میں یہوواہ کی عبادت کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ خوشی کی بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ابو کا رویہ بہتر ہونے لگا اور وہ ہمارے ساتھ پیار اور نرمی سے پیش آنے لگے۔‏

کُل‌وقتی خدمت کی شروعات

اگست 1950ء میں مَیں شہر نیو یارک میں ہونے والے اِجتماع پر گیا۔ وہاں دُنیا بھر سے آنے والے بہن بھائیوں سے مل کر اور گلئیڈ سکول سے تربیت پانے والے بہن بھائیوں کے اِنٹرویوز سُن کر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں یہوواہ کی اَور بڑھ چڑھ کر خدمت کروں۔ میرا یہ عزم پہلے سے بھی زیادہ پکا ہو گیا کہ مَیں کُل‌وقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کروں۔ اِس لیے جیسے ہی مَیں اپنے گھر واپس گیا، مَیں نے فوراً پہل‌کار بننے کی درخواست ڈال دی۔ اِس پر کینیڈا برانچ نے مجھے خط لکھا اور مشورہ دیا کہ مَیں پہلے بپتسمہ لوں۔ مَیں نے 1 اکتوبر 1950ء میں بپتسمہ لے لیا اور اِس کے ایک مہینے بعد پہل‌کار بن گیا۔ مجھے کاپوس‌کاسینگ نام کے شہر میں خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا جو اُس جگہ سے کئی کلومیٹر دُور تھا جہاں میں رہ رہا تھا۔‏

کیوبیک میں یہوواہ کی خدمت

1951ء میں برانچ نے اُن مبشروں سے جو فرانسیسی زبان بول سکتے تھے، کہا کہ وہ کینیڈا کے صوبے کیوبیک میں شفٹ ہونے کے بارے میں سوچیں۔ وہاں اِس زبان کو بولنے والے مبشروں کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔ مَیں فرانسیسی اور انگریزی دونوں ہی زبانیں بول سکتا تھا اِس لیے مَیں نے برانچ کی طرف سے ملنے والی دعوت کو قبول کر لیا اور مجھے کیوبیک کے شہر روین میں خدمت کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ وہاں مَیں کسی کو بھی نہیں جانتا تھا۔ بس میرے پاس ایک گھر کا پتہ تھا جس کا مَیں نے مضمون کے شروع میں ذکر کِیا تھا۔ لیکن پھر سب کچھ اچھے سے ہونے لگا۔ مَیں اور مارسل بہت اچھے دوست بن گئے اور مجھے وہاں خدمت کر کے بہت مزہ آنے لگا۔ مَیں نے کیوبیک میں چار سال تک خدمت کی اور اِن چار سالوں کے آخر میں مجھے خصوصی پہل‌کار بنا دیا گیا۔‏

گلئیڈ سکول میں جانا اور اُمید کا پورا نہ ہونا

جب مَیں کیوبیک میں تھا تو مجھے گلئیڈ سکول کی 26ویں کلاس میں جانے کی دعوت ملی جس پر مَیں بہت خوش ہوا۔ یہ سکول ریاست نیو یارک کے علاقے جنوبی لانسنگ میں ہوا۔ مَیں نے اِس سکول سے 12 فروری 1956ء میں گریجویشن کی اور اِس کے بعد مجھے مغربی افریقہ میں اُس جگہ خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا جسے اب گھانا b کہا جاتا ہے۔ لیکن وہاں جانے سے پہلے مجھے کینیڈا واپس جانا پڑا تاکہ گھانا جانے کے لیے میرے کاغذات تیار ہو سکیں۔ اِرادہ تو یہ تھا کہ مَیں صرف دو یا تین ہفتوں تک کینیڈا میں رہوں گا لیکن یہ عرصہ تھوڑا لمبا ہو گیا۔‏

