آپبیتی
”مَیں کبھی اکیلا نہیں تھا“
کبھی کبھار ہماری زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں جن میں ہمیں بہت اکیلےپن کا احساس ہوتا ہے جیسے کہ اُس وقت جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے، ہم کسی نئی جگہ شفٹ ہو جاتے ہیں یا پھر ہم اپنے حالات کی وجہ سے کسی سے مل جُل نہیں سکتے۔ مجھے اپنی زندگی میں اِن سبھی باتوں کا تجربہ ہوا۔ لیکن آج جب مَیں اِن سب باتوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مَیں کبھی اکیلا تھا ہی نہیں۔ آئیے مَیں آپ کو بتاتا ہوں کہ مجھے ایسا کیوں لگتا ہے۔
میرے والدین کی عمدہ مثال
میرے امی ابو کٹر کیتھولک تھے۔ لیکن جب اُنہوں نے بائبل سے سیکھا کہ خدا کا نام یہوواہ ہے تو وہ دونوں یہوواہ کے گواہ بن گئے اور لگن سے اُس کی خدمت کرنے لگے۔ میرے ابو ترکھان تھے اور گواہ بننے سے پہلے اُنہیں یسوع کے مجسّمے بنانا بہت پسند تھا۔ بعد میں ابو نے اپنی اِس مہارت کو اِستعمال کرتے ہوئے ہمارے گھر کی پہلی منزل کو عبادتگاہ میں تبدیل کر دیا۔ تو ہمارا گھر سان خوان ڈیل مونٹے میں یہوواہ کے گواہوں کی پہلی عبادتگاہ بنا۔ یہ علاقہ فلپائن کے دارالحکومت منیلا کے آس پاس تھا۔
مَیں 1952ء میں پیدا ہوا۔ میرے امی ابو نے مجھے بچپن سے ہی یہوواہ کے بارے میں سکھایا۔ اُنہوں نے میرے چار بھائیوں اور تین بہنوں کو بھی یہوواہ کے بارے میں سکھایا جو مجھ سے بڑے تھے۔ پھر جب مَیں تھوڑا بڑا ہوا تو ابو میری حوصلہافزائی کرنے لگے کہ مَیں ہر روز بائبل کا ایک باب پڑھوں۔ وہ میرے ساتھ ہماری تنظیم کی بہت سی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتے تھے۔ کبھی کبھار میرے امی ابو سفری نگہبانوں اور برانچ کے نمائندوں کو بھی ہمارے گھر پر ٹھہرنے کی دعوت دیتے تھے۔ جب یہ بھائی ہمیں اپنے تجربے بتاتے تھے تو ہم سبھی گھر والوں کو اِنہیں سُن کر بہت خوشی ہوتی تھی اور حوصلہ ملتا تھا۔ اِس سے ہمارے دل میں بھی یہ خواہش بڑھی کہ ہم یہوواہ کی خدمت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیں۔
میرے امی ابو بڑی وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتے تھے۔ مَیں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا۔ لیکن پھر میری امی ایک بیماری کی وجہ سے فوت ہو گئیں۔ اُن کے فوت ہو جانے کے بعد مَیں اور میرے ابو پہلکار کے طور پر خدمت کرنے لگے۔ یہ 1971ء کی بات تھی۔ لیکن پھر 1973ء میں جب مَیں 20 سال کا تھا تو میرے ابو بھی فوت ہو گئے۔ مَیں اپنے ماں باپ کو کھو کر بہت اکیلا محسوس کرنے لگا۔ لیکن بائبل میں پائی جانے والی اُمید واقعی ”مضبوط اور قابلِبھروسا“ ہے اور ایک لنگر کی طرح ہے۔ (عبر 6:19) اِس نے مجھے مشکل وقت میں ٹوٹنے نہیں دیا اور یہوواہ کے قریب رہنے میں میری مدد کی۔ اپنے ابو کی موت کے کچھ وقت بعد ہی مَیں نے خصوصی پہلکار کے طور پر خدمت کرنا شروع کر دی۔ مجھے کورون نام کے جزیرے میں خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا جو صوبہ پالاوان میں ہے۔
اکیلے مشکل ذمےداریوں کو نبھانا
جب مَیں کورون پہنچا تو اُس وقت مَیں 21 سال کا تھا۔ مَیں شروع سے ہی شہر میں رہنے کا عادی تھا۔ اِس لیے جب مَیں نے دیکھا کہ اِس جزیرے پر بجلی اور پانی کی
بہت کمی ہے اور یہاں چند ہی موٹر سائیکل اور گاڑیاں وغیرہ ہیں تو مجھے بڑی حیرانی ہوئی۔ حالانکہ اِس جزیرے پر ہمارے کچھ بہن بھائی تھے لیکن وہاں کوئی اَور پہلکار نہیں تھا جو میرے ساتھ مل کر مُنادی کرتا۔ کبھی کبھار مجھے اکیلے ہی مُنادی کرنی پڑتی تھی۔ پہلے مہینے تو مجھے اپنے گھر والے اور دوست بہت ہی زیادہ یاد آتے تھے۔ رات کو جب مَیں ستاروں سے بھرے آسمان کو دیکھتا تھا تو میری آنکھوں سے آنسو ہی نہیں تھمتے تھے۔ میرا دل کرتا تھا کہ مَیں اپنی خدمت چھوڑ کر بس واپس گھر چلا جاؤں۔تنہائی کے اُن لمحوں میں مَیں اپنا دل یہوواہ کے سامنے اُنڈیل دیتا تھا۔ مجھے آج بھی وہ حوصلہافزا باتیں یاد ہیں جو مَیں نے بائبل اور ہماری تنظیم کی کتابوں میں پڑھی تھیں۔ مَیں اکثر زبور 19:14 میں لکھی بات کے بارے میں سوچتا تھا۔ اِس سے مَیں یہ یاد رکھ پاتا تھا کہ اگر میں اُن باتوں کے بارے میں سوچوں گا جو یہوواہ کو پسند ہیں جیسے کہ اُس کے کاموں اور اُس کی خوبیوں کے بارے میں تو وہ میرے لیے ’میری چٹان اور مجھے چھڑانے والا‘ ثابت ہوگا۔ مجھے ایک ”واچٹاور“ میں ایک مضمون کو پڑھ کر بھی بہت حوصلہ ملا جس کا عنوان تھا: ”آپ کبھی اکیلے نہیں ہیں!“ a اِس مضمون کو تو مَیں نے بار بار پڑھا۔ ایک طرح سے اُس وقت مَیں یہوواہ کے ساتھ اکیلا تھا۔ یہ بہت ہی خاص وقت تھا کیونکہ اِس دوران مجھے اُس سے دُعا کرنے، اُس کے کلام کا مطالعہ کرنے اور اِس پر سوچ بچار کرنے کے بہت موقعے ملے۔
مجھے کورون میں رہتے ہوئے ابھی کچھ ہی وقت ہوا تھا کہ مجھے کلیسیا کے بزرگ کے طور پر مقرر کِیا گیا۔ چونکہ وہاں صرف مَیں ہی ایک بزرگ تھا اِس لیے مَیں مسیحی خدمتی سکول، خدمتی اِجلاس، کلیسیائی کتابی مطالعہ، اور ”مینارِنگہبانی“ کا مطالعہ کراتا تھا۔ اِس کے علاوہ مَیں ہر ہفتے عوامی تقریر بھی کرتا تھا۔ ایک بات تو پکی تھی: میرے پاس سر کھجانے تک کی فرصت نہیں تھی؛ اکیلاپن محسوس کرنا تو دُور کی بات تھی!
