مطالعے کا مضمون نمبر 8
گیت نمبر 123: تابعدار ہوں
یہوواہ کی رہنمائی میں چلتے رہیں
”مَیں ہی[یہوواہ]تیرا خدا ہوں جو تجھے . . . اُس راہ میں جس میں تجھے جانا ہے لے چلتا ہوں۔“—یسع 48:17۔
غور کریں:
اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ یہوواہ آج اپنے بندوں کی رہنمائی کیسے کر رہا ہے اور اُس کی رہنمائی میں چلنے سے ہمیں کون سی برکتیں ملتی ہیں۔
1. ایک مثال دے کر بتائیں کہ ہمیں یہوواہ کی رہنمائی میں کیوں چلنا چاہیے۔
فرض کریں کہ آپ ایک جنگل میں کھو گئے ہیں۔ آپ کے اِردگِرد خطرہ ہی خطرہ ہے۔ وہاں جنگلی جانور، زہریلے کیڑے مکوڑے اور زہریلے پودے ہیں۔ آپ کسی گڑھے میں بھی گِر سکتے ہیں۔ اب ذرا سوچیں کہ اگر ایسی صورتحال میں آپ کے ساتھ ایک ایسا شخص ہو جسے یہ بھی پتہ ہو کہ کہاں خطرہ ہے اور یہ بھی کہ وہ آپ کو اِن خطروں سے کیسے بچا سکتا ہے تو آپ کو کتنی تسلی ہوگی! یہ دُنیا بھی ایک جنگل کی طرح ہے۔ یہ ایسے خطروں سے بھری ہوئی ہے جو یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی کو تباہ کر سکتے ہیں۔ لیکن یہوواہ ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔ وہ ہمیں خطروں سے بچاتا ہے اور ہمیں ہماری منزل یعنی نئی دُنیا تک لے جاتا ہے۔
2. یہوواہ ہماری رہنمائی کیسے کرتا ہے؟
2 یہوواہ ہماری رہنمائی کیسے کرتا ہے؟ یہوواہ خاص طور پر اپنے کلام بائبل کے ذریعے ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن وہ کچھ اِنسانوں کے ذریعے بھی ایسا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ ”وفادار اور سمجھدار غلام“ کے ذریعے ہمیں روحانی کھانا دے رہا ہے جس کی مدد سے ہم اچھے فیصلے کر پاتے ہیں۔ (متی 24:45) یہوواہ کچھ اَور قابل بھائیوں کے ذریعے بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر حلقے کے نگہبان اور کلیسیا کے بزرگ ہمارا حوصلہ بڑھاتے ہیں اور ہمیں ایسی ہدایتیں دیتے ہیں جن کی مدد سے ہم مشکلوں سے نمٹ پاتے ہیں۔ ہم یہوواہ کے بہت شکرگزار ہیں کہ وہ اِس آخری زمانے میں اِتنی اچھی طرح ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔ اُس کی رہنمائی کی وجہ سے ہماری اُس کے ساتھ دوستی رہتی ہے اور ہم زندگی کی راہ پر چلتے رہتے ہیں۔
3. اِس مضمون میں ہم کس بارے میں بات کریں گے؟
3 لیکن پھر بھی شاید کبھی کبھار ہمیں یہوواہ کی رہنمائی میں چلنا مشکل لگے، خاص طور پر اُس وقت جب اُس کی طرف سے ہدایتیں ہمیں عیبدار اِنسان دے رہے ہوں۔ لیکن کیوں؟ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں جو ہدایتیں دیں، وہ ہمیں پسند نہ آئیں۔ یا شاید ہمیں لگ رہا ہو کہ فلاں ہدایت اِتنے کام کی نہیں ہے اِس لیے یہ یہوواہ کی طرف سے تو نہیں ہو سکتی۔ ایسی صورتحال میں ہمیں خاص طور پر اپنے اِس بھروسے کو بڑھانا ہوگا کہ اصل میں یہوواہ اپنے بندوں کی رہنمائی کر رہا ہے اور اُس کی رہنمائی میں چلنے سے ہمیں بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ اپنے اِس بھروسے کو بڑھانے کے لیے ہم اِس مضمون میں اِن تین باتوں پر غور کریں گے: (1)یہوواہ نے پُرانے زمانے میں اپنے بندوں کی رہنمائی کیسے کی؟ (2)وہ آج ہماری رہنمائی کیسے کر رہا ہے؟ اور (3)اُس کی رہنمائی میں چلنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟
یہوواہ نے بنیاِسرائیل کی رہنمائی کیسے کی؟
4-5. یہوواہ نے کیسے ثابت کِیا کہ وہ موسیٰ کے ذریعے بنیاِسرائیل کی رہنمائی کر رہا ہے؟ (سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔)
4 یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو مصر سے نکالنے کے لیے موسیٰ کو چُنا۔ اور اُس نے پوری قوم کے سامنے یہ بات ثابت کی کہ وہ موسیٰ کے ذریعے اُن کی رہنمائی کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر یہوواہ نے اُنہیں راستہ دِکھانے کے لیے دن میں بادل کا ستون اور رات میں آگ کے ستون کا بندوبست کِیا۔ (خر 13:21) موسیٰ اِن ستونوں کے پیچھے پیچھے چلے اور پھر موسیٰ اور بنیاِسرائیل بحیرۂاحمر (بحرِقلزم) کے پاس پہنچ گئے۔ جب لوگوں کو یہ لگنے لگا کہ وہ سمندر اور مصری فوج کے بیچ پھنس گئے ہیں تو وہ بہت ڈر گئے۔ اُنہیں لگا کہ موسیٰ غلطی سے اُنہیں یہاں لے آئے ہیں۔ لیکن یہ کوئی غلطی نہیں تھی؛ یہوواہ سوچ سمجھ کر موسیٰ کے ذریعے اُنہیں یہاں لایا تھا۔ (خر 14:2) اِس کے بعد یہوواہ نے بڑے زبردست طریقے سے بنیاِسرائیل کو مصریوں سے نجات دِلائی۔—خر 14:26-28۔
5 پھر اگلے 40 سال تک موسیٰ بادل کے ستون کے ذریعے ویرانے میں خدا کے بندوں کی رہنمائی کرتے رہے۔ a کچھ وقت کے لیے یہوواہ نے موسیٰ کے خیمے کے اُوپر ابر کے ستون کو ٹھہرا دیا اور پوری قوم اِسے دیکھ سکتی تھی۔ (خر 33:7، 9، 10) یہوواہ اِس کے ذریعے موسیٰ سے بات کرتا تھا اور پھر موسیٰ یہوواہ کی ہدایتیں پوری قوم کو بتاتے تھے۔ (زبور 99:7) بنیاِسرائیل کے پاس اِس بات کے کئی ثبوت تھے کہ یہوواہ موسیٰ کے ذریعے اُن کی رہنمائی کر رہا ہے۔
6. بنیاِسرائیل نے یہوواہ کی رہنمائی کو کیسا خیال کِیا؟ (گنتی 14:2، 10، 11)
6 افسوس کی بات ہے کہ بنیاِسرائیل میں سے زیادہتر نے اِس بات کے ثبوتوں کو نظرانداز کر دیا کہ یہوواہ موسیٰ کے ذریعے اُن سے بات کر رہا ہے۔ (گنتی 14:2، 10، 11 کو پڑھیں۔) اُنہوں نے بار بار اِس بات کو ماننے سے اِنکار کِیا کہ موسیٰ کا ایک اہم کردار ہے۔ اِس وجہ سے بنیاِسرائیل کی ایک پوری نسل اُس ملک میں نہیں جا سکی جسے دینے کا یہوواہ نے وعدہ کِیا تھا۔—گن 14:30۔
7. کچھ ایسے لوگوں کے بارے میں بتائیں جو یہوواہ کی رہنمائی میں چلے۔ (گنتی 14:24) (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
7 لیکن بنیاِسرائیل میں سے کچھ نے یہوواہ کی رہنمائی کو قبول کِیا۔ مثال کے طور پر یہوواہ نے کہا: ”کالب . . . نے میری پوری پیروی کی ہے۔“ (گنتی 14:24 کو پڑھیں۔) یہوواہ نے کالب کو اجر دیا اور اُنہیں ملک کنعان میں وہ جگہ دی جہاں وہ رہنا چاہتے تھے۔ (یشو 14:12-14) بنیاِسرائیل کی اگلی نسل نے بھی یہوواہ کی رہنمائی کو قبول کرنے کے حوالے سے اچھی مثال قائم کی۔ جب موسیٰ کے بعد یشوع نے بنیاِسرائیل کی پیشوائی کرنی شروع کی تو بنیاِسرائیل ”زندگی بھر[اُن]کا احترام کرتے رہے۔“ (یشو 4:14، نیو اُردو بائبل ورشن) اِس وجہ سے یہوواہ نے اُنہیں برکت دی اور وہ اُنہیں اُس ملک میں لے گیا جسے دینے کا اُس نے وعدہ کِیا تھا۔—یشو 21:43، 44۔