مجھے ٹورانٹو میں سات مہینے تک اپنے کاغذات کا اِنتظار کرنا پڑا۔ اِس دوران مَیں بھائی کرِپس اور اُن کے گھرانے کے ساتھ رہا جنہوں نے بڑے پیار سے اپنے گھر کے دروازے میرے لیے کھول دیے۔ اُن کی ایک بیٹی تھی جس کا نام شیلا تھا۔ مجھے اور شیلا کو ایک دوسرے سے پیار ہو گیا۔ جب مَیں شیلا سے شادی کے لیے پوچھنے ہی والا تھا تو میرا ویزا لگ گیا۔ ہم دونوں نے اِس بارے میں یہوواہ سے دُعا کی اور پھر یہ فیصلہ کِیا کہ مجھے گھانا میں خدمت کرنے کے لیے جانا چاہیے۔ ہم نے طے کِیا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ خط کے ذریعے رابطے میں رہیں گے اور دیکھیں گے کہ آگے چل کر ہم کب شادی کریں گے۔ ہم دونوں کے لیے یہ آسان نہیں تھا لیکن بعد میں ہم نے دیکھا کہ یہ بالکل صحیح فیصلہ تھا۔‏

ایک مہینے ٹرین، بحری جہاز اور ہوائی جہاز میں سفر کرنے کے بعد مَیں گھانا کے شہر اکرا پہنچا۔ وہاں مجھے صوبائی نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کی ذمے‌داری دی گئی۔ اِس وجہ سے مجھے پورے گھانا میں اور اِس کے قریب واقع جگہوں میں دورہ کرنا ہوتا تھا جیسے کہ آئیوری کوسٹ (‏جسے اب کوتے دی آئیوورے کہا جاتا ہے)‏ اور ٹوگولینڈ (‏جسے اب ٹوگو کہا جاتا ہے)‏۔ زیادہ‌تر وقت مَیں اکیلے برانچ کی دی ہوئی گاڑی میں سفر کرتا تھا۔ مجھے مختلف علاقوں میں رہنے والے اپنے بہن بھائیوں سے مل کر بہت اچھا لگتا تھا۔‏

ہفتے اور اِتوار کو مجھے حلقے کے اِجتماعوں میں ذمے‌داریاں دی جاتی تھیں۔ لیکن اِن اِجتماعوں کے لیے ہمارے پاس کوئی ہال نہیں تھا۔ اِس لیے بھائی تپتی دھوپ سے بچنے کے لیے بانسوں اور کھجوروں کی شاخوں سے ایک عارضی چھپر بناتے تھے۔ چونکہ کینٹین میں کوئی فریج وغیرہ نہیں ہوتی تھی اِس لیے بھائی قریب ہی کچھ جانوروں کو رکھتے تھے جنہیں ذبح کر کے وہ اِجتماع پر آنے والے بہن بھائیوں کے لیے کھانا تیار کرتے تھے۔‏

کبھی کبھار اِن اِجتماعوں پر بہت ہی مزاحیہ واقعات ہو جاتے تھے۔ ایک دفعہ بھائی ہربرٹ جے‌نگز c اِجتماع پر تقریر کر رہے تھے۔ وہ بھی میری طرح ایک مشنری تھے۔ اُن کی تقریر کے دوران کینٹین سے ایک گائے باہر نکل آئی اور پلیٹ‌فارم اور حاضرین کے بیچ آ گئی۔ بھائی ہربرٹ تقریر کرتے ہوئے رُک گئے۔ وہ گائے ڈر کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگی۔ لیکن پھر چار تگڑے بھائیوں نے اُسے قابو میں کر لیا اور اُسے واپس کینٹین لے گئے۔ یہ دیکھ کر لوگ تالیاں بجانے لگے۔‏