مجھے کورون میں مُنادی کر کے بہت اچھا لگ رہا تھا اور اِس کے بہت اچھے نتیجے بھی نکل رہے تھے۔ میرے کچھ طالبِعلموں نے بھی بپتسمہ لے لیا تھا۔ لیکن مجھے کچھ مسئلوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کبھی کبھار تو مجھے ایک علاقے تک پہنچنے میں آدھا دن لگ جاتا تھا اور مجھے یہ بھی پتہ نہیں ہوتا تھا کہ جب مَیں وہاں پہنچوں گا تو مَیں رات کہاں گزاروں گا۔ ہماری کلیسیا کے مُنادی کے علاقے میں بہت سے چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی تھے۔ مَیں اکثر موٹر والی کشتی کے ذریعے طوفانی سمندر کو پار کرتے ہوئے اِن جزیروں پر پہنچتا تھا۔ مجھے تو تیرنا تک نہیں آتا تھا! اِن سب مشکلوں کے باوجود یہوواہ نے مجھے محفوظ رکھا اور وہ میری مدد کرتا رہا۔ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ دراصل یہوواہ مجھے آنے والی بڑی مشکلوں کے لیے تیار کر رہا تھا جن کا سامنا مجھے اپنی اگلی ذمےداری کو نبھاتے وقت ہونا تھا۔
پاپوا نیو گنی
1978ء میں مجھے آسٹریلیا کے شمال میں واقع ملک پاپوا نیو گنی میں خدمت کرنے کے لیے کہا گیا۔ پاپوا نیو گنی ایک پہاڑی ملک ہے۔ مَیں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ تقریباً 30 لاکھ کی آبادی میں 800 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لیکن ایک اچھی بات یہ تھی کہ زیادہتر لوگ میلانیشیا پیسین بول سکتے تھے جسے عام طور پر ٹوک پیسین کہا جاتا ہے۔
مجھے کچھ وقت کے لیے انگریزی زبان والی ایک کلیسیا میں بھیجا گیا جو دارالحکومت پورٹ مورسبی میں تھی۔ لیکن پھر مَیں ٹوک پیسین زبان والی کلیسیا میں شفٹ ہو گیا جہاں مَیں نے یہ زبان سیکھنے کے لیے کلاسیں لیں۔ جو جملے مَیں کلاس میں سیکھتا تھا، مَیں اُنہیں مُنادی کرتے وقت اِستعمال کرتا تھا۔ اِس طرح مَیں یہ زبان جلدی سیکھ پایا اور پھر کچھ ہی وقت بعد مَیں ٹوک پیسین میں عوامی تقریریں کرنے لگا۔ مجھے پاپوا نیو گنی میں رہتے ہوئے ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ مجھے ٹوک پیسین زبان والی کلیسیاؤں میں حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کے لیے کہا گیا جس پر مجھے بہت حیرانی ہوئی۔ یہ کلیسیائیں کئی بڑے بڑے صوبوں میں تھیں۔
چونکہ کلیسیائیں ایک دوسرے سے کافی دُور تھیں اِس لیے مجھے کئی حلقے کے اِجتماع منعقد کرنے پڑتے تھے اور اِس وجہ سے بہت زیادہ سفر کرنا پڑتا تھا۔ شروع شروع میں تو مَیں نئے ملک، نئی زبان اور نئی ثقافت کی وجہ سے بہت اکیلاپن محسوس کرتا تھا۔ پہاڑی