8. بتائیں کہ یہوواہ نے بادشاہوں کے زمانے میں اپنے بندوں کی رہنمائی کیسے کی۔ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
8 کئی سالوں بعد یہوواہ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کرنے کے لیے قاضیوں کو مقرر کِیا۔ پھر بادشاہوں کے زمانے میں یہوواہ نے نبیوں کے ذریعے اپنے بندوں کی رہنمائی کی۔ جو بادشاہ یہوواہ کے وفادار تھے، اُنہوں نے نبیوں کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں کو مانا۔ مثال کے طور پر بادشاہ داؤد نے ناتن نبی کی طرف سے ملنے والی اِصلاح کو قبول کِیا۔ (2-سمو 12:7، 13؛ 1-توا 17:3، 4) بادشاہ یہوسفط نے رہنمائی کے لیے یحزیایل نبی پر بھروسا کِیا اور لوگوں سے کہا کہ وہ ’خدا کے نبیوں کا یقین کریں۔‘ (2-توا 20:14، 15، 20) جب بادشاہ حِزقیاہ بہت پریشان تھے تو اُنہوں نے یسعیاہ نبی سے مدد مانگی۔ (یسع 37:1-6) جب بھی کسی بادشاہ نے یہوواہ پر بھروسا رکھا، اُسے برکتیں ملیں اور اُس کی قوم محفوظ رہی۔ (2-توا 20:29، 30؛ 32:22) سب یہ دیکھ سکتے تھے کہ یہوواہ نبیوں کے ذریعے اپنے بندوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔ لیکن پھر بھی بہت سے بادشاہوں اور لوگوں نے خدا کے نبیوں کی بات نہیں مانی۔—یرم 35:12-15۔
یہوواہ نے پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کی رہنمائی کیسے کی؟
9. یہوواہ نے پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کی رہنمائی کن کے ذریعے کی؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
9 یہوواہ نے پہلی صدی عیسوی میں مسیحی کلیسیا کو قائم کِیا۔ اُس نے پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کی رہنمائی کیسے کی؟ اُس نے یسوع کو کلیسیا کا سربراہ بنایا۔ (اِفِس 5:23) لیکن یسوع نے خود آ کر شاگردوں کو ہدایتیں نہیں دیں۔ اُنہوں نے یروشلم کے رسولوں اور بزرگوں کے ذریعے ایسا کِیا۔ (اعما 15:1، 2) کلیسیاؤں میں بھی بزرگوں کو مقرر کِیا گیا تاکہ وہ بہن بھائیوں کی دیکھبھال کر سکیں۔—1-تھس 5:12؛ طِط 1:5۔
10. (الف)پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں نے اُس رہنمائی کو کیسا خیال کِیا جو اُنہیں مل رہی تھی؟ (اعمال 15:30، 31) (ب)پُرانے زمانے میں کچھ لوگوں نے اُن آدمیوں کی بات کیوں نہیں سنی جن کے ذریعے یہوواہ اُن کی رہنمائی کر رہا تھا؟ (بکس ” کچھ لوگوں نے ثبوتوں کو نظرانداز کیوں کر دیا؟“ کو دیکھیں۔)
10 پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں نے اُس رہنمائی کو کیسا خیال کِیا جو اُنہیں مل رہی تھی؟ زیادہتر مسیحیوں نے بڑی خوشی خوشی اُن ہدایتوں کے مطابق کام کِیا جو اُنہیں مل رہی تھیں۔ وہ تو اُن ”حوصلہافزا باتوں سے بہت خوش ہوئے“ جو اُن سے کہی جاتی تھیں۔ (اعمال 15:30، 31 کو پڑھیں۔) لیکن یہوواہ آج اپنے بندوں کی رہنمائی کیسے کر رہا ہے؟
یہوواہ آج اپنے بندوں کی رہنمائی کیسے کر رہا ہے؟