اِجتماعوں والے ہفتوں کے دوران مَیں قریب کے گاؤں میں لوگوں کو ہماری تنظیم کی تیار کی ہوئی فلم ‏”‏دی نیو ورلڈ سوسائٹی اِن ایکشن“‏ دِکھاتا تھا۔ مَیں یہ فلم سفید چادر پر دِکھاتا تھا جسے مَیں دو کھمبوں یا دو درختوں کے بیچ لٹکا دیتا تھا۔ گاؤں کے لوگوں کو یہ فلم بہت پسند آتی تھی۔ اِن میں سے بہت سے لوگ تو ایسے تھے جنہوں نے زندگی میں پہلی بار کوئی فلم دیکھی تھی۔ جب وہ فلم میں ایسے سین دیکھتے تھے جن میں لوگ بپتسمہ لے رہے ہوتے تھے تو وہ جوش سے تالیاں بجانے لگتے تھے۔ اِس فلم کے ذریعے یہ لوگ دیکھ پائے کہ پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہ ایک دوسرے کے ساتھ کتنے متحد ہیں۔‏

1959ء میں گھانا میں ہماری شادی کی تصویر

جب مجھے افریقہ میں رہتے ہوئے تقریباً دو سال ہو گئے تو 1958ء میں مَیں شہر نیو یارک میں ہونے والے بین‌الاقوامی اِجتماع پر گیا۔ وہاں مَیں شیلا سے مل کر بہت خوش ہوا جو کیوبیک سے اِس اِجتماع کے لیے آئی تھیں۔ شیلا کیوبیک میں خصوصی پہل‌کار کے طور پر خدمت کر رہی تھیں۔ ہم دونوں خط کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں تھے لیکن اب چونکہ ہم دوبارہ ایک دوسرے سے ملے تھے تو مَیں نے اُن سے شادی کی خواہش کا اِظہار کِیا جس پر اُنہوں نے ہاں کر دی۔ پھر مَیں نے بھائی نار dکو خط لکھا اور اُن سے پوچھا کہ کیا شیلا بھی گلئیڈ سکول سے تربیت حاصل کر سکتی ہیں اور میرے ساتھ افریقہ میں خدمت کر سکتی ہیں؟ بھائی نار نے کہا کہ وہ ایسا کر سکتی ہیں۔ شیلا گھانا آئیں اور ہم نے 3 اکتوبر 1959ء میں شہر اکرا میں شادی کر لی۔ ہم نے دیکھا کہ یہوواہ کی خدمت کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دینے کی وجہ سے ہمیں اُس کی طرف سے بہت برکتیں ملی ہیں۔‏

کیمرون میں مل کر یہوواہ کی خدمت

کیمرون برانچ میں یہوواہ کی خدمت کرتے ہوئے

1961ء میں مجھے اور شیلا کو ملک کیمرون میں خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ وہاں مَیں بہت مصروف رہا کیونکہ بھائیوں نے مجھ سے کہا کہ مَیں کیمرون میں ہماری نئی برانچ کو بنانے میں مدد کروں۔ چونکہ مجھے کیمرون میں ہونے والے ہمارے کام کی نگرانی کرنے کی ذمے‌داری دی گئی تھی اِس لیے مجھے بہت کچھ سیکھنا تھا۔ لیکن پھر 1965ء میں ہمیں پتہ چلا کہ شیلا ماں بننے والی ہیں۔ سچ کہوں تو ہمیں اِس بات کو قبول کرنے میں تھوڑا وقت لگا کہ ہم ماں باپ بننے والے ہیں۔ لیکن جب ہم خود کو اِس نئی ذمے‌داری کو نبھانے کے لیے تیار کر رہے تھے اور واپس کینیڈا جانے کی تیاریاں کر رہے تھے تو ہمارے ساتھ وہ ہوا جس کا ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔‏

ہمارا بچہ ضائع ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ ہمارا ہونے والا بچہ لڑکا تھا۔ حالانکہ اِس بات کو ہوئے 50 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے لیکن ہم اِسے کبھی نہیں بھولے۔ ہم اپنے بچے کو کھو کر بہت زیادہ دُکھی تھے لیکن ہم نے اپنی خدمت کو جاری رکھا جو ہمیں بہت عزیز تھی۔‏