علاقوں اور اُونچے نیچے راستوں کی وجہ سے وہاں کوئی سڑک وغیرہ نہیں تھی۔ اِس لیے مجھے ایک کلیسیا سے دوسری کلیسیا جانے کے لیے تقریباً ہر ہفتے جہاز میں سفر کرنا پڑتا تھا۔ کبھی کبھار تو ایک چھوٹے اور ٹوٹے پھوٹے جہاز میں صرف مَیں ہی ایک اکیلا مسافر ہوتا تھا۔ جہاز کے ذریعے سفر کر کے بھی مجھے اُتنی ہی گھبراہٹ ہوتی تھی جتنی مجھے کشتی پر سفر کر کے ہوتی تھی۔جن کلیسیاؤں کا مَیں دورہ کرتا تھا، وہاں کچھ ہی بہن بھائیوں کے پاس فون تھے۔ اِس لیے مَیں خطوں کے ذریعے کلیسیاؤں سے رابطہ کرتا تھا۔ اکثر مَیں اپنے خط پہنچنے سے پہلے ہی وہاں پہنچ جاتا تھا۔ اور پھر مجھے وہاں کے بہن بھائیوں کو ڈھونڈنا پڑتا تھا۔ لیکن ہر بار ایسا ہوا کہ جب مجھے اپنے بہن بھائی مل جاتے تھے تو وہ مجھ سے اِتنے پیار اور اپنائیت سے ملتے تھے کہ مَیں شکرادا کرتا تھا کہ مَیں نے اُنہیں ڈھونڈنے کے لیے اِتنی کوشش کی۔ مَیں نے کئی بار یہوواہ کے ساتھ کو محسوس کِیا اور مَیں اُس کے قریب سے قریبتر ہوتا گیا۔
جب مَیں پہلی بار جزیرہ بوگاینویل میں ہمارے اِجلاس میں گیا تو ایک میاں بیوی مسکراتے ہوئے میرے پاس آئے اور مجھ سے کہنے لگے: ”کیا آپ نے ہمیں پہچانا؟“ مجھے یاد آیا کہ جب مَیں پہلی بار پورٹ مورسبی پہنچا تھا تو مَیں نے اُس میاں بیوی کو گواہی دی تھی۔ مَیں نے اُنہیں بائبل کورس کرانا شروع کِیا تھا لیکن پھر بعد میں مَیں نے ایک مقامی بھائی کو اُنہیں بائبل کورس کرانے کے لیے کہا تھا۔ اب یہ میاں بیوی یہوواہ کے گواہ بن گئے تھے! اِس میاں بیوی کو یہوواہ کی خدمت کرتے ہوئے دیکھنا اُن بہت سی برکتوں میں سے ایک برکت تھی جو یہوواہ نے تین سال پاپوا نیو گنی میں خدمت کرتے ہوئے مجھے دیں۔
میرا چھوٹا گھرانہ جو یہوواہ کی خدمت کرنے میں مصروف رہا
1978ء میں کورون سے جانے سے پہلے میری ملاقات ایک بہن سے ہوئی جن کا نام اڈیل تھا۔ وہ بہت پیاری اور یہوواہ سے محبت کرنے والی بہن تھیں۔ وہ ایک پہلکار تھیں اور اکیلے اپنے دو بچوں کی پرورش کر رہی تھیں جن کے نام سموئیل اور شرلی تھے۔ اِس کے علاوہ وہ اپنی بوڑھی ماں کا بھی خیال رکھتی تھیں۔ مَیں مئی 1981ء میں اڈیل سے شادی کرنے کے لیے واپس فلپائن گیا۔ شادی کے بعد ہم نے پہلکار کے طور پر خدمت کی اور ہم مل کر اپنے گھر والوں کا خیال رکھنے لگے۔
حالانکہ اب مَیں بیوی بچوں والا تھا لیکن 1983ء میں مجھے پھر سے خصوصی پہلکار کے طور پر مقرر کِیا گیا اور پالاوان کے صوبے میں موجود لیناپاکان جزیرے میں خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ مَیں اپنے پورے گھرانے کے ساتھ اِس دُوردراز جگہ پر شفٹ ہو گیا جہاں کوئی یہوواہ کا گواہ نہیں تھا۔ اِس کے تقریباً ایک سال بعد اڈیل کی امی فوت ہو گئیں۔ لیکن ہم مُنادی کرنے میں مصروف رہے جس کی وجہ سے ہم اُن کی موت کا غم سہہ پائے۔ جلد ہی ہم لیناپاکان جزیرے پر بہت سے لوگوں کو بائبل کورس کرانے لگے جو اِجلاسوں میں آنے کا اِتنا شوق رکھتے تھے کہ ہمیں ایک چھوٹی عبادتگاہ کی ضرورت پڑ گئی۔ اِس لیے ہم نے خود ہی ایک عبادتگاہ بنائی۔ اِس جگہ پر پہنچنے کے صرف تین سال بعد ہی یادگاری تقریب پر 110 لوگ آئے جنہیں دیکھ کر ہماری خوشی کی اِنتہا نہیں تھی۔ اِن میں سے بہت سے لوگوں نے بعد میں بپتسمہ لے لیا۔
1986ء میں مجھے کولیون جزیرے پر خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا جہاں کوڑھ کے مریضوں کی ایک کالونی تھی۔ جب ہم یہاں آئے تو کچھ سال بعد اڈیل بھی خصوصی پہلکار بن گئیں۔ شروع شروع میں ہم اِس بات سے تھوڑا گھبرائے ہوئے تھے کہ ہمیں اُن لوگوں میں مُنادی کرنی ہوگی جو کوڑھ کی بیماری کی وجہ سے بہت بُری حالت میں ہیں۔ لیکن مقامی مبشروں نے ہمیں حوصلہ دیا کہ جن لوگوں کو یہ بیماری ہے، اُن کا علاج کِیا گیا ہے اِس لیے اِس کے لگنے کا خطرہ بہت کم ہے۔ کوڑھ کے کچھ مریض تو ہماری ایک بہن کے گھر عبادت کے لیے بھی آتے تھے۔ جلد ہی ہم بِنا کسی گھبراہٹ کے اِن لوگوں کو مُنادی کرنے لگے۔ ہمیں اِس بات سے بہت خوشی ملتی تھی کہ ہم ایسے لوگوں کو بائبل لُو 5:12، 13۔
سے اُمید دے رہے ہیں جنہیں لگتا ہے کہ اُنہیں خدا اور اِنسانوں دونوں نے ہی چھوڑ دیا ہے۔ جب اِس سنگین بیماری کے شکار لوگوں کو پتہ چلتا تھا کہ ایک دن وہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے تو اُن کے چہرے خوشی سے کِھل اُٹھتے تھے۔ اور اُن کی خوشی کو دیکھ کر ہمارا دل خوشی سے بھر جاتا تھا۔—لیکن ہمارے بچوں کو کولیون میں رہنا کیسا لگ رہا تھا؟ مَیں نے اور اڈیل نے کورون سے دو نوجوان بہنوں کو ہمارے ہاں آنے کی دعوت دی تاکہ ہمارے بچے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ وقت گزار سکیں۔ سموئیل، شرلی اور وہ دو بہنیں خود سے مُنادی کِیا کرتے تھے۔ وہ اُن بہت سے بچوں کو بائبل کورس کراتے تھے جن کے ماں باپ کو ہم بائبل کورس کراتے تھے۔ ایک وقت تو ایسا آیا کہ ہم 11 گھرانوں کو بائبل کورس کرانے لگے۔ ہم نے اِتنے زیادہ لوگوں کو بائبل کورس کرانا شروع کر دیا کہ ہم ایک نئی کلیسیا قائم کر پائے۔ یہ سبھی لوگ یہوواہ سے بہت پیار کرنے لگے تھے۔
شروع میں اُس علاقے میں میرے علاوہ اَور کوئی بزرگ نہیں تھا۔ تو برانچ نے مجھ سے کہا کہ مَیں ہر ہفتے اِجلاسوں میں پیشوائی کروں۔ پہلے کولیون میں جہاں آٹھ مبشر تھے اور پھر اِس میں موجود ماریلی نام کے گاؤں میں جہاں نو مبشر تھے۔ اِس گاؤں تک جانے کے لیے ہمیں کشتی میں تین گھنٹے لگتے تھے۔ اِجلاسوں کے بعد مَیں اور میرے گھر والے کئی گھنٹے پیدل پہاڑی علاقوں سے گزر کر ہالسی نام کے گاؤں میں بائبل کورس کرانے جاتے تھے۔