11. ایک مثال دیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ اُن بھائیوں کی رہنمائی کرتا ہے جو ہماری پیشوائی کرتے ہیں۔
11 یہوواہ آج بھی اپنے بندوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے کلام اور اپنے بیٹے یسوع مسیح کے ذریعے کر رہا ہے جو کلیسیا کے سربراہ ہیں۔ کیا ہم اِس بات کے ثبوت دیکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ آج اِنسانوں کے ذریعے بھی اپنے بندوں کی رہنمائی کر رہا ہے؟ جی بالکل۔ ذرا اِس بارے میں سوچیں کہ 1870ء کے بعد کیا ہوا۔ بھائی چارلس ٹیز رسل اور اُن کے ساتھی یہ بات سمجھ گئے تھے کہ 1914ء کا سال خدا کی بادشاہت کے لیے ایک بہت اہم سال ہوگا۔ (دان 4:25، 26) اِس بات کو سمجھنے کے لیے اُنہوں نے بائبل سے تحقیق کی اور اِس بات کا بھروسا رکھا کہ وہ بائبل میں لکھی پیشگوئیوں کو پورا ہوتا دیکھیں گے۔ کیا یہوواہ نے تحقیق کرنے میں اُن کی رہنمائی کی؟ بےشک اُس نے ایسا کِیا۔ 1914ء میں دُنیا میں ہونے والے واقعات سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ خدا کی بادشاہت نے حکمرانی شروع کر دی ہے۔ پہلی عالمی جنگ شروع ہو گئی، وبائیں پھیلنے لگیں، زلزلے آنے لگے اور کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہونے لگی۔ (لُو 21:10، 11) بےشک یہوواہ اِن آدمیوں کے ذریعے اپنے بندوں کی رہنمائی کر رہا تھا۔
12-13. دوسری عالمی جنگ کے دوران مُنادی اور تعلیم دینے کا کام اَور زیادہ کرنے کے لیے کیا بندوبست بنائے گئے؟
12 ذرا اِس بات پر بھی غور کریں کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران کیا ہوا۔ مرکزی دفتر میں پیشوائی کرنے والے بھائیوں نے مُکاشفہ 17:8 کو پڑھنے اور اِس پر تحقیق کرنے کے بعد یہ بات سمجھ لی کہ اِس عالمی جنگ کی وجہ سے ہرمجِدّون کی جنگ شروع نہیں ہوگی بلکہ اِس کے بعد ایک ایسا دَور آئے گا جس میں یہوواہ کے گواہ زیادہ سے زیادہ لوگوں میں مُنادی کر پائیں گے۔ اِس لیے یہوواہ کی تنظیم نے گلئیڈ سکول کا بندوبست بنایا حالانکہ اُس وقت یہ منصوبہ اِتنا کام کا نہیں لگ رہا تھا۔ لیکن اُنہوں نے یہ بندوبست اِس لیے بنایا تاکہ پوری دُنیا میں مُنادی کرنے اور تعلیم دینے کے لیے مشنریوں کو ٹریننگ دی جا سکے۔ جنگ کے دوران بھی مشنریوں کو فرق فرق جگہوں میں بھیجا گیا۔ اِس کے علاوہ وفادار غلام نے ایک خاص سکول b کا بندوبست بھی کِیا تاکہ کلیسیا کے بہن بھائیوں کو ایک اچھا مُناد اور اُستاد بننے کی ٹریننگ دی جا سکے۔ اِس طرح یہوواہ کے بندوں نے آنے والے وقت میں زیادہ سے زیادہ مُنادی کرنے کے لیے خود کو تیار کِیا۔
13 ہم یہ بات صاف طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ مشکل وقت کے دوران اپنے بندوں کی رہنمائی کرتا آیا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یہوواہ کے بندے بہت سے ملکوں میں کسی حد تک آزادی سے مُنادی کر رہے ہیں یہاں تک کہ یہ کام پوری دُنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔
14. ہم یہوواہ کی تنظیم اور کلیسیا کے بزرگوں کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں پر کیوں بھروسا رکھ سکتے ہیں؟ (مُکاشفہ 2:1) (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