1965ء میں کیمرون میں شیلا کے ساتھ

کیمرون میں ہمارے بہن بھائیوں کو اکثر اِس وجہ سے اذیت کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ وہ سیاسی معاملوں میں کسی کی طرف‌داری نہیں کرتے تھے۔ صورتحال خاص طور پر الیکشن کے دوران بگڑ گئی۔ اور پھر 13 مئی 1970ء میں وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا۔ حکومت نے ہمارے کام پر پابندی لگا دی۔ اُس نے ہماری نئی اور خوب‌صورت برانچ کو ضبط کر لیا جسے بنے ابھی صرف پانچ مہینے ہی ہوئے تھے۔ ایک ہفتے کے اندر اندر ہم سبھی مشنریوں کو ملک سے نکال دیا گیا۔ کیمرون میں اپنے بہن بھائیوں کو چھوڑ کر جانا ہمارے لیے بہت مشکل تھا کیونکہ ہم اُن سے بہت پیار کرتے تھے اور اُن کے لیے فکرمند تھے کہ آگے چل کر اُن کے ساتھ کیا ہوگا۔‏

اِس کے اگلے چھ مہینے ہم نے فرانس برانچ میں گزارے۔ وہاں مَیں کیمرون میں رہنے والے اپنے بہن بھائیوں کے لیے وہ سب کچھ کرتا رہا جو مَیں کر سکتا تھا۔ اُسی سال دسمبر میں ہمیں نائیجیریا برانچ میں خدمت کرنے کے لیے کہا گیا جو اب کیمرون میں ہونے والے ہمارے کام کی نگرانی کرنے لگی تھی۔ نائیجیریا کے بہن بھائیوں نے دل کھول کر ہمارا خیرمقدم کِیا۔ ہمیں وہاں کئی سالوں تک یہوواہ کی خدمت کر کے بہت مزہ آیا۔‏

ایک مشکل فیصلہ

1973ء میں ہمیں ایک بہت ہی مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔ شیلا کو صحت کے کچھ بڑے مسئلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ وہ بِنا کچھ کہے صبر سے اِنہیں برداشت کر رہی تھیں۔ لیکن جب ہم نیو یارک میں ایک علاقائی اِجتماع کے لیے گئے تو اُن کی ہمت ٹوٹ گئی۔ وہ رونے لگیں اور اُنہوں نے کہا:‏ ”‏بس اب مجھ سے اَور نہیں ہوگا۔ مَیں بہت زیادہ تھکاوٹ محسوس کرتی ہوں اور بہت زیادہ بیمار رہتی ہوں۔“‏ شیلا تقریباً 14 سال سے میرے ساتھ مغربی افریقہ میں خدمت کر رہی تھیں۔مجھے اُن پر فخر تھا کہ وہ اِتنی وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کر رہی ہیں لیکن اب ہمیں اپنی زندگی میں کچھ تبدیلیاں کرنے کی ضرورت تھی۔تو اِس معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنے اور یہوواہ سے بہت زیادہ دُعا کرنے کے بعد ہم نے فیصلہ کِیا کہ ہمیں کینیڈا چلے جانا چاہیے جہاں شیلا کی صحت کا اچھے سے خیال رکھا جا سکتا تھا۔ مشنریوں کے طور پر کُل‌وقتی خدمت کو چھوڑنے کا فیصلہ ہماری زندگی کا سب سے مشکل‌ترین اور تکلیف‌دہ فیصلہ تھا۔‏