پھر ماریلی اور ہالسی میں اِتنے زیادہ لوگ یہوواہ کے گواہ بننے لگے کہ ہمیں اِن دونوں جگہوں پر ہی عبادتگاہ بنانی پڑی۔ جہاں تک لیناپاکان کی بات ہے تو وہاں بہن بھائیوں نے اور بائبل میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں نے تعمیر کے لیے بہت سا سامان دیا اور تعمیر کا زیادہتر کام خود کِیا۔ ماریلی کی عبادتگاہ میں تقریباً 200 لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی اور اِسے آسانی سے بڑا بھی کِیا جا سکتا تھا۔ اِس طرح وہاں اِجتماع بھی کیے جا سکتے تھے۔
دُکھ، اکیلاپن اور خوشی
جب ہمارے بچے بڑے ہو گئے تو 1993ء میں مَیں نے فلپائن میں حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت شروع کی۔ پھر 2000ء میں مَیں منسٹریل ٹریننگ سکول گیا جہاں مجھے اِس سکول میں تربیت دینے کے حوالے سے ٹریننگ دی گئی۔ مجھے لگتا تھا کہ مَیں یہ کام نہیں کر پاؤں گا۔ لیکن اڈیل نے میرا بہت حوصلہ بڑھایا۔ اُنہوں نے مجھے یاد دِلایا کہ یہوواہ مجھے اِس نئی ذمےداری کو نبھانے کے لیے طاقت دے سکتا ہے۔ (فِل 4:13) اڈیل یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتی تھیں کیونکہ اُنہوں نے خود بھی دیکھا تھا کہ صحت کے مسئلوں کے باوجود وہ کتنے اچھے سے یہوواہ کی خدمت کر پا رہی ہیں۔
2006ء میں ہمیں پتہ چلا کہ اڈیل کو رعشہ کی بیماری ہے۔ (یہ دماغ کے اُن خلیوں
کو متاثر کرتی ہے جو جسم میں حرکت کو قابو میں رکھتے ہیں۔) ہمیں یہ سُن کر بہت دھچکا لگا۔ مَیں اُس وقت بھی منسٹریل ٹریننگ سکول میں تربیت دے رہا تھا۔ لیکن جب مَیں نے اڈیل سے کہا کہ مَیں اپنی اِس ذمےداری کو چھوڑ دوں گا تاکہ مَیں اُن کا خیال رکھ سکوں تو اُنہوں نے کہا: ”پلیز کسی ایسے ڈاکٹر کو ڈھونڈیں جو میرا علاج کر سکے۔ مَیں جانتی ہوں کہ یہوواہ ہماری مدد کرے گا تاکہ ہم اُس کی خدمت جاری رکھ سکیں۔“ پھر اگلے چھ سالوں تک اڈیل بِنا کسی شکایت کے لگن سے یہوواہ کی خدمت کرتی رہیں۔ جب وہ بالکل چل پھر نہیں سکتی تھیں تو وہ ویلچیئر پر مُنادی کرنے لگیں۔ اور جب اُنہیں بولنے میں مشکل ہونے لگی تو وہ اِجلاسوں میں صرف ایک یا دو لفظوں میں جواب دینے لگیں۔ اڈیل 2013ء میں فوت ہو گئیں۔ لیکن بہت سے بہن بھائی اڈیل کو اُن کے مرتے دم تک میسج اور کارڈ بھیجتے رہے اور اُن کی عمدہ مثال اور ثابتقدمی کے لیے اُن کی تعریف کرتے رہے۔ مَیں نے اپنی پیاری اور وفادار بیوی کے ساتھ اپنی زندگی کے تقریباً 30 سال گزارے تھے۔ اِس لیے جب وہ موت کی نیند سو گئی تو مَیں ایک بار پھر سے غم کے بوجھ تلے دب گیا اور بہت اکیلاپن محسوس کرنے لگا۔اڈیل ہمیشہ چاہتی تھیں کہ مَیں یہوواہ کی خدمت جاری رکھوں اور مَیں نے ایسا ہی کِیا۔ مَیں نے خود کو یہوواہ کی خدمت میں مصروف رکھا اور اِس طرح میں اکیلےپن سے نمٹ پایا۔ 2014ء سے 2017ء تک مَیں اُن ملکوں میں ٹاگالوگ زبان والی کلیسیاؤں کا دورہ کرتا رہا جہاں ہمارے کام پر پابندی ہے۔ اِس کے بعد مَیں نے تائیوان، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا میں ٹاگالوگ زبان والی کلیسیاؤں کا دورہ کِیا۔ 2019ء میں مَیں نے بھارت اور تھائیلینڈ میں انگریزی زبان میں بادشاہت کے مُنادوں کے لیے سکول میں تربیت دی۔ مجھے اِن ساری ذمےداریوں کو نبھا کر بہت خوشی ملی۔ جب مَیں یہوواہ کی خدمت کرنے میں مگن رہتا ہوں اور اِسی پر اپنا پورا دھیان رکھتا ہوں تو مَیں بہت خوش رہتا ہوں۔
یہوواہ کی مدد کبھی بھی ہماری پہنچ سے باہر نہیں
جب بھی مجھے کوئی نئی ذمےداری دی گئی تو اِسے نبھاتے وقت مَیں جن جن بہن بھائیوں سے ملا، مجھے اُن سے محبت ہو گئی۔ مجھے اُن سے جُدا ہونا ہمیشہ مشکل لگتا تھا۔ لیکن ایسی صورتحال میں مَیں نے یہوواہ پر مکمل بھروسا کرنا سیکھا۔ مَیں نے ہمیشہ اُس کی مدد کو محسوس کِیا ہے جس کی وجہ سے مَیں نئے حالات اور تبدیلیوں کو دل سے قبول کر پاتا ہوں۔ اب مَیں فلپائن میں ایک خصوصی پہلکار ہوں۔ مَیں اپنی نئی کلیسیا کے بہن بھائیوں کے ساتھ بہت جلدی گھل مل گیا ہوں جو میرے لیے میرے گھر والوں کی طرح ہیں۔ وہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ مجھے سموئیل اور شرلی کو بھی دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے جو اپنی ماں کی عمدہ مثال پر عمل کر رہے ہیں۔—3-یوح 4۔
بےشک مَیں نے اپنی زندگی میں کئی مشکلوں کا سامنا کِیا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ مَیں نے اپنی بیوی کو ہولناک بیماری سے لڑتے ہوئے اور فوت ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ مجھے کئی بار نئے حالات کے مطابق بھی ڈھلنا پڑا ہے۔ لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ یہوواہ کبھی بھی ”ہم میں سے کسی سے دُور نہیں“ ہوتا۔ (اعما 17:27) ’یہوواہ کا ہاتھ چھوٹا نہیں ہے۔‘ وہ ہمیشہ اپنے بندوں کو سہارا اور طاقت دیتا ہے پھر چاہے وہ کتنے ہی دُوردراز علاقوں میں کیوں نہ رہتے ہوں۔ (یسع 59:1) میری چٹان یہوواہ میری پوری زندگی میرے ساتھ رہا ہے اور اِس کے لیے مَیں اُس کا بہت شکرگزار ہوں۔ سچ میں مَیں کبھی اکیلا نہیں تھا!
a ”دی واچٹاور،“ 1 ستمبر 1972ء، ص. 521-527 کو دیکھیں۔