14 گورننگ باڈی مسیح کی رہنمائی پر بھروسا رکھتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ وہ بہن بھائیوں کو جو ہدایتیں دے، اُن سے یہ نظر آئے کہ یہ ہدایتیں یہوواہ کی طرف سے ہیں۔ وہ حلقے کے نگہبانوں اور بزرگوں کے ذریعے یہ ہدایتیں کلیسیا کے بہن بھائیوں تک پہنچاتی ہے۔ c مسحشُدہ بزرگ مسیح کے ”دائیں ہاتھ“ ہیں۔ (مُکاشفہ 2:1 کو پڑھیں۔) بےشک یہ بزرگ عیبدار ہیں اور اِن سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ کچھ موقعوں پر موسیٰ اور یشوع سے بھی غلطیاں ہوئیں اور بعد میں رسولوں سے بھی۔ (گنتی 20:12؛ یشو 9:14؛ روم 3:23) لیکن مسیح بڑے دھیان سے وفادار غلام اور کلیسیا کے بزرگوں کی رہنمائی کرتا ہے اور وہ ”دُنیا کے آخری زمانے تک“ ایسا کرتا رہے گا۔ (متی 28:20) اِس لیے ہم پیشوائی کرنے والے بھائیوں کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں پر آنکھیں بند کر کے بھروسا کر سکتے ہیں۔
یہوواہ کی رہنمائی میں چلنے سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے
15-16. آپ نے اُن لوگوں سے کیا سیکھا ہے جو یہوواہ کی رہنمائی میں چلے؟
15 جب ہم یہوواہ کی رہنمائی میں چلتے ہیں تو ہمیں آج بھی بہت سی برکتیں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر بھائی اینڈی اور اُن کی بیوی روبین نے وفادار غلام کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو سادہ بنایا۔ (عبر 13:5) اِس وجہ سے وہ دونوں ہماری تنظیم کے تعمیراتی منصوبوں پر کام کر سکے۔ بہن روبین نے کہا: ”کبھی کبھار ہمیں اِتنی چھوٹی سی جگہوں پر رہنا پڑتا تھا کہ ہمارے پاس کھانا بنانے کی جگہ بھی نہیں ہوتی تھی۔ مَیں نے اپنے کیمرے بھی بیچ دیے حالانکہ مجھے تصویریں کھینچنے کا بہت شوق تھا۔ اِس وجہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ لیکن اَبراہام کی بیوی سارہ کی طرح مَیں نے یہ عزم کِیا تھا کہ مَیں کبھی پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھوں گی۔“ (عبر 11:15) اِس میاں بیوی کو اپنی زندگی سادہ بنانے سے کیا فائدہ ہوا؟ بہن روبین نے کہا: ”ہم اِس بات سے بہت خوش ہیں کہ ہم یہوواہ کو اپنا سب کچھ دے رہے ہیں۔ جب ہم تنظیم کے تعمیراتی منصوبوں پر کام کرتے ہیں تو ہم اِس بات کی ایک جھلک دیکھ پاتے ہیں کہ نئی دُنیا میں زندگی کیسی ہوگی۔“ بھائی اینڈی نے بھی یہ بات مانی۔ اُنہوں نے کہا:”ہم اِس بات سے بہت خوش ہیں کہ ہم اپنا وقت اور طاقت یہوواہ کے کام میں لگا رہے ہیں۔“
16 ہمیں یہوواہ کی رہنمائی میں چلنے سے اَور کیا فائدہ ہوتا ہے؟ بہن مارسیا نے کالج کی پڑھائی ختم کرنے کے بعد تنظیم کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے یہوواہ کی خدمت کے حوالے سے اپنا منصوبہ پورا کرنے کے بارے میں سوچا۔ (متی 6:33؛ روم 12:11) اُنہوں نے کہا: ”مجھے یونیورسٹی میں چار سال تک پڑھائی کرنے کے لیے سکالرشپ ملی۔ لیکن مَیں یہوواہ کی خدمت کے حوالے سے اپنا منصوبہ پورا کرنا چاہتی تھی۔ اِس لیے مَیں نے ایک ایسا ہنر سیکھا جس کے ذریعے مَیں اِتنے پیسے کما سکتی تھی کہ مَیں پہلکار کے طور پر خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ضرورتیں بھی پوری کر سکوں۔ یہ میری زندگی کا سب سے اچھا فیصلہ تھا۔ اب مَیں پہلکار ہوں اور چونکہ مَیں نے ایک ہنر سیکھا تھا اِس لیے مَیں اپنی مرضی کے وقت کام کر سکتی ہوں اور اِس وجہ سے مَیں بیتایل کے کام میں ہاتھ بٹا پاتی ہوں اور یہوواہ کے لیے اَور بھی بہت کچھ کر پاتی ہوں۔“
