خود کو حد سے زیادہ اہم نہ سمجھیں
آج دُنیا میں بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ اُنہیں دوسروں سے زیادہ اہم سمجھا جانا چاہیے اور اُنہیں خاص اعزاز ملنے چاہئیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے اُن کے آگے پیچھے گھومتے پھریں۔ لیکن چاہے اِن لوگوں کو جتنا بھی سر آنکھوں پر بٹھا لیا جائے یا جتنے بھی اعزاز دے دیے جائیں، اُنہیں یہ کم ہی لگتے ہیں۔ ایسی سوچ اُنہی لوگوں میں پائی جاتی ہے جو خودغرض اور ناشکرے ہوتے ہیں۔ بائبل میں تو پہلے سے ہی بتا دیا گیا تھا کہ آخری زمانے میں اِسی طرح کے لوگ ہوں گے۔—2-تیم 3:2۔
بےشک شروع سے ہی دُنیا میں خود غرض لوگوں کی کمی نہیں رہی۔ مثال کے طور پر آدم اور حوّا خود یہ فیصلہ کرنا چاہتے تھے کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا اور آج ہم سبھی اِس کے نتیجے بھگت رہے ہیں۔ ایک اَور مثال یہوداہ کے بادشاہ عُزیاہ ہیں جنہیں لگا کہ بادشاہ ہونے کی وجہ سے اُنہیں یہ حق مل گیا ہے کہ وہ ہیکل میں جا کر بخور جلائیں۔ لیکن یہ اُن کی بھول تھی۔ (2-توا 26:18، 19) اِس کے علاوہ فریسیوں اور صدوقیوں کو اِس بات پر بڑا مان تھا کہ وہ اَبراہام کی اولاد ہیں۔ اُنہیں لگتا تھا کہ اِس وجہ سے خدا کو اُن پر خاص مہربانیاں کرنی چاہئیں۔—متی 3:9۔
آج ہم ایسے لوگوں میں گِھرے ہوئے ہیں جو بہت ہی خود غرض اور اَناپرست ہیں۔ اِن لوگوں کے بُرے رویے اور سوچ کا ہم پر بھی اثر ہو سکتا ہے۔ (گل 5:26) شاید ہم بھی یہ سوچنے لگیں کہ فلاں اعزاز کو پانا ہمارا حق ہے یا ہمیں دوسروں سے زیادہ عزت ملنی چاہیے۔ ہم ایسی سوچ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ ہم اِس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ یہوواہ اِس طرح کی سوچ کو کیسا خیال کرتا ہے۔ اِس سلسلے میں بائبل کے دو اصول ہمارے بہت کام آ سکتے ہیں۔
صرف یہوواہ طے کرتا ہے کہ کون کس بات کا حقدار ہے۔ ذرا اِس کی کچھ مثالوں پر غور کریں۔
-
اِفِس 5:33) شوہر اور بیوی دونوں ہی اِس بات کا حق رکھتے ہیں کہ اُن کا جیون ساتھی اُن کے علاوہ کسی غیرمرد یا عورت سے محبت نہ کرے۔ (1-کُر 7:3) ہر ماں باپ کا یہ حق ہے کہ اُن کے بچے اُن کی فرمانبرداری کریں اور بچوں کا بھی یہ حق ہے کہ اُن کے ماں باپ اُنہیں محبت اور توجہ دیں۔—2-کُر 12:14؛ اِفِس 6:2۔
ایک گھرانے میں ایک شوہر کا یہ حق ہے کہ اُس کی بیوی اُس کا دل سے احترام کرے اور ایک بیوی کا یہ حق ہے کہ اُس کا شوہر اُس سے محبت کرے۔ ( -
یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم کلیسیا کے بزرگوں کی عزت کریں کیونکہ وہ کلیسیا میں بہت محنت سے کام کرتے ہیں۔ (1-تھس 5:12) لیکن یہوواہ نے بزرگوں کو یہ حق یا اِختیار نہیں دیا کہ وہ اپنے بہن بھائیوں پر حکم چلائیں۔—1-پطر 5:2، 3۔
-
اِنسانی حکومتوں کو خدا کی طرف سے یہ اِختیار ملا ہے کہ وہ اپنی عوام سے ٹیکس لیں اور اُن کی عوام اُن کی عزت کرے۔—روم 13:1، 6، 7۔
یہوواہ نے ہمیں اِتنی زیادہ برکتیں دی ہیں جن کے ہم لائق بھی نہیں ہیں۔ گُناہگار ہونے کی وجہ سے ہم صرف اور صرف موت کے لائق تھے۔ (روم 6:23) لیکن یہوواہ نے ہم سے اٹوٹ محبت کرنے کی وجہ سے ہمیں بہت سی برکتیں دی ہیں۔ (زبور 103:10، 11) یہ ساری برکتیں ہمیں اِس وجہ سے نہیں ملیں کیونکہ ہم اِن کے حقدار تھے بلکہ یہ ہمیں یہوواہ کی عظیم رحمت کی وجہ سے ملی ہیں۔—روم 12:6-8؛ اِفِس 2:8۔