جب ہم کینیڈا پہنچے تو مجھے اپنے ایک پُرانے دوست کے ہاں نوکری مل گئی۔ وہ ٹورانٹو کے شمال میں واقع ایک علاقے میں گاڑیوں کی لین‌دین کا کاروبار کرتا تھا۔ ہم نے کرائے پر ایک فلیٹ لیا، اِستعمال‌شُدہ فرنیچر خریدا اور بِنا قرضہ لیے اپنی نئی زندگی کی شروعات کی۔ ہم اپنی زندگی کو سادہ رکھنا چاہتے تھے کیونکہ ہمیں اُمید تھی کہ ایک دن ہم پھر سے کُل‌وقتی طور پر خدمت کر پائیں گے۔ ہمیں اُس وقت بہت حیرانی ہوئی جب ہماری یہ اُمید ہماری سوچ سے بھی پہلے پوری ہو گئی۔‏

کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے ایک علاقے میں ہمارے اِجتماعوں کے لیے ایک نیا ہال بن رہا تھا۔ مَیں وہاں ہر ہفتے کے دن کام کرنے کے لیے جانے لگا۔ بعد میں مجھے وہاں اِجتماع کے ہال کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کے لیے کہا گیا۔ شیلا کی صحت بہتر ہو رہی تھی اور ہمیں لگ رہا تھا کہ وہ اِس نئی ذمے‌داری کو نبھا سکتی ہیں۔ اِس لیے ہم جون 1974ء میں اِجتماع کے ہال میں بنے فلیٹ میں رہنے لگے۔ ہم پھر سے کُل‌وقتی طور پر خدمت کر کے بہت خوش تھے!‏

یہوواہ کا شکر ہے کہ شیلا کی صحت اَور زیادہ بہتر ہوتی رہی۔ اِس کے دو سال بعد مجھے حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کے لیے کہا گیا۔ ہمیں کینیڈا کے صوبے مانیٹوبا میں خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا جہاں بہت سخت سردی پڑتی ہے۔ لیکن وہاں کے بہن بھائی بہت گرم‌جوش تھے۔ اُن کی محبت نے ہمارا دل چُھو لیا۔ ہم نے دیکھا کہ اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کس جگہ یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم بس یہوواہ کی خدمت کرتے رہے۔‏

مَیں نے ایک اہم سبق سیکھا

کئی سالوں تک حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کے بعد 1978ء میں مجھے اور شیلا کو کینیڈا بیت‌ایل میں خدمت کرنے کی دعوت ملی۔ اِس کے کچھ ہی وقت بعد مَیں نے ایک ایسا سبق سیکھا جس سے مجھے کافی تکلیف ہوئی۔ لیکن اِسے سیکھنا بہت ہی اہم تھا۔ مجھے شہر مونٹریال میں فرانسیسی زبان میں خاص تقریر کرنے کے لیے کہا گیا جو ڈیڑھ گھنٹے کی تھی۔ افسوس کی بات ہے کہ میری تقریر میں اِتنی جان نہیں تھی کہ سامعین اپنی توجہ اِس پر رکھ پاتے۔ میرے تقریر کرنے کے بعد خدمتی شعبے میں کام کرنے والے ایک بھائی نے مجھے اِس حوالے سے مشورہ دیا۔ اب مَیں جانتا ہوں کہ مَیں اِتنا اچھا مقرر نہیں ہوں لیکن کاش مجھے پہلے ہی اِس بات کا احساس ہو جاتا۔ مَیں نے اُس بھائی کی طرف سے ملنے والے مشورے کو قبول نہیں کِیا۔ ہماری بات‌چیت اِتنی اچھی نہیں رہی۔ مَیں بہت غصے میں آ گیا تھا کیونکہ مجھے لگ رہا تھا کہ وہ بھائی میرا حوصلہ بڑھانے اور میری تعریف کرنے کی بجائے مجھ پر کچھ زیادہ ہی تنقید کر رہا ہے۔ مَیں نے اِس وجہ سے اُس کے مشورے کو قبول نہیں کِیا کیونکہ مَیں سوچ رہا تھا کہ مجھے مشورہ دے کون رہا ہے اور جس طرح سے مجھے مشورہ دیا گیا ہے، وہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔‏

فرانسیسی زبان میں تقریر کرنے کے بعد مَیں نے ایک اہم سبق سیکھا۔‏

پھر کچھ دنوں بعد برانچ کی کمیٹی کے ایک رُکن نے مجھ سے اِس بارے میں بات کی۔ مَیں نے تسلیم کِیا کہ مَیں نے مشورے کو اچھے طریقے سے قبول نہیں کِیا تھا۔ مجھے اپنے رویے پر بہت شرمندگی تھی۔ بعد میں مَیں نے اُس بھائی سے بات کی جس نے مجھے تقریر کرنے کے حوالے سے مشورہ دیا تھا۔ مَیں نے اُس سے معافی مانگی اور اُس نے مجھے دل سے معاف کر دیا۔ اپنی زندگی کے اِس واقعے سے مَیں نے سیکھا کہ ہمارے لیے خاکساری سے کام لینا کتنا ضروری ہے۔ مَیں یہ بات کبھی نہیں بھولوں گا۔ (‏اَمثا 16:‏18‏)‏ مَیں نے اِس بارے میں یہوواہ سے بہت بار دُعا کی۔ مَیں نے عزم کِیا ہے کہ جب بھی کوئی مجھے مشورہ دے گا یا نصیحت کرے گا تو مَیں آگے سے کبھی بھی بُرا رویہ نہیں دِکھاؤں گا۔‏

ابھی مجھے کینیڈا بیت‌ایل میں خدمت کرتے ہوئے 40 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ 1985ء سے مجھے برانچ کی کمیٹی کے ایک رُکن کے طور پر خدمت کرنے کا اعزاز ملا ہے۔ فروری 2021ء میں میری جیون ساتھی موت کی نیند سو گئی۔ مجھے اُس کے بچھڑنے کا بہت دُکھ ہے۔ مَیں نہ صرف اِس دُکھ سے لڑ رہا ہوں بلکہ مجھے صحت کے کئی مسئلوں سے بھی لڑنا پڑ رہا ہے۔ لیکن یہوواہ کی خدمت کرنے کی وجہ سے مَیں بہت خوش اور مصروف رہتا ہوں اور مجھے دن گزر جانے کا ’‏پتہ بھی نہیں چلتا۔‘‏ (‏واعظ 5:‏20‏)‏ حالانکہ مجھے زندگی میں بہت سی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اِس دوران مجھے بہت سی ایسی برکتیں بھی ملیں جن سے میری زندگی خوشیوں سے بھر گئی۔ یہوواہ کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دینے اور 70 سال سے کُل‌وقتی طور پر اُس کی خدمت کرنے سے مَیں سچ میں بہت خوش اور مطمئن ہوں۔ میری دُعا ہے کہ ہمارے نوجوان بہن بھائی بھی یہوواہ کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیتے رہیں۔ مجھے پکا یقین ہے کہ ایسا کرنے سے اُنہیں بھی زندگی میں وہ خوشیاں اور برکتیں ملیں گی جو صرف یہوواہ کی خدمت کرنے سے ہی مل سکتی ہیں۔‏

a ‏1 فروری 2000ء کے ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ میں بھائی مارسل فل‌ٹیو کی آپ‌بیتی ”‏یہوواہ میری پناہ‌گاہ اور میری طاقت ہے‏“‏ کو دیکھیں۔‏

b ‏1957ء تک افریقہ کا یہ علاقہ برطانوی نوآبادی کا حصہ تھا جسے گولڈ کوسٹ کہا جاتا تھا۔‏

c ‏1 دسمبر 2000ء کے ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ میں بھائی ہربرٹ جے‌نگز کی آپ‌بیتی ”‏تُم نہیں جانتے کہ کل کیا ہوگا‏“‏ کو دیکھیں۔‏

d اُس وقت بھائی ناتھن نار یہوواہ کے گواہوں کے کام میں اُن کی پیشوائی کر رہے تھے۔‏