17. یہوواہ کی رہنمائی میں چلنے سے ہمیں اَور کیا فائدے ہوتے ہیں؟ (یسعیاہ 48:17، 18)
17 کبھی کبھار ہمیں تنظیم کی طرف سے ایسی ہدایتیں ملتی ہیں جن کی وجہ سے ہم محفوظ رہ پاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں پیسے سے پیار کرنے اور ایسے کام کرنے سے خبردار کِیا جاتا ہے جن کی وجہ سے ہم یہوواہ کے اصول توڑنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اِن معاملوں میں بھی یہوواہ کی رہنمائی میں چلنے سے ہمیں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ہمارا ضمیر صاف رہتا ہے اور ہم غیرضروری پریشانیوں سے بچ جاتے ہیں۔ (1-تیم 6:9، 10) اِس طرح ہم دلوجان سے یہوواہ کی خدمت کر پاتے ہیں اور ہمیں دلی سکون، اِطمینان اور خوشی ملتی ہے۔—یسعیاہ 48:17، 18 کو پڑھیں۔
18. آپ نے یہوواہ کی رہنمائی میں چلنے کا عزم کیوں کِیا ہے؟
18 بےشک یہوواہ بڑی مصیبت کے دوران اور مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی میں ہمیں کچھ اِنسانوں کے ذریعے ہدایتیں دیتا رہے گا۔ (زبور 45:16) کیا ہم اُس وقت بھی اِن ہدایتوں پر عمل کریں گے جب یہ ہماری پسند کی نہیں ہوں گی؟ ایسا کرنا اُسی وقت آسان ہوگا اگر ہم ابھی سے یہوواہ کی رہنمائی پر بھروسا رکھیں گے۔ اِس لیے آئیے یہوواہ کی رہنمائی میں چلتے رہیں اور اُن ہدایتوں پر عمل کریں جو ہمیں اُن آدمیوں کے ذریعے ملتی ہیں جنہیں یہوواہ نے ہماری رہنمائی کرنے کے لیے مقرر کِیا ہے۔ (یسع 32:1، 2؛ عبر 13:17) ہم اپنے رہنما یہوواہ پر پوری طرح بھروسا کر سکتے ہیں کیونکہ وہ ہمیں ہر ایسی چیز سے بچا کر رکھے گا جس کی وجہ سے اُس کے ساتھ ہماری دوستی تباہ ہو سکتی ہے اور وہ ہمیں ہماری منزل یعنی نئی دُنیا تک لے جائے گا۔
آپ اِن سوالوں کے کیا جواب دیں گے؟
-
یہوواہ نے بنیاِسرائیل کی رہنمائی کیسے کی؟
-
یہوواہ نے پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کی رہنمائی کیسے کی؟
-
یہوواہ کی رہنمائی میں چلنے سے ہمیں کون سے فائدے ہوتے ہیں؟
گیت نمبر 48: ہر روز خدا کی رہنمائی پر چلیں
a یہوواہ نے ایک فرشتے کو مقرر کِیا ”جو اِسرائیلی لشکر کے آگے آگے چلا کرتا تھا“ اور جو اُس ملک میں جانے میں اُن کی رہنمائی کرتا تھا جسے دینے کا یہوواہ نے اُن سے وعدہ کِیا تھا۔ یہ فرشتہ میکائیل تھا جو کہ اُس وقت یسوع مسیح کا نام تھا جب وہ زمین پر آنے سے پہلے آسمان پر فرشتوں کے سردار تھے۔—خر 14:19؛ 32:34۔
b اِسے بعد میں ”مسیحی خدمتی سکول“ کہا جانے لگا۔ آج یہ ٹریننگ ہمیں ہفتے کے دوران ہونے والی عبادت میں ملتی ہے۔
c ”مینارِنگہبانی،“ فروری 2021ء کے صفحہ نمبر 18 پر بکس ”گورننگ باڈی کا کردار“ کو دیکھیں۔