خودغرضی اور اَناپرستی سے کیسے بچیں؟
شیطان کی دُنیا کی سوچ اپنانے سے خبردار رہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم یہ سوچنے لگیں کہ ہمیں دوسرے لوگوں سے زیادہ اعزاز یا اُن سے زیادہ عزت ملنی چاہیے۔ کبھی کبھار تو ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم میں یہ سوچ پیدا ہو گئی ہے۔ یسوع مسیح نے ایک مثال کے ذریعے بتایا کہ ایسی سوچ کتنی آسانی سے سر اُٹھا سکتی ہے۔ اُنہوں نے انگور کے باغ میں کام کرنے والے مزدوروں کی مثال دی جو پورا دن ایک دینار کی مزدوری پر کام کرنے کے لیے تیار تھے۔ بعد میں اُس باغ کے مالک نے کچھ اَور مزدوروں کو بھی اپنے باغ میں کام کرنے کے لیے بھیجا۔ پھر جب شام ہوئی تو اُس مالک نے تمام مزدوروں کو ایک جیسی مزدوری دی، یہاں تک کہ اُن لوگوں کو بھی جنہوں نے صرف ایک گھنٹہ کام کِیا تھا۔ جن مزدوروں نے صبح سویرے کام کرنا شروع کِیا تھا، اُنہیں لگا کہ اُنہیں دوسروں سے زیادہ مزدوری ملے گی کیونکہ اُنہوں نے سارا دن تپتی دھوپ میں کام کِیا ہے۔ (متی 20:1-16) اِس مثال کے ذریعے یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ اُنہیں اُن چیزوں پر مطمئن رہنا چاہیے جو یہوواہ خوشی سے اُنہیں دے رہا ہے۔
دوسروں سے حد سے زیادہ توقع نہ کریں بلکہ اُن کی طرف سے ملنے والی مدد کے لیے شکرگزار ہوں۔ (1-تھس 5:18) پولُس رسول کی مثال پر عمل کریں۔ اُنہوں نے کُرنتھس میں رہنے والے بہن بھائیوں سے یہ توقع نہیں کی کہ وہ اُنہیں ضرورت کی ہر چیز دیں حالانکہ اگر پولُس ایسا کرتے تو یہ غلط نہ ہوتا۔ (1-کُر 9:11-14) ہمیں اپنے بہن بھائیوں سے جس طرح کی بھی مدد ملتی ہے، ہمیں اُس کے لیے اُن کا شکرگزار ہونا چاہیے نہ کہ اُن سے اَور زیادہ چیزیں حاصل کرنے کی توقع کرنی چاہیے۔
خاکسار بنیں۔ جو شخص خود کو زیادہ اہم سمجھتا ہے، اکثر وہ یہ سوچنے لگتا ہے کہ اُسے اُن اعزاز سے بھی بڑھ کر اعزاز ملنے چاہئیں جو پہلے سے ہی اُس کے پاس ہیں۔ ایسی سوچ زہر کی طرح ہوتی ہے اور اِس زہر کا توڑ خاکساری کی خوبی ہے۔
دانیایل نبی نے خاکساری کی شاندار مثال قائم کی۔ وہ بنیاِسرائیل کے بہت ہی اہم گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، وہ بہت خوبصورت اور ذہین تھے اور اُن میں بہت سی صلاحیتیں تھیں۔ اِن سب باتوں کی وجہ سے وہ یہ سوچ سکتے تھے کہ اُنہیں جو عزت دی گئی ہے اور جو اعزاز ملے ہیں، وہ اُس کے واقعی حقدار ہیں۔ (دان 1:3، 4، 19، 20) لیکن دانیایل نے ایسا نہیں سوچا۔ وہ خاکسار رہے اور اِس خوبی کی وجہ سے ہی وہ یہوواہ کو عزیز ہو گئے۔—دان 2:30؛ 10:11، 12۔
یہ دُنیا خود غرض اور اَناپرست لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن ہمارا عزم ہے کہ ہم اِن لوگوں کی سوچ اور رویے کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیں گے۔ اِس کی بجائے ہم یہوواہ کی طرف سے ملنے والی ہر اُس برکت کو پا کر خوش رہیں گے جو وہ اپنی عظیم رحمت کی وجہ سے ہمیں دیتا ہے۔